ہم نماز كيوں نہيں پڑھتے

مصنف : عدنان نیازی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جنوری 2024

اصلاح و دعوت

ہم نماز كيوں نہيں پڑھتے

عدنان نيازی

پاکستان میں بے نمازی کیوں زیادہ ہیں؟ بے نمازیوں کو نماز کی طرف راغب کیسے کر سکتے ہیں؟

برصغیر کے علاوہ آپ کہیں بھی چلے جائیں ایک واضح فرق یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ وہاں مسلمان تعداد میں کم ہونے کے باوجود بھی مساجد بھری ہوئی ملتی ہیں۔ جبکہ یہاں پاکستان میں حال یہ ہے کہ جمعہ کی نماز پر کسی بھی مسجد میں جگہ نہیں ملتی جب کہ کسی بھی دوسری نماز پر ایک بھی صف پوری نہیں ہوتی۔ اس کی وجوہات اور ان کے حل پر لکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم زیادہ لوگوں کو نماز کی طرف راغب کر سکیں۔

اس کی وجوہات جو مجھے سمجھ آتی ہیں ان میں یہ تین بہت اہم ہیں۔

1۔ نماز کی قدرو منزلت واہمیت۔۔۔ نہ پڑھنے کی وعید

کسی بھی کام کے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بندے کو اس کی قدرو منزلت واہمیت کا ادراک ہو۔ وہ کام دین سے متعلق ہو تو اس کے کرنے کی صورت میں اجروثواب اور نہ کرنے کا گناہ وعذاب کے بارے معلوم ہو۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اب بہت کم لوگ دین سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں کے دین سیکھنے کا واحد ذریعہ یا تو عصری کتب میں موجود چند ایک اسلامی مضامین ہیں یا جمعہ کے خطبات۔ عصری تعلیم میں چند ایک واجبی سی باتوں کے علاوہ کچھ بھی ایسا نہیں ہے جو دین کی صحیح تعلیم دے سکے۔ جمعہ کے خطبات میں مولویوں کو مسلکی لڑائیوں سے ہی فرصت ہی نہیں ہے۔ قرآن مجید ہی کوئی نہیں کھولتا تو احادیث کی کتب کا مطالعہ کون کرے گا۔ کسی کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ قرآن پاک اور سنت میں سب سے زیادہ تاکید اور حکم نماز کے بارے ہی ہے اور اس کو کسی بھی حالت میں نہیں چھوڑ سکتے۔ یہاں تک کہ بیمار ، معذور، لاغر حتیٰ کہ موت کے منہ میں پہنچے ہوئے کو بھی نماز معاف نہیں ہے۔ سب سے پہلے اسی کے بارے ہی سوال ہونا ہے۔ خدانخواستہ ہم پہلے ہی سوال میں فیل ہو گئے تو پھر کیسے کامیابی ملے گی؟

2۔ فرض نماز کتنی ہے؟فرض نماز پر کتنا وقت لگتا ہے؟ کوئی سنت نماز نہ پڑھے تو گناہ ہو گا؟

دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو فرض، سنت ، نفل کا فرق معلوم نہیں ہے اور اکثریت کے نزدیک عشاء کی سترہ اور ظہر کی بارہ رکعت پڑھنی لازم ہیں۔ فرانس میں عربوں کا دیکھتا تھا کہ سخت سردی میں بھی جماعت کے لیے لازمی مسجد آتے تھے لیکن فرض پڑھتے ہی نکل کر کام میں لگ جاتے تھے۔ تب بڑا غصہ آتا تھا کہ سنت پڑھتے ہی نہیں۔ شروع میں مساجد كے آئمہ کرام سے اس بابت پوچھا تو جواب ملا کہ سنت چھوڑنے پر گناہ ہو گا۔ جب خود مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ سنت نماز دراصل نوافل ہیں ، کچھ وہ (سنت مؤکدہ )جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لازمی پڑھتے تھے اور کچھ وہ جو کبھی پڑھ لیتے تھے کبھی نہیں۔ ان سب کی تاکید تو کی ہے اور بہت زیادہ ثواب بھی بتایا ہے لیکن حکم نہیں ہے۔ یعنی پڑھیں تو بہت ہی زیادہ اجروثواب ہے لیکن کوئی نہ پڑھے تو گناہ نہیں ہے۔ بعد میں علماء کرام سے پوچھا تو دیوبندی اور اہل حدیث علماء کرام نے اس کی تصدیق کی کہ کوئی سنت مؤکدہ بغیر کسی وجہ کے بھی نہ پڑھے تو گناہ نہیں ہوگا۔ اور نوافل تو پتہ نہیں کس نے شامل کر دیے ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اکثر دیکھتا ہوں کہ یہ فرق معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اکثر لوگ جلدی جلدی پڑھنے لگے ہوتے ہیں حالانکہ وقت کی کمی ہے تو صرف فرض پڑھ لیں لیکن سکون سے پڑھیں۔ گھر میں اکثر خواتین کو خشوع وخضوع کی بجائے بس جلدی جلدی ختم کرتے دیکھتا ہوں۔بے نمازیوں کو اگر یہ بتا دیا جائے کہ صرف پانچوں فرض نمازوں کی سترہ فرض کی رکعتیں ہیں جن کی باز پرس ہونی ہے اور وہ لازمی پڑھنی ہیں اور باقی پڑھو یا نہ پڑھو تو ان کی اکثریت جماعت کے ساتھ نماز کا اہتمام کر لے گی۔ سنت ونوافل کی اہمیت بہت ہے اور اس کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ جو کمی کوتاہی ہماری نماز میں رہ گئی ہو اس کے لیے ہمارے سنت ونوافل کام آجائیں لیکن کبھی وقت کی کمی ہو یا جلدی ہو تو صرف فرض پڑھ لیں۔ اور بے نمازی لوگ پہلے صرف فرضوں کا اہتمام کر لیں پھر جب نماز کی عادت پختہ ہو جائے تو سنت ونوافل کے اہتمام کی کوشش کر لیں۔ یاد رہے کہ فرض نماز کا جہاں بھی قرآن وسنت میں تذکرہ ملے گا تو واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ پڑھنے پر کیا اجروثواب ہے اور نہ پڑھنے پر کیا عذاب و وعید۔ لیکن سنت ونوافل کی بات جہاں بھی کی گئی ہے صرف اور صرف اجروثواب کا ذکرہے، کہیں بھی اشارے کنایوں میں بھی گناہ یا وعید کا تذکرہ بھی نہیں ہے۔

3۔شفاعت کا غلط تصور

برصغیر کے لوگوں کا اپنا من پسند اسلام ہے۔اکثریت کی سوچ یہ ہے کہ ہم کچھ بھی کرتے رہیں، چاہے دین کے کسی بھی حکم پر عمل نہ کریں پھر بھی ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہو جائے گی اور ہمیں تو جنت سب سے پہلے ملنی ہے۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ پیروں فقیروں سے امیدیں کہ وہ بخشش کروا دیں گے۔ اس کے لیے یہ بھی نہیں سوچتے کہ جس رب کی وہ دن میں پانچ بار نافرمانی کررہے ہیں اور حکم عدولی کر رہے ہیں اس رب کے سامنے کوئی ان کی شفاعت کیونکر کر سکے گا؟

شفاعت اس کی تو ہو سکتی ہے جس سےجانے انجانے یا بشری کمزوریوں کی وجہ سےگناہ ہو گئے ہوں لیکن ایک عادی نافرمان اور جانتے بوجھنے حکم عدولی کرنے والا خود کو اس کا مستحق کیسے سمجھ سکتا ہے۔

اگر خدانخواستہ آپ نماز کی پابندی نہیں کرتے تو آج سے ہی اس کا اہتمام کیجیے۔ ابھی صرف فرض اور وترنماز پڑھنا شروع کردیں۔ پھر سنتوں کا اہتمام کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ ضرور دے گا انشاءاللہ۔