قناعت اور برکت

مصنف : عبداللہ

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اپریل 2019

اصلاح و دعوت
قناعت اور برکت
عبداللہ

                                                                                             وہ چھلی والا اب سبزی کی ریڑھی لگاتا ہے۔ جس نے اپنے بچوں کو چھلیاں خرید کر نہ دے سکنے پر دوسرے بچوں کے لئے چھلی کی قیمت دس روپے لگائی تھی جب کہ ارد گرد بیس روپے کی چھلی فروخت ہو رہی تھی۔چند روز قبل میں یونہی چلتے چلتے اس چھلی والے کے سامنے رک گیا۔ وہ اپنے کام میں مصروف تھا ریڑھی پر دو تین لوگ سبزی خرید رہے تھے۔ میں دیکھتا رہا۔ایک خاتون نے اس سے آلو خریدے، ساتھ دھنیا مرچ بھی لی اور اسے پچاس کا نوٹ دیا اس نے آلو کے ساتھ از خود دھنیا مرچ مفت دے دی۔
وہ آلو اٹھا کر پہلے یوں دیکھتا جیسے اس کا ایکسرے کر رہا ہو۔ گاہک کی نظر سے سبزی کو دیکھنا دکاندار کے معاشی مفادات کے خلاف جاتا ہے لیکن وہ ہر ہر آلو کا بغور معائنہ کرنے کے بعد اسے شاپنگ بیگ میں ڈالتا جا رہا تھا۔جس آلو پر کوئی معمولی ساداغ بھی ہوتا اسے ایک طرف کر دیتا۔ جو آلو ٹھیک ہوتا صرف اسے ڈالتا۔ اسی طرح ایک اور شخص نے ٹماٹر لیئے اس نے ٹماٹر بھی ویسے ہی دیکھ بھال کر اچھے اچھے دیئے، اور معمولی نوعیت کی خرابی بھی اگر کسی ٹماٹر میں اسے محسوس ہوئی تو اسے ایک طرف کر دیا۔ حالانکہ اس خرابی کو گاہک بھی تلاش نہ کرپاتا۔ جب گاہک رخصت ہو چکے تو میں نے اس سے کہا کہ آپ ریڑھی مین روڈ پر کیوں نہیں لگاتے یہاں سائیڈ پر اور وہ بھی نسبتاً ایک ویران جگہ کا انتخاب آپ نے کیوں کیا ہے۔اس نے کہا کہ مین روڈ پر ریڑھی کھڑی نہیں کرنے دی جاتی اور مختلف ٹیکسوں کی صورت میں اچھے خاصے اخراجات ہو جاتے ہیں یہاں ویران جگہ ہے یہاں کوئی کرایہ نہیں دینا پڑتا اگر کسی دکان کے سامنے لگاؤں تو پھر کرایہ الگ سے دینا پڑے گا۔ یہاں کھڑا ہوں بس اللہ سے حلال رزق مانگتا ہوں تا کہ بچوں کے پیٹ کو حرام لقمے سے بچا سکوں۔میں نے اگلا سوال کیا۔ کہ آپ کا اس ریڑھی کے علاوہ بھی کوئی ذریعہ آمدن ہے۔اس نے کہا
صبح منڈی میں کام کرتا ہوں گاڑیوں سے سبزی وغیرہ اتارتا ہوں۔ صبح سویرے اس کام سے فارغ ہو کر اپنے لئے سبزی لیتا ہوں اور دن کو اس ریڑھی پر فروخت کر دیتا ہوں۔ پچھلے سیزن میں مونگ پھلی لگا رکھی تھی اس سے پہلے ایک مرتبہ چھلی لگائی تھی۔ رات کو ریڑھی گھر لے جا کرکھڑی کر دیتا ہوں۔میں نے پوچھا کہ اس قلیل آمدنی میں گزارا ہو جاتا ہے اس نے کہا کہ قسم لے لیں اگر میں دس بیس روپے بھی شام کو گھر لے کر جاتا ہوں تو مزید پیسے آنے تک وہ مجھ سے ختم نہیں ہوتے۔خواہ مزید پیسے کتنے ہی دن بعد کیوں نہ آئیں۔ اور کسی چیز کی قلت بھی نہیں اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر بھی ادا کروں کم ہے وہ مجھ ناچیز کو بھی رزق دے رہا ہے۔میں نے پوچھا کہ یہ خراب آلو اور ٹماٹروں کا آپ کیا کرتے ہیں؟اس نے کہا کہ یہ میں خود اور اپنے گھر والوں کو کھلاتا ہوں۔ کسی گاہک کونہیں دیتا۔اس سے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری بھی نہیں ہوتی اور میں بھی حرام کھانے سے بچ جاتا ہوں۔میں اس کے سراپے کا جائزہ لینے لگا تو میری نظر اس کے کپڑوں پر لگے پیوند پر جا کر رک گئی.
اس نے کپڑوں پر پیوند لگا رکھے تھے جنہیں خود سوئی دھاگہ لے کر سیا گیا تھا لگتا یوں تھا کہ کپڑے صاف مگر انتہائی بوسیدہ ہیں۔
اس نے میری نظروں کے تعاقب میں اس پیوند کو دیکھ لیا اور مسکرا کر کہنے لگا۔بھائی۔ سچ کہوں اگر ہم جیسے اس دنیا میں نہ ہوں تو رب کے حبیب ﷺکی اس سنت کو کون زندہ رکھے گا اس نے یہ بات پیوند لگی جگہ کو ہاتھ میں پکڑ کر کہی۔میرے لیئے ضبط مشکل ہو رہا تھا میں بوجھل قدموں سے گھر کی جانب چل پڑا۔ میرا دماغ الجھ کر رہ گیا۔ 
میرا دل گواہی دینے لگا کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺکی ہر ہر سنت کو زندہ رکھنے پر قادر ہے۔
مجھے وہ سارے فلسفے اس چھلی والے کے پیوند لگے کپڑوں سے بھی پرانے لگنے لگے
جن میں کہا جاتا ہے کہ اگر تم پیدا ہوتے وقت دولت مند نہیں تھے تو اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں اگر تم مرتے وقت دولتمند نہیں ہو تو اس میں ضرور تمہاری غلطی ہے۔
اس چھلی والے نے اپنے کردار سے اس ساری فلاسفی کو ایک لایعنی مفروضہ بنا ڈالا۔ میں سوچتا رہ گیا۔اس دور میں بھی پیوند لگے کپڑے پہننے والا مجھ سے بہت بلند اور عظیم تھا۔اس کے کپڑوں کے پیوند اس کے لئے نہیں بلکہ مجھے اپنے لیئے آزمائش لگنے لگے۔ان بوسیدہ کپڑوں سے اس چھلی والے کو نہیں بلکہ ہم سب کو آزمایا جا رہا ہے جن کے کپڑوں پر کوئی پیوند نہیں لگا ہوا۔یہ پیوند لگانے والے کے نہیں بلکہ ان معاشی فلاسفروں کے منہ پر طمانچہ ہے جو دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے ذمہ دار بھی ہیں اور کمزور طبقات کا دھڑلے سے استحصال بھی کرتے ہیں۔
اس ریڑھی والے کی طرح اگر کامل یقین سے کوئی غربت کا عذاب خاموشی سے سہہ رہا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول نبی کریم ﷺ کے معلمانہ اور کریمانہ اخلاق کے وسیلے سے اتنی قوت برداشت دی ہوئی ہے۔ ورنہ وہ کبھی کا اخلاقی قدروں پر سمجھوتہ کر چکا ہوتا۔
اختتام پر ایک مغربی مفکر کا قول پیش کرتے ہیں ۔’’اگر تم کسی کے پاس دو کوٹ دیکھو تو جان لو کہ دوسرا کوٹ اس شخص کا ہے جس کے پاس کوئی کوٹ نہیں۔‘‘
*
**