اہل علم سے بدگمان ہونا

مصنف : عظیم الرحمن عثمانی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اپریل 2019

اصلاح ودعوت
اہل علم سے بدگمان ہونا
عظیم احمد عثمانی

 

جب شروع شروع میں ڈاکٹر اسرار احمد کو سننے کا موقع ملا تو دوران تقریر مجھے ان کے لہجے میں کرختگی اور غصہ کچھ خاص پسند نہیں آیا۔میں نے سوچا کہ دین کا عالم تو محبت سے دھیمے لہجے میں مخاطب کرنے والا ہوتا ہے مگر جب کچھ عرصہ گزرا اور میں ڈاکٹر صاحب کو سنتا رہا تو جیسے انہوں نے مجھ میں فکر و فہم کی ایک نئی دنیا پیدا کردی ۔آج حال یہ ہے کہ جتنا زیادہ میں نے ڈاکٹر اسرار احمد سے دین کو سیکھا ہے، اتنا کسی بھی اور معلم سے نہیں سیکھا۔ان کے لہجے کی گرج، ان کی ڈانٹ جیسے خواب غفلت سے بیدار کردینے والی ہو۔میرا وجود جیسے ان کے احسانات سے دبا ہوا ہے ۔اسی لئے ان کا نام سن کر بھی دل میں جیسے محبت سی جاگ جاتی ہے سوچتا ہوں کہ اگر میں ابتدا میں ان کے بارے میں بدگمان ہوکر انہیں سننا ترک کردیتا تو کتنا بدقسمت کہلاتا؟

جب شروع شروع میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سنا تو سب کی طرح میں بھی ان کی غیر معمولی یادداشت، ذہانت اور حاضر جوابی دیکھ کر حیران رہ گیا۔اسی مرعوبیت میں انہیں گھنٹوں سنتا رہتایہاں تک کہ مجھے ان کے لیکچرز قریب قریب حفظ ہوگئے لیکن اب مجھے لگنے لگا کہ ڈاکٹر ذاکر کی یادداشت تو واقعی غیر معمولی ہے مگر وہ کوئی خاص بڑے عالم نہیں ہیں بلکہ وہ تو سوالات کے جوابات بھی رٹے بیٹھے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اگر ان سے ایک ہی سوال پچاس مختلف لوگ مختلف نشستوں میں پوچھیں تو وہ ہر بار نہ صرف بالکل ایک جواب دیتے ہیں بلکہ الفاظ کا چناؤ، لہجہ، انداز وغیرہ تک بھی بالکل ایک سا 'کاپی پیسٹ' رکھتے ہیں۔مجھے ان کے کئی جوابات بھی رٹ گئے تھے ۔چانچہ جب بھی کوئی نئے پروگرام میں ان سے وہی سوال پوچھتا تو میں ان کے ساتھ ساتھ ہی جواب دینے لگتا۔مجھے پکا پتہ ہوتا تھا کہ یہ اب اس جملے کے بعد رک کر ہنسیں گے یا جوابی سوال پوچھیں گے وغیرہ ۔میرے دل میں ان کی قدر کم ہونے لگی ۔یہ سوچ کر کہ اصل اہل علم تو ڈاکٹر اسرار جیسے ہوتے ہیں جن سے ہر بار نیا سننے اور سیکھنے کو ملے ۔پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ میں انگلینڈ میں غیرمسلموں کو دعوت دین دینے کے کام سے کچھ سالوں کیلئے جڑ گیا۔دعوت دین کی فیلڈ میں اتر کر مجھے احساس ہوا کہ داعی کا کمال یہ نہیں ہوتا کہ اس کے پاس سوال کا ہر بار نئے زاویوں والا جواب ہو،اس کے برعکس اس کے پاس ایک ہی جواب ہونا چاہیئے مگر وہ جواب ایسا جچا تلا ہو کہ پوچھنے والے کو مطمئن کردے اور اگر مطمئن پوری طرح نہ بھی ہو تو ایک درجے میں اسے لاجواب کردے یا پوچھنے والے کو تحقیق پر مجبور کردے۔ جب یہ حقیقت سالوں کے تجربے کے بعد سمجھ آئی تو دوبارہ سے ڈاکٹر ذاکر نائک کی منزلت نے دل میں گھر کرلیا۔میں نے انگلینڈ میں نامعلوم کتنے ہی غیرمسلمو ں کو اسلئے مسلمان بنتے دیکھا ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر ذاکر کو کبھی سن یا پڑھ لیا تھا۔اسی طرح پوری دنیا میں دعوت دین کا جو مشن جاری ہے، اس کی علمی ترویج میں آج نمایاں ترین نام ڈاکٹر ذاکر اور ان کے استاد احمد دیدات کے ہی ہیں۔سوچتا ہوں کہ اگر میں بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک سے بیچ میں بدگمان ہوجاتا تو عوامی دعوت دین کو اس بھرپور انداز میں کیسے سمجھ پاتا؟
جب شروع شروع میں ایک مصری عالم دین 'شیخ عبدالھادی اروانی' کے پاس میں نے ہفتہ وار کلاسز لینا شروع کی تو کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب مجھے ان سے کسی نہ کسی دینی سمجھ پر شدید اختلاف نہ ہو۔جی چاہتا تھا کہ اٹھ کر چلا جاؤں مگر میں ان سے جڑا رہا۔کچھ عرصے بعد ان کی کئی باتیں مجھے سمجھ آنے لگیں، کچھ اپنی غلطیاں بھی منکشف ہوئیں لہٰذا ایسا کوئی دن نہ گزرا جب میں نے ان سے سیکھا نہ ہو۔سالہا سال میں ان سے منسلک رہا اور بجا طور پر میں انہیں اپنا پہلا باقاعدہ استاد تسلیم کرتا ہوں۔اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے تو یاد آتے ہیں۔سوچتا ہوں کہ اگر شروع میں ہی اختلاف کرکے بھاگ جاتا تو کیا کبھی وہ سب حاصل ہو پاتا جو ان کے ساتھ گزارے سالوں میں مجھے حاصل ہوا اور جو میرا سرمایا ہے؟
صاحبو برداشت اور مستقل مزاجی سے صاحبان علم کو سننا پڑھنا، آپ کو وہ کچھ سیکھا جاتا ہے جس سے آپ کی شخصیت نکھر جاتی ہے اور آپ پر علم کے وہ دریچے منکشف ہوتے ہیں، جو اس سے قبل انانیت، مسلک پرستی اور مذہبی منافرت کی دھول و دھند میں چھپے ہوئے تھے لہٰذا تنقید کے نام پر اہل علم سے بدگمان ہونے کے بجائے، مختلف مکاتب کے علماء سے خیر کشید لینے کی جستجو ہم سب میں ہونی چاہیئے ورنہ پیغمبروں کے سوا کون ہے جس کی سمجھ میں خامیاں نہ رہی ہوں؟ اور تحریر و بیان میں اس سے بڑی
غلطیاں سرزد نہ ہوئی ہوں؟
***
تا کہ معلوم ہو کہ کمی یا خلا کہاں ہے جسے آپ پُر کر سکتے ہیں۔ دوم، حکمتِ عملی یا سٹریٹجی طے کرنا۔ ایک تیسری اور آخری بات! کام بہرطور شروع کر دینا۔ اُس میں نئے نئے آئیڈیاز، اور آپ کے کام کو ریفائن بناتی سکِلز ساتھ ساتھ ڈویلپ ہوں گی جس سے آپ زیادہ تر سمارٹ دِکھنے لگیں گے۔ 
یاد رہے، علوم ہوں یا بزنس، یا کوئی اور شعبہ، ایک سماج میں زیادہ اچھا کنٹری بیوٹ کرنے والے لوگ سکول سطح کے گریڈز اور کالج سطح کی ڈگریوں والے نہیں، بلکہ تعلیمی کارکردگی کے اعتبار سے اکثر اوسط درجہ پر رہنے والے ہوا کرتے ہیں۔ گریڈز اور ڈگریز والے لوگ اکثر ''اچھی جاب'' کرتے ضرور نظر آئیں گے، کنٹری بیوٹ کرتے نہیں۔ المختصر، اپنے بچوں کو نفسیات یہ دی جائے کہ آپ کو ایک ہُنر مند، محنتی، جائز ذرائع سے کمانے والا کارآمد انسان بننا ہے۔ نہ کہ مسابقت بازی میں پڑا ایک نفسیاتی قسم کا انسان۔ اعتدال سے قریب رہنے والا ایک قابلِ اعتماد شخص جو رشتے ناطے نبھانے، اپنی ذمّہ داریاں پوری کرنے والا شخص ہو۔ یہی غیر معمولی ہونا ہے۔
***