دعا کے مختلف پہلو

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : دعا

شمارہ : ستمبر 2007

دعا کی فضیلت

          بندے کا اپنے مولیٰ سے دعا مانگنا اور اللہ تعالیٰ کا اس کو شرف قبولیت عطا فرمانا وہ نعمت عظمیٰ اور سعادت کبریٰ ہے، جس کا ذوق و شوق کے ساتھ خیر مقدم ضروری ہے چونکہ اس سعادت کے حصول کا حکم دیا گیا ہے اس لیے دعا عبادت ہے اور عبادت ہی مقصد تخلیق انسان ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

          "ادعونی استجب لکم ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جھنم دخرین۔"

          ‘‘تم مجھے پکارو میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔ جو لوگ گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، وہ ضرور ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔’’ (سوہ المومن ۶۰)

          اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

          "واذا سالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان۔"

          ‘‘اور جب پوچھیں تم سے (اے محمدﷺ) میرے بندے میرے بارے میں تو (انھیں بتا دو کہ ) میں تو قریب ہی ہوں، جواب دیتا ہوں پکارنے والے کی پکار کا جب وہ مجھے پکارتا ہے۔’’ (سورہ البقرہ آیت ۱۸۶)

۱۔      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے ہاں دعا سے زیادہ قابل اکرام کوئی شے نہیں ہے۔

۲۔     حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات بہت پسند ہے کہ اس سے مانگا جائے اور افضل ترین عبادت خوشحالی کا انتظار ہے۔

۳۔     حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا اس سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔

۴۔     حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص یہ چاہتا ہے کہ مصائب کے وقت اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول کرلے اسے چاہیے کہ عیش و راحت کے ایام میں خوب دعا مانگا کرے۔

۵۔     حضرت سلمانؓ فارسی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تقدیر کے فیصلے کو اگر کوئی چیز بدل سکتی ہے تووہ صرف دعا ہے اورعمر میں اگر کوئی چیز اضافہ کر سکتی ہے تو وہ دوسروں کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک ہے۔

دعا کے نتائج ہمیشہ چار صورتوں میں مرتب ہوتے ہیں

(الف) یا تو دعا اسی وقت بعینہٖ قبول ہو جاتی ہے یا کچھ دیر بعد اس کا نتیجہ نکلتا ہے۔

(ب) یا مطلوبہ شے کے بدلے میں کوئی دوسری خیر اور فلاح عطا کی جاتی ہے جو اللہ کے علم میں

 مانگنے والے کے حق میں زیادہ نفع بخش ہوتی ہے۔

(ج) اور کسی دعا کے مطلوبہ نتائج اگر دنیا میں بظاہر مرتب نہ ہوں تو اس کے عوض آخرت کا اجر و

(د) یا دعا کی برکت سے کوئی نازل ہونے والی بلا یا مصیبت رد کر دی جاتی ہے۔’’

آدابِ دعا

          احادیث میں دعا کے لیے بہت سے آداب کی تعلیم فرمائی گئی ہے جن کو ملحوظ رکھ کر دعا کرنا بلاشبہ کلید کامیابی ہے لیکن اگر کوئی شخص کسی وقت ان تمام یا بعض آداب کو جمع نہ کر سکے تو یہ نہیں چاہیے کہ دعا ہی کو چھوڑ دے۔ بلکہ دعا ہر حال میں مفید ہی مفید ہے اور ہر حال میں حق تعالیٰ جل شانہ سے قبولیت کی دعا کی امید ہے۔

          یہ آداب مختلف احادیث میں وارد ہوئے ہیں۔ اس جگہ صرف خلاصہ مضمون پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

(۱) کھانے، پینے، پہننے اور کمانے میں حرام سے بچنا۔

(۲) اخلاص کے ساتھ دعا کرنا یعنی دل سے یہ سمجھنا کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی ہمارا مقصد پورا نہیں کر سکتا۔

(۳) دعا سے پہلے کوئی نیک کام کرنا اور بوقت دعا اس کا اس طرح ذکر کرنا کہ یا اللہ میں نے آپ کی رضا کے لیے فلاں عمل کیا ہے اور آپ اس کی برکت سے میرا فلاں کام کر دیجیے۔

(۴) پاک و صاف ہو کر دعا کرنااور وضو کرنا۔

(۵) دعا کے وقت قبلہ رخ ہونا۔

(۶) آداب و تواضع کے ساتھ دو زانو ہو کر بیٹھنا۔

(۷) دعا کے اول و آخر میں حق سبحانہ کی حمد و ثنا کرنا۔

(۸) اسی طرح اول و آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنا۔

(۹) دعا کے لیے دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں کے برابر اٹھانا۔

(۱۰) اپنی محتاجی اور عاجزی کو ذکر کرنا۔

(۱۱) دعا کے وقت آسمان کی طرف نظر نہ اٹھانا۔

(۱۲) اللہ تبارک و تعالیٰ کے اسمائے حسنہ اور صفات الٰہیہ کا ذکر کرکے دعا کرنا۔

(۱۳) الفاظ دعا میں قافیہ بندی کے تکلف سے بچنا۔

(۱۴) دعا اگر نظم میں ہو تو گانے کی صورت سے بچنا۔

(۱۵) دعا کے وقت صدق دل سے یہ یقین رکھنا کہ اللہ میری دعا سن رہا ہے۔

(۱۶) دعا میں آواز پست کرنا۔

(۱۷) مسنون دعاؤں کے ساتھ دعا کرنا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں کیونکہ آپ نے دین و دنیا کی کوئی حاجت نہیں چھوڑی جس کی تعلیم نہ فرمائی ہو۔

(۱۸) ایسی دعا کرنا جو اکثر حاجات دینی و دنیوی کو حاوی و شامل ہو۔

(۱۹) دعا میں اول اپنے لیے دعا کرنا اور پھر اپنے والدین اور دوسرے مسلمان بھائیوں کو شریک کرنا۔ (۲۰) اگر امام ہو تو تنہا اپنے لیے دعا نہ کرے بلکہ سب شرکائے جماعت کو دعا میں شریک کرے۔

(۲۱) رغبت و شوق نیز یقین و عزم کے ساتھ دعا کرے (یعنی یوں نہ کہے کہ یا اللہ اگر تو چاہے تو میرا کام پورا کر دے) ۔

(۲۲) قبول دعا کی امید قوی رکھے کہ اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے۔

(۲۳) دعا میں تکرار کرے یعنی بار بار دعا کرے۔

(۲۴) دعا میں الحاـ و زاری کرے۔

(۲۵) کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے۔

(۲۶) ایسی چیز کی دعا نہ کرے جو طے ہو چکی ہو (مثلاً عورت یہ دعا نہ کرے کہ میں مرد ہو جاؤں)۔ (۲۷)کسی محال چیز کی دعا نہ کرے۔

(۲۸) اللہ تعالیٰ کی رحمت کو صرف اپنے لیے مخصوص کرنے کی دعا نہ کرے۔

(۲۹) اپنی سب حاجات صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کرے۔

(۳۰) دعا کرنے والا بھی آخر میں آمین کہے اور سننے والا بھی۔

(۳۱) مقبولیت دعا میں جلدی نہ کرے یعنی یہ نہ کہے کہ میں نے دعا کی تھی اب تک قبول کیوں نہیں ہوئی۔

قبولیت دعا کے مقامات

          عرفات ، مزدلفہ، ملتزم، حجر اسود، حطیم، مقام ابراہیم، حرم نبوی، حرم بیت المقدس، مسجد اقصیٰ، مسجد نبوی میں مقام ریاض الجنۃ ، ان تمام مقامات پر دعا مانگنے کی فضیلت اور دعا کی قبولیت کے بارے میں متعدد روایات کتب احادیث میں مذکور ہیں۔

اوقاتِ اجابت

          دعا ہر وقت قبول ہو سکتی ہے۔ لیکن حق تعالیٰ جل شانہ نے اپنے فضل و کرم سے بعض اوقات کو مقبولیت دعا میں مخصوص امتیاز عطا فرمایا ہے کہ ان میں دعا مقبول ہونے کی توقع بہت زیادہ ہے۔ اس لیے ان اوقات کو ضائع نہ کرنا چاہیے۔

شب قدر: رمضان المبارک کے عشرۂ اخیرہ کی طاق راتیں یعنی ۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷، ۲۹ اور ان میں بھی سب سے زیادہ ستائیسویں رات زیادہ قابل اہتمام ہے۔

یوم عرفہ: مقبولیت دعا کے لیے نہایت مبارک و مخصوص دن ہے۔

ماہ رمضان المبارک :رمضان شریف کے تمام دن اور راتیں برکات و خیرات کے ساتھ مخصوص ہیں۔ سب میں دعا قبول کی جاتی ہے۔

وقت تہجد: تہجد کا وقت بھی دعا کی قبولیت کا خاص وقت ہے اس کے علاوہ جمعہ کا دن بھی ۔

دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں

جلد بازی اور اللہ کی رحمت سے مایوسی

۱۔      حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ہر مسلمان کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک وہ تھڑ دلا جلد باز ہو کر یہ نہ کہے کہ میں نے اللہ سے بہت دعائیں مانگیں لیکن قبول نہیں ہوتیں۔

۲۔     ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ جلد بازی کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ دعا مانگنے والا کہے کہ میں نے یہ دعا مانگی، بار بار مانگی لیکن میرا خیال ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوتی پھر وہ مایوس ہو کر دعا مانگنا چھوڑ دے۔ (متفق علیہ)

گناہ اور قطع رحمی کی دعا مانگنا

          حضرت عبادہؓ بن صامت روایت کرتے ہیں کہ روئے زمین پر جو مسلمان بھی اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا مانگتا ہے تو یا تو اس کو وہی چیز مل جاتی ہے جو اس نے مانگی تھی یا اس سے کوئی مصیبت اور تکلیف رد کر دی جاتی ہے جب تک کہ وہ کسی گناہ کے کام یا قطع رحمی کی دعا نہ مانگے۔ (ترمذی)

اکل و شرب کا حرام ہونا

          نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کوئی شخص اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر کہتا ہے یا رب، یا رب حالانکہ اس کا کھانا پینا اور لباس حرام کمائی سے ہے حرام چیزیں بطور غذا استعمال کرتا ہے تو ظاہر ہے ایسے شخص کی دعاکیونکر قبول ہو۔ (متفق علیہ)

بے یقینی اور بے پروائی سے دعا مانگنا

          نبی کریم ؐ کا ارشاد ہے کہ جب کوئی شخص دعا مانگے تو یہ نہ کہے کہ اے اللہ اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما، تو چاہے تو مجھے رزق دے بلکہ مانگنے والے کو چاہیے کہ اپنے سوال پر اصرار کرے اور عزم و یقین کے ساتھ مانگے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تو سب کچھ کر سکتا ہے اور کوئی شخص اسے مجبور نہیں کر سکتا۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ترک کر دینا

          حضرت حذیفہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم پر لازم ہے کہ نیک کام کرنے کا حکم کرتے رہو اور برائیوں سے منع کرتے رہو۔ ورنہ اس بات کا خطرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر کوئی عذاب نہ آجائے پھر تم دعا مانگو کہ عذاب دور ہوجائے لیکن تمھاری دعا قبول نہ ہو۔

غفلت اور ہوائے نفس کا غلبہ

          نبی کریم کا ارشاد ہے کہ یاد رکھو اللہ تعالیٰ ایسی دعا قبول نہیں فرماتا جس کو مانگتے وقت انسان کادل غافل اور غیر سنجیدہ ہو۔

دعا میں عذاب پانے کی دعا مانگنا

          حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بیمار کی عیادت کے لیے گئے، دیکھا کہ وہ سوکھ کر چڑیا کے بچے کی مانند ہو گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا کہ تم کوئی دعا مانگتے رہے ہو؟ اس نے کہا جی ہاں! میں یہ دعا مانگتا رہا ہوں کہ اے اللہ تومجھے آخرت میں جو عذاب دینا چاہتا ہے وہ ابھی دنیا میں ہی دے دے۔ آپ نے فرمایا سبحان اللہ تو اس کی طاقت نہیں رکھتا تو نے یہ دعا کیوں نہ مانگی:ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النارo پھر آپ نے اس کے لیے دعا کی اور وہ صحت یاب ہو گیا۔’’

بعض ضروری نصیحتیں

          اول اپنے عقائد درست کرے پھر حرص غصہ جھوٹ غیبت بخل حسد ریا تکبر کینہ رذائل کو دور کرکے صبر شکر قناعت توکل رضا اخلاق حمیدہ پیدا کرکے شرع کا پابند رہے۔ اگر گناہ ہو جائے تو جلدی توبہ کرے۔ نماز با جماعت کا پابند رہے۔ کسی کی غیبت اور عیب جوئی نہ کرے اپنے عیوب و اعمال کا روز محاسبہ کرتا رہے۔ نہ اتنا کھائے کہ کسل ہو۔ نہ اتناکم کہ عبادت نہ کر سکے۔ غربا مساکین علماء صلحا کی صحبت رکھے۔ اپنوں سے نرمی برتے،ان کی خطا سے در گزر کرے اور ہمیشہ استقامت کی دعا کرتا رہے۔

وہ لوگ جن کی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے

(۱) مضطر یعنی مصیبت زدہ کی دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے۔

(۲) مظلوم اگرچہ فاسق و فاجر ہو مظلوم کافر بھی ہو تو اس کی بھی دعا رد نہیں ہوتی۔

(۳) عادل بادشاہ۔

(۴) والد کی دعا اولاد کے حق میں۔

(۵) بیمار کی دعا۔

(۶) نیک اور صالح لوگ۔

(۷) اولاد جو والدین کی فرمانبردار ہو۔

(۸) مسافر۔

(۹) روزہ دار کی دعا افطار کے وقت۔

(۱۰) غائبانہ دعا ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان کے لیے۔

(۱۱) حجاج کی دعا جب تک وہ وطن واپس آئیں۔

دعا ، ذکر کثیر کی بہترین صورت

           ‘‘بندۂ مومن کے دل میں جب اپنے پروردگار کا خیال پوری طرح بس جاتا ہے تو پھر وہ مقررہ اوقات میں کوئی عبادت کر لینے ہی کو کافی نہیں سمجھتا، بلکہ ہمہ وقت اپنی زبان کو خدا کے ذکر سے تر رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی دیکھتا ہے تو ‘سبحان اللّٰہ’ کہتا ہے۔ کسی کام کی ابتدا کرتا ہے تو ‘بسم اللّٰہ’ سے کرتا ہے۔ کوئی نعمت پاتا ہے تو ‘الحمد للّٰہ’ کہہ کر خدا کا شکر بجا لاتا ہے۔ ‘ان شاء اللّٰہ ’ اور ‘ما شاء اللّٰہ’کے بغیر اپنے کسی ارادے اور کسی عزم کا اظہار نہیں کرتا۔ اپنے ہر معاملے میں اللہ سے مدد چاہتا ہے۔ ہر آفت آنے پر اس کی رحمت کا طلب گار ہوتا ہے۔ ہر مشکل میں اس سے رجوع کرتا ہے۔ سوتا ہے تو اس کو یاد کر کے سوتا ہے اور اٹھتا ہے تو اس کا نام لیتے ہوئے اٹھتا ہے۔ غرض ہر موقع پر اور ہر معاملے میں اس کی زبان پر اللہ ہی کا ذکر ہوتا ہے۔ پھر یہی نہیں، وہ نماز پڑھتا ہے تو اللہ کو یاد کرتا ہے، روزہ رکھتا ہے تو اللہ کو یاد کرتا ہے، قرآن کی ہوت کرتا ہے تو اللہ کو یاد کرتا ہے، انفاق کرتا ہے تو اللہ کو یاد کرتا ہے، برائی سے بچتا ہے تو اللہ کو یاد کرتا ہے، اس کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو اللہ کو یاد کرتا ہے اور فوراً اس سے رجوع کے لیے بے تاب ہو جاتا ہے۔

          اس ذکر کی ایک صورت فکر بھی ہے۔ خدا کی اس دنیا کو دیکھیے تو اس میں ہزاروں مخلوقات ہیں، ان کی رنگا رنگی اور بو قلمونی ہے، پھر عقل انسانی اور اس کے کرشمے ہیں، سمندروں کا تلاطم ہے، دریاؤں کی روانی ہے، لہلہاتا سبزہ اور آسمان سے برستا ہوا پانی ہے، لیل ونہار کی گردش ہے، ہوااور بادلوں کے تصرفات ہیں، زمین و آسمان کی خلقت اور ان کی حیرت انگیز ساخت ہے، ان کی نفع رسانی اور فیض بخشی ہے، ان کی مقصدیت اور حکمت ہے، پھر انفس وآفاق میں خدا کی وہ نشانیاں ہیں جو ہر آن نئی شان سے نمودار ہوتی ہیں۔ بندۂ مومن ان آیات الٰہی پر غور کرتا ہے تو اس کے دل و دماغ کو یہ خداکی یاد سے بھر دیتی ہیں۔ چنانچہ وہ پکار اٹھتا ہے کہ پروردگار، یہ کارخانہ تو نے عبث نہیں بنایا۔ تیری شان علم و حکمت کے منافی ہے کہ تو کوئی بے مقصد کام کرے۔ میں جانتا ہوں کہ اس جہان رنگ وبو کا خاتمہ لازماً ایک روز جزا پر ہو گا جس میں وہ لوگ عذاب اور رسوائی سے دوچار ہوں گے جو تیری اس دنیا کو کسی کھلنڈرے کا کھیل سمجھ کر اس میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کے انجام سے میں تیری پناہ چاہتا ہوں:

          اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، وَاخْتِلاَفِالَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ، الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا، وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ، وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً، سُبْحٰنَکَ، فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.(آل عمران ۳: ۱۹۰۔۱۹۱)     

          ‘‘زمین و آسمان کی خلقت میں اور شب و روز کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ اُن کے لیے جو اٹھتے، بیٹھتے اور پہلووں پر لیٹے ہوئے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی خلقت پر غور کرتے رہتے ہیں۔ (ان کی دعا یہ ہوتی ہے کہ) پروردگار، تونے یہ سب بے مقصد نہیں بنایا ہے۔ تو اس سے پاک ہے کہ کوئی عبث کام کرے۔ سو ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔’’

          اس طرح کی کتنی ہی دعائیں اور اذکار ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی منقول ہیں۔ خدا کو یاد کر نے کی بہترین صورت نماز کے بعد یہی ہے۔ ہم مسلمانوں کی خوش بختی ہے کہ کم وبیش آپ ہی کے الفاظ میں یہ دعائیں اور اذکار ہمارے پاس موجود ہیں۔ ان کا حسن، لطافت اور معنویت زبان و بیان کا معجزہ ہے۔ بارگاہ الٰہی میں پیش کرنے کے لیے ان سے بہتر کوئی چیز شاید ہی میسر ہو سکے۔ذکروفکر کا ذوق ہو تو ان کو بھی حرز جاں بنا لینا چاہیے’’۔