سوال ، جواب

مصنف : منہاج القرآن

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : ستمبر 2021

جواب: شوہر کی وفات کے بعد اس کا نام لینے یا اس کی تصویر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قرآن و حدیث میں ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے، یہ عدمِ ممانعت ہی اس امر کے جواز کی دلیل ہے۔ اس لیے بیوہ کے لیے شوہر کا نام لینا، اس کے ساتھ گزرے وقت کو یاد کرنا اور اس کی تصویر دیکھنا جائز ہے۔مرحوم کی جائیداد میں سے اس کی بیوہ کو اولاد نہ ہونے کی صورت میں چوتھا حصہ اور اولاد ہونے کی صورت میں آٹھواں حصہ ملتا ہے۔ بیوہ اپنے شوہر کے وصال تک اس کے نکاح میں تھی اس لیے حکمِ الٰہی کے مطابق اسے حصہ دینا لازم ہے اور یہ بیوہ کا شرعی حق ہے۔ مرحوم کی وصیت کیونکہ خلاف شریعت تھی اس لیے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کوئی اور شخص بیوہ کو اس کے حق سے محروم کر سکتا ہے۔ اس لیے بیوہ اپنا حق لے سکتی ہے اور اس سلسلے میں قانونی مدد بھی لے سکتی ہے۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

جواب: جمعہ کے روز کپڑے نہ دھونے کی ممانعت شریعت نے نہیں فرمائی۔ یہ اور اس طرح کی باتیں سوائے توہم پرستی کے اور کچھ نہیں۔ شریعت نے جمعہ کے روز کے جو معمولات بیان کیے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:

جمعہ کے دن غسل کرنے کی تاکید وارد ہوئی ہے۔جمعہ کے روز صاف ستھرے اور اچھے کپڑے پہننے، خوشبو استعمال کرنے، مسواک کرنے کے بارے میں احادیث میں ذکر آیا ہے-جمعہ کے دن اور رات میں کثرت سے درود کا اہتمام کرنا بھی جمعہ کے معمولات میں سے ایک ہے۔

اگر کسی شخص کا یہ دعویٰ ہے کہ جمعہ کے روز کپڑے دھونے کی ممانعت ہے، تو اسے چاہیے کہ اپنی بات کا حوالہ دے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

جواب: آپ نے جو مسئلہ بیان کیا ہے اس میں مرد اور عورت دونوں کے بیان میں تضاد پایا جا رہا ہے۔ خاوند کہتا ہے میں نے دو طلاقیں دی ہیں اور عورت کہتی ہے کہ اس نے مجھے تین طلاقیں دی ہیں کیونکہ اب گواہ بھی موجود نہیں ہے لہٰذا خاوند کی بات کو تسلیم کیا جائے گا اس کی بات کو ترجیح دی جائے گی۔الہدایۃ میں ہے۔’’اگر میاں بیوی شرط پائے جانے میں اختلاف کریں تو خاوند کی بات مانی جائے گی۔ ہاں اگر عورت اس کے خلاف ثبوت لائے تو اس کی بات مانی جائے گی۔ اس لئے کہ خاوند اصل سے دلیل لا رہا ہے اور اصل یہ ہے کہ شرط نہ پائی جائے۔ کیونکہ طلاق واقع ہونے اور ملک متع کے زوال کا انکار کر رہا ہے اور عورت اس کی دعویدار ہے۔ ہاں اگر شرط ایسی ہے جو صرف عورت کی طرف سے معلوم ہو سکتی ہے تو بات عورت کی، اس کے حق میں مانی جائے گی‘‘۔لہٰذا گواہ موجود نہیں اگر دونوں حلفاً بھی بیان کریں تو خاوند کی بات مانی جائے گی۔ باقی رہا حنفی اور شافعی ہونے کا مسئلہ اس سے یہاں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

جواب: میاں بیوی کے تعلقات اس طرح کے ہونے تو نہیں چاہیں کہ وہ ایک دوسرے سے مشورہ کیے بغیر کوئی بھی کام کریں۔ اگر بدقسمتی سے کوئی ایسا شوہر ہو کہ وہ اپنی بیوی کو صدقہ خیرات کرنے سے بھی منع کرے تو ایسی صورت میں بیوی بغیر اس کی اجازت لیے صدقہ خیرات کر سکتی ہے، لیکن مناسب حد تک کرے۔ اگر کوئی زیادہ رقم صدقہ خیرات کرنا چاہے یا اپنے ماں باپ رشتہ داروں میں سے کسی حقدار پر خرچ کرنا چاہے تو خاوند سے مشورہ کیے بغیر نہ کرے تاکہ اگر وہ حساب بھی لے تو آپ کو مشکلات پیدا نہ ہوں۔

جو عورت ملازمت کر کے کماتی ہے وہ رقم تو اسی کی ملکیت ہوتی ہے۔ اس کو اپنا مال کسی کو دینے کے لیے خاوند سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے لیکن وہ اس کو مناسب جگہ اور مناسب حد تک استعمال کرے، درمیانہ راستہ اختیار کرے حد سے نہ بڑھے۔ لہذا مناسب تو یہی ہے کہ بیوی مشورے سے ہی صدقہ خیرات کرے، اگر خاوند کنجوس ہو تو بغیر اجازت بھی صدقہ خیرات یا ضرورت مند رشتہ داروں کی خدمت کی جا سکتی ہے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

جواب: آپ کے اوپر 1000 روپے قرض ہے نہ کہ لاکھ۔ اگرچہ اب 1000 روپے کی ویلیو اس وقت کے لحاظ سے کم ہو گئی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ دور میں اس وقت کا ایک ہزار لاکھ کے برابر ہے تو مبالغہ نہ ہو گا لیکن قرض جس بھی وقت میں ہو وہ اتنا ہی رہتا ہے، آپ جو ایک لاکھ روپے دے رہے ہیں یہ بھی شرعی طور پر جائز نہیں ہیں لیکن وقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور اپنے والدین کی خاطر احساناً اگر اس شخص کو دیں تو ٹھیک ہے ورنہ وہ شخص لاکھ کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔رہی بات زمین کی تو وہ شخص اس زمین کا حقدار نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس نہ تو کوئی گواہ ہے اور نہ کوئی ثبوت، اگر وہ ثبوت لاتا ہے تو پھر وہ پلاٹ اس کا ہو گا بصورت دیگر بغیر کسی ثبوت کے آپ زمین نہ دیں۔ ہمارے معاشرے کے اندر ایسے دھوکے اور فراڈ بے شمار ہوتے ہیں۔ میت کے ورثاء کو بیوقوف بنایا  جاتا ہے کہ میت نے انہیں زمین دینے کا وعدہ کیا تھا یا فلاں چیز میرے نام کر گیا ہے۔ یہ سب فراڈ ہے۔ جب تک وہ صحیح ثبوت نہیں لاتا زمین نہ دیں اور اگر واقعی صحیح ثبوت فراہم کرتا ہے تو زمین کا وہ حقدار ہے ورنہ نہیں۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

سوال: کچھ عرصہ پہلےمیرا محمد یوسف کی بیٹی حمیدہ سے نکاح ہوا ساتھ ہی رخصتی بھی ہو گئی لیکن ہمارے گاؤں میں امام صاحب نے کوئی تحریر یا دستحط نہیں لیے اور ہم دونوں کا شرعی اعتبار سے نکاح پڑھایا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد میری بیوی حمیدہ جو کہ میرے چچا کی لڑکی ہے کسی وجہ سے ناراض ہو کر اپنے باپ کے گھر چلی گئی اور دو تین ماہ کے اندر اُس کا دوسرا نکاح محمد رمضان ولد محمد واحد بخش جو کہ اتحاد ٹاؤن، کراچی سے آئے تھے وہ میری بیوی کو اپنے نکاح میں لیکر چلے گئے جبکہ میں نے اُسے طلاق نہیں دی تھی۔ تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ پڑھانے والے نکاح خواں جو کراچی سے آئے تھے۔ سید محمد شاہ نواز اخترا نہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ لڑکی طلاق شدہ نہیں ہے۔گھر کے تمام لوگوں نے اور کچھ محلے کے لوگوں نے جھوٹی گواہی دی کہ اس کو طلاق ہو گئ ہے تو اُنہوں نےگواہی پر نکاح پڑھایا۔ اب میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میری بیوی جس کا نام حمیدہ ولد محمد یوسف جس کو میں نے طلاق نہیں دی اور جھوٹی گواہیوں پر اُس کا دوسرا نکاح محمد رمضان ولد محمد واحد بخش سے ہوا تو کیا نکاح اور اس سے ہونے والے بچے شریعت میں جائز ہیں یا حرام ہیں؟

جواب: اگر تو واقعی دو عاقل بالغ مسلمان گواہوں کی موجودگی میں بالغ لڑکے اور لڑکی نے ایجاب وقبول کیا تھا پھر تو شرعاً یہ نکاح ہو گیا لیکن اس کو تحریری صورت میں نہ لا کر امام صاحب نے ملکی قانون کی خلاف ورزی کی اور آپ دونوں پر بھی ظلم کیا۔

بقول آپ کے آپ نے اسے طلاق نہیں دی تو دوسرے شخص کے ساتھ نکاح قائم ہی نہیں ہوا۔ قرآن پاک میں ہے :

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِالنساء 4 : 24

اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں)۔

یعنی نکاح پر نکاح نہیں ہو سکتا۔

لہذا دوسرے شخص کے ساتھ نکاح نہیں ہوا اگر وہ اکھٹے رہیں گے تو ساری عمر زنا کریں گے جب تک پہلا شوہر طلاق نہ دے دے اور عدت گزرنے کے بعد وہ دوبارہ نکاح نہ کر لیں یا پہلا شوہر وفات پا جائے پھر بھی عدت کے بعد وہ نکاح کر سکتے ہیں۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

جواب: بتول کے معنیٰ عفت و عصمت والی کنواری کے ہیں۔ یہ سیدہ مریم اور سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہما کا لقب بھی ہے۔بتول دراصل ایسی خاتون کو کہا جاتا ہے جو اللہ کی رضا کے لیے اپنی دنیاوی خواہشات کو قربان کر دے۔ جو دُنیا میں رہتے ہوئے بھی دُنیا سے اَلگ رہے۔ جو اللہ کی بندگی میں اخلاص پیدا کرلے اور جس کے اعمال خالصتاً صرف خدائے بزرگ و برتر کی خوشنودی کے لیے ہوں۔

(مفتی محمد ثنا اللہ طاہر)

جواب: واجب وہ حکم شرعی ہے جو دلیلِ ظنی سے ثابت ہو، اور جسے ادا کرنے کا شرع نے لازمی مطالبہ کیا ہو اس کے بجا لانے پر ثواب اور چھوڑنے پر سزا ملتی ہے البتہ فرض کے انکار سے کفر لازم آتا ہے اور واجب کے انکار سے کفر لازم نہیں آتا۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

سوال : میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ شوہر یونان میں تھا جبکہ بیوی پاکستان میں تھی، شوہر کو پاکستان آنے پر یعنی گھر آنے پر بیوی کے موبائل پہ کسی غیر محرم شخص کے میسج ملے جن کے بارے میں بیوی سے پوچھا تو اس نے جھوٹ بولتے ہوئے لا علمی کا اظہار کیا۔ کچھ دنوں بعد ساری حقیقت شوہر پر کھل جاتی ہے اور بیوی بھی خود اقرار کر لیتی ہے کہ وہ چار سال تک اپنے شوہر اور بچوں کو دھوکہ دیتی رہی ہے۔ کہتی ہے کہ ’’میں غفلت میں پڑ گئی تھی، اور آپ کو دھوکہ دیتی رہی ہوں، لیکن اب میں اللہ تعالیٰ اور آپ (شوہر) کی طرف لوٹ آئی ہوں اور اللہ سے سچی توبہ کرتی ہوں اور وعدہ کرتی ہوں کہ اس کے بعد اس غلطی کو نہیں دہراؤں گی، اللہ سے مغفرت کی دعا کرتی ہوں کہ میں نے آپ کی اور اپنی جان پر ظلم کیا جو یہ گناہ کبیرہ کیا بے شک قرآن میں اس کی بہت بڑی سزا ہے، میں ہر وقت اللہ سے معافی مانگتی ہوں کہ تیری جن نعمتوں کی ناشکری کی ان کا شکر کرنے اور مجھے سچی توبہ کرنے کی توفیق دے کہ مرنے سے پہلے میں دل سے اپنی بخشش کا سامان کر سکوں۔ میں نماز پابندی سے ادا کرتی ہوں اور ہر وقت استغفار پڑھتی ہوں آپ سے التجا ہے کہ اللہ اور رسول کے واسطے اور بچوں کے واسطے مجھے معاف کر دیں‘‘۔ کیا ایسی صورت میں شوہر بیوی کو معاف کر سکتا ہے؟

جواب: مذکورہ سوال میں جو بات بیان کی گئی یہ واقعی ہی بہت بڑا گناہ ہے۔ اس عورت کو چاہیے کے وہ اللہ تعالی سے معافی مانگے، دل سے سچی توبہ کرے اور اپنے اس گناہ پر استغفار کرے، اللہ تعالی توبہ قبول کرنیوالا اور گناہ معاف فرمانے والا ہے۔

دوسری بات یہ کہ اس نے اپنے خاوند کو دھوکا دیا ہے، اپنے خاوند کی امانت میں خیانت کی ہے۔ خاوند اگر چاہے تو معاف کر سکتا ہے اور عورت اگر واقعی اپنے گناہ پر شرمندہ ہے اور توبہ کرتی ہے تو خاوند کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی خاطر اور اللہ تعالی کی رضا کی خاطر اسے معاف کر دے۔ اسی میں اس کا بڑا پن ہے۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

جواب:عصر اور مغرب کے درمیان کھانا کھانے سے نہ تو شریعت نے کہیں منع کیا ہے، اور نہ ہی کوئی صاحبِ عقل اس طرح کی بات کر سکتا ہے۔ یہ جاہلانہ باتیں ہیں جو معاشرے میں مشہور ہو گئی ہیں، ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوتی۔ عصر اور مغرب کے درمیان کھانا پینا جائز ہے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

جواب: ذات باری تعالیٰ حقیقی متصرف اور مسبب الاسباب ہے۔ ظاہری اسباب میں اثرانگیزی پیدا کرنے والی ذات بھی وہی ہے ۔کسی چیز، دن، یا مہینے کو منحوس سمجھنا اور اس میں کام کرنے کو بُرے انجام کا سبب قرار دینا غلط، بدشگونی، توہم پرستی اور قابل مذمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی بھی چیز انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی  نفع ونقصان کے اختیار کا سو فی صد یقین اللہ کی ذات سے ہونا چاہیے کہ جب وہ خیر پہنچانا چاہے تو کوئی شر نہیں پہنچا سکتا اور اگر وہ کوئی مصیبت نازل کر دے تو کوئی اس سے رہائی نہیں دے سکتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو کوئی اس کے فضل کو ردّ کرنے والا نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنا فضل پہنچاتا ہے، اور وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔(سورہ يونس، 10: 107)سورۃ شوریٰ میں ارشاد ہے:

’’اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اُس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالانکہ بہت سی(کوتاہیوں) سے تو وہ درگزر بھی فرما دیتا ہے۔‘‘الشُّوْرٰی، 42: 30اور سورہ النساء میں فرمان ہے:

(اے انسان! اپنی تربیت یوں کر کہ) جب تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ اللہ کی طرف سے ہے (اسے اپنے حسنِ تدبیر کی طرف منسوب نہ کر)، اور جب تجھے کوئی برائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ تیری اپنی طرف سے ہے (یعنی اسے اپنی خرابئ نفس کی طرف منسوب کر)۔النساء، 4: 79

درج بالا آیات سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی وَقْت، دن اور مہینہ بَرَکت و عظمت اور فضل والا تو ہوسکتا ہے، مگر کوئی مہینہ یا دن منحوس نہیں ہوسکتا۔ کسی دن کو نحوست کے ساتھ خاص کردینا درست نہیں، اس لیے کہ تمام دن اللہ نے پیدا کیے ہیں اور انسان ان دنوں میں افعال و اعمال کرتا ہے، سو ہر وہ دن مبارک ہے جس میں اللہ کی اطاعت کی جائے اور ہروہ زمانہ انسان پر منحوس ہے جس میں وہ اللہ کی نافرمانی کرے۔ اللہ کی معصیت اور گناہوں کی کثرت اللہ کو ناراض کرنے کاسبب ہے اور اس طرح گناہگار فی نفسہ منحوس ہوتا ہے، کیونکہ گناہ کے سبب وہ اللہ کی امان سے نکل جاتا ہے اور مصائب و مشاکل سے مامون و محفوظ نہیں رہتا۔ درحقیقت اصل نُحوست گناہوں اور بداعمالیوں میں ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

’’چھوت لگناکوئی چیزنہیں اور بدشگونی (کی کوئی حقیقت) نہیں ہے، البتہ نیک فال مجھے پسندہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نےعرض کیا: نیک فال کیا ہے؟ حضوراکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اچھی بات منہ سے نکالنا یا کسی سے اچھی بات سن لینا۔‘‘

اگر کوئی شخص گھر سے کہیں جانے کے لئے نکلا اور کالی بلی نے اس کا راستہ کاٹ لیا، جسے اس نے اپنے حق میں منحوس جانا اور واپس پَلَٹ گیا یا یہ ذہن بنا لیا کہ اب مجھے کوئی نہ کوئی نقصان پہنچ کر ہی رہے گا، تو یہ بدشگونی ہے جس کی اسلام میں مُمَانَعَت ہے۔ اگرگھر سے نکلتے ہی کسی نیک شخص سے ملاقات ہوگئی جسے اُس نے اپنے لئے باعث خیر سمجھا تو یہ نیک فالی کہلاتاہے اور یہ جائزہے۔آپ اپنی سہولت کے ساتھ جس دن چاہیں کپڑے کاٹ سکتے ہیں۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

جواب: غلط بیانی اور دھوکہ بازی سے کیا ہوا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ نکاح کے انعقاد کے لیے متعین لڑکے اور متعین لڑکی کی رضامندی سے ایجاب و قبول ضروری ہے۔ جو لوگ ایسی دھوکہ دہی میں ملوث ہیں قرآنی نص کے مطابق وہ خدا تعالیٰ کے لعنت کے مستحق ہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

جواب: طلاق کے بعد بھی عورت کو اپنے والدین اور شوہر کی طرف سے ملنے والے سامان کی حقدار وہی عورت ہوتی ہے جس کو یہ سامان ملا ہوتا ہے۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

جواب: لکڑی یا جوتے سے رمی کرنا جائز نہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عقبہ کی صبح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چھوٹی چھوٹی کنکریاں چن لاؤ، میں چھوٹی چھوٹی سات کنکریاں چن لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا : ہاں ایسی ہی کنکریاں مارو۔ پھر فرمایا : اے لوگو! تم دین میں زیادتی سے بچو کیونکہ تم سے پہلی اُمتیں دین میں زیادتی کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔

اس لئے رمی کرنے والے کو چاہئے کہ وہ راہِ اعتدال اختیار کرتے ہوئے چھوٹی کنکریاں مارے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوبیا کے دانہ کے برابر چھوٹی کنکریاں ماریں اور لوگوں سے فرمایا کہ لوبیا کے دانہ کے برابر کنکریاں حاصل کرو تاکہ جمرہ کو رمی کی جا سکے۔ لہٰذا لکڑی، جوتے یا بڑے کنکر مارنے سے گریز کرے کیونکہ ایسا کرنے سے نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ لکڑی، جوتا یا بڑا کنکر کسی شخص کو بھی لگ سکتا ہے اور شدید نقصان کا موجب بن سکتا ہے۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر معاملہ میں اعتدال اور میانہ روی کا حکم دیا ہے۔

 

(نامعلوم)