عرفان خان کا خط

مصنف : ابو یحییٰ

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اگست 2018

اصلاح و دعوت
عرفان خان کا خط
ابو یحییٰ

                                                                                                                        عرفان خان بین الاقوامی شہرت کے حامل ایک انڈین ایکٹر ہیں۔ان کا شمار بالی وڈ کے بہترین اداکاروں میں کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل انھیں کینسر کی ایک شاذ قسم تشخیص ہوئی۔ حال ہی میں انھوں نے ٹائمزآف انڈیا میں شائع ہونے والے ایک خط میں اپنی اس بیماری کا انکشاف کیا۔ ساتھ ہی بڑی خوبصورتی سے ان احساسات کی ترجمانی کی جو زندگی میں عین عروج کے وقت موت کی اچانک آہٹ ملنے پر کسی انسان میں پیدا ہوسکتے ہیں۔یہ خط برصغیر اور پوری دنیا میں موجود ان کے کروڑوں مداحوں میں پھیل گیا۔ میں نے اس خط کو بار بار پڑھا ہے۔ انگریزی میں بھی اور اردو میں بھی۔ یہ بڑا موثر خط ہے۔ یہ خط بظاہر عرفان خان نے دنیا بھر میں موجود اپنے کروڑوں چاہنے والوں کو لکھا ہے، مگرمیرے نزدیک اس خط کے دو پہلو اور ہیں جو بین السطور موجود ہیں اور جن کا سمجھنا ضروری ہے۔پہلا یہ کہ یہ خط خدا نے ان کے ہاتھ سے پوری انسانیت کو لکھوایا ہے۔ اس خط کے ذریعے سے ہر انسان کو خدا کا یہ پیغام پہنچ جانا چاہیے کہ انسان اپنا ہر مسئلہ حل کرسکتا ہے، موت کا مسئلہ حل نہیں کرسکتا ۔ اس لیے کہ موت خدا کے حضور پیشی کا نام ہے۔ یہ عارضی دنیا سے نکل کر ابدی دنیا میں چلے جانے کا نام ہے۔ یہ انسانی دنیا سے نکل کر خدائی دنیا میں حاضری کا نام ہے۔ یہ پرچہ امتحان حل کرکے نتیجہ امتحان سننے کا مرحلہ ہے۔ یہ انسان کے خاتمے کا نہیں امتحان کے خاتمے کا مرحلہ ہے۔ موت ہر انسان کو آنی ہے مگر عام حالات میں لوگ اس سب سے بڑی حقیقت سے پہلو تہی کیے رہتے ہیں۔لیکن اس طرح کی معروف شخصیات کے ساتھ پیش آنے والے ایسے واقعات باقی لوگوں کو اس عظیم حقیقت کی طرف متوجہ کرنے کا عمل ہوتے ہیں۔انسانیت کے علاوہ اس خط کے دوسرے مخاطب مسلمان ہیں۔ مسلمان ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا کے وارث ہیں۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ انبیا کے اصل مشن یعنی آخرت کے انذار اور یاددہانی کو زندہ رکھیں۔ مگر مسلمان اس کام کو چھوڑ کر دوسرے کاموں میں مصروف ہیں۔ حتیٰ کہ ایک مسلمان’ عرفان خان‘ کے خط سے بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ موت کو ابدی زندگی کا آغاز سمجھتا ہے۔مسلمانوں کی اپنی ذمہ داری سے یہ غفلت ایک انتہائی سنگین جرم ہے۔ یہ جرم اتنا بڑا ہے کہ اس کی سزا کے طور پر دنیا بھر کے مسلمانوں پر ذلت، مسکنت اور مغلوبیت مسلط کردی گئی ہے۔ مگر مسلمان اپنے اس جرم کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ وہ انسانیت تک خدا کا پیغام پہنچانے پر تیار نہیں۔ ان کا اصل مسئلہ دنیا کا غلبہ اور اقتدار ہے۔ بالکل فلمی اداکار عرفان خان کی طرح جس کا سب سے بڑا مسئلہ دنیا تھی اور جس دنیا سے رخصتی کے اعلان نے اس کوتوڑ کر رکھ دیا۔آج کا مسلمان بھی اسی دنیا کے لیے جیتا اور مرتا ہے۔ مسلمانوں کی قیادت اسی دنیا کے غلبے اوراقتدار کو سب سے بڑا مسئلہ بنائے ہوئے ہے جبکہ خدا کی اسکیم میں یہ دنیا ایک امتحان، ایک عارضی قیام گاہ اور ایک متاع حقیر کے سوا کچھ نہیں۔ عرفان خان کا یہ خط دنیا بھر کے ان مسلمانوں کی بھرپور ترجمانی کرتاہے جو انفرادی اور اجتماعی سطح پر دنیا ہی کو اصل مسئلہ بنائے ہوئے ہیں۔ مگر جب موت سامنے آئے گی، جب ڈاکٹر جواب دے دیں گے، جب ہم اپنے اپنے حصے کے کینسر کی خبر سنیں گے تو معلوم ہوجائے گا کہ دنیا کی زندگی ایک دھوکے کے سوا کچھ نہ تھی۔فرد کا معاملہ تو پھر اسی روز طے ہوگا جب اصل زندگی شروع ہوگی۔ مگر مسلمانوں کا اجتماعی معاملہ آج ہی طے ہوچکا ہے۔ ان پر اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی کے جرم میں ذلت، مغلوبیت اور رسوائی مسلط کی جاچکی ہے۔ وہ لاکھ کوشش کرلیں، ذلت کی یہ رات ان پر سے ختم نہیں کی جائے گی جب تک کہ وہ دنیا تک آخرت کا پیغام پہنچانا اور آخرت کا انذار کرنا اپنا اصل مقصد نہیں بنالیتے۔
لیجیے یہ ہے عرفان خا ن کا خط
’’کچھ مہینے پہلے اچانک مجھے پتا چلا تھا کہ میں نیورواینڈوکرن کینسر میں مبتلا ہوں۔ میں نے پہلی بار یہ لفظ سنا تھا۔ سرچ کرنے پر میں نے پایا کہ اس لفظ پر بہت زیادہ ریسرچ نہیں ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ ایک نایاب جسمانی حالت کا نام ہے اور اس وجہ سے ا س کے علاج میں غیریقینی زیادہ ہے۔ ابھی تک اپنے سفر میں ،میں تیزگامی سے چلتا چلا جا رہا تھا۔ میرے ساتھ میرے منصوبے، توقعات، خواب اور منزلیں بھی تھیں۔ میں ان میں ملوث بڑھا جا رہا تھا کہ اچانک ٹی سی نے پیٹھ پر ٹیپ کیا، ‘ آپ کا اسٹیشن آ رہا ہے، پلیز اتر جائیں۔ ‘ میری سمجھ میں نہیں آیا۔نہ نہ، میرا اسٹیشن ابھی نہیں آیا ہے ۔جواب ملا اگلے کسی بھی اسٹاپ پر اترنا ہوگا،آپ کی منزل آ گئی۔ اچانک احساس ہوا کہ آپ کسی ڈھکن (کارک )کی طرح انجان ساگر میں غیر متوقع لہروں پر بہہ رہے ہیں۔ لہروں کو قابو کرنے کی غلط فہمی لیے۔اس ہڑبونگ، سہم اور ڈر میں گھبراکر میں اپنے بیٹے سے کہتا ہوں، ‘ آج کی اس حالت میں میں صرف اتناہی چاہتا ہوں میں اس ذہنی حالت کو ہڑبڑاہٹ، ڈر، بدحواسی کی حالت میں نہیں جینا چاہتا۔ مجھے کسی بھی صورت میں میرے پیر چاہیے ، جن پر کھڑا ہوکر اپنی حالت کو غیر جانبدار ہوکر جی پاؤں میں کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔ ‘
ایسی میری منشاتھی، میرا ارادہ تھا۔
کچھ ہفتوں کے بعد میں ایک ہاسپٹل میں بھرتی ہو گیا۔ بے انتہا درد ہو رہا ہے۔ یہ تو معلوم تھا کہ درد ہوگا، لیکن ایسا درد؟ اب درد کی شدت سمجھ میں آ رہی ہے۔ کچھ بھی کام نہیں کر رہا ، نہ کوئی تسلی اور نہ کوئی دلاسہ۔ پوری کائنات اس درد کے پل میں سمٹ آئی تھی۔ درد خدا سے بھی بڑا اور عظیم محسوس ہوا۔میں جس ہاسپٹل میں بھرتی ہوں، اس میں بالکنی بھی ہے۔ باہر کا نظارہ دکھتا ہے۔ کوما وارڈ ٹھیک میرے اوپر ہے۔ سڑک کے ایک طرف میرا ہاسپٹل ہے اور دوسری طرف لارڈس اسٹیڈیم ہے۔ وہاں ووین رچرڈس کا مسکراتا پوسٹر ہے، میرے بچپن کے خوابوں کا مکہ۔ اس کو دیکھنے پر پہلی نظر میں مجھے کوئی احساس ہی نہیں ہوا۔ مانو وہ دنیا کبھی میری تھی ہی نہیں۔میں درد کی گرفت میں ہوں۔اور پھر ایک دن یہ احساس ہوا، جیسے میں کسی ایسی چیز کا حصہ نہیں ہوں، جو متعین ہونے کا دعویٰ کرے نہ ہاسپٹل اور نہ اسٹیڈیم۔ میرے اندر جو باقی تھا، وہ اصل میں کائنات کی لامحدود قوت اور عقل کا اثر تھا۔ میرے ہاسپٹل کا وہاں ہونا تھا۔ من نے کہا، صرف غیریقینی ہی متعین ہے۔اس احساس نے مجھے سپردگی اور بھروسے کے لئے تیار کیا۔ اب چاہے جو بھی نتیجہ ہو، یہ چاہے جہاں لے جائے، آج سے 8 مہینوں کے بعد، یا آج سے 4 مہینوں کے بعد، یا پھر 2 سال133 فکر درکنار ہوئی اور پھر غائب ہونے لگی اور پھر میرے دماغ سے جینے مرنے کا حساب نکل گیا۔پہلی بار مجھے لفظ ’ آزادی ‘ کا احساس ہوا، صحیح معنی میں! ایک کامیابی کا احساس۔اس کائنات کی کرنی میں میرا یقین ہی مکمل سچ بن گیا۔ اس کے بعد لگا کہ وہ یقین میرے ہر سیل میں بیٹھ گیا۔ وقت ہی بتائے گا کہ وہ ٹھہرتا ہے کہ نہیں! فی الحال میں یہی محسوس کر رہا ہوں۔س سفر میں ساری دنیا کے لوگ سبھی ، میرے صحت مند ہونے کی دعا کر رہے ہیں، میں جن کو جانتا ہوں اور جن کو نہیں جانتا، وہ سبھی الگ الگ جگہوں اور ٹائم زون سے میرے لئے عبادت کر رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کی دعائیں مل کر ایک ہو گئی ہیں۔ایک بڑی طاقت تیز رفتار زندگی میرے سپائن سے مجھ میں داخل ہو کر سر کے اوپر کھوپڑی سے پھوٹ رہی ہے۔پھوٹ کر یہ کبھی کلی، کبھی پتی، کبھی ٹہنی اور کبھی شاخ بن جاتی ہے۔ میں خوش ہوکر ان کو دیکھتا ہوں۔ لوگوں کی اجتماعی دعا سے پھوٹی ہر ٹہنی، ہر پتی، ہر پھول مجھے ایک نئی دنیا دکھاتی ہے۔
احساس ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ لہروں پر ڈھکن (کارک) کا کنٹرول ہو جیسے آپ قدرت کے پالنے میں جھول رہے ہوں۔
بڑی عدالت
آخر کار ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں نواز شریف کو دس، مریم نواز کو سات اور کیپٹن صفدر کو ایک برس کی سزا سنادی گئی۔جرمانہ اورجائیداد ضبط کیے جانے کی سزا اس کے علاوہ ہے۔نواز شریف کے مخالفین نے فیصلے پر جشن منایا جبکہ حامیوں نے اسے ظلم اور سازش قراردیا۔یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ اس دنیا میں مکمل حقائق کبھی سامنے نہیں آتے۔مگر عنقریب ایک بڑی عدالت قائم ہونے والی ہے۔ یہ نواز اور مریم نواز جیسے بڑے لوگوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر انسان کے لیے لگائی جائے گی۔ہم میں سے ہر شخص کو اس عدالت میں پیش ہونا ہوگا۔ اگر کوئی ظلم، کوئی فریب، کوئی حق تلفی اور کسی قسم کی کوئی برائی نامہ اعمال میں ہوگی تو خدا کی عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔ مگر فیصلہ سنانے سے قبل ہر ثبوت پیش کیا جائے گا۔فرشتوں کا مرتب کیا ہوا مکمل ریکارڈ خدائی عدالت میں پیش ہوگا۔تنہائی میں کی گئی گفتگو سب کے سامنے سنادی جائے گی۔ خفیہ سازشوں اور مکر کی ہر کہانی اس طرح بے نقاب کی جائے گی کہ لوگ اپنی آنکھوں سے اسے دیکھیں گے۔دلوں کے بھید مکمل طور پر ظاہر کردیے جائیں گے۔ کوئی مجرم اگر اس پر بھی اپنے جرائم سے منکر ہوگا تو اس کا منہ بند کرکے اس کے ہاتھ ، پاؤں ، جلد حتیٰ کہ اس کی زبان سے بھی اس کے خلاف گواہی دلواکر حق کے مطابق فیصلہ کردیا جائے گا۔آج ہر شخص کی زبان پر نواز مریم کیس کا فیصلہ ہے، مگر لوگ یہ بھولے ہوئے ہیں کہ بہت جلد خدا ان کا فیصلہ بھی کرنے والا ہے۔ لوگوں کو اپنے فیصلے کے سنگین اور ابدی نتائج کا اندازہ ہوجائے تو وہ سیاست کو بھول کر اپنی توبہ اور اپنی اصلاح کا عمل شروع کردیں۔ مگر افسوس آج ہر شخص دوسروں کا محتسب بنا ہوا ہے اور اپنے آپ کو بھولا ہوا ہے۔خود اپنے ہاتھ اور زبان سے دوسروں کو تکلیف دیتا اور ان کی حق تلفی کرتا ہے۔ ایسے غافل لوگ خدا کی عدالت سے کبھی بری نہیں ہوسکتے۔
ڈاکٹر ایلیس سِلور کی کتاب میں اس حوالے سے بہت کچھ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کے دلائل کو ابھی تک کوئی جھوٹا نہیں ثابت کر سکا۔ 
میں اس کے سائنسی دلائل اور مفرو ضوں پر غور کر رہا تھا۔ یہ کہانی ایک سائنسدان بیان
کر رہا ہے یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقی داستان ہے جسے انسانوں کی ہر الہامی کتاب میں بالکل اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔ میں اس پر اس لئے تفصیل نہیں لکھوں گا کیونکہ آپ سبھی اپنے باپ آدم اور حوا کے قصے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ سائنس اللہ کی طرف چل پڑی ہے۔ سائنسدان وہ سب کہنے پر مجبورہوگئے ہیں جو انبیا کرام اپنی نسلوں کو بتاتے رہے تھے۔ 
ارتقاء کے نظریات کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔ اب انسانوں کی سوچ کی سمت درست ہو رہی ہے۔ یہ سیارہ ہمارا نہیں ہے۔یہ میں نہیں کہتا بلکہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیشمار بار بتا دیا تھا۔ اللہ پاک نے اپنی عظیم کتاب قران حکیم میں بھی بار بار لاتعداد مرتبہ یہی بتا یا کہ اے انسانوں یہ دنیا کی زندگی تمہاری آزمائش کی جگہ ہے۔ جہاں سے تم کو تمہارے اعمال کے مطابق سزا و جزا ملے گی۔

***