نماز کی دعائیں اور اذکار

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : دعا

شمارہ : ستمبر 2007

          ہمارے ہاں عام طور سے عوام میں یہ خیال کیاجاتا ہے کہ نماز کے دوران میں یعنی قیام، رکوع، سجدہ اور قعدہ وغیر ہ میں جو اذکار اور دعائیں کی جاتی ہیں وہ مقر رہیں اور ان کے علاوہ کوئی اور ذکر یا دعا شاید نہیں کی جاسکتی۔ جبکہ حقیقت میں یہ خیال غلط ہے ۔ جس طرح نبی ﷺ سے ایک موقع محل کے لیے ایک سے زیادہ دعائیں منقول ہیں اسی طرح نماز کے ہر رکن کے لیے بھی نبی ﷺ سے ایک سے زیادہ دعائیں منقول ہیں اور ان میں سے کوئی ایک یا سب دعائیں کی جاسکتی ہیں۔نماز کے مختلف ارکان کے لیے مختلف دعائیں ہم یہاں جناب جاوید احمد غامدی کی کتاب ‘‘قانو ن عبادات ’’سے نقل کر رہے ہیں۔

قیام میں

          ۱۔ نماز کی پہلی رکعت میں تکبیر کے بعد اور قرأت سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کوئی دعا کرتے اور کبھی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتے تھے ۔ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد اور قرأت سے پہلے آپ تھوڑی دیر کے لیے خاموش کھڑے رہتے تھے۔ میں نے عرض کیا:یارسول اللہ ، میرے ما ں باپ آپ پر قربان ہوں ، آپ جب تکبیر او رقرأت کے مابین خاموش ہوتے ہیں تو کیا کہتے ہیں ؟آپ نے فرمایا :میں یہ دعا کرتا ہوں:

اللّٰہُمَّ بَاعِدْ بَیْنِی وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللّٰہُمَّ نَقِّنِی مِنْ الْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْأَبْیَضُ مِنْ الدَّنَسِ، اللّٰہُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِِِ ِ وَالْبَرَدِ. (بخاری ، رقم ۷۱۱ ۔ مسلم ، رقم ۵۹۸۔)

‘‘اے اللہ ، تو مجھے میرے گناہوں سے اس طرح دور کر د ے ، جس طرح تونے مشرق و مغرب کو ایک دوسرے سے دور کیا ہے۔ اے اللہ ، تو مجھے گناہو ں سے ایسا پاک کردے ، جیسے سفید کپڑا میل سے پاک کیا جاتا ہے ۔اے اللہ ، تو میرے گناہوں کوپانی اور برف اور اولوں سے دھودے۔’’

سیدنا علی کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے تو تکبیر کے بعد اس طرح کہتے تھے:

وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ، إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ، لَا شَرِیکَ لَہُ، وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنْ الْمُسْلِمِینَ. اللّٰہُمَّ أَنْتَ الْمَلِکُ، لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْتَ رَبِّی وَأَنَا عَبْدُکَ، ظَلَمْتُ نَفْسِی، وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِی، فَاغْفِرْ لِی ذُنُوْبِی جَمِیِْعًا، إِنَّہُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاہْدِنِی لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاَقِ، لَا یَہْدِیْ لِأَحْسَنِہَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّی سَیِّئَہَا، لَا یَصْرِفُ عَنِّی سَیِّئَہَا إِلَّا أَنْتَ، لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ، وَالْخَیْرُ کُلُّہُ فِی یَدَیْکَ، وَالشَّرُّ لَیْسَ إِلَیْکَ، أَنَا بِکَ وَإِلَیْکَ، تَبَارَکْتَ وَتَعَالَیْتَ، أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ إِلَیْکَ. ( مسلم ، رقم ۷۷۱۔ )

‘‘میں نے تو اپنا رخ بالکل یک سو ہو کر اس ہستی کی طرف کرلیا ہے جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز مشرکوں میں سے نہیں ہوں ۔ میری نماز اور میری قربانی ، میرا جینااور مرنا، سب اللہ پروردگار عالم کے لیے ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں ، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہو ں ۔ اے اللہ ، تو بادشاہ ہے ، تیرے سوا کوئی الہٰ نہیں۔ تو میرا پروردگار ہے اور میں تیرا بندہ ہوں۔ میں نے اپنی جا ن پر ظلم ڈھایا ہے اور اب اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں ۔ پس تو میرے سب گناہ بخش دے ، اس میں شبہ نہیں کہ گناہوں کو تو ہی بخشتا ہے۔ اورمجھے اچھے اخلاق کی ہدایت عطا فرما ، ان کی ہدایت بھی تو ہی دیتا ہے ۔ اور برے اخلاق کو مجھ سے دور کردے ، ان کو دور بھی مجھ سے تو ہی کرے گا۔ میں حاضر ہوں ، پروردگار ، تیراحکم بجا لانے کے لیے پوری طر ح تیارہوں ۔ تمام بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے اور برائی کی نسبت تیری طرف نہیں ہے ۔ میں تیری قوت سے قائم ہو ں اور مجھے لوٹنا بھی تیری ہی طرف ہے۔تو برکت والاہے، بلند ہے ۔ میں تجھ سے مغفرت مانگتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں ۔’’

          ام المومنین سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی ابتدا ان کلمات سے کرتے تھے:

سُبْحَانَکَ، اللّٰہُمّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَلَاإِلٰہَ غَیْرُکَ. ( ابوداؤد، رقم ۷۷۶)

‘‘اے اللہ ، تو پاک ہے اور ستودہ صفات بھی ۔ تیرا نام بڑی برکت والا ہے ،تیری شان بڑی بلند ہے ، اور تیرے سواکوئی الہٰ نہیں ہے ۔’’

          ام المومنینؓ ہی کی روایت ہے کہ رات کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا سے شروع کرتے تھے:

          اَللّٰہُمَّ، رَبَّ جِبْرَائِیلَ وَمِیکَائِیلَ وَإِسْرَافِیلَ، فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ، أَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیمَا کَانُوْا فِیہِ یَخْتَلِفُونَ. اہْدِنِی لِمَا اخْتُلِفَ فِیْہِ مِنْ الْحَقِّ بِإِذْنِکَ، إِنَّکَ تَہْدِیْ مَنْ تَشَاء ُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ.

‘‘اے اللہ ، جبریل و میکائیل اور اسرافیل کے پروردگار ، زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے ، غیب و حضور کے جاننے والے، تو اپنے بندوں کے مابین ان کے اختلافات کا فیصلہ فرما ئے گا۔ حق کے معاملے میں جتنے اختلافات ہیں تو اپنی توفیق سے ان میں میری رہنمائی فرما ۔اس میں شبہ نہیں کہ تو جس کوچاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق ) سیدھی راہ کی ہدایت بخشتا ہے ۔’’

          ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا کرتے تھے:

          اللّٰہُمَّ، لَکَ الْحَمْدُ. أَنْتَ قَیِّمُ السَّمٰواتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِیہِنَّ، وَلَکَ الْحَمْدُ. لَکَ مُلْکُ السَّمٰواتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِیہِنَّ، وَلَکَ الْحَمْدُ. أَنْتَ نُورُ السَّمٰواتِ وَالْأَرْضِ، وَمَنْ فِیہِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ. أَنْتَ مَلِکُ السَّمٰواتِ وَالْأَرْضِ، وَلَکَ الْحَمْدُ. أَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُکَ الْحَقُّ، وَلِقَاؤُکَ حَقٌّ، وَقَوْلُکَ حَقٌّ، وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالنَّبِیُّونَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَقٌّ، وَالسَّاعَۃُ حَقٌّ. اللّٰہُمَّ، لَکَ أَسْلَمْتُ، وَبِکَ آمَنْتُ، وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ، وَإِلَیْکَ أَنَبْتُ، وَبِکَ خَاصَمْتُ، وَإِلَیْکَ حَاکَمْتُ، فَاغْفِرْ لِی مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ.

‘‘اے اللہ ، حمد تیرے لیے ہے ۔ تو زمین وآسمان اوران کے درمیان کی ہر چیز کا قائم رکھنے والا ہے اور حمد تیرے لیے ہے ۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز کی بادشاہی تیرے لیے ہے اورحمد تیرے لیے ہے ۔ تو زمین وآسمان کی روشنی ہے اور اُن کی بھی جو زمین و آسمان میں ہیں ، اور حمد تیرے لیے ہے ۔ تو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے اور حمد تیرے لیے ہے ۔ تو حق ہے ، اور تیرا وعدہ حق ہے ، اور تیری ملاقات حق ہے ، اور تیرا کلام حق ہے ، اورجنت حق ہے ، اور دوزخ حق ہے ، اور سارے نبی حق ہیں، اور محمد حق ہیں ، اور قیامت حق ہے ۔ اے اللہ ، میں نے تیرے لیے سر اطاعت جھکا دیا ، اور تجھے مان لیا ، اور تجھ پر بھروسا کیا ، اور تیری طرف رجوع کیا ، اور تجھے ساتھ لے کر تیر ے دشمنوں سے لڑا ، اور تیرے ہی پاس اپنی فریاد لایا ۔ تو بخش دے جو کچھ میں نے آگے بھیجا اور پیچھے چھوڑا ہے ، اورجو کچھ چھپا یا اور جو کچھ علانیہ کیا ہے ۔ تو ہی آگے کرنے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والاہے ۔ تیرے سوا کوئی الہٰ نہیں، اورہمت اور قدرت ، سب اللہ ہی کی عنایت سے ہے ۔ ’’

          ان کے علاوہ بھی استفتاح کی بعض دعائیں اور اذکار روایتوں میں نقل ہوئے ہیں ۔اس طرح یہ بات بھی نقل ہوئی ہے کہ اسی نوعیت کے بعض کلما ت نماز کی ابتدا میں بعض لوگوں کی زبا ن سے نکلے تو آپ نے ان کی تحسین کی اورفرمایا کہ ان کے لیے آسمان کے دروازے کھولے گئے اورمیں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا کہ ان میں سے ہر ایک انھیں لے جانے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت کرنے کی کوشش کررہاہے ۔

          ۲۔ ان دعاؤں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے تعوذ کرتے تھے ۔ یہ بالعموم ‘أَعُوذُ بِاللّٰہِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنْ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ، مِنْ ہَمْزِہِ وَنَفْخِہِ وَنَفْثِہِ’ کے الفاظ میں ہوتا تھا۔

          ۳۔ سورۂ فاتحہ کی تلاوت اس کے بعد ‘اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ’سے شروع کرتے اور ہر آیت پر وقف کر کے اسے الگ الگ پڑھتے تھے ۔ آپ کا ارشاد ہے : ‘‘جس نے فاتحہ نہیں پڑھی ، اس نے گویا نماز نہیں پڑھی ۔ ’’ ‘فاتحہ کے بغیر نماز ناتمام ہے ، ناتمام ہے ، وہ پوری نہیں ہوتی ۔’’

‘‘اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے نماز ا پنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھوں آدھ تقسیم کر دی ہے اور اس میں بندہ جوکچھ مانگتا ہے ، وہ پاتا ہے ۔ چنانچہ وہ جب ‘اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ’ کہتا ہے تو اللہ فرماتے ہیں: میرے بندے نے میری حمد کی ہے ، اور جب ‘ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ’ کہتا ہے تو اللہ فرماتے ہیں : میرے بندے نے میری ثنا کی ہے ، اور جب ‘مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ’کہتا ہے تو اللہ فرماتے ہیں: میرے بندے نے میری تمجید کی ہے ، اور جب ‘اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ’ کہتا ہے تو اللہ فرماتے ہیں : یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے ، اور بندہ جو کچھ مانگتا ہے، وہ پالے گا ۔ پھر جب وہ ‘اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ، صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ، غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَالضَّآلِّیْنَ ’کہتا ہے تو اللہ فرماتے ہیں:یہ ہے جو میرے بندے کے لیے ہے اوربندے نے جو کچھ مانگا ہے ، وہ میں نے اسے بخش دیا ہے ۔’’

           ۴۔ سورۂ فاتحہ کے بعد قرآن کا جوحصہ پڑھتے ، وہ طویل بھی ہوتا تھا اور حالات کے لحاظ سے بہت مختصر بھی ۔ فرماتے تھے : میں اس ارادے سے نماز شرو ع کرتا ہوں کہ لمبی پڑھوں گا ،پھر کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اس کے رونے پر اس کی ماں کی پریشانی کے خیا ل سے اسے مختصرکردیتا ہوں ۔

          قرأت ترتیل کے ساتھ کرتے ، اس طرح کہ ہر حرف بالکل واضح ہوتا تھا۔ لوگـو ں کو تلقین فرماتے تھے کہ تلاوت اچھی آواز سے اور غنا کے ساتھ کر نی چاہیے ۔ روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ قرأت کے دوران میں آپ قرآن کا جواب بھی دیتے تھے۔ چنانچہ تسبیح کے حکم پر تسبیح کرتے ، سجدہ کی آیتو ں پر سجدہ کرتے ، رحمت کی آیتوں پر رحمت او ر عذاب کی آیتوں پر اللہ کی پناہ چاہتے اور دعاؤں کے مضمون پر ‘آمین’ کہتے تھے ۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ قرآن پڑھنے والا جب ‘ آمین’ کہے تو تم بھی ‘ آمین’ کہو، اس لیے کہ جس کی ‘آمین’ فرشتوں کی ‘آمین’ سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے ، اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں ۔

          نماز تہجد کی آخری رکعت میں قرأت کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم دعائیں کرتے تھے۔ انھیں قنوت کی دعائیں کہا جاتا ہے۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو آپ نے ایک دعا اسی مقصد کے لیے ان الفاظ میں سکھائی ہے :

          اللّٰہُمَّ، اہْدِنِی فِیمَنْ ہَدَیْتَ، وَعَافِنِی فِیمَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنِی فِیمَنْ تَوَلَّیْتَ، وَبَارِکْ لِی فِیمَا أَعْطَیْتَ، وَقِنِی شَرَّ مَا قَضَیْتَ، فإِنَّکَ تَقْضِی وَلَا یُقْضَی عَلَیْکَ، وَإِنَّہُ لَا یَذِلُّ مَنْ وَالَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنَا، وَتَعَالَیْتَ.

‘‘اے اللہ ، مجھے ان لوگو ں میں شامل کر کے ہدایت دے جنھیں تو نے ہدایت دی ہے؛ اور ان لو گو ں میں شامل کر کے عافیت دے جنھیں تو نے عافیت دی ہے ؛اوران میں شامل کر کے دوست بنا جنھیں تو نے دوست بنایا ہے ؛ اور ان چیزو ں میں برکت دے جو تونے مجھے عطا فرمائی ہیں ؛ اور ان چیزوں کے شر سے بچا جو تونے میرے لیے طے کر دی ہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ تو حکم لگا تا ہے اور تجھ پر کوئی حکم نہیں لگا یا جاسکتا ؛ اوراس میں شبہ نہیں کہ جسے تو دوست بنا لے ، وہ کبھی ذلیل نہیں ہوتا ۔بہت بزرگ ، بہت فیض رساں ہے تیری ذات ، اے ہمارے پر وردگار اور بہت بلند بھی ۔’’

          اسی نوعیت کی ایک دعا یہ بھی ہے :

          اللّٰھُمَّ ، إنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ ، وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ، وَنُثْنِی عَلَیْکَ الْخَیرَ کُلَّہُ، وَنَشْکُرُکَ وَلَاَ نَکْفُرُکَ ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ، اللّٰھُمَّ، إیَّاکَ نَعْبُدُ، وَلَکَ نُصَلِّی وَنَسْجُدُ، وَإِلَیکَ نَسْعَی وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَکَ، وَنَخْشَیْ عَذَابَکَ، إِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌ.

‘‘اے اللہ ، ہم تیری مدد چاہتے اور تجھ سے مغفرت مانگتے ہیں ۔ اور تجھ پر ایمان لاتے ، تجھ پر بھروسا کرتے اور ہر لحاظ سے تیری بہترین ثنا کرتے ہیں ۔ ہم تیرا شکر کرتے ہیں ،اور کبھی ناشکری نہیں کرتے؛ اورتیری نافرمانی کرنے والوں سے الگ رہتے اور انھیں چھوڑ دیتے ہیں۔اے اللہ ،ہم تیری ہی عبادت کرتے اور تیرے ہی لیے نمازپڑھتے اور تجھے ہی سجد ہ کرتے ہیں؛ اورہماری سب دوڑ دھوپ بھی تیرے ہی لیے ہے ۔ہم تیری رحمت چاہتے اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ تیرا یہ عذاب تیرے منکروں کوہرحال میں آلے گا۔’’

رکوع میں

          رکوع کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی تلاوت سے منع فرمایا اور لوگو ں کوہدایت کی ہے کہ وہ اس کے بجائے اپنے پروردگار کی عظمت بیان کریں ۔ چنانچہ آپ اس میں کبھی ‘سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیْمِ’ (پاک ہے میرا پروردگار، بڑی عظمت والا) کی تکرار کرتے ، اورکبھی ذیل کے اذکارمیں سے کوئی ذکر کرتے تھے :

سُبُّوحٌ ، قُدُّوسٌ، رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوحِ۔

‘‘ہر عیب اور برائی سے پاک ہے وہ روح الامین اور فرشتوں کا پروردگار ۔’’

سُبْحَانَکَ، اللّٰہُمَّ رَبَّنَا، وَبِحَمْدِکَ، اللّٰہُمَّ اغْفِرْلِی۔

‘‘اے اللہ ، اے ہمارے پروردگار ، تو پاک ہے اور ستودہ صفات بھی ۔ اے اللہ تو مجھے بخش دے ۔’’

اللّٰہُمَّ، لَکَ رَکَعْتُ، وَبِکَ آمَنْتُ، وَلَکَ أَسْلَمْتُ، وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ. أَنْتَ رَبِّی، خَشَعَ سَمْعِی، وَبَصَرِی، وَدَمِی، وَلَحْمِی، وَعَظْمِی، وَعَصَبِی لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔

‘‘اے اللہ ، میں نے تیرے ہی لیے رکوع کیا ، اور تجھ ہی پر ایمان لایا ، اور اپنے آپ کو تیرے ہی حوالے کیا ، اور تجھ ہی پر بھروسا کیا ۔ تومیرا پروردگار ہے، میر ے کان اور میری آنکھیں، اورمیرا خون اور میرا گوشت ، اورمیری ہڈیا ں اورمیر ے پٹھے،سب اللہ پروردگار عالم کے حضور میں عجز گزار ہیں ۔’’

سُبْحَانَ ذِی الْجَبَرُوتِ، وَالْمَلَکُوتِ، وَالْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمَۃِ۔

‘‘پاک ہے وہ ذات جو قہر وتصرف ، اور بڑائی اور عظمت کی مالک ہے ۔’’

قومہ میں

          رکوع کے بعدجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تو ‘سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ ’کے بعد کبھی ‘رَبَّنَا ، لَکَ الْحَمْدُ ’ (پروردگا ر،حمدتیر ے ہی لیے ہے ) اورکبھی ‘رَبَّنَا ، وَلَکَ الْحَمْدُ ’ (پروردگا ر ، اور حمد تیرے ہی لیے ہے ) کہتے اورکبھی اس کے شروع میں لفظ ‘اَللّٰھُمَّ ’(اے اللہ ) کا اضافہ کردیتے تھے ‘رَبَّنَا، وَلَکَ الْحَمْدُ’ کے بعد درج ذیل الفاظ کا اضافہ بھی بعض روایتوں میں نقل ہوا ہے :

          ... مِلْء ُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَمِلْء ُ مَا شِءْتَ مِنْ شَیْء ٍ بَعْدُ، أَہْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ، أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ، وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ. اللّٰہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ . ۲ ‘‘...

          اتنی کہ اس سے زمین وآسمان بھر جائیں ، اور اس کے بعد جوتو چاہے ، وہ بھی بھر جائے ۔ ثنا تیرے لیے ہے اوربزرگی بھی تیرے ہی لیے ہے ۔بندو ں کی اس بات کے لیے تو ہی احق ہے اور ہم سب تیرے ہی بندے ہیں ۔ اے اللہ، جسے تو دے ، اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو روک دے، اسے کوئی دینے والا نہیں ہے ؛ اورتیری گرفت سے بچنے کے لیے کسی کی عظمت اور بزرگی اسے کو ئی فائدہ نہیں دیتی ۔’’

          یہ اضافہ اس سے کم وبیش الفاظ میں بھی نقل کیا گیا ہے ، اوررات کی نماز میں اس موقع پر ‘لِرَبِّيَ الْحَمْدُ ’ (حمد میرے پروردگار ہی کے لیے ہے )کے الفاظ بھی روایت ہوئے ہیں ۔ اسی طرح یہ بات بھی روایت ہوئی ہے کہ نماز کی آخری رکعت کے قومے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر بعض لوگوں کے لیے کم وبیش ایک ما ہ تک نام لے کر دعا اوربعض کے لیے بددعا بھی کی ہے ۔اس کی صورت یہ بیان کی گئی ہے کہ ہاتھ اٹھائے ہوئے آپ بلند آواز سے دعا کررہے تھے اور لوگ آپ کے پیچھے آمین کہہ رہے تھے۔

          آپ کا ارشاد ہے: اما م جب ‘سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ ’ کہے تو اس کے جواب میں ‘ اللّٰھم، رَبَّناَ لَکَ الْحَمْدُ ’کہو ، اس لیے کہ جس کی یہ بات فرشتوں کی بات سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے ، اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ صحابۂ کرام میں سے کسی شخص نے اس کے بعد ‘حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْہِ’ (بہت زیادہ حمد، پاکیزہ اور بڑی بابرکت) کے الفاظ کہے توآپ نے فرمایا :میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا ہے کہ ان الفاظ کولکھنے کے لیے وہ ایک دوسرے سے سبقت کرنے کی کوشش کررہے تھے ۔

سجدوں میں

           رکوع کی طرح سجدے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی تلاوت سے منع کیا،اورفرمایا ہے کہ سجد ے کی حالت میں بندہ اپنے رب سے قریب تر ہوتا ہے، اس لیے اس میں زیادہ سے زیادہ دعا کرو ۔ چنانچہ ‘سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰی’ (پاک ہے میرا پروردگار ، سب سے برتر ) کا پڑھنا بھی سجدے کی حالت میں آپ سے منقول ہے اوراس کی جگہ بعض دوسرے اذکار اور دعاؤں کا ذکر بھی ہوا ہے ۔ان میں سے جودعائیں اوراذکار روایتو ں میں نقل ہوئے ہیں ، وہ یہ ہیں:

سُبُّوحٌ، قُدُّوسٌ، رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوحِ۔

‘‘ ہر عیب اور برائی سے پاک ہے وہ روح الامین اور فرشتوں کاپروردگار ۔’’

 سُبْحَانَکَ، اللّٰہُمَّ رَبَّنَا، وَبِحَمْدِکَ، اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِی۔

‘‘اے اللہ ، اے ہمارے پروردگار ، توپاک ہے اور ستودہ صفات بھی ۔ اے اللہ ، تومجھے بخش دے ۔’’

اللّٰہُمَّ، اغْفِرْ لِی ذَنْبِی کُلَّہُ، دِقَّہُ وَجِلَّہُ، وَأَوَّلَہُ، وَآخِرَہُ وَعَلَانِیَتَہُ وَسِرَّہُ۔

‘‘اے اللہ ، میرے سب گناہ بخش دے ۔چھوٹے بھی اوربڑے بھی ، اگلے بھی اور پچھلے بھی، کھلے بھی اور چھپے بھی ۔’’

اللّٰہُمَّ، لَکَ سَجَدْتُ، وَبِکَ آمَنْتُ، وَلَکَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْہِی لِلَّذِی خَلَقَہُ وَصَوَّرَہُ، وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ، تَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ۔

‘‘اے اللہ ، میں نے تیرے ہی لیے سجدہ کیا اورتجھ ہی پر ایمان لایا ، اوراپنے آپ کو تیرے ہی حوالے کیا ۔ میرا چہرہ اس ہستی کے لیے سجدہ ریزہے جس نے اسے بنایا اور اس کی صورت گری کی ، پھراس میں کان اورآنکھیں بنادیں ۔بہت بزرگ ، بہت فیض رساں ہے اللہ ، سب سے بہتر بنانے والا ۔’’

رات کی نمازوں میں یہ دعائیں بھی آپ سے منقول ہیں :

سُبْحَانَکَ، وَبِحَمْدِکَ، لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ۔

‘‘ تو پاک ہے او رستودہ صفات بھی ۔ تیرے سوا کو ئی الہٰ نہیں ہے ۔’’

اللّٰہُمَّ، اغْفِرْ لِی مَا أَسْرَرْتُ، وَمَا أَعْلَنْتُ۔

‘‘اے اللہ ، تو میرے کھلے اور چھپے ، سب گناہ بخش دے۔’’

اللّٰہُمَّ، أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ، وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْکَ، لَا أُحْصِی ثَنَاء ً عَلَیْکَ، أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ۔

‘‘اے اللہ ، میں تیری ناراضی سے تیری رضا اور تیرے عذاب سے تیری عافیت کی پنا ہ چاہتا ہوں۔ اور (پروردگار)، میں تجھ سے تیری پناہ چاہتاہوں ۔ میرے لیے ممکن نہیں کہ تیری ثنا کا حق ادا کر سکوں۔ تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے خود اپنی ثنا کی ہے۔’’

          اللّٰہُمَّ، اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُورًا، وَفِی سَمْعِی نُورًا، وَفِی بَصَرِی نُورًا، وَعَنْ یَمِینِی نُورًا، وَعَنْ شِمَالِی نُورًا، وَأَمَامِی نُورًا، وَخَلْفِی نُورًا، وَفَوْقِی نُورًا، وَتَحْتِی نُورًا، وَاجْعَلْنِی نُورًا۔

‘‘اے اللہ ، تو میرے دل میں نور پیداکردے ؛ اورمیر ے کانو ں اور میری آنکھو ں میں نور پیدا کر دے ؛ اورمیر ے دائیں اور میرے بائیں سے نور پیدا کر دے ؛ اور میرے آگے اور پیچھے نور پیدا کر دے ؛ اور میر ے اوپر اور نیچے نور پیدا کر دے ؛ اور (پروردگار) ، تومجھے سراپا نور بنا دے۔’’

جلسہ میں

          جلسہ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائیں کی ہیں ۔ چنانچہ ‘رب اغفرلي ’(پروردگار ، تو مجھے بخش دے )کی تکرار بھی روایت ہوئی ہے ، اوررات کی نمازوں میں یہ دعا بھی روایت کی گئی ہے :

اللَّہُمَّ، اغْفِرْ لِی، وَارْحَمْنِی، وَعَافِنِی، وَاہْدِنِی، وَارْزُقْنِی۔

‘‘اے اللہ ، تومجھے بخش دے ، مجھ پر رحم فرما ، مجھے عافیت دے ،ہدایت دے اور رزق عطا فرما۔’’

قعدہ میں

          نماز کا قعدہ دعاؤ ں کے لیے خاص ہے اور نماز پڑھنے والا اس میں جو دعا چاہے کرسکتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و عمل سے جورہنمائی اس باب میں حاصل ہوئی ہے ، اس کی تفصیلات درج ذیل ہیں

          ۱۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود کا بیان ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں ہوتے تو اس طرح کہتے تھے :اللہ کے بندوں کی طرف سے اللہ پرسلامتی ہو ؛ فلاں اور فلاں پر سلامتی ہو۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا :یہ مت کہو کہ اللہ پرسلامتی ہو ، اس لیے کہ اللہ تو خود سراسر سلامتی ہے ۔ اس کے بجائے یہ کہناچاہیے :‘التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَیْکَ، أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ ــــــــ تم اس طرح کہو گے توتمھاری یہ دعا ہراس بند ے کو پہنچ جائے گی جوآسمان میں ہے یا زمین وآسمان کے مابین کہیں ہے ــــ (آگے فرمایا) : ‘ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسولہ اس کے بعد بندہ جو دعا چاہے، اپنے لیے کر سکتا ہے ۔ الفاظ کے معمولی اختلافات کے ساتھ یہی دعا سیدنا عمرؓ ، سیدہ عائشہؓ ، عبداللہؓ بن عمر ، عبداللہؓ بن عباس اورابو موسیٰ اشعریؓ رضی اللہ عنہم سے بھی نقل ہوئی ہے ۔ روایتو ں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے خاص اہتما م کے ساتھ صحابہ کوسکھاتے تھے ۔

           ۲۔ ابو مسعود انصاری کی روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں :ہم سعد بن عبادہ کے ہاں بیٹھے ہوئے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائے تو بشیر بن سعدنے آپ سے پوچھا :یا رسول اللہ ، اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر رحمت بھیجنے کا حکم دیا ہے ، آپ بتائیے کہ ہم آپ پر کس طرح رحمت بھیجیں ؟حضور اس پر خاموش ہوگئے ، یہا ں تک کہ ہمیں خیال ہوا کہ اے کاش ، وہ یہ بات نہ پوچھتے۔ پھر آپؐ نے فرمایا ِ:تمھیں اس طرح کہنا چاہیے : ‘ اللّٰہُمَّ، صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ، وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ فِی الْعَالَمِینَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ’۱۵۶ ؂ (فرمایا): اور سلام بھیجنے کا طریقہ تو تم لوگ جانتے ہی ہو ۔

          اس دعا میں بھی الفاظ کے بعض اختلافات ہیں ۔تاہم فی الجملہ یہی مضمون ہے جو مختلف طریقوں سے نقل ہواہے ۔ پھر یہ بات بھی روایت ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فرمایا ہے :جس نے مجھ پر ایک مرتبہ رحمت بھیجی ، اللہ اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجے گا۔

           ۳۔ ان کے علاوہ جودعائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قعدے میں کی ہیں یا ان کی تلقین فرمائی ہے ، وہ یہ ہیں:

اللّٰہُمَّ، إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ.

‘‘اے اللہ ، میں دوزخ کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں ؛ اورقبر کے عذاب سے پناہ چاہتا ہوں ؛ اور موت وحیات کی آزمایش سے پناہ چاہتا ہوں ؛ اورمسیح دجال کی آزمایش کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔’

اللّٰہُمَّ، إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی ظُلْمًا کَثِیرًا، وَلَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِی مَغْفِرَۃً مِنْ عِنْدِکَ، وَارْحَمْنِی، إِنَّکَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ

‘‘اے اللہ ، میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیے ہیں ، اور (جانتا ہوں کہ )میر ے گنا ہو ں کو تیرے سوا کو ئی معاف نہیں کرسکتا۔ اس لیے ، (اے پروردگار )، تو خاص اپنی بخشش سے میرے گنا ہ بخش دے اورمجھ پر رحم فرما ۔ اس میں شبہ نہیں کہ تو بخشنے والا ہے ، تیری شفقت ابدی ہے ۔’’

اللّٰہُمَّ، إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ، وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ .

‘‘اے اللہ ، میں نے جو کچھ کیا ہے او رجو کچھ نہیں کیا ، اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔’’

اللّٰہُمَّ، حَاسِبْنِی حِسَابًا یَسِیرًا.

‘‘اے اللہ ، تو میرا حساب آسان کردے ۔’’

اللّٰہُمَّ، بِعِلْمِکَ الْغَیْبَ وَقُدْرَتِکَ عَلَی الْخَلْقِ، أَحْیِنِی مَا عَلِمْتَ الْحَیَاۃَ خَیْرًا لِی، وَتَوَفَّنِی إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاۃَ خَیْرًا لِی. اللَّہُمَّ، وَأَسْأَلُکَ خَشْیَتَکَ فِی الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ، وَأَسْأَلُکَ کَلِمَۃَ الْحَقِّ فِی الرِّضَاءِ وَالْغَضَبِ، وَأَسْأَلُکَ الْقَصْدَ فِی الْفَقْرِ وَالْغِنَی، وَأَسْأَلُکَ نَعِیمًا لَا یَنْفَدُ، وَأَسْأَلُکَ قُرَّۃَ عَیْنٍ لَا تَنْقَطِعُ، وَأَسْأَلُکَ الرِّضَاء َ بَعْدَ الْقَضَاءِ، وَأَسْأَلُکَ بَرْدَ الْعَیْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَأَسْأَلُکَ لَذَّۃَ النَّظَرِ إِلَی وَجْہِکَ، وَالشَّوْقَ إِلَی لِقَائِکَ، فِی غَیْرِ ضَرَّاءِ مُضِرَّۃٍ، وَلَا فِتْنَۃٍ مُضِلَّۃٍ، اللّٰہُمَّ زَیِّنَّا بِزِینَۃِ الْإِیمَانِ، وَاجْعَلْنَا ہُدَاۃً مُہْتَدِینَ .(نسائی )

‘‘اے اللہ ، تو اپنے علم غیب اور مخلوق پر اپنی قدرت کے وسیلے سے مجھے اس وقت تک زندگی دے ، جب تک تو جینے کو میرے لیے بہتر جانے ؛ اوراس وقت دنیا سے لے جا ، جب تو لے جانے کو بہتر جانے۔ اے اللہ ، اورمیں کھلے اور چھپے میں تیری خشیت مانگتا ہوں ؛ اورخوشی او ر رنج میں سچی بات کی توفیق چاہتا ہوں ؛ اور فقر وغنا میں میانہ روی کی درخواست کرتا ہوں ؛ اور ایسی نعمت چاہتا ہوں جوتمام نہ ہو ؛ اورآنکھوں کی ایسی ٹھنڈک جو کبھی ختم نہ ہو ۔ اور تیرے فیصلوں پر راضی رہنے کا حوصلہ مانگتا ہوں ؛ اورموت کے بعد زندگی کی راحت مانگتا ہوں ؛ اور تجھ سے ملاقات کا شوق اور تیرے دیدار کی لذت مانگتا ہوں ، اس طرح کہ نہ تکلیف دینے والی سختی میں رہو ں اورنہ گمراہ کردینے والے فتنوں میں۔ اے اللہ، تو ہمیں ایمان کی زینت عطا فرما اور ایسا بنا دے کہ خود بھی ہدایت پررہیں اوردوسروں کو بھی ہدایت دیں ۔’’

 اللّٰہُمَّ، إِنِّی أَسْأَلُکَ مِنْ الْخَیْرِکُلِّہِ، عَاجِلِہِ وَآجِلِہِ، مَا عَلِمْتُ مِنْہُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ الشَّرِّ کُلِّہِ، عَاجِلِہِ وَآجِلِہِ، مَا عَلِمْتُ مِنْہُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، وَأَسْأَلُکَ الْجَنَّۃَ وَمَا قَرَّبَ إِلَیْہَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَیْہَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَسْأَلُکَ مِنْ الْخَیْرِ مَا سَأَلَکَ عَبْدُکَ وَرَسُولُکَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَسْتَعِیذُکَ مِمَّا اسْتَعَاذَکَ مِنْہُ عَبْدُکَ وَرَسُولُکَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَسْأَلُکَ مَا قَضَیْتَ لِی مِنْ أَمْرٍ أَنْ تَجْعَلَ عَاقِبَتَہُ رَشَدًا. ( احمد ، رقم ۲۵۱۸۰)

‘‘اے اللہ، میں تجھ سے ہر طرح کی بھلائی چاہتاہوں ؛ وہ بھی جوفوراً ملنے والی ہے اور وہ بھی جس کے لیے تو نے وقت مقرر کر رکھا ہے؛ وہ بھی جو میرے علم میں ہے اور وہ بھی جسے میں نہیں جانتا ۔ اور ہر طرح کے شر سے تیری پناہ چاہتاہوں ؛وہ بھی جو عنقریب پہنچ جائے گا اوروہ بھی جس کے لیے تونے وقت مقر ر کررکھا ہے ؛ وہ بھی جو میرے علم میں ہے اور وہ بھی جسے میں نہیں جانتا ۔ اورتجھ سے جنت مانگتا ہوں ، اورایسے قول وعمل کی توفیق چاہتا ہوں جو اس کے قریب کر دینے کا باعث ہو ۔ اور دوزخ سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور ایسے قول و عمل سے پناہ مانگتا ہوں جو اس کے قریب کردینے کا باعث ہو۔ (پروردگار) ، میں تجھ سے وہ بھلائی چاہتا ہوں جو تیرے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہی ہے ،اور ان چیزوں سے پناہ مانگتا ہوں جن سے تیرے بندے اوررسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے ۔اور تو نے جو فیصلہ بھی میرے لیے کیا ہے، اس میں تجھ سے اچھے انجام کی درخواست کرتا ہوں۔’’

          سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ قعدے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری دعا بالعموم یہ ہوتی تھی:

اللّٰہُمَّ، اغْفِرْ لِی مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ مِنِّی، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ. ( ابوداؤد، رقم ۱۵۰۹)

‘‘اے اللہ ، تو میرے گنا ہ معاف کردے ؛ اگلے اورپچھلے ، کھلے اور چھپے ۔ اورجوزیادتی مجھ سے ہوئی ہے ، اسے بھی معاف فرما دے اور وہ سب چیزیں بھی جنھیں تو مجھ سے زیادہ جانتاہے۔ تو ہی لوگو ں کو آگے کرنے والا ہے اور تو ہی انھیں پیچھے کرنے والا ہے ۔ تیر ے سوا کوئی الہٰ نہیں ہے ۔’’

وائل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ دائیں طرف سلام پھیرتے وقت آپ کبھی ‘ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ’ کے ساتھ ‘وَبَرَکَاتُہُ ’ (اوراس کی برکتیں ) کا اضافہ بھی کردیتے تھے ۔

نماز کے بعد

          نمازسے فراغت کے بعد بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم ذکر ودعا میں مشغول ہوتے تھے ۔

          عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور کے نماز سے فارغ ہوجانے کا علم مجھے ‘اللّٰہُ اَکْبَرُ’ کہنے سے ہوتا تھا۔

          سیدہ عائشہ کا بیان ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیرہی بیٹھتے تھے کہ اس میں یہ ذکرفرمالیں:

 اللّٰہُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ، وَمِنْکَ السَّلَامُ، تَبَارَکْتَ، یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ . (مسلم ، رقم ۵۹۲)

‘‘اے اللہ ، توسراسر سلامتی ہے ، اور سلامتی سب تیری ہی طرف سے ہے ۔ اے عزت و جلالت کے مالک ، تیری ذات بڑی ہی بابرکت ہے ۔’’

ثوبان ر ضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے آپ تین مرتبہ استغفار بھی کرتے تھے ۔

مغیرہ بن شعبہ کی روایت ہے کہ نماز کے بعد آپ یہ دعا فرماتے تھے :

لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ، لَا شَرِیکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ، وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ، اللّٰہُمَّ، لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ. (بخاری ، رقم ۸۰۸ )

‘‘اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ، وہ یکتا ہے ، اُس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ بادشاہی اُس کی ہے اور حمدوثنا بھی اُسی کے لیے ہے ، اور وہ ہر چیز پرقدرت رکھتا ہے ۔اے اللہ ، جسے تو دے ، اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے اورجسے تو روک دے ، اسے کوئی دینے والانہیں ہے ؛ اورکسی مرتبے والے کو اس کامرتبہ تیری گرفت کے مقابلے میں کچھ بھی نفع نہیں دیتا ۔’’

          عبداللہ بن زبیر کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیر کر فارغ ہوتے تو یہ ذکر کرتے تھے :

 لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ، لَا شَرِیکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ، وَلَہُ الْحَمْدُ، وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ، لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ، لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَلَا نَعْبُدُ إِلَّا إِیَّاہُ. لَہُ النِّعْمَۃُ، وَلَہُ الْفَضْلُ، وَلَہُ الثَّنَاء ُ الْحَسَنُ، لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ، وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ. (مسلم ، رقم ۵۹۴۔)

‘‘اللہ کے سو ا کوئی الہٰ نہیں، وہ یکتا ہے ، اُس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ بادشاہی اس کی ہے اور حمد وثنا بھی اسی کے لیے ہے؛ اوروہ ہرچیز پرقدرت رکھتا ہے ۔ہمت اور قدرت ، سب اللہ ہی کی عنایت سے ہے ، اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ؛ اورہم اس کی عبادت کرتے ہیں ۔ نعمت اور عنایت سب اسی کی ہیں اور اچھی ثنا بھی اسی کے لیے ہے ۔اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں، اطاعت کو منکروں کے علی الرغم اسی کے لیے خالص کرتے ہیں ۔’’

          سعد رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ کلمات سکھاتے اور فرماتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ذریعے سے ہر نماز کے بعد اللہ کی پناہ چاہتے تھے:

اللّٰہُمَّ، إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ الْجُبْنِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ أَنْ أُرَدَّ إِلَی أَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیَاْ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ. (بخاری ، رقم ۶۰۰۴۔)

‘‘اے اللہ ، میں بخل اور بزدلی سے تیری پناہ چاہتا ہوں ؛ اور ارذل عمر کی طرف لوٹائے جانے سے پناہ چاہتا ہوں ؛ اوردنیا کی آزمایش اور قبر کے عذاب سے پناہ چاہتا ہوں ۔’’

ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقرائے مہاجرین کو تعلیم دی کہ ہر نماز کے بعد وہ ۳۳مرتبہ ‘سُبْحَانَ اللّٰہِ’، ۳۳مرتبہ ‘الْحَمْدُ لِلّٰہِ’، اور ۳۳ مرتبہ ‘اللّٰہُ اَکْبَرُ ’کہا کریں ۔

ابو ہریر ہ ہی کا بیان ہے کہ اس ۹۹کو درج ذیل کلمات سے ۱۰۰کردیا جائے تو آدمی کے گنا ہ معاف کردیے جاتے ہیں ، اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابرہی کیو ں نہ ہوں :

لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ، لَا شَرِیکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ، وَلَہُ الْحَمْدُ، وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ . (مسلم ، رقم ۵۹۷)

‘‘اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ہے ، وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ۔ بادشاہی اس کی ہے اورحمدوثنا بھی اسی کے لیے ہے ؛ اوروہ ہر چیز پرقدرت رکھتا ہے ۔’’ابن عجرہ کی ایک روایت میں ۳۳مرتبہ ‘سُبْحَانَ اللّٰہِ’، ۳۳مرتبہ ‘الْحَمْدُ للّٰہِ ’اور ۳۴ مرتبہ ‘اللّٰہُ اَکْبَرُ ’کہنے کا ذکر بھی ہوا ہے ۔

          زید بن ثابت کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک انصاری نے بیان کیا کہ انھیں کسی شخص نے خواب میں ۳۳ مرتبہ کی جگہ ۲۵مرتبہ ‘ سُبْحَانَ اللّٰہِ ’، ۲۵ مرتبہ ‘الْحَمْدُ لِلّٰہِ’، ۲۵مرتبہ ‘اللّٰہُ اَکْبَرُ’اور اس کے ساتھ ۲۵مرتبہ ‘َلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ’ کہنے کی تلقین کی ہے ۔آپ نے فرما یا :یہی کر لیا کرو

 جنازہ کی دعائیں

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہُ وَعَافِہٖ وَاعْفُ عَنْہُ وَاَکْرِمْ نُزُلَہٗ وَوَسِّعْ مُدْخَلَہٗ وَاغْسِلْہُ بِالْمَآءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّہٖ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا نَقَّےْتَ الثَّوْبَ الْاَبْےَضَ مِنَ الدَّنَسِ وَاَبْدِ لْہُ دَارًاخَےْرًامِّنْ دَارِہٖ وَاَھْلاً خَےْرًامِّنْ اَھْلِہٖ وَزَوْجًاخَےْرًامِّنْ زَوْجِہٖ وَاَدْخِلْہُ الْجَنَّۃَ وَاَعِذْہُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ۔

 ترجمہ اے اللہ ؛ اس میت کوبخش اور رحم کر اس پر ،اسے آرام دے اور اسے معاف فرما اور اس کی عمدہ مہما نی کر ،اس کے داخل ہونے کی جگہ کشادہ کر اور دھو ڈال اسے پانی ،برف اور اولوں کیساتھ اور صاف کردے اسے گناہوں سے اس طرح جیسے صاف کرتے ہیں آپ سفید کپڑے کو میل کچیل سے اور بدل دے اس کے لیے گھر بہر اس کے (دنیا کے ) گھر سے اور عیا ل اچھا اس کے عیال سے اور بیوی اچھی اس کی بیوی سے اور داخل کر اسکو جنت میں اور بچا کے رکھ اس کو عذاب قبر سے اور عذاب دوزخ سے۔

دوسری دعا

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاھِدِنَا وَغَائِبِنَاوَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا. اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّافَاَحْیِہ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ. اَللّٰھُمَّ لَاتَحْرِمْنَٓا اَجْرَہٗ وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَہٗ۔

 ترجمہ اے اللہ؛ بخش دے ہمارے زندوں کو ،اور مردوں کو ، حاضر رہنے والوں کو اور غائب رہنے والوں کو ،اور ہمارے چھوٹے اور بڑے کو اور ہمارے مردوں اور عورتوں کو اے اللہ؛ آپ جسے زندہ رکھیں ہم میں سے تو اسکو زندہ رکھیے اسلام پر اور جس کو وفات دیں ہم سے تو وفات دیجیے اس کو ایمان پر۔اے اللہ ؛نہ محروم کر ہم کو اس کے اجر سے اور نہ فتنے میں ڈال اسکے بعد ۔

 دعائے استخارہ

 اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ۔فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَآ اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ۔ اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ خَیْرٌلِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَتَۃِ اَمْرِیْ فَاقْدُرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّلِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہٗ وَاقْدُرْلِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہٖ ۔

ترجمہ۔ اے اللہ؛ میں آپ سے آپ کی علم کی بدولت بھلائی چاہتا ہو ں ،اور آپکی قدرت کی برکت سے طاقت مانگتا ہوں اور آپ سے بڑا فضل چاہتا ہوں ۔کیونکہ آپ طاقت رکھتے ہیں اور میں کمزور ہوں اور آپ جانتے ہیں اور میں نادان ہوں اور آپ چھپی ہوئی چیز بھی جانتے ہیں ۔الہٰی اگر آپ کے علم میں میرا یہ کام بہتر ہے میرے لیے دین اور دنیا اور انجام کار میں تو مقدر کر اسکو اور آسان کر اسکو میرے لیے پھر مجھے بھی برکت عطاء کر اور اگر آپ کے علم میں یہ کا م برا ہے میرے لیے دین اور دنیا اور انجام کارمیں تو دور کردیجیے اسکو مجھ سے اور دور کر دے مجھے اس سے اور مقدر کر میرے لیے خیر جہاں کہیں ہو پھر مجھے اس پر راضی کر دے ۔

٭٭٭