يارسان

مصنف : بي بي سي

سلسلہ : مذاہب عالم

شمارہ : مئي 2023

مذاہب عالم

يارسان ايران كا قديم مذہب (جس میں مونچھیں مقدس علامت سمجھی جاتی ہیں)

بی بی سی

یارسان مذہب مشرقِ وسطیٰ کے سب سے قدیمی مذہبی عقیدوں میں سے ایک ہے جس کے ماننے والوں کو’اہلِ حق‘ بھی کہا جاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق ایران میں اس عقیدے کے پیروکاروں کی تعداد 10 سے 30 لاکھ کے درمیان ہے جن میں سے زیادہ تر لوگ مغربی ایران میں رہتے ہیں جو کُرد اکثریتی علاقہ ہے۔اس فرقے کے ایک سے ڈیڑھ لاکھ ماننے والے افراد عراق میں بھی رہتے ہیں جہاں ان کو ’کاکائی‘ کہا جاتا ہے۔محقق بہناز حسینی نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایران اور عراق کی مذہبی اقلیتوں کے بارے میں تعلیم حاصل کی ہے۔انھوں نے حال ہی میں یرسانی فرقے کے پیروکاروں کے ساتھ تین دن گزارے ہیں، جن میں وہ روزے رکھتے ہیں۔یارسانی ہر ماہ اپنی عبادت گاہوں میں جمع ہوتے ہیں جنھیں ’جام خانہ‘ کہا جاتا ہے۔ اس اجتماع کو ’جام‘ کہا جاتا ہے۔ عبادت گاہوں میں انھیں کئی طرح کے ضابطوں کی پابندی کرنی ہوتی ہے جس میں سر کو ایک مخصوص ٹوپی سے ڈھانپنا بھی شامل ہے۔

وہ دائرے میں ’پردیوار‘ کے رخ بیٹھتے ہیں۔ پردیوار جام خانے کا سب سے مقدس مقام ہوتا ہے۔

یارسان فرقے کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ سلطان ساہک/ضحاک خدا کی سات نشانیوں میں سے ایک ہے۔وہ تناسخ روح کے قائل ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ روح 1001 اوتار بدلنے کے بعد طہارت حاصل کر لیتی ہے۔یارسانی ایک مقدس آلہ موسیقی بجاتے ہیں جسے ’طنبور‘ کہا جاتا ہے اور مقدس ’کلام‘ پڑھتے ہیں۔یارسانی اکتوبر اور نومبر میں تین روزے بھی رکھتے ہیں۔ روزوں کے تین ایام کے دوران یارسانی کمیونٹی کے لوگ ہر رات اپنے اپنے علاقوں میں اجتماع (جام) کرتے ہیں اور سورج غروب ہوتے ہی روزہ افطار کیا جاتا ہے۔ روزہ افطار کرنے کے لیے خاص طرح کی روٹیاں بنائی جاتی ہیں۔یارسانی انار کو مقدس پھل مانتے ہیں اور کئی مذہبی تقریبات میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔یارسان فرقے کے ماننے والوں کے لیے مونچھیں ایک مقدس علامت ہیں۔ روایتی طور پر یارسانی مرد حضرات اپنی مونچھوں کو بڑھاتے ہیں اور کبھی نہیں کاٹتے۔مسیحیوں، یہودیوں اور زرتشت اقلیتوں کے برعکس ایران کا آئین یارسانیوں کو مذہبی اقلیت تسلیم نہیں کرتا۔حکومت انھیں ایسے شیعہ مسلمان تصور کرتی ہے جو صوفی ازم پر یقین رکھتے ہیں۔ ایران میں کئی شیعہ رہنما یارسانیوں کو ’منحرف عقیدہ‘ گردانتے ہیں۔

اس فرقے کے پیروکاروں نے سنہ 2018 میں اقوامِ متحدہ کے ماہرین کو بتایا تھا کہ وہ پیدائش کے وقت اپنے بچوں کا مذہب یارسانی نہیں لکھوا سکتے، انھیں عبادت گاہیں تعمیر کرنے کی اجازت نہیں، وہ اپنے مذہبی رسومات کے تحت جنازے نہیں کر سکتے اور اپنی مقدس کتاب کو چھاپ نہیں سکتے کیونکہ ایسا کرتے ہوئے انھیں خدشہ ہے کہ ان پر توہین مذہب کا الزام لگ سکتا ہے۔اس فرقے کے چند پیروکاروں کا دعویٰ ہے کہ فوجی سروس کے دوران ان کی مونچھوں کو زبردستی شیو کر دیا گیا۔