کشش کا قانون

مصنف : ماريہ صديقی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : فروری 2024

اصلاح و دعوت

کشش کا قانون

ماريہ صديقی

لا آ ف اٹریکشن ھے کیا؟ سادہ الفاظ میں ھم اسے یوں کہ سکتے ہیں کہ انسان جس چیز کے بارے میں سوچے گا وھی چیز اسے ملے گی لا آ ف اٹریکشن یا قانون کشش اس کائنات میں ھمیشہ سے موجود ہے بیسوی صدی میں آ ھستہ آ ھستہ لوگوں کو اس قانون سے واقفیت ملی۔لیکن جب 2006 میںThe Secret کے نام سے ایک ڈاکومنٹری فلم ریلیز ہوئی تو پوری دنیا کے سامنے یہ راز فاش ہوگیا کہ انسان جو کچھ حاصل کرتا ہے ان سب کی وجہ لا آ ف اٹریکشن ھے۔اس لا کے تحت آ پ جس چیز پر بھی توجہ کریں گے وھی چیز آ پ کی زندگی میں آ ئے گی۔دنیا میں جتنے غیر معمولی لوگ ھیں جیسے سقراط ،ابن سینا ،آئن سٹائن ،شیکسپیر وغیرہ یہ سب اسی قانون کے استعمال سے اپنی زندگیوں کو غیر معمولی بنا گئے ہیں۔ان کی طرح ھم بھی اگر بہتر کرئیر ،دولت،صحت چاھتے ہیں تو اس قانون کو استعمال کرنا ضروری ہے۔

بنیادی طور پر آ پ اپنی سوچ کی طاقت کو استعمال کرتے ہیں۔سوچ کے مطابق چیزوں کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کے بارے میں مصنفہ رونڈا بائرن اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ہر چیز کی اپنی ایک فریکوئینسی ھوتی ھے۔مثلا مکان،کار،پتھر زیور الغرض دنیا کی ھر چیز اپنی ایک فریکوئینسی رکھتی ہے۔اسی طرح ھمارے دماغ میں آ نے والے خیالات کی بھی فریکوئینسی ھوتی ھے۔ھمارے دماغ سے جس فریکوئینسی کی لہریں نکلتی ہیں اس سے ملتی جلتی لہریں دنیا میں جس چیز کی ھوتی ھیں وھی چیز ھماری طرف آ نا شروع ہو جاتی ھے۔یہ بات بھی سمجھنے کی ھےکہ دنیا کی زیادہ تر لوگ یہ سوچنے کی بجائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں،یہ زیادہ سوچتے ہیں کہ انہیں کیا نہیں چاھیے۔لہذا اگر آپ وھی سوچتے رھتے ھیں جو نہیں چاھتے تو زندگی میں وھی ملے گا جو آپ نہیں چاھتے۔مثلاً ایک آ دمی کو صبح جلد آ فس جانا ہے وہ رات کو یہ سوچنے کی بجائے کہ مجھے جلد اٹھنا ھے یہ سوچنے لگتا ہے کہ میں لیٹ نہ ھو جاؤ ں۔اسی فکر میں دیر سے سوتا ھے اور پھر وقت پر آ نکھ نہ کھلنے کی وجہ سے حقیقتاً آ فس سے لیٹ ھو جاتا ھے۔یہ معاملہ ھماری زندگی کی ھر چیز کے ساتھ ھے جیسے لوگ آ مدن میں اضافے کی بجائے مہنگا ئی سے پریشان رھتے ھیں۔شادی کے بارے میں سوچتے ہوئے اچھی شریک حیات کی خوبیوں پر فوکس کرنے کے بجائے یہ سوچتے ہیں کہ شریک حیات میں یہ خرابیاں نہ ھوں۔طلبہ اچھے نمبر لینے کا نہیں سوچتے ۔مگر فیل ہونے سے ڈرتے ہیں۔ان سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ حقیقتاً اپنے اپنے خوف کے اسیر ہو جاتے ہیں اور ناکامی کا شکار رھتے ھیں۔لہذا اگر آپ اس لا سے فایدہ اٹھا نا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے مثبت سوچنا شروع کریں اور یہ یقین رکھیں کہ آ پ جو چاھتے ھیں وہ حاصل کر سکتے ہیں اس کے بعد آ پ جو چاھتے ھیں اس کے بارے میں اچھا محسوس کر یں۔مثلا اگر آپ اپنا مکان بنا نا چاہتے ہیں اس کو حاصل کرنے کے اھداف مقرر کرتے ہوئے یہ سوچ قوی رکھیں کہ میں یہ مکان بنا لوں گا۔اس سوچ کے ساتھ ہی مثبت انرجی پیدا ھوگی اور یہ احساس حاوی ھونے لگی گا کہ مجھے مکان بس تقریباً مل چکا ھے ۔یہ احساس جتنا قوی ھوگا لا آ ف اٹریکشن اتنا زیادہ کام کرے گا۔اسلامی نقطہ نظر سے بھی اگر دیکھیں تو حدیث شریف میں ہے کہ میں اپنے بندے سے اس کی سوچ یعنی ظن کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔اسی طرح اللہ کی رحمت سے مایوسی کافر کا وصف قرار دیا گیا ہے۔بحیثیت مسلمان ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کے مشکل کشا صرف ذات باری ھے اورھم ھر غم و پریشانی میں اپنے رب کے فقط ایک کن کی مر ہون منت ھیں ۔لیکن اس ایمان کے ساتھ ساتھ تدبیر اور حکمت کے اوصاف بھی ایک مومن کی معراج ہے کہ اللہ بھی اسی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ان سب باتوں کا مآخذ یہ ھے کہ ھمیں ھمیشہ پرامیداور مثبت سوچ رکھتے ہوئے اپنے معاملات کو چلانا چاھیے اور نہ صرف اپنے مسائل و مشکلات سے نبرد آزما ھونا ہے بلکہ دوسرے کے لیے بھی آ سانیاں پیدا کرنی ھیں۔اللہ ھمارے اندر یقین محکم اور عمل پیہم کی قوت پیدا کرے۔