پھر میں خُدا ہوتا

مصنف : محمد رضوان خالد چوھدری

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : فروری 2024

فكر ونظر

پھر میں خُدا ہوتا --رضوان خالد

یہ خُدا کے موجُود ہونے کا یقین ہی ہے کہ میں خُدا نہیں ہُوں. اگر مجھے خُدا کے نہ ہونے کا یقین ہوتا تو میں خُود خُدا بننے کی کوشش کرتا اور اپنے اردگرد جہاں تک میرے اختیار اور زور کی پُہنچ ہُوتی وہاں کا ہر ذی روح میری خواہش پر قُربان ہوتا۔ ایک لمحے کو میں ایتھیسٹ آرگُیومینٹ مان کر یہ یقین کر لیتا ہُوں کہ خُدا کا کوئی وجُود نہیں۔کائنات واقعی کسی پرفیکٹ حادثے یا بِگ بینگ کے باعث وجُود میں آئی تھی. پھر ہر طرف کھربوں ٹریلین سیاروں کی صُورت میں بکھر گئی۔ جِن میں سے بیشتر میں اُنکی مخصُوص لوکیشن اور خصُوصیات کے باعث زندگی کی پرورش نہیں کر سکتے تھے۔ لیکِن کائنات کے اس ذرّے یعنی زمین پر اسکی اتّفاقی لوکیشن کے باعث زندگی کو سہارا دینے والے قوانین اور لوازمات موجُود تھے۔پھر ایک دن یہاں کسی اتفاقی خُودکار کیمیکل ری ایکشن کے باعث ایک خُلیے والے جاندار پیدا ہُوئے.اور اُن میں کھربوں سال کی میوٹیشن کے نتیجے میں دُنیا کے نباتات، چرند، پرند، حیوان اور میں بھی پیدا ہو گیا۔

فرض کیجیے یہ سب آرگُیومینٹ میں نے بحث کیے بنا مان لیا۔ یہ تو پہلے مان کر بات آگے بڑھائی تھی کہ اللہ کہیے یا بھگوان یا گاڈ یا خُدا ایسی کسی شخصیت کا کوئی وجُود نہیں ہے۔ جب اللہ یا بھگوان یا گاڈ یا خُدا یعنی کائنات بنانے والا موجود ہی نہیں پھر تو ظاہر ہے میری ایک بار موت ہُوئی تو یہی میری کہانی کا اختتام ہوگا۔ یعنی جنّت دوزخ، نرک، سُؤرگ ، ہیون ہیل، احتساب، جزا سزا یہ سارے مفاہیم تو بے معنی ہو گئے۔ یعنی تھیوری آف پروبیبیلیٹی کے مطابِق ایک بار مرنے کے بعد میری کسی اور شکل میں یا انسانی شخصیت کے ساتھ دوبارہ پیدائش کا امکان اتنا بھی نہیں جِس امکان کے تحت کھربوں ٹریلین سیاروں اور ستاروں میں سے صرف زمین پر اُس ماحول کی موجودگی کا ہو سکتا تھا جو زندگی کے لیے سازگار ہو۔یعنی سادہ سی بات ہے کہ اللہ یا بھگوان یا گاڈ یا خُدا نہیں تو پھر میری یہ زندگی پہلی اور آخری تو ہے ہی آنے والی موت میری زندگی کے مُمکنہ تسلسُل کے ہر امکان کو معدُوم کر دے گی۔ ابھی تو میں نے فرض ہی کیا ہے کہ میری پیدائش حادثاتی اور اتفاقی ہے اور کسی خُدا کا وجُود نہیں لیکِن ایک سرد سا احساس میرے رگ و پے میں دوڑ سا گیا ہے۔ شاید یہ اکیلے پن کا خوف ہے یا پھر شاید موت کے ساتھ ہی اپنے حتمی خاتمے کا خوف ہے۔ شاید موت کی صُورت میں حتمی خاتمے کی بجائے موت کے بعد بھی اپنے تسلسُل کا خیال میری سب سے بڑی خواہش ہے اور اللہ کی غیر موجُودگی کے خیال میرے تسلسُل کی خواہش پر ضرب لگا کر مجھ میں خوف بھر دیا ہے۔میں اس خوف پر قابُو پا لُوں تو اب مجھے کسی کو نُقصان پُہنچانے, قتل و غارت اور درندہ بننے سے کونسی طاقت روکے گی۔ سٹیٹ اور قانُون سے چھُپ کر میں یہ سب آسانی سے کر سکتا ہُوں۔جب مجھے اپنے کیے کا مرنے کے بعد کسی کو کوئی حساب ہی نہیں دینا پھر دُنیا کی کونسی طاقت شب و روز پہرہ دے کر مجھے مجھ جیسوں کے نُقصان اور اُنکے نُقصان سے مجھے ملنے والے فائدے کو لینے سے روکے گی۔جب اپنے جیسوں سے اچھائی اور انکے لیے مددگار ہونے پر کوئی دیرپا جزا ہی نہیں,جب خُدا ہی نہیں.جب موت ہی میرا اختتام اور آخری انجام ہے تو کون مجھ سے اچھائی کروائے گا۔ خُدا کے نہ ہونے کے خیال کے حقیقت ہونے کا یقین آتے ہی میں جو کروں گا آپ اسکا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جب خُدا ہی موجُود نہیں اور میرے پاس موت تک کا وقت ہے تو میری خواہش ہی میرا خُدا ہو گی۔ کیا آپ میری حقیقی جنسی جسمانی اور نفسیاتی خواہشات کا تصور کر سکتے ہیں جنہیں میں صرف خُدا کے ہونے کے خیال سے اُسکی بتائی ہُوئی حدود میں رکھتا ہُوں۔اب چونکہ میں نے یقین کر لیا ہے کہ نہ خُدا ہے نہ روزِ جزا و سزا تو مجھے یہ بتائیے کس کے گھر کی دیواریں میری خُودغرض خواہشات کو روکنے کی طاقت لائیں گی۔ میری اور آپکی خواہشات ایک ہی جیسی ہیں۔ آپ بھی میری طرح اللہ، خُدا یا بھگوان اُسے جو بھی کہہ لیجیے اُسی کے احتساب کے خیال سے اپنی خواہشات کو ایک مخصُوص دائرے میں رکھتے ہیں۔ آپ میں سے اکثر کا آئی کیُو اسی سے سو کے درمیان ہے۔ کافی ایک سو بیس آئی کیو لیول کے ہیں۔ کُچھ ایک سو چالیس آئی کیو کے ہیں۔ چند ایک سو ساٹھ لیول کی ذہانت بھی رکھتے ہیں اور بہت کم سہی چند ایک سو اسی لیول آئی کیو کے حامل ہیں۔ویسے ایک سو ساٹھ بھی بہت ہے۔ فرض کیجیے میرا آئی کیو اتفاق سے ایک سو ساٹھ ہے -یعنی میں نناوے ایشاریہ ننانوے فیصد لوگوں سے زیادہ ذہین ہُوں۔ پھر جیسے ہی مجھے خُدا کی عدم موجُودگی پر یقین آئے گا میری یہ ذہانت عیّاری میں تبدیل ہو کر میرے اردگرد موجُود افراد کو اپنی ہر خواہش کا چارہ بنا لے گی کیونکہ خُدا اور احتساب کا تصور تو ناپید ٹہرے.پھر مجھ سے کم ذہین افراد کو میری خواہش کا لُقمہ بننے سے کون بچائے گا اور کیوں بچائے گا کوئی ریوارڈ تو ملنے والا نہیں خُدا اور قیامت جو نہیں ہے۔ مجھ جیسی ذہانت رکھنے والے دیگر خُود اپنی اپنی جگہ خُدا ہونگے. اُنکی ذہانت اُنہیں میری دُنیا میں مداخلت سے روکے گی. کیونکہ ایک جیسے ذہن بقائے باہمی پر جلد قائل ہوتے ہیں۔ موت تو بہرحال مجھے آئے گی, لیکِن تب تک ہزاروں ایسے لوگ میری خواہشات کی نظر ہو چکے ہونگے جو آج کم ذہین ہونے کے باوجُود صرف اس وجہ سے پُرامن زندگی جی رہے ہیں کہ میرا اللہ، قیامت اور روزِ حساب پر یقین ہے۔  اللہ کا شُکر کیجیے کہ مُجھ جیسے پہاڑوں جیسی خواہشات والے لوگ خُدا پر یقین رکھتے ہیں۔ بخُدا اگر خُدا کی موجُودگی کا یقین نہ ہوتا تو میں یقیناََ خُدا ہوتا اور بلاشُبہ بہت بُرا خُدا ہوتا۔