اسلام اور یہودیت میں نکاتِ تضاد

مصنف : عبدالخالق

سلسلہ : مذاہب عالم

شمارہ : اكتوبر2023

مذاہب عالم

اسلام اور یہودیت میں نکاتِ تضاد

ڈاکٹر عبدالخالق علیگ ،،ریڈر شعبہٴ دینیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

مختصر یہودی تاریخ

یہودی مذہب وہ آسمانی مذہب ہے جس کا انحصار زیادہ تر تورات، تلمود اور علماء، مفتیان اور قضاةِ یہود کے فتاویٰ یا فیصلوں پر ہے۔ حالاں کہ یہ آسمانی مذہب ہے، لیکن زمانے کے اتار چڑھاؤ اور یہودیوں کی دنیا پرستی کے سبب اتنے زیادہ تاریخی مدوجزر، عروج وزوال سے گزرا ہے کہ تحریفات کا اتنا ضخیم ڈھیر لگ گیا کہ جس کی وجہ سے اصل دین کو پہچاننا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ بہرحال موجودہ زمانے میں یہودی مذہب کی جو بھی شکل موجود ہے اس پر یہودی تاریخ اور یہودیوں کے دوسری اقوام سے تعلقات کا گہرا مطالعہ کیے بغیر مذہب یہود کو سمجھنا تقریباً محال ہے۔ یہود اہل کتاب شمار کیے جاتے ہیں اور اپنے مذہب کی ابتداء حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام سے کرتے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام کی شخصیت اتنی زیادہ عظیم اور باوقار ہے کہ دنیا کے تین بڑے مذہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت ان کو ابوالانبیاء مانتے ہیں۔ اور علماء کے ایک عام تخمینے کے مطابق پوری دنیا میں من جانب اللہ مبعوث ہونے والے انبیاء میں سے آدھے سے بھی زیادہ انبیاء و رسل حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام کی نسل میں سے ہی اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمائے ہیں مثلاً ابراہیم، اسمٰعیل، اسحاق، یعقوب، یوسف، موسیٰ، ہارون، داؤد، سلیمان، ایوب، یونس، شمویل، الیاس، الیسع، زکریا، یحییٰ علیہم السلام اور خاتم الانبیاء امام الانبیاء، سید ولد آدم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہی نسل سے ہیں۔ اور ابراہیم علیہ السلام بذات خود دسویں پشت میں حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت سام سے نسلاً منسوب ہیں۔

حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے حضرت سام (Sem) کی وجہ سے ہی یہود کو سامی (Semetic) کہا جاتا ہے اور اسی لفظ سے سامیت (Semetism/Semetic) الفاظ تاریخ میں رائج ہو گئے۔ یہود اپنے نسلی تفاخر اور اپنی قوم میں انبیاء اور سلاطین کی کثیر تعداد سے اتنے غرور و تکبر میں مبتلا ہو گئے کہ جہاں ایک وقت میں دنیا کی افضل ترین قوم شمار ہوتے تھے، غرور و تکبر کی وجہ سے خدا کی نظر سے اتنے زیادہ گرے کہ ان پر قرآن کریم کی زبان میں ”مغضوب“ لفظ کا اطلاق ہونے لگا حتی کہ ان میں رائج بدعات و لادینیت، خدا فراموشی بلکہ الٰہی مخالفت قتل انبیاء کے ارتکاب وغیرہ اعمال قبیحہ ذلیلہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کلام پاک میں سورہ اعراف میں یہ آیت نازل فرما دی:

واذ تأذن ربک لیبعثن علیہم الی یوم القیامة من یسومہم سوء العذاب ان ربک لسریع العقاب وانہ لغفورٌ رحیمٌ

ویسے تو دنیا کا ہر ایک مذہب اس کے ماننے والوں کی تاریخ سے بہت کچھ متاثر ہوا ہی ہے لیکن (جیسے پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ) یہودی مذہب کا تو ان کی تاریخ کے بغیر سمجھنا ہی مشکل ہے۔ یہ حقیقت قارئین کرام کو تب واضح ہو جائے گی یا ہو جاتی ہے جب ان کے سامنے یہودی تاریخ اور یہودی مذہب دونوں کا مفصل اور جامع بیان آتا ہے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر اولاً یہود کی قومی تاریخ مختصراً لیکن جامع انداز پر بیان کی جا رہی ہے۔

یہود کا اصل نام بنی اسرائیل ہے۔ کتب مقدسہ اور دیگر مذہبی کتب کی بنیاد پر یہودی تاریخ کے مندرجہ ذیل اہم ادوار ہیں:

۱- دور اجداد / دور اکابرین:

اس دور میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر حضرت یوسف علیہ السلام تک کے احوال شمار ہوتے ہیں۔

۲- بنی اسرائیل کا مصر سے خروج اور فلسطین میں بنی اسرائیل کا داخلہ:

اس دور میں حضرت موسیٰ علیہ السلام، ہارون علیہ السلام، یوشع علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا مصر میں ابتلاء اور موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے من جانب اللہ ان کا مصر سے خروج، غرقِ فرعون اور صحراء سینا کے راستے فلسطین میں یہود کا داخلہ اور تورات کا نزول۔

۳- دورِ قُضاة:

یہ تقریباً تین سو سال کا زمانہ ہے جس میں بنی اسرائیل کا انتظام و انصرام ان کے قضاة (قاضیوں) کے ذریعہ ہوا۔ جب کوئی قاضی؛ شریعت موسوی کا پابند ہوتا تو خدا کی نصرت اس کے ساتھ ہوتی اور پڑوس کی قومیں مغلوب رہتیں اور جب بھی کوئی قاضی خدا کا نافرمان یا شریعت موسوی کا فراموش کرنے والا ہوا تو وہ ذلیل و خوار ہوا اور آس پاس کی قومیں اس پر غالب آتی گئیں۔

۴- دورِ سلاطین:

اس دور میں حضرت طالوت، حضرت داؤد، حضرت سلیمان علیہم السلام شامل ہیں جو تقریباً ۱۲۰ سال کا زمانہ ہے۔

۵- دورِ منقسم سلطنت بنی اسرائیل:

اس دور میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد سلطنت بنی اسرائیل دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔

(الف) اسرائیل: جو دس قبائل پر مشتمل تھی۔

(ب) یہودا: جو بنی اسرائیل کے دو قبائل بنو یہودا اور بنیامین پر مشتمل تھی۔

پہلی حکومت یعنی اسرائیل ۷۲۱ ق،م اور دوسری حکومت یہودا، ۵۸۶ق،م میں اپنا وجود کھوچکی تھی۔

۶- دورِ مہاجرت و جلاوطنی اوّل:

یہ وہ دور ہے جب بنی اسرائیل کی شمالی حکومت یعنی اسرائیل کے دس قبائل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جلاوطن کردیے گئے اور آج تک ان کو کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس وادی میں کھو گئے یا زمین کے کس حصے نے ان کو نگل لیا۔ یہی دس قبائل بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑیں (Lost Sheep of Bani Israel) کہلاتے ہیں۔ اسی دور کا دوسرا حصہ وہ ہے جو ۶۰۶ق،م سے ۵۳۶ ق،م تک پھیلا ہوا ہے یعنی ستر سال۔ اس دور میں بنی اسرائیل کی یہودا نامی حکومت کا خاتمہ ہوا اور ہزاروں یہود کو بابل میں جلاوطن کر دیا گیا۔

۷- بنی اسرائیل یا یہود کی بابل سے واپسی /

بنی اسرائیل اہل فارس کے زیر اقتدار:

یہ وہ زمانہ ہے جو بابل کی حکومت کا خاتمہ ہو کر اہل فارس کا اقتدار فارس سے لے کر فلسطین تک ہو گیا اور ان کی رواداری کی وجہ سے بنی اسرائیل کو بیت المقدس واپسی نصیب ہوئی اور ہیکل سلیمانی کو بھی از سر نو شاہان فارس نے بنانے کی اجازت دی اور مدد بھی کی۔

۸- بنی اسرائیل - یونانیوں کے زیر اقتدار:

یہ زمانہ تقریباً ۳۳۱ق،م سے ۱۶۷ق،م تک ہے۔

۹- مختصر دورِ آزادی:

بنی اسرائیل ۱۶۷ ق،م سے لے کر ۶۳ ق،م تک آزاد رہے۔ اس کے بعد یہود کو کبھی بھی ۱۹۴۸ تک حکومت نصیب نہیں ہوئی اور یہ حکومت بھی قرآن کریم کی اسی آیت کے تحت ہے جس میں فرمایا گیا ہے ”یہود کا وجود دنیا میں یا تو صرف رحمتِ الٰہی (جو سبھی ضعفاء، مظلوم وغیرہ کو شامل ہے) یا پھر کسی دنیاوی بڑی حکومت کی پاسبانی ان کو نصیب ہو جائے یعنی ”حبل من اللّٰہ وحبل من الناس“ (سورہ آل عمران آیت:۱۱۲)

۱۰- بنی اسرائیل رومیوں کے زیر اقتدار و دوسرا دور مہاجرت و جلاوطنی:

یہ دور دو حصوں میں منقسم ہے:

(الف) پہلا دور ۶۳ق، م سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور، رفع الی السماء اور یہود کی دوسری جلاوطنی یعنی ۷۰/ عیسوی تک جاری رہا۔

(ب) اور دوسرا دور یہود کی دوسری جلاوطنی یعنی ۷۰ /عیسوی سے لے کر رومن امپائر کے خاتمے تک محیط ہے۔

۱۱- یہود عیسائیوں کے زیر اقتدار:

یہ دور رومی شہنشاہ قیصر کے عیسائیت قبول کرنے سے لے کر یورپ اور امریکہ میں آج تک جاری ہے۔

۱۲- یہود مسلمانوں کے زیر اقتدار:

یہ دور دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اور خاص طور پر۶۳۶/عیسوی سے لے کر عرب ممالک اور ایران میں آج تک جاری ہے۔

۱۳- یہود کی موجودہ اسرائیلی حکومت کا دور:

یہ دور ۱۹۴۸/ سے شروع ہوکر آج تک جاری ہے اور اللہ ہی کو علم ہے کہ کب تک جاری رہے گا۔

اسلام اور یہودیت میں فرق و تضاد

۱- خدا کا تصور

اسلام توحید خالص پر زور دیتا ہے اور کسی بھی طرح کا ذرا سا بھی شرک اسلام میں برداشت نہیں ہے۔ ”اَلاَ لِلّٰہ الدِینُ الخَالِصْ“ اور فَادْعوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہ الدِیْن

یہودیت بھی شیما (توحید) (Adonai Elahun Adonai Achud) آڈونائی ہمارا معبود ہے اور آدونائی ایک ہے۔) پر زور دیتی ہے لیکن یہودیت کے بعض طبقات حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم کی سورہ توبہ کی آیت ”وقالت الیہود عزیر ابن اللّٰہ“ سے ثابت ہے۔ اور حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی تحقیق کے مطابق اسرائیل کے وجود ۱۹۴۸ سے پہلے فلسطین میں یہود کا ایک طبقہ حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتا تھا، حالاں کہ یہود عام طور پر اس کا انکار کرتے ہیں لیکن دلوں کے بھید اللہ تعالیٰ سب سے بہتر جانتا ہے۔

کتابیں

اسلام کی اہم ترین کتاب قرآن کریم ہے۔ اور اس کے بعد حدیث کا مرتبہ ہے۔ قرآن کریم میں کسی بھی قسم کی تحریف نہ تو ہوئی ہے اور نہ ہوسکے گی کیوں کہ اس کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے۔ (سورہ الحجرات آیت:۷)

یہودیت کی اہم ترین کتاب تورات ہے اور اس کے بعد تلمود کا مرتبہ ہے۔ (بائبل کے مختلف تراجم اور خاص طور پر (Bible in the Making) کا مصنف G. M. Gregor سینکڑوں تحریفات کی نشاندہی کرتا ہے۔

ملائکہ

اسلام میں فرشتے بالکل معصوم (ہر غلطی سے پاک) مانے جاتے ہیں۔ (سورہ تحریم آیت ۵-۶)

یہودیت میں فرشتے معصوم نہیں مانے جاتے۔ (کتاب تخلیق باب ۱-۶)

۲- السبت

اسلام میں اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا اور پیدا فرمانے میں یا ان کا انتظام کرنے میں اس کو کوئی تھکن محسوس نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کو آرام کی ضرورت پیش آئی جیسا کہ قرآن کریم کی آیت الکرسی نامی آیت سے ثابت ہے ”اللّٰہ لا الٰہ الا ہو الحي القیوم ․․․ لا تأخذہ سنة ولانوم ولایوٴدہ حفظہما“․ اسلام میں جمعہ مقدس دن ہے۔

یہودیت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا فرمایا اور ساتویں دن آرام کیا اور یہی ساتواں دن سبت (ہفتہ کا دن/ آرام کا دن) آج بھی یہود کا سب سے اہم تیوہار ہے۔ (کتاب تخلیق: باب:۲۰)

۳- تبلیغِ دین

اسلام ایک تبلیغی دین ہے اور اسی پر اس کی بقاء ہے ”بلغوا عني ولو آیة“ (الحدیث)

یہودیت اصلاً نسلی مذہب ہے۔ بنی اسرائیل کے علاوہ عامة الناس میں سے کسی اور شخص کا یہودی بننا یا ہونا مشکل ہے۔ تاریخ میں مشکل سے ایک دو واقعات ملتے ہیں۔ مثلاً یمن میں ذونواس یہودی بادشاہ کے زمانے میں کچھ لوگ یہودی بنے۔(M.J)

۴- جنت کے مستحق

اسلام کے مطابق ہر وہ شخص جس نے خدا کا حکم اپنے وقت کے نبی کے مطابق مانا اور اس پر عمل کیا وہ جنت کا مستحق ہے، چاہے وہ نسلاً کچھ بھی ہو۔ جیسا کہ قرآن کریم میں مذکور ہے ”من عمل صالحاً من ذکر أو أنثٰی وہو موٴمن فأولٰئک یدخلون الجنة․․․“

یہودیت کے مطابق صرف یہودی اور مسیحیت کے مطابق صرف نصاریٰ (مسیحی/عیسائی) جنت میں جائیں گے جیسا کہ قرآن کریم یہود و نصاریٰ کے دعوے کو پیش کرتا ہے ”وقالوا لن یدخل الجنة الا من کان ہودًا أو نصاریٰ“․

۵- خدا کے بیٹے یا اس کے دوست

اسلام کے مطابق خدا کا کوئی بیٹا نہیں ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل کہا ہے۔ اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا حبیب کہا ہے جیسا کہ قرآن کریم کی آیت ”واتخذ اللّٰہ ابراہیم خلیلاً“․ (سورہ نساء: آیت: ۱۲۵)

یہودیت میں یہود کا یہ تصور ہے کہ وہ سب خدا کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں جیسا کہ قرآن کریم بھی ان کے دعوے کو سورہ مائدہ میں بیان کرتا ہے ”نحن أبناء اللّٰہ و أحبائہ قل فَلِمَ یعذبکم بذنوبکم بل أنتم بشر“ (سورہ مائدہ)

۶- مذہب کا نام

دین اسلام خدا کی اطاعت و فرماں برداری اور اس کے حضور اپنی تمام خواہشات کو نچھاور کر دینے کی وجہ سے اسلام کہلاتا ہے، یعنی مکمل فرماں برداری علماً و عملاً۔یہودیت حضرت یعقوب علیہ السلام کے ایک بیٹے یہودا کے نام سے منسوب ہے کیوں کہ اس کی اولاد دوسرے بھائیوں کی اولاد کے مقابلے میں زیادہ ترقی پذیر ہوئی اور بڑھی، آج بھی اس کی نسل موجود ہے۔ باقی بھائیوں کی نسلیں غائب ہو چکی ہیں۔

۷- دین کی وسعت

دین اسلام نہایت ہی وسیع ہے اور ایک تبلیغی دین ہونے کی وجہ سے دنیا کے کونے کونے میں اس کے ماننے والے موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دین فطرت ہے، دین رحمت ہے ”وما أرسلنٰک الا رحمة للعٰلمینیہودیت دین فطرت (عالمی دین و تبلیغی دین) نہیں ہے بلکہ دینِ نسل یا دینِ قبیلہ ہے۔ یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں سے ہی جتنے لوگ پیدا ہوئے یا پیدا ہوتے رہیں گے وہی لوگ دینِ یہود کے متبعین ہیں اور اُخروی فلاح کے مستحق ہیں۔

۸- انبیاء و رسل

اسلام سبھی انبیاء حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے پر اصرار کرتا ہے۔ وہ شخص جو کسی ایک بھی نبی پر ایمان نہ لائے وہ اسلام سے خارج مانا جاتا ہے ”لا نفرق بین أحدٍ من رُسُلِہ“․ (البقرہ: ۲۸۵)یہودیت (یہودی مذہب) حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر عہد نامہ قدیم کے سب سے آخری نبی ملاکی علیہ السلام تک ہی سب نبیوں پر ایمان لانے کے لیے اصرار کرتا ہے لیکن حضرت زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے لیے بالکل مصر نہیں بلکہ ایک یہودی کے لیے ان جلیل القدر انبیاء پر ایمان لانا بالکل ضروری نہیں۔ (عہد نامہ قدیم)

۹- افضل الانبیاء و خاتم الانبیاء

اسلام کے مطابق خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیاء اور نبیوں میں سب سے آخر میں آنے والے ہیں، آپ کے بعد نبوت ختم ہے ”ما کان محمد أبا أحد من رجالکم ولکن رسول اللّٰہ و خاتم النبیین“ (سورہ احزاب: آیت:۴۰)یہودیت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام افضل الانبیاء ہیں اور حضرت ملاکی علیہ السلام خاتم الانبیاء ہیں۔ (موسیٰ (میمونائڈز) کے ۱۳/ اصول و عہد نامہ قدیم کی کتاب ملاکی)

۱۰- فضائل انبیاء / مقام انبیاء

اسلام: اسلام تمام انبیاء کو ہر خطا سے معصوم مانتا ہے ”أولئک الذین ہدی اللّٰہ فبہداہم اقتدہ“ (سورہ الانعام: آیت : ۹۱)یہودیت نے تقریباً ہر ایک نبی کو عام انسانوں کی سطح پر لا کر داغدار بنا دیا ہے۔ (کتاب تخلیق حضرت آدم، ابراہیم، یعقوب کے واقعات - کتاب سلاطین: اول دوم حضرت داؤد، حضرت سلیمان وغیرہ کے واقعات)

۱۱- حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام

ان دونوں حضرات انبیاء کو اسلام انبیاء کی فہرست میں شمار کرتا ہے۔ (سورہ انعام آیت:۸۵)

ان دونوں حضرات کو یہودیت صرف سلاطین مانتی ہے اور انبیاء و رسل کی فہرست سے خارج کرتی ہے۔ (کتاب سلاطین اول، دوم)

۱۲- موسیٰ علیہ السلام اور تجلی الٰہی

اسلام کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اللہ تعالیٰ کو بذات خود دیکھنے کے اصرار پر تجلی الٰہی کے جبل (طور) پر پڑنے سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو کر نیچے گرگئے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے فرمایا تھا کہ تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکو گے۔ (الاعراف: آیت:۴۳)

یہودیت میں تورات کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے ان کے خدا کی ذات کو دیکھنے کے اصرار پر یہ کہا کہ تم میرا چہرہ نہیں دیکھ سکو گے بلکہ پیٹھ دیکھ سکو گے۔ (کتاب خروج)

۱۳- ذبیح اللہ - اسماعیل یا اسحق علیہما السلام

اسلام حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح اللہ مانتا ہے: ”یا بني اني أریٰ في المنام أنی أذبحک فانظر ماذا تریٰ قال یا أبت افعل ما توٴمر ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین - فلما أسلما وتلہ للجبین ونادیناہ أن یا ابراہیم قد صدقت الروٴیا․․․“ (الصافات)تورات بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کو تیرہ سال تک اکلوتا بیٹا مانتا ہے۔ (التخلیق)یہودیت حضرت اسحق علیہ السلام کو ذبیح اللہ مانتی ہے۔ (کتاب تخلیق، باب:۲۲) یہودیت حضرت اسحق علیہ السلام کو اکلوتا بیٹا مانتی ہے۔

اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام

اسلام اسماعیل و اسحاق دونوں کو نبي مانتا ہے اور بہت ہی اچھی نظروں سے دونوں کو دیکھتا ہے، جیسا کہ قرآن کریم کی بہت سی سورتوں، آیات سے ثابت ہے اور دونوں کو قابل اتباع اور ہدایت کا نمونہ بتایا ہے۔ (الصافات- سورہ الانعام: ۱۰۰-۱۱۳)یہودیت اسحاق علیہ السلام کو تو بنی اسرائیل کا جد امجد سمجھتی ہے اور نہایت ہی عزت و تکریم بخشتی ہے، لیکن حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بہت ہی برے اور بھدے الفاظ سے یاد کرتی ہے جیسا کہ توریت کی کتاب تخلیق سے ثابت ہے کہ اس کا ہاتھ ہر ایک شخص کے خلاف اور ہر ایک شخص کا ہاتھ اس کے خلاف یعنی گویا نعوذ باللہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو عداوت کا ایک نمونہ بنا کر پیش کر دیا ہے۔ (کتاب تخلیق)

۱۴- قرآن شریف اور توریت

اسلام کی سب سے اوّل اور سب سے عظیم کتاب یعنی قرآن کریم ہر طرح کی تحریف کمی و بیشی سے محفوظ ہے اوراس کی حفاظت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے بذات خود لیا ہے ”انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحٰفظون“ (سورہ حجر آیت :۹)یہودیت کی سب سے اہم ترین کتاب تورات ہے جو کئی دفعہ جلائی جا چکی ہے جس میں خود علماء یہود کے مطابق نہ جانے کتنے تغیرات ہو چکے ہیں۔ اصل تورات تو کہیں نہیں ملتی، صرف اس کی مختلف زبانوں میں تراجم ملتے ہیں جو تقریباً سبھی الگ الگ ہیں۔ (G.M. Gregor)

۱۵- عورت اور نبوت

اسلام کے مطابق کوئی بھی عورت رسول یا نبی نہیں گزری ہے۔ وجہ یہ ہے کہ نبوت و رسالت جس صلاحیت کو چاہتی ہے وہ صلاحیت و اوصاف عورت کے اندر اس کی فطری ساخت کی وجہ سے پیدا نہیں ہو سکتے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے ”وما أرسلنا من قبلک الا رجالاً نوحي الیہم“ (سورہ یوسف: آیت: ۱۰۹)

یہودیت کے مطابق عورت نبی ہو سکتی ہے۔ عہدنامہ قدیم میں کئی عورتوں کے نام انبیاء کی فہرست میں شامل ہیں۔

۱۶- حضرت لوط علیہ السلام

اسلام حضرت لوط علیہ السلام کو ہدایت کا نمونہ (نبی) بنا کر پیش کرتا ہے۔ (سورہ انعام: ۸۷)

یہودیت حضرت لوط علیہ السلام کو نعوذ باللہ ایک زانی کے بطور پیش کرتی ہے۔ (کتاب تخلیق باب : ۱۴-۱۹)

۱۷- حضرت یعقوب علیہ السلام

اسلام میں حضرت یعقوب علیہ السلام بھی نمونہ ہدایت ہیں۔ (سورہ الانعام آیت: ۸۵)

یہودیت میں حضرت یعقوب علیہ السلام کو نعوذ باللہ دھوکہ باز کہا گیا ہے۔ ان پر اپنے سسر کو دھوکہ دینے کا الزام ہے اور اپنے بھائی ایسوع ایدوم (عیسو) کی فرضی شکل و صورت اور لباس اوڑھ کر اپنے باپ سے ایسوع (عیسو) کے واسطے کی دعا اپنے لیے لینے کا الزام ہے۔ (کتاب تخلیق)

۱۸- داؤد علیہ السلام

اسلام میں حضرت داؤد علیہ السلام بھی ہدایت کے چراغ (نبی) ہیں۔ قرآن کریم ان کی بڑی تعریف کرتا ہے اور جالوت ظالم کو ابدی نیند سلانے کا سہرا آپ ہی کے سر باندھتا ہے۔ (سورہ انعام آیت: ۸۵، سورہ بقرہ آیت: ۲۵۱)یہودیت حضرت داؤد علیہ السلام کو بادشاہ مانتي ہے اور ان پر اپنے ایک سپاہی یا کمانڈر کو مروا کر اس کی بیوی سے شادی کرنے کا الزام لگاتی ہے۔ (کتاب سلاطین)

۱۹- حضرت سلیمان علیہ السلام

اسلام حضرت سلیمان علیہ السلام کو ہدایت کا نمونہ اور گناہوں سے معصوم اور نبی برحق مانتا ہے۔ اور ہر قسم کے کفر و سحر و بت پرستی کے ارتکاب سے بری تسلیم کرتا ہے۔ (سورہ بقرہ آیت:۱۰۲)

یہودیت حضرت سلیمان علیہ السلام کو ہدایت کا نمونہ (نبی) نہیں مانتی، ان کو صرف ایک بادشاہ تسلیم کرتی ہے، گناہوں سے پاک بھی نہیں مانتی، کفر و سحر اور بت پرستی کا الزام آپ پر لگاتی ہے۔ (سلاطین دوم)

۲۰- ابراہیم علیہ السلام

اسلام ابراہیم علیہ السلام کو ایک سچا مسلمان اور حنیف مانتا ہے، ”ما کان ابراہیم یہودیًا ولا نصرانیًا ولکن کان حنیفًا مُسْلِماً، وما کان من المشرکین“ (آل عمران:۶۷)یہودیت ابراہیم علیہ السلام کو بطور یہودی کے پیش کرتی ہے اور ان پر اتنا فخر کرتی ہے کہ یہود اپنے گناہوں پر نادم بھی نہیں ہوتے کہ بابا ابراہیم کی اولاد ہونے وجہ سے خدا ان کے گناہ معاف کر دے گا۔ (انجیل لوقا و مرقس)

۲۱- نکاح

اسلام یہودی عورت سے کسی مسلمان کے نکاح کو اس حالت میں بھی جائز قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے اصلی یہودی مذہب پر رہے۔ (سورہ مائدہ آیت: ۳-۴)یہودیت کسی بھی عورت کا نکاح کسی  مرد سے صرف اس حالت میں قبول کرتی ہے جب وہ اپنا قدیم دین چھوڑ کر یہودیت اختیار کر لے۔ (کتاب ازرا یا عزیر)

۲۲- صلواۃ (نماز)

اسلام میں نماز میں وہ سارے ارکان (رکوع سجدہ، قیام وغیرہ) موجود ہیں جن کے ذریعے آدمی کامل طور پر یکسو ہو کر خدا کی فرماں برداری کا حق ادا کر سکتا ہے۔یہودیت کی نماز میں رکوع سجدہ،  وغیرہ نہیں ہے۔

۲۳- قبلہ

اسلام میں نماز میں کعبہ (مکہ شریف) کی طرف رخ کرنا لازمی ہے۔ (سورہ بقرہ آیت:۱۴۴)یہودیت میں نماز میں ہیکل سلیمانی (یروشلم) کی طرف رخ کرنا لازمی ہے۔ (کتاب دانیال)

۲۴- قبر

اسلام میں میت کو قبر میں قبلہ رخ (بیت اللہ کے رخ پر) لٹایا جاتا ہے۔یہودیت میں میت کو یروشلم (بیت المقدس) کے رخ پر لٹایا جاتا ہے۔

۲۵- نمازوں کی تعداد

اسلام: اسلام میں پانچ وقت کی نماز یعنی : فجر، ظہر، عصر، مغرب و عشاء لازمی ہے۔یہودیت میں صرف تین وقت کی نماز یعنی فجر، ظہر، مغرب واجب ہے۔

۲۶- نماز مع الجماعت

اسلام میں جماعت کے لیے کم سے کم دو آدمی لازمی ہیں۔یہودیت میں کم سے کم ۱۱/ آدمی لازم ہیں۔ (M.J.)

۲۷- نمازی کی حالت

اسلام صلواۃ (نماز) کے دوران ہر مسلمان نمازی کو پرسکون اور طمانینتِ قلب کے ساتھ یکسو رہنے کی تاکید کرتا ہے۔یہودیت میں یہودی کو صلواۃ (دعا/نماز) کے دوران پُرسکون رہنے کی کوئی خاص ہدایت نہیں ہے۔

۲۸- حج و زیارت

اسلام میں ہر عاقل، بالغ، غنی (صاحبِ استطاعت) مسلمان پر زندگی میں کم سے کم ایک بار بیت اللہ شریف کا حج کرنا لازمی ہے۔ (سورہ آل عمران آیت: ۹۷، اور حدیث رسول کتاب الحج)یہودیت میں زمانہٴ قدیم میں ہیکل سلیمانی کی موجودگی کے زمانے میں سال میں کم سے کم تین بار ہر یہودی کو ہیکل کی زیارت کرنا لازمی تھا۔ (کتاب احبار)

۲۹- مسجد اقصیٰ یا ہیکل سلیمانی

اسلام میں مسلمان مسجد اقصیٰ کو قدیم ہیکل سلیمانی نہیں سمجھتے اور نہ ہی اسے اس کے مقام پر بنا ہوا مانتے ہیں۔ بلکہ اس مسجد (مسجد اقصیٰ) کی اصل ہیکل سلیمانی کو نہیں، بلکہ مسجد عمر کو مانتے ہیں جس کو بعد میں خلیفہ عبدالملک یا ولید نے بنوایا تھا۔یہودی قدیم منہدم ہیکل سلیمانی کو اصل معبد سمجھتے ہیں اور موجودہ مسجد عمر (بقول مسلمانوں کے مسجد اقصیٰ) کو اس کے مقام پر تعمیر شدہ مانتے ہیں، اور اس مسجد (مسجد عمر) کو گرا کر ہیکل سلیمانی کو تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔

۳۰- دعاء

اسلام ایک مسلمان کو دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی حاصل کرنے کی دعاء مانگنے کی ترغیب دیتا ہے۔ (سورہ بقرہ)ایک سچا مسلمان دنیا میں زیادہ رہنا پسند نہیں کرتا اور موت کو برائی سے یاد نہیں کرتا بلکہ موت کو دنیا و آخرت کے دمیان محض ایک پل مانتا ہے۔ اس کی دعاء یہی رہتی ہے ”اللّٰہم بارک لي في الموت وفیما بعد الموتیہودیت انسان کو صرف موجودہ دنیا میں ہی خوش وخرم رہنے کی دعاء کی ترغیب دیتی ہے اور خراب سے خراب زندگی کو موت (آخرت) کے مقابلے ترجیح دیتی ہے۔ (M.J.)

۳- موت

اسلام میں ایک مسلمان کسی کی موت کا سن کر یہ کہتا ہے ”انا للّٰہ و انا الیہ راجعون“، موت ایک حقیقت مانی جاتی ہے اور اس سے کوئی بھی متدین مسلمان نہیں ڈرتا بلکہ حدیث رسول کی روشنی میں موت دنیا و آخرت کے درمیان ایک پل مانی جاتی ہے ”الموت قنطرة بین الدنیا والآخرة“ (سورہ جمعہ آیت: ۸، مومنون آیت:۱۵)یہودیت میں ایک یہودی موت کا نام سن کر یہ کہتا ہے: قاضی صادق بابرکت ہو، "Blessed be the true juged"۔ یہودی موت کے نام سے ہی گھبراتا ہے حتی کہ جب موت آتی ہے تو مرنے والے کو اس کا نام بدل کر پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ دنیا ہی کو اصل سمجھتے ہیں اور ہزاروں سال جینا چاہتے ہیں۔ (البقرہ آیت: ۹۶) (M.J.54,56)

۳۲- تدفین

اسلام مردے کو جلد از جلد دفن کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔یہودیت ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر دفن کرنے کی ہدایت کرتی ہے۔

۳۳- دعاء یا نمازِ جنازہ (دفن)

اسلام میں کوئی بھی بالغ مرد جنازے کی نماز پڑھ سکتا ہے۔ جنازے کی نماز فرض کفایہ ہے۔ (م-ن فقہ اسلامی)یہودیت میں صرف قریبی رشتہ دار ہی جنازے کی نماز پڑھ سکتا ہے۔ جنازے میں شامل نہ ہونا گناہ ہے۔ (M. J. P 56)

۳۴- صوم

اسلام میں روزے (صوم) کا وقت فجر کے وقت سے شروع ہو کر غروب شمس تک ہے یہاں تک کہ رات ہو جائے۔ (سورہ البقرہ: ۱۸۷)یہودیت میں روزہ کا وقت سورج کے غروب سے لے کر اگلے روز کے غروب شمس تک ہے یعنی ۲۴ گھنٹے کا روزہ ہوتا ہے۔ (M.J. 57)

۳۵- روزہ کا مقصد

اسلام میں روزہ کا اصل مقصد تقویٰ کا پیدا ہونا اور نفس کو اس کی خواہشات سے روکنا روح اور بدن کی پاکیزگی ہے۔ کچھ حالات میں روزہ بطور کفارہ کے بھی رکھا جاتا ہے جیسا کہ قسم کو توڑنا یا قتلِ خطا وغیرہ کے سلسلے میں۔ (البقرہ: ۸۲، المائدہ:۸۹)یہودیت میں روزہ ایام رنج و غم کی یاد کے لیے اور گناہوں سے معافی چاہنے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ (M.J. 57)

۳۶- صدقہ

اسلام میں صدقہ فرض بھی ہے اور نفل بھی ہے اور فرض صدقے (زکواۃ) کے مصارف بھی واضح کر دیے گئے ہیں ”انما الصدقات للفقراء والمساکین والعاملین علیہا والموٴلفة قلوبہم والغارمین وفي سبیل اللّٰہ وابن السبیل“ (سورہ توبہ آیت: ۶۰)یہودیت میں صدقہ اسلام کی طرح فرض و واجب تو نہیں ہے لیکن کھیت کی میڈھوں کے آس پاس یا جو اناج نیچے گر جائے وہ سب فقراء کا ہے اور پھل دار درختوں کی پہلی فصل بھی خدا کے نام پر دی جاتی ہے۔ (کتاب احبار)

۳۷- سود

اسلام میں سود کی بالکل ممانعت ہے۔ (سورہ آل عمران: ۲۷۷-۲۷۹)یہودیت کے مطابق کسی یہودی سے سود نہیں لیا جا سکتا؛ لیکن یہودی غیر یہودی سے سود لے سکتا ہے۔ (کتاب استثناء باب: ۲۳، آیات: ۲۰-۲۱)

۳۸- جہاد

اسلام میں جہاد کا اصل مقصد اعلائے کلمة اللہ ہے۔ اپنی حفاظت کے لیے نیز ظلم سے بچنے کے لیے بھی جہاد کی اجازت ہے۔ (سورہ الحج آیت: ۳۹-۴۰، سورہ انفال و سورہ توبہ)اگر کوئی شخص عین میدان جہاد میں کسی مسلمان کے سامنے کلمہ پڑھ لے یا کسی گاؤں سے اذان کی آواز آ جائے تو ان سے جہاد (قتال) نہیں کیا جا سکتا۔یہودیت میں جہاد کا مقصد صرف زمین و جائیداد کی تحصیل ہے، اگر کوئی شخص اپنی جان بچانے کیلئے یہودیت اختیار بھی کرنا چاہے تب بھی اس کو قتل کر دینا جائز ہے۔ (M.J.65) (کتاب استثناء: باب: ۲۰ ، آیت: ۱۰-۱۸)

۳۹- طعام

اسلام میں ہر ایک طیب چیز کا کھانا جائز ہے حتی کہ اونٹ اور خرگوش کی بھی اجازت ہے۔ (المائدہ آیت: ۴)یہودیت میں اونٹ اور خرگوش کھانا جائز نہیں حتی کہ ایسے پھل کو کھانا بھی جائز نہیں جو ایسے درخت سے توڑا گیا ہو جو تین سال سے کم كا ہو۔ (کتاب احبار)

۴۰- شکار کرنا

اسلام میں حلال جانوروں کا شکار کرنا جائز ہے۔ (م-ن فقہ اسلامی)یہودیت میں شکار کرنا جائز نہیں، شکار کے پیچیدہ مسائل کی وجہ سے۔ (M.J.74)

۴۱- ذبیحہ

اسلام یہودی کے ہاتھ کے ذبح کیے ہوئے حلال جانوروں کا گوشت کھانا جائز قرار دیتا ہے۔ (اہل کتاب ہونے کی وجہ سے) (المائدہ آیت: ۵)یہودیت کسی مسلمان کے ہاتھ سے ذبح کیے ہوئے حلال جانور کو بھی یہودی کے لیے کھانا جائز نہیں رکھتی۔ (M.J.74)

۴۲- شراب کا استعمال

اسلام شراب کو پینا مطلقاً حرام قرار دیتا ہے چاہے زیادہ ہو یا کم ہو۔ (سورہ المائدہ آیت: ۹۱-۹۲)

یہودیت تورات کے اعتبار سے تو شراب کو حرام قرار دیتی ہے (کتاب احبار: باب: ۱۰، آیت: ۹) لیکن تلمود کے اعتبار سے ربیوں کے یہاں شراب کے استعمال پر آراء مختلف ہیں، بعض بالکل حرام قرار دیتے ہیں اور بعض تھوڑی مقدار میں پینے کو روا رکھتے ہیں۔ (M.J.79-80)

۴۳- عام قانون

اسلام دینِ یُسر (آسانی کا دین) ہے اس کے قوانین اتنے آسان ہیں کہ پورے عالم میں کہیں پر بھی اس کے مطابق چلا جا سکتا ہے۔یہودیت میں عام یہودی قانون بڑا سخت ہے۔ (سورہ انعام: ۴۷) (M.J.78)

۴۴- مذہبی امور

اسلام میں مذہبی امور میں آسانی ہے، مثلاً جمعہ کے روز جمعہ کی نماز کی تیاری اور ادائیگی کے لیے جمعہ کی پہلی اذان سے لے کر جمعہ کی نماز ادا کرنے تک دنیا کا کوئی بھی کام کرنا جائز نہیں (سورہ جمعہ آیت: ۹-۱۱) (م-ن اسلامی فقہ باب نماز) اس سے پہلے اور بعد میں دنیاوی امور سرانجام دیے جا سکتے ہیں۔لیکن یہودیت میں جمعہ کے روز غروب شمس سے لے کر سنیچر (ہفتہ) کے روز غروب شمس تک دنیا کا کوئی کام نہیں کر سکتے حتی کہ بجلی کا سوئچ وغیرہ بھی آن آف کرنے کی اجازت نہیں۔ (کتاب تخلیق: باب:۲، آیت:۲) (M.J. 80-81-82)

۴۵- معبد میں مسلم اور یہودی کی حاضری

اسلام میں مسجد میں نماز پڑھنے یا ذکر کرنے یا تلاوت وغیرہ کے لیے کوئی کہیں بھی بیٹھ سکتا ہے۔ (م- ن اسلامی فقہ: باب نماز)یہودیت میں مساوات کا نام تک نہیں، بڑے لوگوں کے لیے ان کی سیٹیں محفوظ رہتی ہیں حتی کہ عبادت کی جگہیں وراثت میں حاصل بھی کی جاتی ہیں۔ (M.J.81-82)

۴۶- مذہبی تعلیم

اسلام میں مذہب کی تعلیم مرد و عورت دونوں کے لیے لازمی ہے جیسا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ”العلم فریضة علی کل مسلمیہودیت میں تورات کا حکم یہ ہے کہ اپنے بیٹوں کو تعلیم دو۔ اس وجہ سے یہودیت میں مذہبی تعلیم میں عورتوں کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے حتی کہ بعض ربیوں کے مطابق عورت کو تورات کی تعلیم دینا ایسا ہے جیسا کہ لکڑی میں آ گ لگادینا۔ کیوں کہ بائبل میں نعوذ باللہ انبیاء کو بھی زنا کار، دھوکہ باز اور کذاب بناکر پیش کیاگیاہے۔ (M.J.93-94)

۴۷- شیطان

اسلام میں شیطان نے حضرت آدم و حواء کو دھوکہ دیا اور شجر ممنوعہ کھلا دیا۔ (سورہ اعراف آیت:۲۰)

یہودیت میں شیطان کے بجائے سانپ نے حضرت حواء کو دھوکہ دیا اور شجر ممنوعہ کھلوا دیا۔(کتاب تخلیق: باب: ۲-۳)

۴۸- تعلیم

اسلام کی تعلیم یونیورسل یعنی بین الاقوامی ہے۔ مرد و عورت دونوں کے لیے لازمی ہے جیسا کہ سورہ العلق اور حدیث ”العلم فریضة“ سے ثابت ہے۔یہودیت کی تعلیم خاص طور پر بنی اسرائیل تک محدود ہے اور بنی اسرائیل میں بھی مذہب کی تعلیم تو صرف مردوں کے لیے ہے، عورتوں کے لیے دینی تعلیم کو پسند نہیں کیا جاتا کیوں کہ تورات کا یہ حکم ہے اپنے لڑکوں کو تعلیم دو۔ (M.J. 95) (کتاب تلمود۔ کتاب استثناء: باب : ۱۱، آیت:۱۹)

۴۹- تعلیم اور عورتیں: عام اصول

اسلام میں ہر آدمی کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دے، دینی اور دنیوی دونوں تعلیم، تعلیم میں شامل ہیں۔ اسی وجہ سے مندرجہ ذیل عورتیں اسلامی تاریخ میں منظر عام پر آئیں:

(۱) حضرت عائشہ صدیقہ (زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم(۲) حضرت ام ہانی،

(۳) ام کلثوم(۴) حضرت فاطمہ، (٥) مریم و فاطمہ جو ․․․․ دنیا کی پہلی یونیورسٹی مسجد قیروان کی موسسہ تھیں،(۶) مولانا آزاد ہندی کی والدہ،(۷) مریم جمیلہ جو یہودیت چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئیں، ان کا بھی تعلیمی میدان میں بڑا نام ہے۔

یہودیت: ۱- پہلا قول یہ ہے کہ آدمی کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی لڑکی کو تورات کی تعلیم دے۔

۲- دوسرا قول یہ ہے کہ جو بھی شخص اپنی بیٹی کو تورات کی تعلیم دیتا ہے وہ ایسا ہے جیسے اپنی بچی کو گندی چیزوں کو سکھائے۔

۳- تیسرا قول یہ ہے کہ عورت کو تورات کی تعلیم دینے کی بجائے تورات ہی کو جلا دینا بہتر ہے۔

۴- چوتھا قول یہ ہے کہ جب ایک رَبی سے کسی عورت نے سونے کے بچھڑے کے متعلق پوچھا تو اسے ڈانتے ہوئے کہا گیا کہ عورت کو تعلیم سے کوئی سروکار نہیں، صرف اس کا کام اسپنڈل کا استعمال ہے۔

۵- یہودی علماء نے مشترکہ تعلیم کو اس واسطے عورتوں کو دلانے سے منع کیا کہ اس کی وجہ سے یونان اور روم میں عورتوں کے اندر اخلاقی گراوٹ یہاں تک آئی کہ ناقابل برداشت ہو گئی۔

مندرجہ بالا وجوہات کی وجہ سے یہودی عورتوں میں زیادہ مشہور و معروف تعلیم یافتہ عورتیں نہیں گزری ہیں۔ (M.J.)

۵۰- عورت کا مقام

اسلام عورت کو اس کا جائز مقام دیتا ہے صرف ساخت کی وجہ سے مرد کے مقابلے میں اختیارات کچھ کم ہیں؛ لیکن عام تعلیم یہ ہے کہ ”للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنساء نصیب مما اکتسبن“ (سورہ نساء: رکوع:۵) اور ”مَن عمل صالحًا مِن ذکر أو أنثی وھو مومن فأولئک یدخلون الجنة

یہودیت میں عورت پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ اسی نے حضرت آدم کو بہکا کر شجر ممنوعہ کا پھل کھلوایا۔ اس لیے سب سے پہلے گناہ کی مرتکب وہی ہوئی، یعنی گناہ کی شروعات کا الزام عورت کے اوپر ہے۔ جس کی سزا کے طور پر مرد کو اس کے اوپر حاکم بنایا گیا ہے۔ اور اس کو حمل کے جننے وغیرہ کی سزائیں دی گئی ہیں۔ (کتاب تخلیق: باب:۲-۳) عورت عام طور سے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ کہتی ہے کہ خدا کا شکر ہے جس نے مجھے اپنی مرضی کے مطابق بنایا اور مرد یہ کہتا ہے کہ خدا کا شکر ہے کہ تو نے مجھے عورت نہیں بنایا ہے۔ (M.J.)

۵۱- کثرتِ ازواج

اسلام کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر عام مسلمانوں کے لیے صرف چار عورتوں کو ایک وقت میں نکاح میں رکھنے کی اجازت ہے۔ (سورہ نساء: رکوع:۱)یہودیت کے مطابق پہلا قول تو یہ ہے کہ ازواج کی کثرت کی کوئی تحدید نہیں۔ دوسرا قول صرف چار تک کا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ دوسرے نکاح کے لیے پہلی بیوی کو طلاق دینا ضروری ہے۔ چوتھا قول زمانہ ہذا میں یورپ اور امریکہ سے متاثر ہو کر یہود نے ظاہری طور پر کثرت ازواج کے سلسلہ کو بند کر دیا ہے۔

۵۲- عورتوں کا سفر

اسلام میں کوئی بھی عورت لمبے سفر پر بلا محرم کے نہیں جا سکتی، چاہے حج کا سفر ہی کیوں نہ ہو۔ چھوٹے اور تھوڑے سفر کے لیے بھی محرم کا ہونا اچھا ہے۔ (م- ن اسلامی فقہ: باب الحج)یہودیت میں عورت بلا محرم کے بھی سفر کر سکتی ہے اور یہ بات مانی جاتی ہے کہ وہ خود اپنی حفاظت کر لے گی۔ (M.J.)

۵۳- مرد اور عورت کا ساتھ

اسلام میں مرد اپنی عورت کے ساتھ ایام حیض و نفاس کے علاوہ کسی وقت بھی اس کے بستر پر جا سکتا ہے۔

یہودیت میں ایام حیض کے علاوہ مزید سات روز تک وہ اپنی بیوی کے ساتھ بستر میں شرکت نہیں کر سکتا۔ (M.J.)

۵۴- جنسی معاملات

اسلام میں مرد اپنی عورت کے ساتھ جنسی معاملات کا تذکرہ کر سکتا ہے۔یہودیت میں جنسی معاملات کا تذکرہ کرنا جائز نہیں۔ (M.J.)

۵۵- بین الاقوامی قوانین

اسلام بین الاقوامی مذہب ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی قوانین پوری طرح سے پیش کرتا ہے۔ (سورہ ممتحنہ آیت: ۷-۸-۹)یہودیت نسلی مذہب ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی قوانین سے عاری ہے۔ صرف موقع و محل کو دیکھا جاتا ہے۔

۵۶- اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ

اسلام کے اعتبار سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ کو وادی غیرِ ذی زرع (مکہ معظمہ) اس واسطے چھوڑا تھا تاکہ اللہ کا گھر آباد ہو اور نماز قائم ہو جائے۔ (سورہ ابراہیم)اسماعیل علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وراثت سے محروم نہیں کیا گیا اور نہ ہی حضرت ساریٰ کی وجہ سے گھر سے نکالا گیا۔یہودیت کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ کے اس قول سے مجبور ہو کر کہ ابراہیم علیہ السلام کی وراثت میں اسماعیل کو کچھ نہیں ملے گا اور یہ کہ اسماعیل علیہ السلام لڑکپن میں اپنے چھوٹے بھائی اسحاق علیہ السلام پر ہنس پڑے تھے، اس واسطے اسماعیل اور ان کی والدہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے گھر سے نکال دیا۔ (کتاب تخلیق)

۵۷- تورات کا حافظہ (حفظ کرنا)

اسلام میں قرآن کریم روز اوّل سے ہی لکھا ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو بھی آیت نازل ہوتی تھی اس کو فوراً لکھا دیا کرتے تھے۔ وحی کے لکھنے پر تقریباً چالیس آدمی مامور تھے۔ اور اس کتاب کا حفظ بھی روز اول ہی سے رائج ہو گیا تھا کیوں کہ حفظ قرآن کے فضائل کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زیادہ بیان کیا تھا۔ (فضائل قرآن: مولانا زکریا، علوم القرآن بلگرامی صاحب سابق ڈین فیکلٹی دینیات علی گڑھ)تورات کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس تورات کا ایک ہی نسخہ تھا، اس کا حفظ مشروع نہیں تھا بلکہ ہر ساتویں سال عوام کے سامنے پڑھ دیا جاتا تھا، جیسا کہ خود عُزیر علیہ السلام نے بھی بابل سے یہود کی جلاوطنی کے بعد واپسی پر بیت المقدس میں عوام کے سامنے تورات کو سنایا تھا۔ (کتاب استثناء: کتاب عزیر)

۵۸- الٰہی اعمال کا رد عمل

اسلام میں اللہ تعالیٰ ظالموں کو سزا دے کر پچھتاتا نہیں ہے اور اکثر و بیشتر یہ آیت یا اس کے مساوی الفاظ ملتے ہیں ”وما ظلمہم اللّٰہ ولکن کانوا أنفسہم یظلمون“․یہودیت میں اللہ تعالیٰ ظالموں کو سزا دینے کے بعد پچھتاتا بھی ہے جیسا کہ طوفان نوح کے موقع پر ہوا۔ (کتاب تخلیق، طوفان نوح)

۵۹- انسانوں سے خطاب

قرآن کریم انسان سے بذات خود مسلمانوں سے، کفار سے اور تمام انسانوں سے خطاب کرتا ہے۔ مثلاً ”ہل أتٰی علی الانسان“ یا ”یا أیہا الذین آمنوا“ یا ”یا أیہا الناس“․(سورہ حم سجدہ، سورة الدہر، سورہ بقرہ، سورہ اعراف)یہودیت زیادہ تر بنی اسرائیل کے الفاظ ہی سے یہودیوں کو خطاب کرتی ہے، تورات میں زیادہ تر ایسا ہی ملتا ہے۔ جیسا کہ یہودی عقیدے ”شیما“ کے الفاظ سے بھی ثابت ہے۔ مثلاً کہا گیا ہے ․․․ Sheema Yashroel، اے اسرائیل سنو! (کتاب استثناء)

۶۰- کیلنڈر

اسلام میں کوئی Leap Year (لوند کا سال) کا سال نہیں ہوتا یعنی کسی مہینے کے دنوں میں کمی بیشی صرف چاند کی رویت ہی پر منحصر ہوتی ہے۔ انسانی دخل اس میں نہیں ہوتا ”انما النسیٴ زیادة فی الکفر یضل بہ الذین کفروا یحلونہ عاماً ویحرمونہ عاماً لیواطئوا عدة ما حرم اللّٰہ فیحلوا ماحرم اللّٰہ زین لہم سوء أعمالہم واللّٰہ لایہدی القوم الکافرین“ (سورہ توبہ آیت: ۳۷)یہودیت میں Leap Year (لوند) مانا جاتا ہے اور ہر انیسویں سال Adar کے مہینے کو سات گنا بڑھا کر جوڑ دیا جاتا ہے۔ جس سے حساب انگریزی کیلنڈر کے برابر ہی ہو جاتا ہے۔ یعنی ۳۶۵ دن۔ (Helleys Hand Book holy bible)

۶۱- ختنہ

اسلام: اسلام میں ختنہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، بلکہ سنت ابراہیمی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ختنہ کتاب تخلیق کے مطابق ۹۹ سال کی عمر میں ہوئی تھی، تبھی سے یہ حکم سنت انبیاء مانا جاتا ہے، اس لیے اسلام میں آ ج تک رائج ہے اور انشاء اللہ رہے گی۔یہودیت: یہودیت میں بھی عیسیٰ علیہ السلام کی کچھ صدیوں بعد تک ختنہ رائج تھی؛ لیکن عیسائیت کے اثر و رسوخ بڑھنے کی وجہ سے سینٹ پال کے بعد ختنہ پر پابندی لگادی گئی، اس لیے آج یہود میں بھی یہ سنت ابراہیمی مفقود ہوگئی ہے۔ (رسولوں کے اعمال، عہدنامہ جدید)