علم نافع ‘ حسن خاتمہ

مصنف : خرم شہزاد

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : نومبر 2021

خرم شہزاد ‘ فتح  شیر

خُدا سے وہ علم مانگیں جس سے آپ کے عقائد اور اعمال ٹھیک ہوجائیں ۔ آپ کی اصلاح ہوجائے ۔ ایسے علم کو "علمِ نافع" کہتے ہیں ۔  ہمارے آقا سیدنا محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ علمِ نافع کی دعا مانگتے اور اُمت کو بھی تلقین فرماتے ۔ جب علمِ نافع نصیب ہوجائے تو اللہ سے عمل کرنے کی توفیق مانگنی چاہئے ، عمل بھی اُس طریقے سے جس طریقے سے سیدنا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام نے کیا ، ورنہ ہر وہ عمل جو رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے طریقے پر نہ ہو ، وہ عمل خُدا کی بارگاہ میں رد کیا جاتا ہے ۔عمل نصیب ہوجائے تو اللہ رب العزت سے اِس عمل پر اسقامت کی توفیق مانگنی چاہئے ۔ مفسرین ، محدثین اور فقہاءکرام فرماتے ہیں کہ استقامت کرامت سے بھی بڑی چیز ہے ۔ جب استقامت نصیب ہوجائے تو اللہ رب العزت سے خلوص مانگنا چاہئے ، کہ یااللہ ہمیں ایسا خلوص نصیب فرمائے کہ ہمارا سب کچھ خالص آپ کی رضا کے لئے ہو ۔

جب خلوص نصیب ہوجائے تو اللہ سے قبولیت مانگنی چاہئے ، کہ اے اللہ تو پاک ہے ہم بہت کمزور ، خطاکار اور گناہ گار ہیں ،   ہماری ٹوٹی پھوٹی ہوئی ناقص عبادت کو قبول فرمائیں ۔اعمال کی قبولیت کا پتہ اِس دنیا میں نہیں چلتا البتہ بہت سی نشانیاں کتابوں میں موجود ہیں جس میں سب بڑی ’’ اطمینانِ قلب ‘‘ ہے یعنی آپ کے دل کی حالت گواہی دے گی-  اگلا مرحلہ لوگوں کو اپنے علم میں شریک کرنا ہے ۔ خُدا کی مخلوق اور تمام انسانیت کو خُدا اور خُدا کے رسولﷺ کے علم کو لوگوں تک پہنچانا ہے تاکہ معاشرے کی اصلاح ہو ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے دین میں " رہبانیت" حرام ہے ۔  رہبانیت کا مطلب ہے کہ لوگوں اور دنیا سے الگ ہوکر کہیں پناہ لے کر اللہ کی عبادت میں مصروف ہوجائے اور نہ لوگوں کو نیکی کی تلقین کرے اور نہ برائی سے لوگوں کو منع کرے- خُدا کی مخلوق اور انسانیت کو علم میں شریک کرنے کے بعد ، اللہ کا شکریہ اور اپنے آپ کو حقیر سجھنا چاہئے کہ اے اللہ میرا کوئی کمال نہیں ، سب کچھ آپ کی ہدایت اور توفیق سے ہے ، اے میرے رب آپ نے مجھ  ناپاک ، ذلیل اور حقیر انسان کو اپنے اور اپنے پاک نبی کے علم کے لئے قبول فرمایا ۔

علمِ نافع کے لئے حضرت شاہ ولی اللہ رحمت اللہ علیہ نے تین شرائط بیان کیں ہیں ۔

١ ۔ ادب  ٢ ۔ عاجزی  ٣ ۔ دل میں علم کی طلب

’’حسن خاتمہ‘‘ کیا ہے؟

* علامہ ابن عثيمين*  فرماتے ہيں:

 *حسنِ خاتمہ کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ضرور مسجد میں فوت ہوں، یا جائے نماز پر، یا آپ جس وقت فوت ہوں تو قرآن آپ کے ہاتھ میں ہو -

*تمام مخلوقات میں سے افضل ترین حضرت محمد صلی الله علیہ و سلم جس وقت فوت ہوئے وہ اپنے بستر پر تھے-

٭ آپ صلی الله علیہ وسلم کے دوست *ابوبکر صدیق رضي الله عنہ* جو صحابہ میں سے افضل ترین تھے وہ اپنے بستر پر فوت ہوئے

 *خالد بن الوليد رضي الله عنہ* جن کا لقب سیف اللہ تھا وہ اپنے بستر پر فوت ہوئے !!

 * حسن خاتمہ* یہ ہے کہ آپ اس حال میں فوت ہوں کہ *شرک سے پاک ہوں،*

 حسن خاتمہ یہ ہے کہ آپ اس حال میں فوت ہوں کہ *نفاق سے پاک ہوں،*

 حسن خاتمہ یہ ہے کہ آپ اس حال میں فوت ہوں کہ آپ *بدعتوں سے پاک ہوں -

حسن خاتمہ یہ ہے کہ آپ اس حال میں فوت ہوں کہ آپ *قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوں-*

حسن خاتمہ یہ ہے کہ آپ اس حال میں فوت ہوں کہ آپ *مسلمانوں کے خون ، مال اور عزت  کے بوجھ سے ہلکے ہوں -*

 *حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے والے ہوں ،*

 حسن خاتمہ یہ ہے کہ آپ اس حال میں فوت ہوں کہ آپ کا *دل سلامت ہو، نیت پاک ہو، اور آپ حسن اخلاق پر ہوں-*

 *کسی مسلمان کے لیے آپ کے دل میں کوئی بغض کینہ اور نفرت نہ ہو ،*

 حسن خاتمہ یہ ہے کہ آپ اس حال میں فوت ہوں کہ آپ *پانچوں نمازوں کو ان کےوقت پر  ادا کرنے والے ہوں*

 *اللهم أَحسنْ عاقبتَنا في الأمور كلِّها وأجرْنا من خزي الدنيا وعذابِ الآخرة،*

”اے اللہ پاک تمام کاموں میں ہمارا انجام اچھا کردے اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچا لے“