کوئٹہ میں کچلاک

مصنف : محمد حمید شاہد

سلسلہ : اردو ادب

شمارہ : جولائی 2021

بلوچستان کی شورش ،بلوچ عوام کی بے بسی ، مفاد پرستوں کی بے حسی، حکمرانوں کی نالائقی، عالمی سازشوں اور عام عوام کی مظلومیت کے پس منظر میں لکھا گیا ایک بے مثال افسانہ

 

سرینہ میں صبح صبح اخبار ملتے ہی میں نے جھل مگسی والی خبر پڑھی تھی۔ وہی ایک تاجر اشوک کمار کے اغوا کی خبر اور ہرنائی میں بجلی والے محکمے کے ایک ملازم حیات اللہ کاکڑ کے قتل کے علاوہ اور بھی بد امنی کی خبریں۔ اور اب کلیم خان نے مجھے ملک بشارت کے ساتھ جانے سے روک دیا ہے، حالانکہ میں جب جب کوئٹہ آیا بولان روڈ پرملک بشارت کے ہاں ضرور گیا۔ بھابی اور بچے خوب آؤ بھگت کرتے۔ ملک بشارت نے باپ کے مرنے کے بعد پہلے اسلام آباد اور پھر لاہور میں ٹھیکے داری شروع کر دی تھی۔ وہ کئی اداروں کو دفتری سامان سپلائی کرنے لگا۔اسی دوران بلوچستان کی حکومت کو اپنے صوبے کے سکولوں اور دوسرے دفاتر کی حالت زار بہتر کرنے اور ضلعی دفاتر کی نئی عمارتیں بنانے اور مزید سکول کھولنے کے لیے بہت سے فنڈز ملے اور اس بابت کام شروع ہو گیا تو اُس کی دلچسپیاں اِس صوبے میں بڑھ گئیں۔ فرنیچر، اسٹیشنری اور دوسرے دفتری سامان اور کتابوں کی سپلائی کے لیے ملک بشارت نے اپنی ایک فرم بنائی اور ملک جنرل گڈز سپلائرز کے نام سے وہاں رجسٹریشن کروالی۔ اُسے بہت جلد اندازہ ہو گیا کہ اُس کا کوئٹہ میں رہ کرکام کرنا ہی مناسب ہوگا لہذا وہ وہاں منتقل ہوگیا۔
ملک بشارت اور ہم دور پار کے رشتے دار تھے۔ رشتہ دار بھی اور ہم سائے بھی۔ ہمارا بچپن ایک ساتھ گزرا تھا۔ مجھے یاد ہے جب ساون میں سدو نالہ کناروں تک بھر کر بہہ رہا ہوتا تو ہم اس میں نہانے کے لیے بے چین ہو جایا کرتے تھے۔ ہر بار ہمیں چھپ کر وہاں جانا پڑتا تھا کہ کبھی گھر سے اِس کی اجازت نہ ملتی۔ یوں چھپ کر سدو میں نہانے کا سلسلہ کچھ اور سال چلتا رہتا اگر آخری بار ہمیں ننگ دھڑنگ گاؤں کی گلیوں سے نہ گزارا جاتا۔ ہوا یوں کہ ساون کی جھڑیاں شروع ہوئیں اور سدو لبالب ہوگئی تو میں نے بشارت، شریف اور مقدر کے ساتھ مل کر اس میں نہانے کا پروگرام بنایا۔شریف اور مقدر بھی ہمارے دوستوں میں سے تھے، ایک ظریف موچی کا بیٹا اور دوسرا کرمو ڈاچی والے کا۔ ان دونوں کی سنگت بھی ہمارے ماں باپ کو بہت ناگوار گزرتی تھی مگر دونوں ہمیشہ دور کی کوڑی لاتے لہذا ہمیں ان کی دوستی میں مزا آتا تھا۔
سدو کے قریب پہنچے تو مسئلہ یہ درپیش تھا کہ ہم میں سے کوئی بھی نہانے کے لوازمات ساتھ نہ لایا تھا۔ دھوتی نہ نکر اور کپڑے پہن کر نہایا نہ جا سکتا تھا کہ سدو میں نہانے کے بعد کپڑے سکھا بھی لیتے تو مٹیالے پانی میں اُن کا رنگ بدل جانا تھا اور ہماری چوری پکڑی جاتی۔ شریف اور مقدر نے آپس سر جوڑ کراس کا حل بھی نکال لیا۔ فیصلہ ہوا۔ اِس بار اُدھر درختوں کی اوٹ میں جہاں پانی بھنور بناتا تھا وہاں سے سدو میں داخل ہوں گے اور اِس کا طریقہ یہ طے ہوا کہ چاروں کندھے جوڑ کر کھڑے ہو جائیں گے، ایک لائن میں نہیں بل کہ یوں کہ ہم سب ایک دوسرے سے اپنی پیٹھوں کے پیچھے چھپ جائیں گے۔ ہم نے ایک دو تین کہا، منصوبے کے مطابق سب نے نالے ڈھیلے کیے اورکھڑے کھڑے قدموں میں گرتی شلواریں، پاؤں سے پیچھے دھکیل دیں۔
دوسری بار تین تک گنتی گنی گئی تو ہم اپنی قمیضوں کو بھی نیچے سے اُٹھا کر کندھوں سے اُوپر کر چکے تھے۔ سب نے ایک ساتھ اُنہیں پیچھے اُچھال دیا۔ ہم چاروں کے پیچھے سب کے کپڑوں کی ایک ڈھیری بن گئی تھی۔ ہم ایک دوسرے کو ننگا دیکھ نہ سکتے تھے مگر بہت جلد ہم ایک دوسرے کی برہنگی کی تپش محسوس کر سکتے تھے۔ اب ہمیں آنکھیں بند کرکے سدو کی طرف منہ کرکے ایک لائن میں ہونا تھا اور ایک دو تین پر پانی میں چھلانگ لگا دِینی تھی۔ سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوا۔ ہم خوش تھے کہ سدو میں اُترتے ہی ہمارے ننگے پن کو بپھرے پانی کی لہروں نے چھپا لیا تھا مگر یہ خوشی بہت جلد غارت کردی گئی۔ میرے اور بشارت کے ابا کو کسی نے سدو میں ہمارے نہانے کی خبر دے دی تھی۔ ہم ابھی ایک دوسرے پر پانی اُچھال رہے تھے کہ وہ وہاں پہنچ گئے۔شریف اور مقدر خطرے کو بھانپ کر فاصلہ کر گئے اور دوسری طرف منہ کرکے ایک دوسرے پر پانی پھینکتے رہے جیسے اُنہوں نے کسی کو دیکھا تھا’ نہ انہیں کوئی دیکھ رہا تھا۔ ہم دونوں کو پانی سے باہر نکلنا پڑا۔ یوں ہی ننگے۔ ہم کپڑوں کی طرف لپکنا چاہتے تھے مگردونوں گردنوں سے جکڑے جا چکے تھے۔ میں بھی اور بشارت بھی۔‘‘آگے چلو’’ یہ میرے ابا نے کہا تھا اور اس میں بشارت کے ابا نے اضافہ کیا ‘‘حرام زادو، اگر پانی میں ڈوب مرتے تو پھر’’ دونوں کی آواز لرز رہی تھی۔ اُنہوں نے ہمیں گردنوں سے جکڑے رکھا۔ اور ہم اسی حالت میں گھر پہنچے۔
بشارت کا باپ مرگیا تو اس نے ساری زمینیں بیچ ڈالیں اور شہر میں آکر بس گیا۔ یہی اُس کے خاندان سے کٹتے چلے جانے کی وجہ بنا۔ اُس نے شہر میں شیخوں کے خاندان میں شادی کر لی تو برداری نے جیسے اُس کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ وہ برادری سے ویسے بھی بے نیاز ہو گیا تھا اور اپنی زندگی میں مگن تھا۔ شہر میں اُس نے زمینوں کا لین دین کیا، ٹھیکیدای کی اور جب وہ کوئٹہ منتقل ہوا تو پنجاب سے سرمائے کو سمیٹا اور گودار میں ایک سوسائٹی کے نام سے بہت سی زمینیں خریدلیں۔ملک بشارت کو یقین تھا کہ جب گودار پورٹ میں ترقیاتی کام اگلے مرحلے میں داخل ہوگا تو یہی زمین سونا ہو جائے گی۔
اس بار کوئٹہ میں میرے ٹھہرنے کا بندوبست معروف ہوٹل سرینہ میں ہوا۔ میں جب جب کوئٹہ آتا رہا دفتری مصروفیات سے فارغ ہو کر ملک بشارت کے ہاں چلا جاتا، خوب گپ شپ ہوتی اور میں نے اپنے تئیں یہی اخذ کیا تھا کہ وہ وہاں بہت خوش تھا۔ پچھلی بار کے پھیرے میں اگرچہ وہ گودار والی زمینوں کے لیے پریشان تھا کہ لگ بھگ وہاں کاروبار ٹھپ ہو گیا تھا غیر مقامی افراد وہاں آزادنہ آ جا نہ سکتے تھے تاہم اُس نے کوشش کر کے وہاں سے کچھ سرمایہ نکالا اور سپلائی کے کام میں ڈال دیا۔ ایم اے جناح روڈ پر ہی اُس نے کچھ دکانیں بھی خرید لی تھیں جو ٹھیک ٹھیک کرایہ دے رہی تھیں۔ اِنہی دکانوں کے اوپر اُس کا شاندار دفتر تھا۔
اِس بار میں کوئٹہ پہنچا تو جیسے سب کچھ بدل گیا تھا۔ یوں نہیں ہے کہ مجھے وہاں پہنچ کر ہی حالات کے نازک ہونے کی خبر ملی تھی، میں سب کچھ جانتا تھا مگر وہ جو کہتے ہیں خوف کا ہڈیوں کے گودے میں اُترنا، تو اِس کا تجربہ اَب ہو رہا تھا۔ شروع سے میری عادت رہی ہے کہ میں صبح اُٹھتے ہی اخبار تلاش کرتا ہوں، سرخیاں دیکھنے کے لیے،پھر باتھ روم میں گھستا ہوں۔ یہاں بھی حسب عادت اخبار کھولا تھا کہ دہشت سنسناتی ہوئی میرے بدن میں گھس گئی۔ مجھے رات کا واقعہ یاد آگیا۔
ملک بشارت مجھے اپنے گھر لے جانے کے لیے ہوٹل آیا ہوا تھا مگر کلیم خان نے صاف صاف کہہ دیا:‘‘دیکھئے صاحب!مناسب ہو گا کہ آپ کسی کے ساتھ نہ جائیں، چاہے وہ آپ کا عزیز ہی کیوں نہ ہو۔ جہاں جانا ہو گا ہم دیکھ بھال کر وہاں لے چلیں گے۔ پلیز یہاں رہیے، یہاں سیکورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔’’
پہلے وہاں سیکورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا کر تا تھا مگر جب سے امریکہ میں نائن الیون والاحادثہ ہوا اور ٹوئن ٹاور سے دو جہاز ٹکرائے اور بدلے میں امریکہ نے عراق اور بعد ازاں افغانستان پر چڑھائی کی تھی، اِدھر پاکستان کے ہر شہر میں سیکورٹی کا سامان بیچنے والوں کی چاندی ہو گئی تھی۔ خیر، کہیں کہیں تو واقعی ایسے اقدامات کی ضرورت تھی کہ دہشت گردوں کی کارروائی سے بچا جا سکے۔بہ طور خاص امریکی ڈرونز کے نہ ختم ہونے والے سلسلے نے دہشت کی ایسی فضا کو جنم دیا تھا کہ کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
کوئٹہ کے سرینہ ہوٹل پہنچتے ہی مجھے یوں لگا؛ یہاں سب کچھ ایسا نہ تھا جیسا کہ ہم دوسرے شہروں میں دیکھتے آئے تھے کہ یہاں صورت حال اور بھی گھمبیر تھی۔ ہوٹل کی عمارت تعمیر کرتے ہوئے یہاں کی روایات کو مدنظر رکھا گیا لہذا مجھے بہت اچھی لگتی تھی مگر اس بار کے سیکورٹی کے انتظامات نے اس کشادہ عمارت کو بھی ایسے بند قلعے سا بنا دیا تھا جس میں دَم گھٹنے لگا تھا۔تیسرے روزکہ جب ہم ایم اے جناح روڈ کے ٹریفک میں لگ بھگ پھنسے ہوئے تھے اور امان اللہ بٹے زئی بتارہا تھا کہ اِس ایک روڈ پر اکتالیس سے زیادہ بنک تھے، بھرپور بزنس کمانے والے بنک۔ اور جب وہ یہ بتا چکا کہ اس شہر میں، اِس اکیلی روڈ پر بزنس بہت تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اتنا پیسہ آتا کہاں سے تھا؛ کلیم خان کا سیل بری طرح بجنے لگا۔ اُسے کوئی بہت بری خبر سنائی جارہی تھی۔ کم از کم وہ چہرے سے یہی تاثر دے رہا تھا کہ اُس نے جو خبر سنی تھی وہ بہت بوکھلا دینے والی تھی۔ وہ پشتو میں بات کر رہا تھا، میں پشتو نہ جانتا تھا مگر اُس کا بوکھلا کر یوں جواب دینا جیسے وہ کچھ پوچھ رہا ہو، اور پھر چچ چچ کی آوازیں نکالنا مجھے سجھا سکتا تھا۔عین اُس لمحے کہ جب وہ اپنے سیل پر اپنے پریشانی اور دُکھ کا ردعمل دیتے ہوئے پورے بدن کو اُچھال رہا تھا، میں نے اَپنی رگوں میں خوف کو اُترتے ہوئے محسوس کیا اور جب وہ اپنی بات مکمل کرکے ہمیں یہ بتا رہا تھا کہ اُدھر خروٹ آباد کے پاس کسی نے پنجابیوں کو بھون ڈالا، تو یہی خوف میری ہڈیوں میں اُتر گیا تھا۔ہم بہت دیر چپ رہے، حتی کہ بٹے زئی نے کی آواز اُبھری، مجھے مخاطب کرتے ہوئے مگر یوں جیسے وہ بہت دور سے بول رہا ہو:‘‘جانتے ہیں سلیم صاحب، یہاں کی بڑی بوڑھیاں ایک عجیب و غریب قصہ سنایا کرتی ہیں، گوانکو کا قصہ’’۔‘‘گوانکو؟’’ میں نے اس کی طرف دیکھا اور دہرایا۔‘‘جی،گوانکو’’۔۔ اس نے بھی دہرایا اور اضافہ کیا: ‘‘میں نہیں کہتا اس کی کوئی حقیقت ہوگی، مگر یوں لگتا ہے کہ قدیم قصوں میں رات کو راستہ روک کر کھڑے ہونے والایہ گوانکو اب دن کو بھی راہ روک لیتا ہے ہم میں سے کوئی بن کر یا ہمارا اپنا بن کر۔۔’’ اس کی بات شاید ادھوری رہ گئی تھی کہ کلیم خان کھانس کر اُس میں اِس مشورے کے ساتھ داخل ہو گیا تھا کہ اب ہمیں ہوٹل واپس چلے جانا چاہیے۔
گوانکو کا قصہ دوسری بار بھی کلیم خان نے چھیڑنا چاہا تھا۔ ہم اگلے روز اپنی گاڑی مسلسل چُپ کھینچ کر بھگارہے تھے۔بٹے زئی نے چُپ توڑدِی اور گوانکو کے بارے میں بتایاکہ روایات کے مطابق وہ رات کو سنسان راہیں روک کر کھڑا ہو جاتا۔ ہاتھ میں چمکیلے اور پھولدار کاغذ میں لپٹا ہوا کوئی تحفہ لے کر۔ وہ ہر بار وہاں سے گزرنے والے کا نام لے کر پکارتا اور کہتا ہے، دیکھو تو میں تمہارے لیے کیسا عمدہ تحفہ لایا ہوں۔ پہلے کی طرح اس بار بھی یہ قصہ کلیم خان کی وجہ سے ادھورا رہ جاتا ہے۔ ‘‘بس جی یہ تو محض قصے ہیں، جھوٹے قصے، گزر چکے لوگوں کی گھڑی ہوئی کہانیاں، اِن کی کیا حقیقت۔ حقیقت تو یہ ہے یہاں کے لوگ مارے جارہے ہیں یا گم ہو رہے ہیں۔’’
مجھے یوں لگا کہ لمبی چُپ اور اُس کے اچانک ٹوٹنے سے کئی باتیں از خود ظاہر ہونے لگی تھی۔
جیپ ایسی سڑک پر مسلسل بھاگ رہی تھی جس پر دُور تک دیکھا جاسکتا تھا۔ ہم پشین میں ایکشن کمیٹی والوں سے ایک میٹنگ کر رہے تھے۔ اگرچہ ہماری اُن سے میٹنگ دو دِن پہلے کینٹ اِیریا میں واقع آفس میں ہونا طے پائی تھی۔ ہم وہاں اُن کا انتظار کرتے رہے، یہاں تک کہ اُن میں سے ایک،طلال رِند کا فون آیا۔ یہ فون کلیم خان نے سنا اور فوراً بعد یہ کہتے ہوئے میری طرف بڑھا دیا تھا کہ ‘‘ہر سڑک پر رُکاوٹیں اورپوچھ پڑتال، انہوں نے جینا حرام کیا ہوا ہے’’۔ میں نے ریسیور تھاما۔ طلال رِند کی بپھری ہوئی آواز اُس میں سے اُبلی پڑ رہی تھی۔‘‘ہم لعنت بھیجتے ہیں ایسی میٹنگ پر۔ کیا ہم رُسوا ہونے کے لیے ہیں،اپنی زمین پر آزادی سے چل پھرکیوں نہیں سکتے؟’’میں اُسے سمجھاتا رہا، سیکورٹی کے مسائل اور مجبوریاں، مگر اس کا غصہ تھمنے میں نہ آرہا تھا۔ میں نے پیشکش کی کہ دفتر سے کوئی آدمی بھیج دیتا ہوں اور گاڑی بھی۔وہ چیک پوسٹ پر بات کرلے گا اور لے بھی آئے گا۔ مگر اُس نے میری پیشکش ٹھکرا دی اور فون منقطع ہو گیا۔میٹنگ ممکن نہ رہی تھی۔ میں نے ضروری ہدایات دیں۔ کلیم خان اور بٹے زئی کو کمیٹی کے ممبران سے رابطے میں رہنے کو کہا اور ہوٹل واپس چلا آیا۔ شام کو ملک بشارت آیا تو اِس بد مزگی کا ذِکر اُس سے بھی ہوا۔ رات گئے مجھے کلیم خان نے اِطلاع دِی کہ کمیٹی کے ممبران میٹنگ کے لیے تیار ہو گئے تھے۔ پشین میں اس کمیٹی کے بیشتر ممبران رہتے تھے۔ وہاں اس میٹنگ کا ہوناطے پایا تھا اور اِس پر میں خوش تھا۔
مارچ کا مہینہ تھا۔ ہم پشین کے ریسٹ ہاؤس پہنچے تو میں نے اندازہ لگایا کہ جس رُخ پر یارو اورچمن کے علاقے تھے، اُسی رُخ سے تازہ ہواکے جھونکے آ رہے تھے۔ عجب چال سے چلتی یہ ہوا ہمارے بدن کے اَندر تک اُتر رہی تھی۔ ایک خاص رفتار سے۔ یہ رفتار نہ بہت مدہم تھی اور نہ بہت تیز اور ہم پر عجب جادو سا کر رہی تھی۔ ہم گاڑیوں سے اُترے اورریسٹ ہاؤس کے ہال میں داخل ہونے سے پہلے کہ جہاں لوگ ہمارے منتظر تھے،ایک دو لمحوں کے لیے وہیں ٹھہر گئے؛ بے ارادہ، اوردُور اُس طرف دیکھنے لگے جس رُخ سے ہوا ؤں کا نہ رُکنے والے سلسلہ رواں تھا،کچھ اس طرح کہ جیسے ہم اُن جادو بھری ہواؤں کا بھید جاننا چاہتے تھے۔
‘‘طلال رِند’’
میں چونک کر ساٹھ پینسٹھ سال کے بھرے ہوئے جثے والے ایک طویل قامت شخص کو دیکھ رہا تھا۔ اُس کی مردانہ وجاہت مجھ پر چڑھ دوڑی تھی۔میں نے اُس کا بڑھا ہوا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ مجھے جاننے میں دِیر نہ لگی کہ یہ وُہی طلال رِند تھا جس کی بھاری آوازکا ذائقہ کل میری سماعتیں چکھ چکی تھیں۔ ہم ایک سیب کے بڑے درخت کے نیچے رُکے تھے اور اب اندر عمارت کی طرف قدم بڑھا دیے تھے تاہم طلال کو جیسے خبر ہوگئی تھی کہ یہاں کی مدھر سروں میں چلتی ہوائیں ہم پر اَپنا سحر پھونک چکی تھیں۔ کہنے لگا: ‘‘پشین کی طرف چلتی یہ ہوائیں،بادام آڑو اور سیب کے خوابیدہ درختوں کو جگانے کے جتن کر رہی ہیں۔’’ میں ذرا فاصلے پر ہوا تو مڑ کر سیب کے درخت کو دیکھنے لگا۔ اُس کے اوپر چوٹی سے چمکتی اورنیچے کو بہتی دھوپ میں ہرشاخ انہی چلتی ہواؤں کی انگیخت پر انگڑائیاں لے رہی تھی۔
کوئی تیس کے قریب لوگ ہوں گے جو وہاں ہال میں جمع تھے۔ جن لوگوں سے ہمیں ملنا تھا اُن کے نام سرکاری طور پر ہمیں بتا دیے گئے تھے؛ وہ صرف سات تھے۔ 
خیر ہم سب سے مل رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ وہ سات بھی اِن ہی میں ہوں گے۔ سات نہیں چھ، کہ ایک طلال رِند کو ہم شناخت کر چکے تھے۔ اِس سے پہلے کہ میٹنگ شروع ہوتی ایک شخص دوڑتا ہوا اندر آیا، اُونچی آواز میں سلام کیا اور سیدھا طلال رِند کے پاس جاکر اُس کے کان کھسر پھسر کرنے لگا۔ ابھی وہ کچھ کہہ رہا تھا کہ طلال رِند نے بازو لمبا کیا اور اُٹھتے اُٹھتے اُسے ایک جانب دھکیل دیا۔ اُس کی رنگ کی ہوئی گھنی داڑھی اور بھاری مونچھیں اُس چھتنار کی طرح چمک رہی تھیں جو باہر دھوپ میں نہا رہی تھی۔
طلال رِندنے کھنگار کر گلا صاف کیا اورروئے سخن میری طرف کرتے ہوئے کہا:‘‘صاحب! آپ ہمارے مہمان ہیں اور ہمیں آپ کی جان عزیز ہے۔ ہمیں جو کہنا تھا وہ تو ہم درخواست میں لکھ چکے۔ اس پر تفصیل سے بات بھی ہو سکتی تھی کہ اِسی لیے تو ہم سب یہاں جمع ہوئے ہیں مگر اُدھر کچلاک میں گولی چل گئی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے لیے یہاں تک سفر کرکے آنے والے ہمارے مہمان کسی مشکل میں پڑ جائیں۔ گڑ بڑ سارے علاقے میں پھیل سکتی ہے، اگر ایسا ہو گیا تو سارے راستے بند ہو جائیں گے۔’’طلال رِند ایک لمحے کے لیے رکا تو جیسے ہماری سانسیں بھی رُک سی گئی تھیں۔ اس نے کلیم خان کی جانب دیکھا اور ایک ایک لفظ چبا کر کہا:‘‘خان صاحب۔ آپ کے افسر ہمارے مہمان ہیں۔ انہیں بہ حفاظت کوئٹہ پہنچانا آپ کو سونپتا ہوں’’ کلیم خان کے لیے یوں پکارا جانا۔ جیسے غیر متوقع تھا۔ وہ ہڑبڑا کر اُٹھا اور کہا:‘‘جی جی یقیناً’’ اور پھر میری جانب دیکھا؛ اور اسی ہڑ بڑاہٹ میں کہا:‘‘چلیں جناب’’۔جب ہم کوئٹہ واپسی کے لیے اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے تو وہ سب ہمارے اِردگرد تھے،ہمیں رُخصت کرنے۔ کچلاک سے کچھ پہلے ہی ہمیں گڑ بڑ کے آثار نظر آنے لگے۔ جہاں سے یارو اور چمن کی طرف سڑک نکلتی تھی، ہم اُس مقام کو دُور سے دیکھ سکتے تھے؛ وہاں بپھرے ہوئے لوگوں کا ہجوم تھا۔ہم نے اُلٹے رُخ پر کھیتوں میں گاڑی ڈال دی۔ ڈرائیور نے دور کچے گھروں کے ایک جھنڈ کی طرف اشارہ کیا اور کہا: ‘‘ہم وہاں سے پرے نکلتے راستے پر پہنچ گئے تو سمجھئے ہم اِسی سڑک پر آگے کو نکل جائیں گے۔ محفوظ’’۔
اُس نے لفظ محفوظ جملہ مکمل کرنے اور اَپنے تھوک کو نگلنے کے بعد کہا تھا۔ اور جیسے ہی اُس نے یہ لفظ اَدا کیا تھا ہمارے اَندر سے خوف اُبل اُبل کر ہمارے چہروں پر برسنے لگا۔ ہم چمن نہیں جا سکے تھے، یارو بھی نہیں اور اگر رَاستے بند ہو گئے تو شاید کوئٹہ بھی نہیں یہی تو طلال رِند نے کہا تھا۔ دفعتاً فائرنگ کی آواز سنائی دینے لگی۔ ڈرائیور نے بوکھلا کر کلیم خان کی جانب دِیکھا جو اَپنے سیل پر کسی سے بات کر رہا تھا۔ اب وہ بھی پریشان نظر آتا تھا۔ اُس نے ڈرائیور کو سٹرک سے کچھ اور دور ہوکر آگے بڑھنے کا کہا۔ جب بھی گاڑی ایک کھیت سے دوسرے میں داخل ہوتی تو کھیتوں کی اوپر کو اُٹھی ہوئی حدبندیوں کو پھلانگتے ہوئے بری طرح اُچھلتی تھی۔ ہم بھی اُوپر کو اٹھتے اور دھپ سے پھر سے سیٹوں میں دھنس جاتے۔ ایک لمبا چکر کاٹ کر جب تک گاڑی سڑک پر دووبارہ چڑھ نہیں گئی،ہم میں سے کوئی بھی ایک لفظ تک نہ بولا تھا۔
اگلے روز صبح جوں ہی میرے کمرے میں اخبار سرکایا گیا میں لپک کر اُسے اُٹھا لایا۔ کچلاک میں کیا ہوا تھا،میں تفصیل سے جاننا چاہتا تھا۔ اخبار نے اُسے صفحہ اوّل کی خبر کے طور پر چھاپاتھا۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ہم وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ مجھے یاد آیا کہ پشین جاتے ہوئے بھی ہم کچلاک سے چُپ چاپ گزرگئے تھے حالاں پچھلی بار جب ہم قلعہ عبداللہ تک گئے تھے، اِسی کچلاک سے گزرتے ہوئے، تو کلیم خان کی زبان ایک لمحہ کے لیے نہ رُکی تھی۔ تب اُس کی پوسٹنگ ڈیرہ مراد جمالی میں تھی اور اُسے یہاں ہماری مدد کے لیے دورہ پر بھیجا گیا تھا کہ وہ اِن علاقوں کو خوب جانتا تھا۔ اُس نے باتوں ہی باتوں میں مجھ سے منّت کر لی تھی کہُ اس کا تبادلہ کوئٹہ کر دیا جائے۔ اُس دورے میں وہ ہمارے بہت قریب ہو گیا اور جب واپسی کا وقت آیا تو اُس نے دوہرے ایرانی کمبلوں اورخشک میووں کے اتنے تحفے ساتھ کر دیے تھے کہ کوئٹہ تبادلہ والے کام کو میں بھول نہ سکتا تھا۔
اُسی پچھلے دورے میں اُس نے بتایا تھا کہ نواب اکبر بگٹی نے اپنے مخالفین پر کیسے کیسے ستم ڈھائے تھے۔ اُس نے کچلاک سے گزرتے ہوئے تب مجھے وہی سنایا تھا، جو شاید میں سننا چاہتا تھا۔ کالپرز اور ماسوریز قبائل کا اُس کے ظلم و ستم سے تنگ آکر اَپنے اَپنے علاقے چھوڑ جانا اور سندھ میں جا کر خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزارنا یا پھر تعلیمی اداروں کے قیام اور ترقیاتی منصوبوں پر کام کی مخالفت اور رکاوٹیں ڈالنا،سوئی کے مقام سے گیس کا نکلنا اور اربوں کی رائیلٹی کا اینٹھنا؛ کم ملنے پر بپھر جانا اور بلیک میلنگ کے اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آنا، وغیرہ وغیرہ۔ گئی بار اُس نے ہر بات اور ہر واقعہ نہایت تفصیل سے اوردلچسپ پیرائے میں بیان کیا تھا؛ یوں کہ ہمارا دھیان اُس کے قابو میں رہا اور تجسس ایک ساعت کے لیے بھی ٹوٹنے نہ پایا تھا۔ اُن دنوں اکبربگٹی زندہ تھا اور اُس کے حوالے سے سرکاری میڈیا سے آئے روز اِس طرح کی باتوں کو موضوع بنایا جارہا تھا۔
مجھے یاد ہے جب ہم قلعہ عبداللہ پہنچے اور کلیم خان کی باتوں کو دہرا رہے تھے، جو ہمارے لیے وہاں ٹھہرنے کے انتظامات کا جائزہ لینے میں مصروف ہو گیا تھا تو ہمارے ڈرائیور نے موقع مناسب جان کر کہا تھا؛‘‘جانتے ہیں صاحب! آپ کو بلوچستان کے حوالے سے ہمارے صاحب کی باتیں کیوں اچھی لگیں’’۔ اتنا کہہ کر ڈرائیور اپنی ہی بات پر چونکا۔ شایدجو اُسے کہنا تھا،ٹھیک سے نہ کہہ پایا تھا۔ اُس نے اپنی بات کی وضاحت کی:‘‘میرا مطلب ہے صاحب،تشویش والا اچھا، وہ اِس لیے جی کہ آپ کے ٹی وی شی وی نے یہ پریشانی ہمارے اندر ڈال رکھی ہے۔ تشویش والی پریشانی۔بلکہ صاحب، نفرت والی پریشانی ہر خبرنامے میں قطرہ قطرہ، جیسے بچوں کو پکڑ کر زور زبردستی اُن کا منہ کھولتے ہیں نا، پولیو والے قطرے ڈالنے کے لیے، یوں۔ اچھاصاحب، آپ تو افسر لوگ ہیں، اِدھر اُدھر کا حال سب دیکھا ہے، بڑا تجربہ ہے آپ کا۔ آپ تو جانتے ہوں گے کہ ایسی باتیں ساری کی ساری جھوٹ نہیں ہوتیں اور سارے کا سارا سچ بھی نہیں ہوتیں۔ لیکن صاحب، انہیں اِس طرح خبر بنا کربار بار دِکھانا اور ریڈیو سے سنوانا کہ سارے بلوچستان میں مارا ماری نظر آئے تو میں تو کہتا ہوں اِس کا مقصد کچھ اور ہو تاہوگا، گہرا اور زیادہ خطرے والا۔’’اس بار بھی وہی ڈرائیور ہمارے ساتھ تھا مگر اِس بار وہ سارا وقت لگ بھگ چُپ رہا،ہمارے یہاں واپس کوئٹہ پہنچنے تک۔ میں محسوس کر سکتا تھا کہ اُس کے اعصاب تنے ہوئے تھے۔ واپسی کے اس لمحہ تک اس کے ہاتھوں کی گرفت سٹئیرنگ پر شدید رہی تھی۔ ایسا پچھلی بار نہیں ہوا تھا۔ میں جب بھی اُس کے ہاتھوں پر نیلی رَگوں کا تناؤ دیکھتا، خوف کوایک سنسی کی صورت رَگوں کے اَندر اُترتا محسوس کرتا۔ میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا اور گوشہ چشم سے گھنی داڑھی اور بھاری مونچھوں کے پیچھے چھپے چہرے کو دیکھ سکتا تھا۔ میں چاہتا تو ذرا سی گردن موڑ کر اُسے دیکھ لیتا، مگر میں چہرہ سامنے کیے رہا اور ونڈ سکرین سے پار دیکھنا جاری رکھا حالاں کہ میرا دھیان وہاں نہیں تھا۔ میں صاف سُن رہا تھا کہ اُس نے گلا کھنگار کرصاف کیا تھا۔ میں دِیکھ سکتا تھا کہ کھنگارتے ہوئے اُس کا منہ پوری طرح کھل گیا تھا اور یہ کہ گھنی دَاڑھی اور بھاری مونچھوں کے اَندر سے تھوک کے چھینٹے اُچھل کر ڈیش بورڈ تک پہنچے تھے۔ اُس نے ٹھوڑی اُونچی کی یہاں تک کہ اُس کی بھرویں داڑھی گردن سے کُھل کر اور نمایاں ہو گئی۔ اب یقیناًوہ بیک مرر میں دِیکھ سکتا تھا۔ کلیم خان کو اور بٹے زئی کو بھی۔ بٹے زئی سے میں اِس بار کوئٹہ آنے پر ملا تھا۔ اپنے کام سے کام رکھنے والا یہ شخص کلیم خان سے بہت مختلف تھا۔ کلیم خان تو اس بار اپنے آپ سے بھی مختلف ہو گیا تھا۔ اس باراُسے ایسی خبریں سنانے میں کوئی دل چسپی نہ تھی جو ہم سننا چاہتے تھے۔
میں نے پہلے سے بنائے گئے فارمیٹ پردونوں کو شام تک رپورٹ کا ابتدائی ڈرافٹ میل کرنے کو کہا تھا کہ اگلے روز میری واپسی کی فلائٹ تھی۔ میں اسے اسلام آباد پہنچتے ہی فائنل کرنا چاہتا تھا۔ پچھلی بار میرے یہاں سے جانے کے کئی روز بعد اس طرح کا ڈرافٹ بھجوایا گیا تھا اور رپورٹ کئی ہفتے لٹکتی رہی تھی۔ اِس بار میں ایسا نہیں چاہتا۔شام سے پہلے پہلے بٹے زئی کا فون آگیا کہ وہ اور کلیم خان رپورٹ بنانے میں لگے ہوئے تھے اور یہ کہ اُنہیں کچھ اوروقت لگے گا۔ وہ اپنا کام مکمل کرکے جب شام ڈھلے ہوٹل آئے تو کلیم خان کے کندھے پر لیپ ٹاپ والا بیگ جھول رہا تھا۔ جب وہ آیا تو ہم ڈائینگ ہال میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم سے میری مراد،میں، ملک بشارت اور اس کاایک بلوچی دوست تھا، دوست محمد بلوچ۔ اس کا یہ دوست سارا وقت چپ رہا اور جب کلیم خان اور بٹے زئی آئے تو ہمارے درمیان مکمل خاموشی رینگنے لگی تھی۔ میرے اصرار پر بھی بٹے زئی اور کلیم خان نے ایک لقمہ تک نہ توڑا۔ خاموشی سے گھبرا کرمیں نے رپورٹ کی بابت پوچھ لیا۔کلیم خان چونکا جیسے وہ کچھ اور سوچ رہا تھا اور میرا سوال سمجھا ہی نہ تھا۔ اس نے بٹے زئی کو دیکھا، جیسے اُس کی چاہتا ہو۔ بٹے زئی نے بتایا کہ رپورٹ نہ صرف تیار تھی، مجھے ای میل بھی کر دی گئی تھی۔ میں نے اپنے آئی فون پر میل باکس کھولا، بھیجی گئی رپورٹ ڈاؤن لوڈ کی اور کرسر نیچے کی جانب سرکاتا اُسے دیکھتا گیا۔ ‘‘ہاں یہ ٹھیک ہے’’ میں مطمئن ہو گیا تھا۔ کچھ دیر بعد ہی ملک بشارت نے رخصت چاہی اوردوست محمد بلوچ کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہوا۔ بٹے زئی بھی ساتھ ہی کھڑا ہو گیا تھا۔ کلیم خان کو جیسے جانے کی جلدی نہ تھی۔ ہال میں اِدھر اُدھر بیٹھے لوگوں کو دیکھا اور گردن جھکاکر بیٹھا رہا۔ ہم دونوں چُپ بیٹھے رہے حتی کہ میں نے اس چُپ سے اُکتا کر اس سے مشورہ کیا ؛ ‘‘چلیں’’ وہ خاموشی سے اُٹھا اور میرے اُٹھے ہوئے ہاتھ کو تھام کر کہنے لگا:‘‘چلیں، آپ کے کمرے میں چلتے ہیں۔’’شاید وہ رپورٹ کے کچھ نقاط ڈسکس کرنا چاہتا تھا۔
کلیم خان تو جیسے بھرا پڑا تھا۔ کمرے میں پہنچتے ہی وہ فوراً رواں ہوگیاتاہم ان باتوں کا اس دورے اور رپورٹ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ تو شاید اس بابت بات بھی کرنا نہ چاہتا تھا۔ پہلے اس نے وہ واقعات سنائے کہ جن کے بیان میں، میں اُس کی نفرت اور دُکھ کو ایک ساتھ محسوس کر سکتا تھا۔ جب وہ بگٹی کو آپریشن کے دوران پہاڑوں کے اندر غار میں گھیرکرمارے جانے کی بابت بتا رہا تھا، تو اس عرصہ میں اس نے اپنا بیگ کھول کر لیپ ٹاپ آن کر لیا تھا۔اُس نے جو ویب سائیٹ کھول رکھی تھی، اُس کا نام آزاد بلوچستان ڈاٹ کام تھا۔ اس سائٹ پر جو پیج کھلا ہوا تھا اس پر اکبر بگٹی کی کئی تصاویر تھیں۔ سفید داڑھی، گھنی مونچھیں، سلیقے سے کنگھی کرکے پیچھے کے رُخ سنوارے گئے بال اور طویل قامت نے نواب کو سب میں نمایاں کر رکھا تھا۔ میں ان تصاویر کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ بگٹی نے تقریباً سب میں خاکی رَنگ کی جیکٹ پہن رکھی تھی اور ایک بل کھاتی سفید چادر دونوں کندھوں سے ہو کر پیچھے کو جھول رہی تھی۔ یہیں ایک اور تصویر بھی تھی، سب سے الگ۔ اس میں بگٹی کے سر کے بال سیاہ تھے اور داڑھی کھچڑی تھی جب کہ جیکٹ کا رنگ بھی سفید تھا۔ یہاں کندھے پر کوئی چادر نہ تھی۔ فریم میں کچھ اور لوگوں کی موجودگی سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ ایک تقریب کی تصویر تھی۔ بگٹی میز کے ایک طرف کھڑا قدرے آگے کو جھکا ہوا تھا اور میز کی دوسری طرف سے ایک سیاہ گھنی داڑھی والا بلوچی دونوں ہاتھوں پر دھری بندوق اُسے تھما رہا تھا۔ میز پر اور بھی بندوقیں ایک ترتیب میں رکھی ہوئی تھی۔ اس تصویر کے نیچے لکھا تھا: ‘‘کوئٹہ، ۱۹۷۳ ،ناراض بلوچی اپنی سرگرمیاں معطل کرکے اسلحہ گورنر بلوچستان کے حوالے کر رہے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ یہ والی تصویر تو میں پہلے بھی کسی اور سائیٹ پر دیکھ چکا تھا مگر وہاں ‘گورنر بگٹی کی اپیل پر باغی بلوچوں کے پہاڑوں سے اُترنے اور ہتھیار پھینکنے کا ایک منظر’ والا کیپشن لگایا گیا تھا۔
وہ اس تہتر والے بگٹی کے دوہزار چھ میں مارے جانے کا واقعہ سناتے ہوئے بار بار اپنی مٹھیاں بھینچتا اوردانتوں تلے دَبے نچلے ہونٹ کوزور سے کاٹتا رہا؛ اتنی زور سے کہ جہاں اُس کے سامنے والے دانت ہونٹوں میں گڑھے ہوئے تھے وہاں خون کے دو ننھے منے بلبلے اُگ آئے تھے۔ پھر اس نے جیسے بدن ڈھیلا چھوڑ دیا تھا۔اُس کی آنکھیں سامنے مانیٹر کو یوں دیکھ رہی تھیں، یوں، جیسے کچھ نہ دیکھ رہی تھیں۔ مجھے لگا جیسے وہ اپنے آپ سے جنگ کر رہا تھا۔ یہ کیفیت کچھ لمحوں کے لیے ہی رہی ہو گی کہ اُس کا بدن جھرجھرایا اور اس نے ایک بلوچی کہاوت بھی سنائی:‘‘کتوں کا گلہ کسی نے نہیں دیکھا، بھیڑ بکریوں کے گلے ہم روز دیکھتے ہیں حالاں کہ دِن میں کتنوں کے گلے کٹتے ہیں۔’’اِس کہاوت کا محل کیا تھا، میں سمجھ نہ پایا تھا مگر اگلے ہی لمحے لیپ ٹاپ پر ایک ایسی تصویر میرے سامنے تھی جس میں کئی لاشیں ناہموار زمین پر پڑی ہوئی تھیں۔ ہر لاش سفید کفن میں لپٹی ہوئی، یوں کہ لاش کفن میں لپیٹ کر پاؤں اور سر دونوں طرف سے گرہ لگا لی گئی تھی۔ ذرا فاصلے پر لوگوں کی قطار تھی۔ سب نے سر اورمنہ ڈھانپ رکھے تھے۔ لگ بھگ سب کے کندھوں سے دیسی ساخت کے ہتھیار جھول رہے تھے۔ وہ ہاتھ باندھے یوں کھڑے تھے، جیسے کھیت کنارے سفیدے کے درختوں کا سلسلہ ہو یا جیسے وہ جنازہ پڑھ رہے ہوں۔ اُن سے ذراپرے کالے رنگ کی چمکتی ہوئی پجیرو کھڑی تھی۔ کلیم خان کا تبصرہ رواں رہا:‘‘مرنے والے یوں گچھوں کی صورت مر جاتے ہیں۔ مر جاتے ہیں یا عدم پتہ ہو جاتے ہیں’’ پھر اُس نے پانچ اورلاشیں دِکھائیں،اَلگ اَلگ۔ اُن میں سے کوئی بھی کفن میں نہ تھی۔ اُن کا کوئی جنازہ پڑھنے والا نہ تھا۔ وہاں قریب کوئی سیاہ یا سفید پجیرو بھی نہ تھی۔
‘‘ایک عجیب جنگ ہے جس کے کوئی معنی نہیں ہیں، کوئی انجام نہیں ہے مگرجس میں زندگی کے دھتکارے ہوئے لوگوں کو دھکیلا جا رہا ہے۔ اور دیکھئے!’’وہ میری طرف آنکھیں یوں کھول کر دِیکھ رہا تھا کہ اس کی بھبھوکا آنکھوں میں ڈھیلوں کی پوری گولائیاں جیسے اپنے اپنے محور پرگھوم رہی تھی۔ اُس نے اُنگلی میری جانب اُٹھائی ہوئی تھی۔ اگر وہ اُنگلی نہ ہوتی ریوالور ہوتا اور اُس میں سے تڑ تڑ گولیاں نکلتیں تو ایک بھی ایسی نہ ہوتی جو میری شاہ رَگ سے اِدھر اُدھر ہو کر گزرتی، سب اندر دھنس کر پار ہو جاتیں۔ میں اُسے دیکھے چلے جانے پر مجبور تھا۔ اُنگلی وہیں کی وہیں رہی اور وہ کہنے لگا: ‘‘بلوچ سردار پیرو کی طرح کی بلائیں ہیں؛ بظاہر بہت معزز مگر فی الاصل ساز باز کرکے اَپنا اُلو سیدھا کرنے والے۔ وہ اِن دھتکارے ہوئے لوگوں کو خوب صورت مستقبل کی نوید سناتے ہیں، اَپنے ساتھ ملانے اور اپنی جنگ کا اِیندھن بنانے کے لیے اور جب یہ بھوکے ننگے بے چارے لوگ ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں تو سمجھو یہ سب پیرو بن جاتے ہیں، تین ٹانگوں والی بلا ئیں،جو مسافروں کو بہکا کر اپنا شکار بنا لیا کرتی تھیں۔’’
وہیں، جہاں اُس نے پانچ لاشیں دِکھائی تھیں،وہاں ایک طرف ایک نقشہ بھی تھا؛ آزاد بلوچستان کا نقشہ۔ مجھے اُس طرف متوجہ پاکر کلیم خان نے کہا۔ ‘‘ہاں بہ ظاہر آزاد بلوچستان ایک مقصد ہو سکتا ہے اِن سب کا۔ مگر کیا ایسا ممکن ہے۔ اور کیا سب اِس پر راضی ہو پائیں گے۔’’ اُس نے نقشہ پورے مانیٹر پر پھیلا لیا۔ اب میں اُس نقشے کے نیچے کا نوٹ پڑھ سکتا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ گریٹر بلوچستان کا یہ نقشہ۵ ۲ دسمبر ۱۹۳۲ کو کراچی سے چھپنے والے ایک ہفت روزے ‘‘البلوچ’’ نے صفحہ نمبر ۷ پر چھاپا تھا۔ ‘‘اس کے بعد تاریخ اور جغرافیہ نے کئی کروٹیں لیں۔ ان علاقوں میں کہ جہاں کا یہ نقشہ ہے وہاں بھی بہت کچھ بدلا مگر تب سے اب تک اس نقشے کو آزاد بلوچستان والے استعمال کرتے آئے ہیں۔’’
کلیم خان نے نقشے کے نچلی سمت اُنگلی رکھی اوراپنی بات کو آگے بڑھایا:‘‘یہ رہا لس بیلہ، اور یہاں سمندر کے ساتھ ساتھ سون میانی، اور ماڑہ، پسنی، گودارپھر ایرانی بلوچستان کے ساحلی علاقہ چہابارسے ہوتے اوپر کی طرف چلیں تودشتیباری، بزمالان شار، خواش تک کے علاقے، پھر نوشکی، مستونگ، کوئٹہ،ملک مری، ڈیرہ بگٹی، جیکب آباد خضدار اور وڈھ کے علاقوں کے علاوہ ایک مختصر سا علاقہ افغانستان کاعلاقہ،یہ سب شامل کرلیں تو اُس گریٹر بلوچستان کا نقشہ بنتا ہے جو یہ سب بغل میں دابے پھرتے ہیں۔’’
کلیم خان نے اپنا لیپ ٹاپ بند کر دیا۔ اُسے شٹ ڈاؤن کیے بغیر، پھر اُسے بیگ میں ڈال دیا۔ بیگ میں لیپ ٹاپ کی حفاظت کے لیے فراہم کی گئی کناروں سے چپکنے والی پٹیوں کو لگائے بغیر اُس نے زور سے بیگ کا کور گرایا۔ اُس کی بے چینی اور ناگواری پوری طرح ظاہر ہو رہی تھی۔ جب اُس نے بیگ کی زِپ کو ایک جھٹکے سے بند کیا تو میں زِپر کے چلنے کی آواز کو صاف سن سکتا تھا۔ پھروہ اچانک اُٹھ کھڑا ہوا، جیسے جانے لگا ہو۔ میں نے لمبا سانس لیا۔ ہاں اُسے اب چلے جانا ہی چاہیے تھا۔ عین اُس لمحے میرے سیل فون کا ڈسپلے بلنک ہوا، اور کال ٹون بجنے لگی۔ وہ تیزی سے مڑا،یوں جیسے اپنی ایڑھی پر گھوم گیا ہو۔ میں نے کال کینسل کر دِی اور سیل وہیں اُونددھادیا۔
‘‘ملک صاحب کا فون ہوگا۔ سن لیجئے۔’’
میں سیل پر اُچٹتی ہوئی نگاہ ڈال چکا تھا، یہ ملک بشارت ہی کا فون تھا، مگر نہ جانے کیوں میں اُسے کلیم خان کی موجودگی میں سننا نہ چاہتا تھا؛ بہانہ کردیا۔ وہ پھر وہاں بیٹھ گیا جیسے اُسے یقین تھا کہ فون آئے گا اور سامنے دیوار کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا:‘‘بٹے زئی نے گوانکو کا قصہ سنایا تھا نا آپ کو۔ یہاں کے سب قصوں میں گوانکو آتا ہے یا پھر براہوی لوک کہانیوں کے اندر سے نکل کر راہ روک لینے اور چھاتی پر چڑھ کر ہڈیاں تک نوچ کھانے والا خیالی کردار بوانٹو۔ براہوی کہانی کا بوانٹو کو تو حالات سونگھنے کی بھی طلب نہ ہوتی تھی کہ سونگھنے کے لیے اُس کی ناک ہی نہ تھی۔ راہ روکنا اور موجود سے بے نیاز پاکر دبوچ لینا اس کا وتیرہ تھا۔’’
اُس نے بیگ کندھے سے اُتار کر پھر بستر پرڈال کر ہاتھ سے پرے دھکیلا اور اپنی کمر کو دہرا ہونے دیا، جیسے جسم ڈھیلا چھوڑ دِیا گیا ہو،تاہم اُس کی زبان اسی رفتار سے چلتی رہی:‘‘ان بلاؤں کا شکار تو پانی بھی نہیں مانگتا۔’’اُس نے میری طرف دیکھا اور کہا: ‘‘وہ آزاد بلوچستان والی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی گئی مرنے والے بلوچوں کی لاشیں ہوں؛ نئی پرانی سب لاشیں جو میں نے دکھائی ہیں اور وہ سب جو ہم دیکھ بھی نہیں سکے،اُن سب کوگوا نکو اور بوانٹو اپنا اپنا لالچ دے کر اُٹھا لے گئے ہیں۔’’
اُس نے کندھے اُچکائے، میرے سیل کو دیکھا اورپہلے کی طرح پھر سے اُنگلی اُٹھالی۔ ‘‘دیکھئے! امریکہ والے بلوچستان کے باغیوں کی نہ صرف حمایت کر تے ہیں اُنہیں اور گہرا وار کرنے پر اُکساتے بھی ہیں۔ سارے باغی سوئٹزر لینڈ میں جا کر جمع ہوجاتے ہیں۔ ہیربیار مری، سلمان داؤد، مہراب بلوچ، ڈاکٹر مصطفی بلوچ اور بہت سارے۔بلوچ ریپبلکن آرمی والے افغانستان میں پھنسے ہوئے برہمداغ کے
 بھی وہاں رابطے ہیں۔ امریکہ کے تھنک ٹینک سی آئی اے کی نگرانی میں اِن کی معاونت کر رہے ہیں۔ میڈیا والوں کو ساتھ دینے کو کہا گیا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کسی بھی وقت آزاد بلوچستان کا سوئٹزر لینڈ میں اِعلان ہو جائے گا۔ ایک نئی غارت گری کے لیے اِعلان۔ جانتے ہیں، یہ آزادی، خون پینے والی جاتو ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔ جی، خوں خوار جاتو، عورت کی طرح لمبی زلفوں والی، جس کے ہم آپ اسیر ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے تیز دانت ہماری شاہ رگ پر گاڑ دیتی ہے۔ ہمارا خون پینے کے لیے۔ اِسی خون کو پی کر وہ جوان ہو جاتی ہے کسی بھی نواب، سردار، وڈیرے، وسائل رکھنے والے، سب کچھ اپنے حق میں کرلینے کا حیلہ کر لینے والے اورزور زبر دستی کرنے والوں کے بستروں میں گھس کرانہیں لذت پہنچانے کے لیے۔ بالکل ایسے ہی جیسے سینتالیس کو اس نے کتنوں کا خون پیا اور کلیجے چبائے مگر فوراً بعد جن کی رکھیل بنی اُن کی غلامی پر ہم مجبور ہیں۔’’
وہ بار بار سیل کو دیکھ رہا تھا۔ ملک بشارت نے میرے کال کاٹ دینے سے شاید اندازہ لگا لیا تھا کہ اب اسے کال نہیں کرنا۔ میں مطمئن ہو گیا تھا مگر جیسے کلیم خان کو یقین تھا کہ اُدھر سے کال آئے گی۔ وہ اپنی بات کو اَب جان بوجھ کر لمبا کر رہا تھا۔
‘‘دیکھئے سلیم صاحب!’’۔ اُس نے پہلی بار مجھے میرا نام لے کر مخاطب کیا۔ اور ٹھہر ٹھہر کر کہنے لگا:‘‘پہلے تو یاد رکھنا ہو گا کہ امریکہ ہمیشہ اپنے مفادات کے پیچھے بھاگتا ہے۔ یہ جو اصل میں امریکی ہیں نا، اصل اور خالص، تو یہ لالچی قوم ہے۔ مکار اور اپنے مفادات کے لیے نسلوں کو تباہ کرنے والی قوم۔ جس طرح ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں کیا۔ اچھا،پھر امریکی افغانستان میں بغیر سمندر پڑے ہیں۔ وہاں اُن کے پاس چیزیں لے جانے کے لیے، سورس نہیں ہے؛ جب لاؤ گے تو پاکستان سے لاؤ گے؛ لے جاؤ گے تو پاکستان سے لے جاؤ گے یا پھر ازبکستان سے آنا ہوگا، نہیں تو ایران سے۔ ایران سے تعلقات خراب ہیں۔ اور ہاں، سب سے ڈیپ سی تو دنیا میں گوادر ہے۔ امریکہ تو اس کے پیچھے ہے اسی لیے۔ پھرچائنا کی مارکیٹ کیپچر کرنا، اُسے کنٹرول کرنا اور چائینز کو اور ایک چھوٹے سے
 پاکٹ میں بیٹھ کر گلف کو کنٹرول کرنا، اُن کے آئل کو کنٹرول کرنا، کتنے ہی مقاصد ہیں امریکہ کے۔ اُسے عراق سے نکلنا ہے اور اُس کاتیل بھی ہاتھ سے نہیں جانے دینا۔ ایران میں ایران کے اندر ہی، ایک سسٹامیٹک چینج لانا ہے۔اِن تمام چیزوں کے لیے امریکہ کے لیے بیسٹ آپشن ہے، سب سے بیسٹ آپشن آزاد بلوچستان۔’’
اُس نے دونوں ہاتھ دائیں بائیں پھیلا لیے گویا یہاں اُس کا تجزیہ مکمل ہو جاتا تھا۔ مجھے اِنتظار تھا کہ وہ اپنی بات مکمل کرے اور جائے مگر یوں لگتا تھا اُسے اَب اِس موضوع پر بولنے میں لطف آ رہا تھا۔ میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگا: ‘‘اِدھر جو لوگ بیٹھے ہیں نا، یہ بھی تو امریکہ کو ویل کم کہتے ہیں۔ امریکہ کی غلامی میں جانے کے لیے ہر وقت تیار۔ پھر ہماری جینوئن لیڈرشپ نہ ہونے کی وجہ سے اِشوبہت زیادہ ایگری ویٹ ہو گیا ہے۔ مشرف، امریکہ، بگٹی، یقین کریں اگر میڈیا پر یہ چیزیں اتنی پروپے گیٹ نہ ہوتیں تو صرف دس فی صد لوگوں کو پتہ ہوتا، نوے فی صد کو پتہ ہی نہ ہوتا۔اب لگتا ہے سارے بلوچ چاہتے ہیں آزادی۔ کہتے ہیں جب امریکہ ہمارے ساتھ ہے۔ دوسرے بھی ہمارے ساتھ ہیں تو یہ یقینی ہے۔ ہمارے دو نمبر میڈیا کی وجہ سے۔ اتنی انہوں نے ہائیپ کری ایٹ کر دی ہے میں کہتا ہوں حالات اس لیے بہت زیادہ خراب ہیں۔’’
جس طرح بات کرتے ہوئے اُس کابدن جھول رہا تھا، دائیں بائیں اور آگے پیچھے یا پھر یکلخت گھوم جاتا تھا، بالکل اس طرح کبھی وہ گم ہونے والے بلوچوں کے ساتھ کھڑا ہو جاتا تھا جو آزادی کے نام قربان ہورہے تھے یا پھر وہ اسی آزادی کے نام پر ایک نہ ختم ہونے والی مہم اور اس کے پیچھے موجود سرداروں کو کوسنے لگتا تھا جو حالات کو خراب کر رہے تھے۔ وہ خود کس کے ساتھ کھڑا تھا، سہولت سے سمجھا نہ جاسکتا تھا تاہم اس کی باتیں ایسی نہ تھیں جنہیں دِھیان سے نہ سنا جاتا۔ اِس خواہش کے باوجود کہ وہ اپنی بات جلد مکمل کرے، میں اُسے توجہ سے سن رہا تھا۔
‘‘دیکھئے سلیم صاحب!’’ میں اُسے ہی دیکھ رہا تھا مگر لگتا تھا دیکھئے کہہ کر بات آگے بڑھانے، موضوع بدلنے یا کی جانے والی بات پرزیادہ زور دینے کے لیے وہ اِسے ایک حربے کے طور پر استعمال کر تا تھا۔ ‘‘میں نے کبھی نہیں سنا تھا کہ بلوچ لیڈر آپس میں گلے ملے ہوں،اس طرح۔ مگر یہ آپس میں مل رہے ہیں۔ جی، ان کی سوسال سے، باپ دادا سے، اور اجداد سے دشمنیاں چل رہی ہیں مگر امریکہ نے انہیں آپس میں ملا دیا ہے؛ یہ کمبائن ہو گئے ہیں؛ یونائے ٹڈ۔ سوسال کے دشمن اس امریکہ کی وجہ سے مل گئے ہیں’’۔ اُس نے دائیں ہاتھ کی اُنگلیاں پوری طرح کھول کر اُن میں بائیں ہاتھ کی اُنگلیاں پھنسائیں اور ہتھیلیاں باہم بھینچ لیں۔ ‘‘اور دیکھیں، الیکشن ہوئے،ایک ڈرامہ۔ نئی حکومت ایک اور ڈرامہ،منسٹرز بن رہے ہیں۔ نام نوٹ کرلیں، کل یہ گورنمنٹ میں نہیں ہوں گے تو سارے بی ایل اے میں ہوں گے، جی بلوچ لبریشن آرمی میں، اور بی ایل اے والے جتنے پہاڑوں پر چڑھے ہوئے ہیں نا، اُن کو منسٹر بنا دو، سب پاکستان کی حمایت میں بیان دے رہے ہوں گے۔ ہاں ہاں چُھپ چُھپ کر باتیں ضرور کریں گے۔ یہ بلوچوں کی حکمت عملی ہے۔ہم اپنے آباؤ اجداد سے ایک ایک چیز آبزرو کر رہے ہیں۔ہمار ے دادا جی کہتے تھے۔ ہمارے والد صاحب کہتے ہیں، ہم خود دیکھ رہے ہیں۔آج ایک اور بات سمجھ لیں۔آپ بلوچ کو کبھی نہیں جیت سکتے۔ بتادوں۔اس کو مار سکتے ہو، جیت نہیں سکتے۔ بہت ضدی قوم ہے۔ مارو گے، مارے گا،مر جائے گا، معاف نہیں کرے گا، لیکن آپ نے اِس کو گلے لگا لیا نا، تو ساتھ چلے گا اور جہنم میں بھی کود جائے گا۔’’اُس نے آخری بار میرے سیل کی طرف دِیکھا اور مایوس ہوکرجانے کے لیے اَپنا بیگ کندھے سے لٹکا لیالیکن اُس نے بولنا بند نہیں کیا۔ ‘‘بلوچوں پر حکمرانی کرنے والوں نے یہ کیا، اسے دور کیا نہ پھینک دیا۔ بیسٹ اسٹرٹیجی ہے اس کے سرداروں کو پیسے دو، وہ سب کو کنٹرول کرے گا۔ ایک بندہ سب کو۔ یہ انگریزوں کی اسٹرٹیجی تھی۔ اِسی کی اِنہیں عادت پڑی ہوئی ہے۔ ساری قوم کو بھوکا رکھا ہوا ہے، بھوکا باؤلا ہو جاتا ہے سرداروں کو اب امریکہ نے ساتھ ملا لیا ہے اور وہ باؤلوں کو اشارہ کر دیتے ہیں مارو، اس سے آزادی ملے گی۔آئی ڈونٹ نو کہ ہمارے حکمرانوں نے، جو انگریزوں نے ہمارے بلوچستان کے بارے میں لکھ رکھا ہے کتابوں میں، اُسے پڑھاہے۔ نہیں پڑھا ہوگا۔ ان کے پاس کرنے کو اور بہت سے کام ہیں؛ اِنہیں پڑھنے سے کیا واسطہ۔ یہ کتابیں پڑھ لیتے تو انہیں کنٹرول کرنا بڑا آسان تھا، کوئی مسئلہ نہیں تھا’’۔ وہ بات کرتے کرتے دروازے تک پہنچ چکا تھا اور مجھے لگتا تھا جیسے ایک درد دل رکھنے والا شخص رخصت ہو رہا تھا۔ یہ اس کا ایک اور روپ تھا۔اس بار اس نے کسی ایرانی کمبل یا خشک میووں کا تحفہ نہ دیا تھا، بس مجھے ایک درددِیا جو میرے اندرقطرہ قطرہ ٹپکنے لگا تھا۔ میں نے ساری تشویش کو پرے دھکیلا اور اُسے گلے لگا لیا۔
کلیم خان چلا گیا تو میں نے ملک بشارت کو فون کیا۔ رات بہت بیت چکی تھی مگر اس نے فوراً فون اُٹھا لیا۔ میں نے معذرت کی اور بتایا کہ ابھی ابھی کلیم خان گیا ہے تو بات کر رہا ہوں۔ کلیم خان کے نام پر ملک بشارت نے اُسے ماں کی بڑی سی گالی بک دی۔ میں نے اُس کے منہ سے کوئٹہ میں پہلی بار گالی سنی تھی۔ اُسے بھی اس کا اندازہ ہو گیا تھا۔ ادبدا کر کہا:‘‘اس مکار کی باتوں میں مت آنا یہاں سب پنجابیوں کے گھروں میں پرچے پھینکے جارہے ہیں، بلوچستان چھوڑ دینے کے لیے۔ ان پر حملے ہو رہے ہیں۔ سب کو کاروبار سمیٹنا پڑ رہے ہیں۔ گھر، دکان، کاروبار اونے پونے بیچنا پڑ رہے ہیں اور اس سب کے پیچھے کلیم خان کا ہاتھ ہے۔’’میں نے حیران ہو کر پوچھا،‘‘کلیم خان کاہاتھ’’‘‘یہاں کاروبار یاتو پٹھانوں کے پاس ہے یا پنجابیوں کے پاس اور نفرت کا سارا رُخ پنجابیوں کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔ جس کی جائیداد بِکتی ہے اُسے کلیم خان یا اُس کے بندے خریدتے ہیں۔ اور سنو حرامزادے کامجھے بھی پرچہ مل گیا ہے۔ عین اس وقت، جب میں نے آپ کو فون کیا تھا۔’’
میں پریشان ہو گیا مگر نہیں جانتا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ میں بوکھلایا گیا تھا۔ ملک بشارت کی بپھری ہوئی آواز آئی وہ سب کو باہر پھنکوا سکتا ہے مگر میں نہیں۔ میں نے ادھر پہاڑوں میں بسنے والوں سے رابطہ کر لیا ہے مگر۔۔۔’’وہ کچھ کہتے کہتے رُک گیا جیسے ابھی اس مگر سے شروع ہونے والی بات کا وقت نہیں آیا تھا۔ پھر اس کی آواز دھیمی ہوئی:‘‘وہ ایسے ہی کرتاہے’’ کسی افسر کے پاس جاکر بیٹھ جاتا ہے۔اُسے اپنا گواہ بنانے کے لیے۔ اُس کے آدمی اس کا بے نام پرچہ چپکے سے نشان زد کئے ہوئے گھر میں پھینک جاتے ہیں اور پھر اُس کی جائیداد میں ایک اور کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی اس پرچے کو اہمیت نہیں دیتا تو کلیم خان،بی ایل اے کے ایک اورپنجابی مخبر کی اطلاع اُدھر پہاڑوں میں دے دیتا ہے اور رات کی رات کوئی حادثہ ہو جاتا ہے۔’’
‘‘م۔۔م۔۔ مگر۔۔ تم اتنا یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو؟’’‘‘سلیم بھائی،’’ اس بار اس کی آواز واقعی بھرا گئی تھی۔ ‘‘اس لیے۔ اس لیے کہ اب تک میں بھی یہی کرتا رہا ہوں۔ مجھے افسوس ہے کہ وہ جو کچلاک میں ہنگامہ ہوا، اس میں کچھ میری مخبری کا دخل تھا۔ پہاڑوں میں روپوش بلوچوں سے میرے بھی رابطے ہیں۔ سروائیول کے لیے۔ تاہم آپ بچ گئے،میں اِس پر خوش ہوں۔کلیم خان بچا لایا شاید مجھ پر وار کرنے کے دورانیے میں آپ کو اپنا گواہ بنانے۔ وہ آپ کے پاس بیٹھا رہا۔ مگر ہاں، میں نے اپنا بندوبست کرلیا اور اُس کا وار خطا ہو گیا ہے لہذا اب آپ کو نکلنے کے لیے بھی کچھ کرنا ہوگا۔ کسی اور کے ساتھ نہیں میرے ساتھ جانا ہوگا ائیر پورٹ تک۔’’
یہ سنتے ہی فون میرے ہاتھوں سے گر گیا۔ مجھے یوں لگا جیسے رات کی تاریکی اندر ہو ٹل میں گھس آئی تھی، اند ر میرے کمرے میں، اور اس تاریکی میں اِدھر اُدھر مجھے پکارنے والوں کا ہجوم تھا۔ میں نے غور سے دیکھا ایک طرف کلیم خان تھا چمکیلے کا غذ میں تحائف کا بنڈل لیے اور دوسری طرف والے لوگوں میں سب سے آگے ملک بشارت تھا۔ اُس کے ہاتھ میں پھول دار کاغذمیں لپٹے ہوا کو ئی تحفہ تھا، وہ بھی میرے لیے۔ میں نے دونوں کو اپنا نام پکارتے سنا، بہت محبت سے۔ میں ایک طرف ہوتا تو دوسرامجھے میرے نام سے پکارتا۔ میں فیصلہ نہ کر پارہا تھا کہ اُن کے ہاتھوں میں تحائف کے پیکٹ رِسنے لگے۔ میں صاف دیکھ سکتا تھا کہ وہ لہو تھا، لہو وہاں سے رِستا تھا اور لگتا جیسے میرے دِل سے وہاں پمپ ہو رہا تھا اور بہنے کے لیے۔
وہ اِتنی محبت سے بلا رہے ہیں کہ مجھے دونوں کی طرف جانا ہے۔ بھاگ کر اتنی تیزی سے جتنی تیزی سے ہم نے آنکھیں بند کر کے ننگے بدن سدو نالے میں چھلانگ لگائی تھی یا پھر کچلاک سے نکلے تھے۔ میں دونوں طرف ہاتھ پھیلا کر اُنہیں جلد آنے کی اطلاع دینے پر خود کو مجبور پاتا ہوں کہ کوئی میری گردن جکڑے ہوئے ہے اور عجب سانحہ ہے کہ میرے دِل سے مسلسل خون نچڑرہا ہے، یوں جیسے سدو سے نکلتے وقت خوف اور پانی ٹپکتا تھا اور میری آواز استخوانی پنجوں میں دبنے سے حلقوم میں دفن ہو کر رہ جاتی ہے۔