کون سا میں؟

مصنف : آفاق احمد

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مارچ 2019

گاڑی میں مغرب کی نماز کے لیے مسجد کی طرف جا رہا تھا، ساتھ والی سیٹ کا دروازہ صحیح طرح بند معلوم نہ ہورہا تھا، موڑ پر بالکل آہستہ کرتے ہوئے اُسے کھول کر بند کرنے لگا۔ پاس سے ایک نمازی گزر رہے تھے، وہ میرا دروازہ کھولنے سے یہ سمجھے کہ میں اُنہیں مسجد تک ساتھ بیٹھنے کی آفر کررہا ہوں۔انہوں نے فوراً دروازہ کھولا اور بیٹھ گئے، میرا تو موڈ ہی آف ہوگیا، مان نہ مان میں تیرا مہمان۔انہوں نے بشاشت سے سلام کیا، میں نے بے دلی سے جواب دیا۔مغرب کی اذان ہورہی تھی، اُنہوں نے موذن کی آواز اور ردھم کی تعریف کی، میں چُپ رہا۔ مسجد آچکی تھی، انہوں نے جزاک اللہ کہا اور اتر گئے۔ چہرے کی سنجیدگی سے لگ رہا تھا کہ وہ میری ناگواری بھانپ چکے ہیں، خیر مجھے کیا؟ میرا موڈ کئی دن اس بات کو یاد کرکے خراب ہوتا رہا۔
''میں'' عشاء کی نماز پیدل پڑھنے جارہا تھا، سخت سردی تھی، ہلکی ہلکی خُنک ہوا چل رہی تھی۔اچانک ایک گاڑی میرے پاس رکی، کسی نے جھک کر فرنٹ دروازہ کھول دیا، اندھیرے کی وجہ سے منظر واضح نہ تھا، خیال تھا کہ پڑوسی دوست ہونگے۔ جب جھک کر دیکھا تو ایک نمازی ساتھی تھے جو گھر سے قدرے دور رہتے تھے۔ بس اتنی واقفیت تھی کہ آتے جاتے سلام ہوگیا، نام تک سے واقف نہ تھا، گھر کی سمت کا اندازہ تھا لیکن گھر تک کا اندازہ نہ تھا، بس یہ تعلق تھا۔بہت اچھا لگا کہ انہوں نے بٹھا لیا، تھوڑا سا آگے بڑھے کہ ایک بزرگ نمازی لاٹھی کے سہارے جاتے نظر آئے۔ وہ ساتھی بولے کہ اوہو! چچا بھی جارہے ہیں 
(صرف عمر کے ادب میں کہا، حقیقی چچا نہ تھے)۔ گاڑی روک دی، میں پچھلی سیٹ پر خود ہی چلا گیا تاکہ بزرگ نمازی آرام سے آگے بیٹھ سکیں۔ اُن بزرگ نمازی نے گویا سکون کا سانس لیا کہ بڑھاپے اور سردی کی وجہ سے چلنا دشوار ہوا کرتا ہے۔وہ بزرگ راستے بھر دل سے بھرپور دعائیں دیتے رہے، جیسے ہی مسجد آئی، میں نے بھی جزاک اللہ بھائی کہا، ایک مسکراہٹ دی اور اتر گیا۔ اُن ساتھی نمازی کے چہرے پر عجب سکون تھا۔
''میں'' نماز میں سوچتا رہا کہ ساتھی نمازی اتنے مختصر سے وقت میں کتنی کمائی کر گئے، شاید ایک سو بیس یا ایک سو پچاس سیکنڈ ہوں فقط۔
دو نمازیوں کی مسجد جانے میں معاونت۔ دو نمازیوں کو سردی کے احساس سے وقتی تحفظ دے دینا۔ وقت ایسے بچانا کہ تینوں کو پہلی رکعت مل گئی ورنہ ایک رکعت ضرور بالضرور نکل جانی تھی۔ بزرگ نمازی کی پورا راستہ دل سے نکلتی بھرپور دعائیں۔ ہم دو کا جزا ک اللہ کہنا، ایسے بدلے کی دعا دینا جو رب تعالٰی نے اپنی شان کے مطابق دینا ہے۔
ساتھ ساتھ ''میں'' اپنے واقعے کا تقابل کررہا تھا۔پہلے واقعے میں مجھے نمازی کا بیٹھنا سخت ناگوار گزرا اگرچہ میں بھی مسجد ہی جارہا تھا۔ میں نے اُن ساتھی کا بے رُخی اور ناگواری سے ساتھ دیا اگرچہ ایک سو بیس یا ایک سو پچاس سیکنڈ کا ہی تھا۔ ایسی ناگواری کہ وہ ساتھی بھی سمجھ چکے تھے اور اپنی غلط فہمی پر شرمسار ہوئے۔
واقعات بالکل ایک ہی طرز کے ہیں لیکن ڈرائیونگ سیٹ والے کے رویے، اخلاص میں زمین آسمان کا فرق ہے، دل کی وسعتوں کا تقابل ہی نہیں، ظاہری بات ہے کہ جزا ملنے کا بھی فرق ہو گا۔اول الذکر کئی دن ناگواری کا شکار رہا جبکہ ثانی الذکر کئی دن طمانیت اور سکون کا شکار رہے گا۔ایسے چھوٹے چھوٹے مواقع ہماری زندگی میں باربار آتے ہیں، یہ ہم پر ہے کہ ہم کونسا ''میں'' بنتے ہیں۔