حضور ﷺ كے ايك فرمان پر اعتراض

مصنف : ابوبکر قدوسی

سلسلہ : سیرت النبیﷺ

شمارہ : اپريل 2023

سيرت النبي ﷺ

حضو ر ﷺ كے ايك فرمان پر اعتراض كا جواب

ابوبكر قدوسي

ایک مشہور واقعہ ہے کہ جو حدیث میں آیا ہے اور اس پر ہمارے لبرلز اور ملحدین نکتہ چیں ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو ہدف تنقید بناتے ہیں واقعہ یوں ہے کہ ، راوی قصہ درد بیان کرتے ہیں:

، إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَطَبَ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ عَلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ، فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ النَّاسَ فِي ذَلِكَ عَلَى مِنْبَرِهِ هَذَا وَأَنَا يَوْمَئِذٍ مُحْتَلِمٌ، فَقَالَ: «إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّي، وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا»، ثُمَّ ذَكَرَ صِهْرًا لَهُ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، فَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي مُصَاهَرَتِهِ إِيَّاهُ، قَالَ: «حَدَّثَنِي، فَصَدَقَنِي وَوَعَدَنِي فَوَفَى لِي، وَإِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلاَلًا، وَلاَ أُحِلُّ حَرَامًا، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ أَبَدًا» صحیح بخاری - حدیث 3110

کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں ابو جہل کی ایک بیٹی ( جمیلہ نامی رضی اللہ عنہا ) کو پیغام نکاح دے دیا تھا ۔ میں نے خود سنا کہ اسی مسئلہ پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسی منبر پر کھڑے ہو کر صحابہ کو خطاب فرمایا ۔ میں اس وقت بالغ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے ۔ اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ ( اس رشتہ کی وجہ سے ) کسی مشکل میں نہ پڑجائے کہ اپنے دین میں وہ کسی فتنہ میں مبتلا ہو ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندان بنی عبد شمس کے ایک اپنے داماد ( عاص بن ربیع ) کا ذکر کیا اوردامادی سے متعلق آ پ نے ان کی تعریف کی ‘ آپ نے فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جوبات کہی سچ کہی ‘ جو وعدہ کیا ‘ اسے پورا کیا ۔ میں کسی حلال ( یعنی نکاح ثانی ) کو حرام نہیں کرسکتا اور نہ کسی حرام کو حلال بناتا ہوں ‘ لیکن اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گی

اس حدیث کو لے کر کے یہ اعتراضات کیے جاتے ہیں اور جملے کسے جاتے ہیں ۔۔۔۔

کہتے ہیں : خود کی بھی زیادہ شادیاں اور دوسروں کو بھی ترغیب جبکہ داماد پر پابندی کہ دوسری شادی نہ کرے ۔۔کہتے ہیں دوسروں کی بیٹیوں پر سوتن لانا گویا ثواب کا کام اور اپنی بیٹی پر سوتن آنے کی خبر پر غضب ناکی ۔۔۔، یہ اعتراضات اپنے اندر پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ مبالغہ آمیز دروغ گوئی سے کام لے کر حقائق کو بدلا جاتا ہے ۔۔۔

حدیث میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو دوسرا نکاح کرنے سے منع کیا ہو بلکہ حدیث کے شروع میں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں :

اِنِّیْ لَسْتُ اُحَرِّمُ حَلاَلاً ، وَلاَ اُحِلُّ حَرَامًا ،’’بلا شبہ میں حلال کو حرام نہیں کرتا اور نہ ہی حرام کو حلال کرتا ہوں ۔۔۔یہ الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت بھی یہ خیال تھا کہ لوگ کہیں اس سے یہ مطلب نہ نکال بیٹھیں کہ یہ نکاح ثانی کی ممانعت ہے ، سو بہت صراحت و وضاحت سے فرمایا کہ"میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کر رہا ..."

پھر حدیث کے اگلے حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کی اس تجویز کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان فرمایا :وَاﷲِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُوْلِ اﷲِ وَبِنْتُ عَدُوِّ اﷲِ اَبَدًا»’’ بخدا رسول اللہ کی بیٹی اور عدواﷲ کی بیٹی دونوں کبھی جمع نہیں ہوتیں‘‘

بعض اہلِ علم اس کو بطورِ حکم لیتے ہیں اور بعض بطور خبر ۔۔۔۔لیکن جو بھی سمجھا جائے اس جملے میں چھپا درد سمجھنے کے لئے آپ کو مدینہ سے مکہ واپس جانا پڑے گا ، کچھ دیر کے لیے صحن کعبہ کا یہ منظر اپنے تصور میں لانا پڑے گا ۔ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں نماز پڑھ رہے تھے۔ ابو جہل اور قریش کے کچھ لوگ وہاں موجود تھے۔ اس دن مکہ معظمہ میں ایک اونٹ نحر کیا گیا تھا۔ ابو جہل نے کہا کون آل فلاں کے اونٹ کی طرف جائے گا وہاں اس کا گوبر، خون اور اوجھڑی لائے پھر آپ کے سجدہ کے وقت آپ کے کندھوں پر ان چیزوں کو ڈال دے۔ کچھ لوگ گئے اور اوجھڑی اٹھا لائے۔ ایک بدبخت عقبہ بن ابی معیط نے سجدہ کی حالت میں اس غلاظت کو آپ کے کندھوں پر رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی دیر تک اس وزن کے سبب سجدے کی حالت میں پڑے رہے۔ کفار مکہ ہنستے رہے حتی کہ ہنسنے کے سبب وہ ایک دوسرے پر جھکے جاتے تھے ہاتھوں پر ہاتھ مارتے اور ٹھٹھہ اڑا رہے تھے۔

ایک شخص نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خبر دی وہ ابھی کم عمری میں ہی تھیں ، دوڑتی ہوئی آئیں آپ ابھی تک سجدہ ہی میں تھے۔ انہوں نے آپ پر سے اوجھڑی ہٹائی اور کافروں کو برا بھلا کہنا شروع کیا۔

جب آپ نے نماز ختم کی تو آپ نے دعا کی کہ"اے اللہ قریش کو پکڑلے۔ اے اللہ قریش کو پکڑ لے۔"

یہ بددعا قریش کو بہت شاق گزری کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر میں دعا قبول ہوتی ہے جب انہوں نے بددعا سنی تو ہنسنا بند کر دیا اور خوفزدہ ہو گئے۔ پھر آپ نے ایک ایک کا نام لیا "اے اللہ عمرو بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، عقبہ بن ابی معیط، امیہ بن خلف اور عمارہ بن ولید کو پکڑ لے۔"

جن لوگوں کے آپ نے نام لیے یہ سب جنگ بدر میں قتل ہوئے اور عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئے۔

(صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر باب الدعاء علی المشرکین، مسلم کتاب الجہاد باب مالقی النبی صلی اللہ علیہ وسلم من االمشرکین المنافقین)

یارو ! جس نبی کو طائف والوں نے پتھر مارے اور لہو یوں بہا کہ ایڑیوں پر جم گیا اور جوتے نہیں اترتے تھے ۔ پہاڑوں کا فرشتہ شدت غم و غضب سے آیا کہ اس بستی پر پہاڑ الٹ دے ،لیکن ادھر رحمت ہی رحمت مسکرا رہی تھی کہ نہیں ان کو خبر نہیں کہ میں کون ہوں اللہ میری قوم کو ہدایت دے ۔۔۔۔۔

لیکن آج کیوں دعا ، بددعاء ہو گئی ۔۔۔ہاں ننھی فاطمہ کے آنسو ، بیٹی کا دکھ اور ظالموں کا ٹھٹھہ دکھ دے گیا ۔۔۔۔اور برسوں پرانا یہ دکھ اس خبر سے تازہ ہو گیا ۔۔۔۔لیکن دیکھیں رسول کیسے انصاف پرور اور دور رس نگاہ رکھنے والے ، مزید فرمایا «إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّي، وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا»

فاطمہ مجھے سے ہے ، اسی ایک جملے پر ہزار جہان قربان ۔۔ سیدہ کی عظمتیں رشک کے ہزار در کھولتی ہیں ۔۔۔ فرمایا"مجھے خوف ہے کہ فاطمہ اپنے دین کے معاملے میں کسی آزمائش میں نہ گرفتار ہو جائے "

اب اس امکان کو سمجھیں ۔۔ وہ خاتون جو سیدنا عکرمہ کی بہن اور ابی جہل کی بیٹی تھیں ، اب مسلمان ہیں اور صحابیہ ہیں ۔۔ سو سوکناپے کے رشتے سے عام روٹین میں انسان کا دل تنگ ہوتا ہے تو یہاں تو ایک تلخ ماضی بھی ساتھ ساتھ چلتا آ رہا ہے ۔۔ سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فکر تھا کہ سوکناپے کے اس رشتے کے بعد ، ماضی کی تلخ یادوں کے سبب ، سیدہ اس خاتون کے معاملے میں کہیں اعتدال کو کھو نہ بیٹھیں اور اس خاتون کے ساتھ ایسی زیادتی ہو جائے کہ جو گناہ کے زمرے میں آ جائے ۔۔۔۔۔ سو اس فکر کا اظہار کیا ۔۔۔ اس تمام پس منظر میں اگر کوئی درد دل رکھنے والا ہو ، اور اگر کوئی ماضی میں سفر کرے اور کعبے کے اس صحن میں جا نکلے کہ جہاں ایک معصوم بچی اپنے بابا پر سے یہ غلاظت ہٹا رہی تھی اور آنسوؤں کے پیچھے شقی القلب ، وحشی صفت لوگوں کے قہقہے گونج رہے تھے ۔۔۔ جو ایسا تصور قلب و ذہن میں لا سکے وہ اس رشتے پر موجود تحفظات کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ ۔۔بس پہلو میں دل اور درد دل ہونا چاہیے ۔۔۔۔لیکن سنے کون قصہ درد دل ۔۔۔۔اور اگر آپ کی فہم و شعور سے جنگ نہیں تو ٹھنڈے دل سے غور کریں گے اس نتیجے پر پہنچنا بہت آسان ہو گا کہ یہ فیصلہ حلال و حرام کا نہیں محض انتظامی تھا اور اس کا اتنا ہی فائدہ اس خاتون کو بھی ہوا کہ جو نکاح سے رہ گئی ۔۔۔ کیونکہ ایسا تلخ ماضی ہو تو زندگی کبھی خوشگوار نہیں ہوتی ۔