ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک مٹی خور چِینی کی ڈلیاں خریدنے پنساری کی دوکان پر پہنچا۔ خود تو وہ مٹی خور تھا، جہاں دل چاہے زمین پر منہ مارتا پھرے، مگر اُسے اپنے گھر والوں کے لیے چینی چاہیے تھی۔ ہر کوئی تو مٹی خور نہیں ہوتا۔
اِس سے پہلے کہ کہانی آگے بڑھے، آئیے اول مترجم نکولسن اور دوم مترجم مُسافرِشَب کے حاشیوں سے مٹی خوری پر کچھ جان لیں۔ اِس کے بغیر لطف نہیں آئے گا۔
مٹی خوری کے شواہد ہمیں برِاعظم افریقہ میں زیمبیا اور تنزانیہ کی سرحد پر 20 لاکھ برس قدیم انسان نماؤں میں ملے ہیں جنہیں ''ہومو ہیبلس'' کہا جاتا ہے۔ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ اُن کی خوراک میں کیلشیئم سے لبریز مٹی شامل تھی جس نے مستقبل میں فائدہ پہنچانا تھا۔ جدید انسان یعنی ہومو سیپیئنز میں ہومو ہیبلس کی جینیات موجود ہے، لہذا مٹی خوری بنیادی طور پر انسان کی جبلت میں شامل ہے اور اِس نے ہمیں زبردست فائدہ پہنچایا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ پہلے انسان مٹی کھاتا ہے، بعد میں مٹی اِنسان کھا جاتی ہے۔ انسان رہے نہ رہے، جب تک مٹی رہے گی، انسان تو رہے گا۔ اب اپنے اردگرد مٹی کو دیکھو اور جان لو کہ یہ سب تُم جیسے انسان ہیں۔ اور اول مٹی کہاں سے آئی تھی؟ خلا سے آئی تھی، قدیم ستاروں کے پھٹنے سے وجود میں آئی تھی۔ اب جان چکے ہو گے کہ تُم کون ہو۔
انسان اپنے بچپن میں ہر ایسی چیز جو مٹی خوری میں شامل ہو اُسے کھانے کی کوشش کرتا ہے۔ زرخیز مٹی، چِکنی مٹی، چائنہ مٹی، اور چاک کے علاوہ برف، معدنیات اور قیمتی پتھروں کا سفوف بھی اِس میں شامل ہے۔ صرف نمک واحد چٹان ہے جسے کھانے کا رواج چل پڑا۔ البتہ کم تہذیب یافتہ معاشروں میں آج بھی مٹی خوری کا رواج ہے جس کی بنیادی وجوہات میں مردانہ طاقت کو بحال کرنے میں مدد اور حاملہ خواتین کی اہم غذائی ضروریات کی فوراً فراہمی شامل ہیں۔اُن کے پسماندہ خطوں میں غذائیت کی فوری فراہمی کا یہی ذریعہ ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ حاملہ خواتین اور درویش، مٹی کی محبت میں شدید مبتلا ہوتے ہیں۔جو بھی مسلسل تغیر میں سے گزر رہا ہو گا وہ مٹی سے عشق ضرور کرے گا۔
گاچی، گارا اور چِکنی مٹی میں کیلشیئم، کاپر، میگنیشیئم، لوہا اور زِنک شامل ہوتے ہیں جنہیں مٹی سے نکلی غذاؤں سے حاصل کرنے کا رواج ہے مگر مٹی خور یہ سَب براہِ راست مٹی سے حاصل کر جاتا ہے اگرچہ طرح طرح کے جراثیم سے بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ مٹی خور مٹی خوری کے فائدے یا نقصانات نہیں دیکھتا بلکہ مٹی بھی ایک نشہ ہے ۔یہ صرف مٹی خور جانتے ہیں۔ جیسے مٹی کی خوشبُو کا بھی نشہ ہوتا ہے۔ بارش کے آغاز میں جو سوندھی سوندھی مٹی کی خوشبُو اُٹھتی ہے وہ 20 لاکھ برس کی جینیات کا زمانی سفر کراتی ہے۔
زیادہ تر مٹی خوروں کے اجسام ارتقا کے باعث جراثیم کے خلاف مدافعت پیدا کر لیتے ہیں۔ کچھ مٹی خور جو مدافعت پیدا نہ کر سکیں وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں نے مٹی خوری کو بیماری نہیں سمجھا بلکہ مٹی پر کچھ حفاظتی اقدام برت کر اُسے محفوظ بنا کر بیچنے لگے ہیں۔ مگر وہ مٹی خور ہی کیا جو مٹی خرید کر کھائے ۔یہ تو آزادی سلب کرنے والی بات ہے۔ عاشقینِ فطرت بھی تخیلاتی طور پر مٹی خور ہی ہوتے ہیں۔
ایک اور معاملہ بھی ہوتا ہے جسے خود خوری کہتے ہیں۔ اس میں انسان اپنی جِلد کھاتا ہے، ناخن چباتا ہے اور اپنے ہی خون کا رسیا ہوتا ہے۔ یہ حالت اِس کہانی کے سیاق و سباق میں نہیں اس لیے کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔
تو، مٹی خور چِینی کی ڈلیاں لینے پنساری کی دوکان پر پہنچا۔ ویسے یہ عجیب بات ہے کہ چِینی کی ڈلی کو مِصری کہتے ہیں۔ مزید یہ کہ چِینی مٹی بھی موجود ہوتی ہے جسے پورسلین کہتے ہیں۔یعنی چِینی بھی مٹی۔
مٹی خور نے پنساری سے کہا ''مجھے ایک رطل کے برابر چِینی کی ڈلیاں تول دو۔''
پنساری نے ترازو کے ایک پلڑے میں رطل کے حساب سے بطور پیمانہ مٹی کی ٹکڑیاں ڈالیں اور دوسرے پلڑے میں چِینی کی ڈلیاں ڈال دیں۔ چِینی کا وزن زیادہ نکلا۔ وہ چِینی کا وزن کانٹ چھانٹ کر درست کرنے میں مشغول ہو گیا۔
مٹی خور کے لیے چِینی اہم نہیں تھی مگر جو دوسرے پلڑے میں مٹی کی لذیذ سی ٹکڑیاں تھیں اُنہیں دیکھ کر اُس کی رال ٹپکنے لگی۔ اُس نے خیال ہی خیال میں خود کو وہ ٹکڑیاں چاٹتے ہوئے دیکھا۔تڑپ ہی اُٹھا۔
پنساری نے چِینی کی چند ڈلیاں تراشنے میں دیر لگا دی۔ مٹی خور سے اتنی دیری برداشت نہیں ہوئی۔ اُس نے چُپکے سے پلڑے میں سے مٹی کی ایک ٹکڑی اُٹھائی اور منہ دوسری جانب کر کے چاٹنے لگا۔مٹی خور سمجھا تھا کہ پنساری مصروف ہونے کی وجہ سے جان نہیں سکا کہ ایک ٹکڑی کم ہے۔ پنساری کو معلوم ہو چکا تھا مگر وہ جان بوجھ کر نظرانداز کر گیا، بلکہ اُس نے مزید دیر لگانا شروع کر دی۔ٹکڑی جب آدھی رہ گئی تو مٹی خور نے نظر بچا کر پرانی ٹکڑی واپس پلڑے میں ڈالی اور ایک نئی ٹکڑی اُٹھا کر چُپکے چُپکے چُوسنے لگا۔ یقیناً وہ عالمِ بالا کی سیر کر رہا تھا۔ وہ بہت خوش ہوا کہ پنساری کو دیر لگ رہی ہے۔ کچھ دیر چوسنے کے بعد اُس نے دوسری بقیہ ٹکڑی بھی واپس رکھ دی۔بالآخر پنساری نے کام مکمل کر کے مٹی خور کے سامنے ترازو درست تول دیا۔ مٹی خور چِینی کا تھیلا اُٹھا کر چل پڑا۔راستے میں مٹی خور نے سوچا ''واہ جی، آج تو دوگنے مزے ہو گئے۔ مٹی بھی کھا لی اور چِینی بھی ملی۔''
پیچھے دوکان پر پنساری سوچ رہا تھا ''مَیں اتنا پاگل نہیں کہ اُسے مٹی کھانے سے روکتا۔ جتنی مٹی وہ کھا رہا تھا، اُتنی میری چِینی بچ رہی تھی۔''
اے چالاک انسان!.. دوسروں کا نقصان کر کے خود فائدے کی لذت اُٹھانے والے یہی سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے دوسروں کے مقابلے میں زندگی سے کچھ زیادہ پا لیا ہے، حالانکہ وہ نقصان میں ہوتے ہیں۔ صرف تخیل کی لذت پائی ہوتی ہے۔ اے اپنے تئیں چالاک انسان! دنیا کی جانب سے ڈھیل ملنے کو اپنا فائدہ ہرگز نہ سمجھنا