داؤ

مصنف : اشفاق احمد

سلسلہ : اردو ادب

شمارہ : اکتوبر 2008

صاحبِ دل قارئین کے لیے اُردو ادب سے ایک خوب صورت انتخاب

تائی کس دیس کی رہنے والی تھی، کدھر سے آئی تھی اور اس کا نام کیا تھا اس کے بارے میں گاؤں کا کوئی آدمی کچھ نہ جانتا تھا۔ ہر چھوٹا بڑا اسے تائی کہہ کر بلاتا۔ چوکیدار کی کتاب میں بھی اس کا نام تائی بنت نگینہ درج تھا۔

مسجد کے ساتھ کچے کوٹھے میں وہ سوئی دھاگا لے کر سارا دن کُرتے سیا کرتی۔ شام کو شہر سے محمد دین درزی سائیکل پر سوار ہوکر آتا، کُرتہ لے جاتا اور چھ آنے دے جاتا۔ خیراں نائین کے گھر سے دونوں وقت تائی کو دو آنے کی روٹی پہنچ جاتی اور باقی کے چار آنے وہ اللہ کی راہ میں خیرات کردیتی۔

پہلے پہل وہ مسجد میں تیل ڈالتی رہی، لڑکے لڑکیوں کو کھیل تماشے لے کر دیتی رہی اور آڑے وقت پر عورتوں کی مدد کرتی رہی پر جب سے موچی کا لڑکا عبدو مدرسے بیٹھا تھا، تائی چار آنوں کا زیادہ حصہ عبدو کے باپ کو لڑکے کی قلم دوات اور تختی کھڑیا کے لیے دینے لگی ۔وہ عورتیں جو تائی سے کبھی کبھار چند ٹکے ٹھگ لیا کرتی تھیں، موچیوں کے پتر سے خار کھانے لگی تھیں اور ان کو عبدو زہر لگنے لگا تھا۔ پھاتاں بھرائین اکثر تائی سے کہتی…… ‘‘لے تائی یہ بھی کوئی دان پان کی جگہ ہے۔ عبدو کا چاچا مرے ڈھور کی چمڑی سے سونا بناتا ہے، تیرے پیسوں سے کوئی موٹا ہوجائے گا۔ ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ جو جائے سو اچھا’’۔تائی ہنس کر کہتی: ‘‘تیرے گھر والا بھی تو مرے ڈھور کا چمڑا سونا بناتا ہے…… دھیئے! تو آنے دونی سے کون سی شاہ ہوجائے گی۔ عبدو بال ہے، اسے پڑھنے کا چاؤ ہے۔ پیسہ دو پیسے لے کر اس کی روح راضی ہوجاتی ہے۔ میرا جی خوش ہوتا ہے’’۔پھاتاں اُٹھ کر پلّو جھٹکتی اور کہتی: ‘‘لے تائی پھر تیری دونیوں سے تو وہ حاکم نہیں بنتا، ان شاء اللہ!اور تائی ہولے سے کہتی: ‘‘عبدو حاکم نہ بنے نہ سہی، کالی کملی والے کے دربار کی میں تو گولی بن جاؤں گی’’۔

کسی کسی دن ملا اسماعیل بھی داڑھی کو مہندی لگا کر اور دھوئے کھدر کی پگڑی باندھ کر تائی کے پاس آتا اور کہتا: ‘‘تائی! مسجد میں نہ لوٹا ہے نہ مسواک ،آج چونی اللہ کے گھر کے لیے بھی نکال دے، تو تو مسجد کو بھول ہی گئی ہے’’۔ تائی دوپٹے کی گرہ کھولتے ہی کہتی: ‘‘صدقے صدقے جاؤں اللہ رسول کے گھر پر۔ چونی کیا اس گھر پر تو میری جان بھی قربان، میں دوزخی بے نصیبی! اور اللہ رسول کے گھر کی اُونچی شان، مولا تیرے صدقے میری قسمت! میری قسمت!!’’اور ملا چونی لے کر چلا جاتا۔

لالو، شکندر اور پھتی کے کھیت ساتھ ساتھ تھے۔ تینوں یار دن بھر باجرے کے کھیت سے چڑیاں اُڑایا اور ایک دوسرے کو بولیاں سنایا کرتے۔شکندر نے کہا: ‘‘یار ٹپے گاگا کر تو گلا ادھوڑی کا کھونسڑا بن گیا ہے، کوئی کھیل کھیلو’’۔ پھتی بولا: ‘‘شاباش بچو! اوت پنتھی جو صلاح دے گا، گھر گھاٹے والی دے گا۔ ادھر کھیل کھیلو، ادھر چڑیاں باجرے کو پلیتہ لگا دیں۔ دانہ ختم سوکھے ڈنڈے حاضر’’۔شکندر نے کہا: ‘‘لے او لالو یہ بھی کہے گا میں گھگھولوں گا۔لالو نے ہنس کر کہا: ‘‘یہ بیچارا بھی کیا کرے۔ تو جانتا ہے اس کا باپ بڑا سور ہے۔ چڑیاں ایک دانہ چگ گئیں تو کانوں میں سر کردے گا۔ پھر بتا تیری ماں کو ماسی آکھے گا؟’’شکندر نے کہا: ‘‘اچھا بچو یاروں کے ساتھ بھی مسخری کرتے ہو۔ میں کبڈی اور کشتی کی بات نہیں کرتا، بیری ہیٹھ بیٹھ کر کھیلنے والی کھیل کی کہتا ہوں’’۔‘‘تو پھر ‘‘باراں بیٹی’’ کھیلو۔ پھتی نے خوش ہوکر کہا۔‘‘باراں بیٹی بھی کوئی کھیل ہے؟’’ شکندر بولا۔لالو نے پوچھا: ‘‘اوئے تاش کے ارادے تو نہیں یاروں کے؟’’او ر شکندر بولا: ‘‘صدقے سجنا من کی بات بوجھ لی’’۔اب مشکل یہ تھی کہ تاش کہاں سے لی جائے۔ سارے گاؤں میں نمبردار کے گھر ایک تاش تھی وہ کسی کو دیتا نہیں تھا۔ نئی خریدنے کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ سوچ سوچ کر ان کی نظر تائی پر پڑی اور شکندر اور لالو مسکین شکلیں بنا کر تائی کے گھر اپڑ گئے۔ انہوں نے ایک زبان ہوکر کہا: ‘‘تائی سارا دن کھیت پر گزارتے ہیں اور نماز پڑھنے کے لیے نہ مصلیٰ نہ لوٹا، چاچے سے کہتے ہیں لے دو تو اُلٹا کہتا ہے کہ نماز پڑھو گے کہ چڑیا اُڑاؤ گے’’۔ تائی نے سوئی روک کر کہا: ‘‘توبہ توبہ بے نماز کتے آپ تو اللہ کا نام لیتے نہیں، دوسروں کو بھی روکتے ہیں۔ توبہ توبہ’’۔ اور تائی نے ساڑھے پانچ آنے نکال کر انہیں دے دیے۔

کمال جواری، ٹھیکیدار کے آوے پر اینٹیں پکاتا تھا اور وہیں اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ رہتا تھا۔ لڑکا جب سے پیدا ہوا تھا اس نے عید شب برات پر بھی کرتا نہ دیکھا تھااور خود کماں بھی اپنی زندگی کے چالیس برس لنگوٹی میں بسر کرگیا تھا۔ مہینے کے مہینے جو کچھ ملتا جوئے میں ہار دیتا۔ اس کے بعد گڑوا پرات گروی رکھ کے جی بہلاتا اور جب وہ بھی ہار جاتا تو منجی بھی رحمے قصائی کے پاس رکھ آتا۔ قسمت سے داؤ سیدھا پڑتا تو چیزیں واپس آجاتیں، نہیں تو مہینہ بھر زمین پر سونا پڑتا اور تغاری میں آٹا گوندھنا پڑتا۔ کسی دن جب جواریوں کی چار یاری وقت مقرر کر کے اسے ‘‘گھتی’’ یا کھیلنے پر مجبور کرتی تو وہ جی کڑا کر کے اپنے ننگے بچے کو کندھے پر بٹھا کے تائی کے پاس پہنچتا اور اسی طرح سواری بنابنا کہتا: ‘‘تائی روز اللہ کی راہ میں دیتی ہو، ایک دن شیطان کی راہ میں بھی خیرات کردو’’۔اور تائی خفا ہوکر کہتی ‘‘تو استغفار کر کمیاں استغفار! تیرے ہاتھ روز قیامت کو گواہی دیں گے کہ کماں ہمیں جوا کھلاتا تھا۔ تیرا رواں رواں تیرے برخلاف شہادت دے گا پھر کس کو مدد کے لیے بلائے گا؟’’کماں کہتا: ‘‘تائی مدد کے لیے نہ آج کسی کو بلاتا ہوں نہ اس دن بلاؤں گا۔ دھرتی پر ٹھیکیدار کی اینٹیں پکاپکا کر لوہا لاکھا ہوگیا۔ آسمان پر فرشتے جس بھٹی پر لگا دیں گے لگ جاؤں گا۔ یاروں کا کیا ہے……’’ تائی بات کاٹتی: ‘‘نہ نہ ایسے کفر نہ تول کمیاں۔ کوڑا سودا نہ کر، سچا بن جا سچا۔ پیسے ٹکے کا جوا نہ کھیل، جی جان کی بازی لگا شیرا، جی جان کی’’۔کماں کہتا: ‘‘میں تیری طرح کملا نہیں تائی، بھلا روز چار آنے گنوا کر تجھے کیا ملتا ہے؟’’‘‘گنوا کر!’’ تائی حیران ہوکر کہتی: ‘‘یہ گوانا ہے بے عقلا؟ یہ تومیرا محل بنا رہے ہیں۔ اُونچی ماڑی تیاری کر رہے ہیں، ایسی ماڑی……’’‘‘محل!’’ کماں بچے کو کندھے سے اُتار کے پوچھتا: ‘‘کس دیس میں تائی، کس ملک میں؟’’اور تائی آسمان کی طرف سوئی اُٹھا کر کہتی: ‘‘اس دیس میں اللہ مولا کی بادشاہی میں’’۔کماں دانت نکال کر کہتا: ‘‘اچھا تائی اس محل میں ایک کوٹھڑی کماں کے بال بچوں کو بھی دے دینا’’۔‘‘بس نیک کرم ہی مالک ہیں اور بھلے کام ہی مختار ہیں’’۔ کماں ذرا بے چین ہوکر کہتا: ‘‘تائی آج تو چونی دے دے، کل سے میں بھی اُونچی ماڑی کی نیو رکھ دوں گا’’۔‘‘آج کیوں نہیں بھلا؟’’ تائی پوچھتی۔اور کماں اپنے لڑکے کو گود میں بٹھا کر کہتا: ‘‘آج دن اچھا نہیں، تائی۔ سویرے سویرے ایک چڑی میری گھر والی کے سر پر بیٹھ گئی تھی’’۔تائی کہتی: ‘‘چڑی بیٹھے چاہے کبوتر۔ کمیاں جو دم گزر گیا پھر نہیں آیا…… آنے ٹکے کے داؤ چھوڑ کر بڑا داؤ لگا، بڑا’’۔اور کماں مایوس ہوکر کہتا: ‘‘آ نہ تو ملتا نہیں بڑا کدھر لگاؤں؟’’تائی ہولے سے کہنے لگتی: ‘‘جی جان کا داؤ بڑی سرکار سے لگا، سچی سرکار سے کھیل’’۔کماں اُٹھتے ہوئے کہتا: ‘‘لے تائی! میری جھولی ہر بار تیرے سامنے خالی آئی، خالی گئی۔ تیرے برکت والے پیسوں سے ایک داؤ لگ جاتا تو وارے نیارے ہوجاتے، پر خیر صبر شکر’’۔

اور گلی میں چلتے ہوئے وہ اپنے آپ سے باتیں کرنے لگتا۔ ‘‘بڑا داؤ لگا کمیاں بڑا داؤ۔ آنے ٹکے کا داؤ بھی کوئی داؤ ہے’’۔ اور پھر وہ ہولے سے اپنے آپ کو سمجھاتا۔ ‘‘اچھا خیر اگلے مہینے کی ساری تنخواہ اور منجی پرات ایک دم رحمے قصائی کے پاس رکھ دوں گا۔ پھر لگا دوں گا بڑ ا داؤ…… شاباش میرے بڑا داؤ’’۔

مہینے آتے رہے اور جاتے رہے پر کمیاں بڑا داؤ نہ لگا سکا۔ تنخواہ کے کچھ روپے گروی چیزیں چھڑانے میں لگ جاتے، ایک دو کا آٹا آجاتا اور باقی ‘‘گھتیا’’ میں برابر ہوجاتے۔ گاؤں میں کماں جب بھی تائی کے دروازے پر اسے سلام کرنے آتا تو تائی یہی کہتی: ‘‘لگا دے شیرا سب کچھ لگا دے ایک دن سب کچھ لگا دے’’۔ اور کماں منہ ہی منہ میں تائی کی بات دہراتا آگے نکل جاتا۔ایک بار جب اس کو تنخواہ ملی تو اتفاق سے اس کی کوئی چیز بھی گروی نہ تھی۔ اس نے روپے ڈب میں رکھ لیے اور گھرسے پرات سر پر رکھ کر منجی کو اُوپر ڈالا اور گڑوا ہاتھ میں پکڑ کر چل نکلا۔ بھینڈی مراثی اسے رحمے قصائی کی دکان پر ہی مل گیا اور کماں اسے ایک طرف لے جا کر کہنے لگا: ‘‘لے پھر آج کالو جھڑوس کو لے کر شام کے وقت آجا۔ یہ دیکھ اٹھارہ ہیں پورے، اٹھارہ ہیں اٹھارہ……’’

جب کماں تائی کو سلام کرنے اور اس کو بڑے داؤ کی بات بتانے اس کے کوٹھے کی طرف گیا تو گاؤں کے بہت سے آدمی تائی کے دروازے پر جمع تھے اور ان میں کماں کی گھر والی بھی تھی۔ملا کہہ رہا تھا: ‘‘سبحان اللہ! کیا بہشتی بی بی ہے…… نماز پڑھتے پڑھتے بڑے دربار میں جا پہنچی…… سبحان اللہ’’۔عبدو کے باپ نے نمبردار کی طرف دیکھ کر کہا: ‘‘چودھری جی کفن…… کفن تو……’’اور ملا نے ٹوک کر کہا: ‘‘توبہ توبہ ایسی بی بی کو کفن کی کیا ضرورت…… سبحان اللہ! سبحان اللہ!! بہشتوں کی حور کو دنیا کے کپڑے سے کیا مطلب’’۔بھرائین بولی: ‘‘کھر کے کفن پر بھی پندرہ بیس لگ جائیں گے’’۔عبدو کا باپ خفا ہو کر بولا: ‘‘بہن…… ملا جی کی بات سنی نہیں، بہشتی حور کو کفن کی کیا ضرورت…… اللہ کے پیارے سجدے میں…… سبحان اللہ! واہ سبحان اللہ!!’’

کماں تائی کو اس طرح لیٹے دیکھ کر کبڑا سا ہوگیا اور ہاتھ ہلا کر بولا: ‘‘نہ نہ ایسا کام نہ کرنا یہ تو اپنی تائی تھی…… سارے گاؤں کی تائی’’۔ عبدو کے باپ اور چودھری نے سرخ سرخ آنکھوں سے اُسے تاڑا اور ملا نے جھڑک کر کہا: ‘‘بے عقلا! خموش ہوجا’’۔ مگر کماں اسی طرح ہاتھ ہلاتا رہا۔‘‘نہ نہ ملا جی، یہ تو اپنی تائی تھی……’’ پھر اس نے اپنی گھر والی سے کہا: ‘‘تو یہاں ٹھہر میں شہر سے منٹوں میں کفن لاتا ہوں’’۔اور بھیڑ چھوڑ کر کماں یوں بھاگا جیسے اسے دو مہینے کی اکٹھی تنخواہ دینے کے لیے آواز پڑی ہو۔