*اچھی گفتگو كا قحط

مصنف : حكيم محسن

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اكتوبر2023

اصلاح و دعوت

*اچھی گفتگو كا قحط

حكيم محسن

*اقبال احمد انڈیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے‘ والد زمین کے جھگڑے میں ان کی آنکھوں کے سامنے قتل ہو گئے‘* *1947میں اپنے بھائی کے ساتھ بہار سے پیدل لاہور پہنچے‘ ایف سی کالج میں داخلہ لیا‘ اکنامکس میں ڈگری لی اور اسکالرشپ پر کیلیفورنیا امریکا کے کالج میں داخل ہو گئے اور سیاست اور مڈل ایسٹ ہسٹری پڑھنا شروع کر دی، ابن خلدون کی محبت میں گرفتار ہوئے اور خود کو مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ کی تاریخ کے لیے وقف کر دیا‘* *نوم چومسکی‘ ایڈورڈ سعید اور ارون دتی رائے جیسے دانشور اقبال احمد سے متاثر ہوئے اور انھیں اپنا دوست بنا لیا‘ یہ ان کی محفل میں اٹھنے بیٹھنے لگے‘ زندگی کی سختیوں اور عالمی دانشوروں کی صحبت نے انھیں جنگ کا دشمن اور عالمی نظام معیشت کا مخالف بنا دیا اور یہ کھل کر کمیونزم کا پرچار کرنے لگے‘یہ پوری دنیا میں لیکچر دیتے تھے اور لوگ ٹکٹ خرید کر ان کا لیکچر سنتے تھے‘ بڑے بڑے دانشور ان سے متاثر تھے‘*

*وزیراعظم پاکستان 1997 میں اقبال احمد کو پاکستان لے آئے اور انھیں ٹیکسٹائل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان کا سربراہ بنا دیا‘ حکومت نے انھیں اسلام آباد میں پرائیویٹ اور خود مختار یونیورسٹی بنانے کےلیے زمین بھی الاٹ کر دی‘ یہ ابن خلدون کے نام پر پاکستان میں خلدونیہ یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے۔

*حکومت نے انھیں چارٹر دے دیا‘ اقبال احمد نے کام شروع کر دیا لیکن یہ بدقسمتی سے بڑی آنت کے کینسر میں مبتلا ہوئے‘ ان کا آپریشن ہوا اور یہ آپریشن کے دوران 11 مئی 1999 کو ہارٹ اٹیک سے انتقال کر گئے‘ یہ کتنے بڑے اسکالر اور نامور انسان تھے آپ اس کا اندازہ صرف ایک بات سے لگا لیجیے‘ ان کے انتقال پر ہیمپشائر کالج نے تعزیتی تقریب منعقد کی‘ اس تقریب میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان‘ ایڈورڈ سعید‘ نوم چومسکی اور ارون دتی رائے جیسے لوگ شریک ہوئے اور کھل کر ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔*

*اقبال احمد کا یہ سارا بیک گراؤنڈ صرف ایک واقعہ سنانے کےلیے لکھا‘ اقبال احمد صاحب 40 سال بعد پاکستان واپس آئے اور یہ اسلام آباد میں رہائش پذیر ہو گئے تو ایک دن ان کے ایک دوست نے ان سے پوچھا ’’آپ پاکستان میں رہتے ہوئے امریکا‘ یورپ اور مڈل ایسٹ کی کون سی چیز مس کرتے ہیں‘‘ یہ مسکرا کر بولے* *’’اچھی گفتگو‘‘ پوچھنے والے نے حیرت سے عرض کیا ’’کیا مطلب‘‘ یہ بولے ’’دنیا جہاں میں پڑھے لکھے لوگوں کے پاس گفتگو کے بے شمار موضوعات ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں ان پڑھ ہوں یا پڑھے لکھے، ریڑھی والے ہوں یا آفس میں بیٹھے باس ، ان کے پاس سیاست اور سکینڈلز کے علاوہ کوئی موضوع نہیں ہوتا‘ آپ جس بھی محفل میں بیٹھ جائیں اور کوئی بھی موضوع چھیڑ دیں وہ محفل چند منٹوں میں سیاست اور سیاست دانوں کے سکینڈلز میں تبدیل ہو جائے گی اور لوگ اس پر گھنٹوں گفتگو کرتے رہیں گے‘ اور اس گفتگو کا حاصل بھی کچھ نہیں، دنیا بھر میں لوگ آئیڈیاز پر بات کرتے ہیں لیکن پاکستان میں ہر جگہ‘ ہر محفل میں شخصیات آئیڈیاز کی جگہ لے لیتی ہیں چناں چہ میں پاکستان میں اچھی گفتگو کو مس کرتا ہوں‘‘۔*

*اقبال احمد نے آج سے 25 سال قبل ہمارے ملک کی نفسیاتی حالت پر کیا خوب صورت تبصرہ کیا تھا اور یہ صورت حال سوشل میڈیا اور واٹس ایپ سے پہلے کے پاکستان کی تھی‘ اللہ نے اقبال احمد صاحب پر بڑا کرم کیا‘ یہ سوشل میڈیا کی ایجاد سے پہلے دنیا سے رخصت ہو گئے ورنہ یہ آج پاگل ہو کر سڑکوں پر پھر رہے ہوتے ‘ ہمارے ملک میں واقعی ’’اچھی گفتگو‘‘ کا خوف ناک قحط ہے‘ آپ ملک کے کسی حصے میں چلے جائیں‘ کسی فورم‘ کسی گروپ کا حصہ بن جائیں۔آپ کو سیاسی افواہوں‘ سیاسی لطیفوں اور سیاسی گپ شپ کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا اور آپ اگر کسی طرح سیاست سے جان چھڑا بھی لیں تو آپ مذہبی گفتگو کے تالاب میں گر جائیں گے اور وہ ساری بات چیت بھی سیاسی گفتگو کی طرح غیر مصدقہ واقعات پر مشتمل ہو گی‘ ہمارا پورا ملک بولنے کے خبط میں مبتلا ہے‘ہم میں سے ہر شخص روزانہ تین چار کروڑ لفظ بول کر سوتا ہے۔**بعض لوگوں کی اس میں بھی تسلی نہیں ہوتی چناں چہ یہ نیند میں بھی بڑبڑاتے رہتے ہیں لیکن آپ جب اس گفتگو کا عرق نکالتے ہیں تو اس میں سے شخصیت پرستی اور سیاست کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا‘ ہم میں سے ہر شخص اندھا دھند بولنا چاہتا ہے۔*

*انسان بولنے والی مخلوق ہے‘ انسان اظہار کرتا ہے اور اظہار کےلیے آئیڈیاز چاہیے ہوتے ہیں اور آئیڈیاز کےلیے معلومات اور علم درکار ہوتا ہے اور علم اور معلومات کےلیے پڑھنا اور گھومنا اور گھومنے اور پڑھنے والے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا پڑتا ہے اور ہم یہ کرتے نہیں ہیں۔*

*لہٰذا پھر ہم کیا سنیں گے اور کیا سنائیں گے‘ ہم کیا گفتگو کریں گے؟**نیا خیال نیا آئیڈیا کہاں سے آئے گا؟* *ہم کیا گفتگو کریں گے! اس لیے اس معاشرے میں علم، معلومات، اچھی گفتگو، نئے آئیڈیاز کی کمی ہے۔**چنانچہ اس کمی نے ہمارے معاشرے میں ایک اچھی گفتگو کا بحران پیدا کر دیا ھے۔*