نفس اور شیطان میں فرق

مصنف : دار الاِفتا الاِخلاص

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جون 2022

نفس انسان کے اند ایک طاقت ہے، جس سے وہ کسی چیز کی خواہش کرتا ہے، خواہ وہ خواہش بھلائی کی ہو یا برائی کی، اس کو نفس کہتے ہیں اورشیطان ہر باغی و سرکش مخلوق کو شیطان کہا جاتا ہے، خواہ وہ انسانوں میں سے ہو یا جنات و حیوانات میں سے ہو۔
شیطان اپنے خاص معنی کے اعتبار سے ابلیس اور اس کی اولاد پر بولا جاتا ہے، اور معنی عام کے اعتبار سے ہر باغی و سرکش مخلوق کو شیطان کہا جاتا ہے، خواہ وہ انسانوں میں سے ہو یا جنات و حیوانات میں سے۔
نفس اور شیطان میں مختلف اعتبار سے فرق ہے:
۱۔نفس شیطان سے قوی ہے، کیونکہ جس وقت ابلیس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا، اس وقت شیطان نہیں تھا، ابلیس کے نفسِ امّارہ نے اس کو سجدہ کرنے سے روکا تھا- نفس کے بارے اللہ تعالی نے فرمایا ہے: واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی فان الجنۃ ھی الماوٰی۔ (سورۃ النازعات:۴۰،۴۱)
ترجمہ: لیکن وہ جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف رکھتا تھا اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتا تھا، تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگی۔
اس آیت سے نفس کی قوت معلوم ہوتی ہے، اور اس کو روکنے اور کنٹرول کرنے کا اہتمام کرنا پڑتا ہے، جب کہ شیطان کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں: انّ کیدالشیطان کان ضعیفا (سورۃ النساء :۷۶   
ترجمہ: (یاد رکھو کہ) شیطان کی چالیں درحقیقت کمزور ہیں۔
اس آیت سے شیطان کی چال کا کمزور ہونا ثابت ہوگیا، لہذا واضح ہوگیا کہ نفس شیطان سے قوی اور بڑا دشمن ہے۔
۲۔ شیطان کا کام انسان کے دل میں صرف وسوسے ڈالنا ہے، لیکن جب انسان زیادہ دھیان نہیں دیتا، تو وہ فوراً ختم ہو جاتا ہے، لیکن اگر بار بار دل میں وسوسے آرہے ہوں اور گناہ کا تقاضا بار بار ہورہا ہو، تو یہ نفس ہے، اسی طرح اگر بار بار ایک ہی گناہ کا تقاضا ہو، تو یہ نفس کی طرف سے ہے، لیکن اگر ایک دفعہ ایک گناہ کا تقاضا ہوا اور پھر دوسرے گناہ کا، تو یہ شیطان کی طرف سے تقاضا ہو گا، کیونکہ شیطان کو مقصود صرف کوئی گناہ کرانا ہے، اور اس کو گناہ سے حَظّ (لذت اور سرور) نہیں ہوتا اور نفس کو حَظّ (لذت اور سرور) ہوتا ہے۔
۳۔ نفس مہیج (ابھارنے والا) ہے، قرآن مجید میں ہے: إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَة بِالسُّوءِ (سورۃ یوسف:۵۳)ترجمہ:واقعہ یہ ہے کہ نفس تو برائی کی تلقین کرتا ہی رہتا ہے۔اور شیطان صرف مشورہ دیتا ہے، قرآن مجید میں ہے: وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي (سورۃ ابراہیم :۲۲)ترجمہ: اور جب ہر بات کا فیصلہ ہوجائے گا تو شیطان (اپنے ماننے والوں سے) کہے گا : حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو اس کی خلاف ورزی کی، اور مجھے تم پر اس سے زیادہ کوئی اختیار حاصل نہیں تھا کہ میں نے تمہیں (اللہ کی نافرمانی کی) دعوت دی تو تم نے میری بات مان لی۔
اس آیت میں لفظِ "دعوتکم" (میں نے تمہیں (اللہ کی نافرمانی کی) دعوت دی) سے پتہ چلتا ہے کہ شیطان صرف مشورے ہی دیتا ہے، اور اہل اللہ پر اس کا بس نہیں چلتا، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : "إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (۹۹) إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ" (سورۃ النحل: ۹۹۔ ۱۰۰   ) ترجمہ: اس کا بس ایسے لوگوں پر نہیں چلتا جو ایمان لائے ہیں، اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں، اس کا بس تو ان لوگوں پر چلتا ہے، جو اسے دوست بناتے ہیں، اور اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔لہذا واضح ہوا کہ گناہ کا اصل داعی نفس ہوتا ہے، کیونکہ نفس مہیج ہے اور شیطان مشیر ہے، گناہ کے کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔
۴۔ شیطان اس وقت وسوسہ ڈالتا ہے، جب انسان غافل ہو،اور اگر وہ اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول ہو، تو اس وقت وہ بھاگ جاتا ہے، لیکن نفس ہر وقت گناہ پر ابھارتا ہے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے "الوسواس الخناس" کی تفسیر میں منقول ہے کہ "الشیطانُ جاثمٌ علیٰ قلبِ ابنِ ادمَ، فَإذا سَهَا و غَفَلَ وَسْوَسَ وَإِذا ذَکر الله خنسَ" یعنی ’’شیطان اولادِ آدم کے دل میں بیٹھ جاتا ہے، پس جب بندے سے بھول ہوئی اور غفلت میں پڑا تو شیطان وسوسہ اندازی کرتا ہے اور جب بندہ اللہ کو یاد کرتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
خلاصہ کلام :
یہ نفس اور شیطان دونوں ہی انسان کے دشمن ہیں، اور دونوں سے اللہ تعالی کی پناہ مانگنی چاہیے، حدیث شریف میں ہے حضرت ابوذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں جناب نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺمسجد میں تشریف فرما تھے، میں آپ کے پاس بیٹھ گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابو ذر! شیاطین جن اور شیاطین انس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ! کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں؟ فرمایا : ہاں!اس لیے نفس اورشیطان دونوں کے شرّ سے اللہ تعالی کی پناہ مانگنی چاہیے، اللہ تعالی ہمیں نفس اورشیطان کے شرسے محفوظ فرمائے۔ (آمین)
میکے کے تصور میں جینا
مولانا وحیدالدین خان
مشرقی خواتین میں ایک مزاج بہت عام ہے- نکاح کے بعد وہ اپنے سسرال آ جاتی ہیں لیکن نفسیاتی اعتبار سے بدستور وہ اپنے میکے میں جیتی رہتی ہیں- جسمانی اعتبار سے وہ سسرال میں ہوتی ہیں، لیکن ذہنی اعتبار سے وہ بدستور اپنے میکے کی یادوں میں گم رہتی ہیں- خواتین کا یہ مزاج ایک غیر حقیقی مزاج ہے- اس غیر حقیقی مزاج کی بھاری قیمت ان کو یہ دینی پڑتی ہے کہ وہ اپنی سسرال میں غیر ضروری طور پر پریشان رہیں، ان کو کبھی سکون کی زندگی حاصل نہ ہوتی-خواتین کے اندر اس غیر حقیقی مزاج کی اصل ذمہ داری ان کے والدین پر ہے- والدین اپنی نام نہاد محبت کی بنا پر ایسی باتیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بیٹی کو نئی زندگی کا شعور حاصل نہیں ہوتا- والدین اپنی بیٹی کے ساتھ یہ معاملہ محبت کے نام پر کرتے ہیں، لیکن انجام کے اعتبار سے وہ دشمنی ہوتاہے- والدین تو کچھ دنوں کے بعد اس دنیا سے چلے جاتے ہیں ، لیکن اپنی بیٹی کو وہ ہمیشہ کے لئے ایک غیر حقیقی مسئلے میں مبتلا کر کے چھوڑ جاتے ہیں-
مجھے ایک باپ کا حال معلوم ہے- نکاح کے بعد جب انہوں نے اپنی بیٹی کو رخصت کیا تو انہوں نے اپنی بیٹی سے کہہ دیا کہ جہاں تم جا رہی ہو ، وہی اب تمہارا گھر ہے- وہیں کے ماں باپ ،تمہارے ماں باپ ہیں ہم تمہارے لیے دعا کرتے رہیں گے، لیکن اس حقیقت کو سمجھ لو کہ اب تمہارا گھر بھی بدل چکا ہے اور تمہارے ماں باپ بھی- بیٹی کے لئے اپنے والد کی یہ نصیحت بہت مفید ثابت ہوئی- سسرال پہنچتے ہی انہوں نے سسرال کو اپنا گھر بنا لیا- اس کے بعد ان کو زندگی کی وہ تمام خوشیاں اپنی سسرال میں مل گئیں جو انہیں اس سے پہلے اپنے میکے میں حاصل تھیں-زندگی میں کامیابی کا راز حقیقت پسندی ہے- اسی طرح زندگی کے تمام مسائل کا سبب غیر حقیقت پسندانہ مزاج ہے- جو عورت یا مرد اس راز کو سمجھ لیں، وہ یقینی طور پر اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے میں کامیاب هہو جائیں گے-
جدید ذہن اور مذہبی تعبیرات
دورِ حاضر میں جدید ذہن نے مذہبی تعبیرات سے جان چھڑانی تو ضرور چاہی ہے مگر ملتی جلتی تعبیرات نئے ناموں سے ایجاد بھی کر ڈالی ہیں- گویا آج کے انسان کو لفظ مذہب سے تو ضرور چڑ ہے مگر خودساختہ فلسفوں سے مزین آرٹ آف لیونگ یا وے آف لائف اسے خوب متاثر کرتے ہیں. جس میں عقائد سے لے کر عبادات تک موجود ہیں-اسے لفظ خدا سے تو الرجی ہے مگرمدر نیچر ، 'سپریم انٹیلجنس یا کولیکٹیو کانشئیس نیس جیسے اصطلاحات اس کی توجہ کھینچ لیتی ہیں. وہ کسی خالق کے لافانی ہونے کا تو انکاری ہے مگرلاء آف تھرموڈائنامکس کے تحت انرجی کو ابدی و ازلی ماننے سے نہیں جھجھکتا. اسے ملائکہ یا شیاطین و جنات کا ذکر تو نری جہالت محسوس ہوتے ہیں مگر اپنے اردگرد موجودپازیٹو اور نیگٹو انرجیز پر وہ بڑے بڑے سیمنار منعقد کرتا ہے. اسے نظر کے لگنے یا جادو کے ہونے پر تو ہنسی آتی ہے مگرہپناسس یاریموٹ ویوینگ جیسے موضوعات میں 
خوب دلچسپی ہوتی ہے. اسے نماز، تسبیحات، اعتکاف جیسی عبادات تو وقت کا زیاں لگتی ہیں مگر مختلف طریقوں کی میڈیٹشن یایوگا خوب دل کو بھاتے ہیں. اسے دعا کا مانگنا تو سراسر حماقت محسوس ہوتا ہے مگرلاء آف ایٹریکشن جیسے فلسفے اسے اتنے پسند ہیں کہ اس پر لکھی کتب کو بیسٹ سیلر بنادیتا ہے. 
اسے روح کے ہونے پر بات بھی کرنا پسند نہیں مگر کیامائنڈ اور کانشیس نیس ہمارے دماغ سے الگ رہ کر بھی موجود ہوسکتے ہیں؟ اس پر وہ بات کرنے، سننے اور بعض اوقات ماننے پر بھی تیار ہو جاتا ہے. 
زمانے کے انداز بدلے گئے 
نیا دور ہے، ساز بدلے گئے 
عشق
ایک شخص نے درویش سے پوچھا بابا عشق کیا ہوتا ہے ؟درویش نے اس شخص کو غور سے دیکھا اور دھیمے لہجے میں پوچھا یہ بتاؤ بھوک کیا ہوتی ہے؟وہ شخص لاجواب ہو کر درویش کا منہ دیکھنے لگا پھر درویش نے کہا : 
جسے کبھی بھوک لگی ہی نہ ہواسے کوئی کیسے سمجھا جا سکتا ہے کہ بھوک کیا ہے ؟ اور جسے لگتی ہے اسے کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ بھوک کیا ہے اس کا تو اندر بھوک بھوک کا ورد کرتا ہے...!اتنا کہہ کر درویش گہری سوچ میں ڈوب گیا پھر آہستہ سے بولا ‘بابو بھوک نہ ہو تو کھانا بھی بوجھ بن جاتا ہے اسی طرح عشق نہ ہو تو ایمان بھی بوجھ بن جاتا ہے اور انسان پہلی فرصت میں اس سے جان چھڑا لیتا ہے-اللہ تعالی اور اس کے پیارے محبوب کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت نہ ہو تو فرائض اور سنتیں ایک بوجھ بن جاتے ہیں جن سے آگ کے ڈر کی وجہ سے ہی انسان عہدہ برآ ہوتا ہے جب کسی سے محبت ہو تو پھر اس کا نام سن کر جو راحت دل میں پیدا ہوتی ہے اس کا نام سکون قلب  ہے الا بذکر اللّہ تطمئن القلوب کا یہ مطلب  ہے "اور لوگ اللّہ اللّہ اللّہ کا ورد کر کے اس میں سے سکون نکالنا چاہتے ہیں کیا مجازی محبت میں محبوب کے تذکرے سے آپ کو سکون نہیں ملتا ؟ وہ کہاں سے آتا ہے ؟ اسی کنوئیں سے اللّہ والا سکون بھی ملتا ہے مگر شرط پیار کی ہے اور جب پیار ہو جائے اور وہ اصلی والا پیار ہو تو محبوب کے رستے کی تکلیفیں بھی سکون دیتی ہیں گِلے پیدا نہیں کرتیں...!انسان عقل کی تخلیق نہیں عشق کی تخلیق  ہے...!
ایک چڑیا اور چڑا شاخ پر بیٹھے تھے- دُور سے ایک انسان آتا دیکھائی دیا۔چڑیا نے چڑے سے کہا کہ اُڑ جاتے ہیں یہ ہمیں مار دے گا۔چڑا کہنے لگا کہ بھلی لوک دیکھو ذرا اسکی دستار‘ پہناوا‘ شکل سے شرافت ٹپک رہی ہے یہ ہمیں کیوں مارے گا۔جب وہ قریب پہنچا تو تیر کمان نکالی اور چڑا مار دیا-
 چڑیا فریاد لےکر بادشاہ وقت کے پاس حاضرہو گئی۔شکاری کو طلب کیا گیا۔ شکاری نے اپنا جرم قبول کر لیا۔ بادشاہ نے چڑیا کو سزا کا اختیار دیا کہ جو چاہے سزا دے۔ چڑیا نے کہا کہ اسکو بول دیا جائے کہ اگر یہ شکاری ہے تو لباس شکاریوں والا پہنے۔ شرافت کا لبادہ اتار دے-(مولانا رومی)
 ہمیں دعوت نہیں دی
حافظ محمد شارق 
ایک رواج ہمارے ہاں عام ہو چلا ہے کہ خاندان میں کسی کے ہاں کوئی شادی، منگنی یا کوئی خوشی کا موقع ہو اور انھیں دعوت نہ دی جائے تو بے جا ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے حتیٰ کہ اس بات کو جواز بنا کر قطع تعلقی جیسے حرام عمل پر بھی آمادہ ہوجاتے ہیں۔ یہ طعنے زبان پر لائے جاتے ہیں کہ فلاں کو دعوت دی ہمیں نہیں دی ، فلاں کو یاد رکھا ہمیں بھول گئے وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح کے جملے کسنا اور خوشی کی اطلاع پر نیک تمنّاؤں اور دعاؤں کے بجائے دعوت نہ ملنے کی شکایت کرنا درست نہیں ہے۔ ہمارا دین دلوں کو جوڑنے کا حکم دیتا ہے نہ کہ توڑنے کا۔ اگر کسی وجہ سے وہ آپ کو نہ بلا سکے، خواہ بھول ہی گئے ہوں، آپ کا دینی و اخلاقی فرض یہی ہے کہ آپ ان سے غصے ، طعنے اور منہ بنانے کے بجائے مسکراہٹ اور دلی خوشی کے ساتھ دعائیں دیں ۔ یہی ایک بڑے دل اور مومن کی پہچان ہے۔ یقینا اللہ آپ کو بھی خوشیوں سے نوازے گا ۔ حدیث مبارکہ میں منقول ایک مستند واقعہ دیکھیں۔ 
ایک مرتبہ مجلس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف پر زرد  نشان دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے نکاح کیا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے ۔(صحیح بخاری) 
اس شادی میں حضرت عبدالرحمن نے امام کائنات حضرت محمدﷺ تک کو نہیں بلایا حالانکہ آپ وہیں تھے، مگر آپ ﷺ نے شکایت یا ناراضگی کے بجائے دل سے دعا دی۔ یہی ہمارے پیغمبر ﷺ کی سنت ہے یہی دین کا طریقہ ہے۔ آئندہ اس بات پر کسی سے خفا ہونے سے پہلے یہ سوچیے کہ آپ خود کو پیغمبر ﷺ سے زیادہ بڑا سمجھتے ہیں؟(حافظ محمد شارق)
واجِب توبہ ۔۔۔
محمدرضوان خالد
کاشف نیر صاحب کہتے ہیں آپ کا یہ کہنا کہ نماز کسی بھی مسلک کے طریقے سے پڑھیں بس نماز میں اللہ کے سامنے حاضری کا احساس ملنا چاہیے انتہائی نامناسب بات ہے کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے نماز ویسے ہی پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
کاشف بھائی آپ کی بات سے تو آپکی عمر ماشااللہ چودہ سو سال سے کُچھ زیادہ لگتی ہے آپ ویسے ہی نماز پڑھا کیجیے جیسے آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا ہے، میں تو پچھلی صدی کے آخری حصے کی پیدائیش ہوں، میری بدقسمتی سمجھیے کہ میں اپنے حبیبؐ کو نماز پڑھتے نہ دیکھ پایا، نہ ہی میں نے صحابہؓ کو نماز پڑھتے دیکھا جو نبیؐ کو دیکھ کر اُنہیں کی طرح نماز پڑھتے تھے۔ لیکن میں مختلف مسالک کے لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھتا ہوں اور ایک دوسرے سے کچھ مختلف طریقوں سے نماز پڑھنے والے اُن سبھی مسلمانوں کے پاس ایسی مُستند روایات موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اُنکا نماز کا طریقہ ہی بالکل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جیسا ہے-
 اُن سب کو جھٹلانے کا نہ مجھ میں حوصلہ ہے نہ خواہش، اس لیے میں اپنے اردگرد مسلمانوں کو دیکھ کر ہی نماز پڑھتا ہوں- 
جب مالکیوں کی مسجد میں جاؤں انکی طرح نماز پڑھتا ہوں، جب حنفیوں کے ساتھ پڑھوں انکی طرح، دیگر مسالک کی میرے شہر میں مسجد ہی نہیں ورنہ انکے ساتھ انہی کی طرح نماز ادا کرتا کیونکہ سب مسلمان گروہ کہتے ہیں کہ انکے بڑوں کے بڑوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ویسے ہی نماز پڑھتے دیکھا تھا جیسے یہ پڑھتے ہیں۔ میں ان سب کو سچا مانتا ہوں کیونکہ میرے پاس انہیں جھٹلانے کی کوئی وجہ نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ روزِ قیامت آپ ضرور دیکھیں گے کہ اللہ کو میرا ظنّ پسند آیا- نماز میں میرا رکوع اور سجدہ طویل ہو یا مختصر، ہاتھ بندھے ہوں یا چھوڑے ہوں، پاؤں کے بیچ فاصلہ جتنا بھی ہو، اگر نماز میں یہ کم سے کم احساس بھی نہ ملے کہ اللہ عین اس لمحے محبت سے دیکھ رہا ہے تو وہ نماز میں بالکل ورزش جیسی سمجھتا ہوں، خواہ ہاتھ باندھ کر پڑھی ہو یا ہاتھ چھوڑ کر۔ پھر پانچ نمازوں کے درمیان اپنے روزمرّہ کام کرتے ہوئے بھی نماز جیسا احساس نہ ملے تو میرے نزدیک اُس دن توبہ واجب ہو جاتی ہے، خواہ اُس سارے دن کی نمازیں تکبیرِ اُولٰی کے ساتھ حرم پاک میں پڑھی ہوں یا مسجدِ نبویؐ میں۔