روح کے زخم

مصنف : عظیم الرحمن عثمانی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مارچ 2021

بچپن میں ہمارے محلے میں ایک صاحب رہا کرتے تھے جن کا کسی صدمہ یا بیماری کی وجہ سے دماغی توازن بگڑگیا تھا۔جب وہ ٹھیک ہوا کرتے تھے، اس وقت بھی انہیں جانتا تھا۔ صاف رنگت، مضبوط شخصیت اور مہذب لہجہ ۔یہ تینوں اوصاف ان میں موجود تھے۔ لیکن اس دماغی بیماری کی وجہ سے ان پر اکثر ایسی حالت طاری ہوجاتی کہ وہ گندی گالیاں دینے لگتے۔ ظاہر ہے کہ اس وجہ سے سب ان سے خوفزدہ رہنے لگے۔ بچے ڈرتے بھی تھے اور موقع ملتے ہی انہیں چھیڑ کر مزہ بھی لیتے تھے۔ میں بھی ان سے گھبراتا تھا اور انہیں دیکھتے ہی اپنا رستہ بدل لیا کرتا تھا۔ وقت گزرتا گیا، میں انگلینڈ آ گیا اور یہیں زندگی گزرنے لگی۔ کچھ سالوں پہلے جب میں پاکستان گیا تو وہ نظر آئے۔ اس وقت بھی ان پر اسی دماغی بیماری کا غلبہ تھا، ان کی آنکھیں غصہ سے سرخ اور زبان پر گالیاں تھیں۔ لیکن اس بار مجھے نہ معلوم کیا ہوا کہ میں ہمت کر کے ان کے پاس چلا گیا اور گرم جوشی سے انہیں سلام کیا۔ وہ اس شدید غضب کی کیفیت میں بھی چونک گئے اور غیریقینی آنکھوں سے مجھے دیکھنے لگے۔ پھر گڑبڑا کر دھیمے لہجہ میں وعلیکم السلام کہا۔ مجھ سے ہاتھ ملایا اور خاموشی سے گھر کے اندر چلے گئے۔ اس کے بعد میرا معمول ہوگیا، ہر روز جب انہیں دیکھتا تو جا کر ملتا اور سلام کرتا۔ اس کے بعد جب بھی وہ اس غصہ کی کیفیت میں ہوتے اور مجھے دیکھتے تو خاموش ہو جاتے۔ کچھ مہینوں پہلے جب دوبارہ کراچی گیا تو وہ مجھے دیکھ کر خود پاس آئے، سلام دعا کی، مزید پوچھا کب آئے؟ کیسے ہو؟ وغیرہ ان کے جانے کے بعد میں خوشی اور حیرت دونوں میں مبتلا یہ سوچتا رہا کہ کیسے ہمارا ایک بظاہر معمولی عمل لوگوں کی زندگی کو بہتر کرسکتا ہے؟
٭٭٭
کافی سالوں پہلے میں ایک ریٹیل اسٹور میں مینجر ہوا کرتا تھا۔ وہاں ایک انگریز لڑکی سے تمام مینجرز بہت تنگ تھے۔ یہ لڑکی چھوٹی چھوٹی باتوں پر آنسو بہاتی رہتی اور ہر دوسرے روز بے ہوش ہوجاتی۔ شکل نقاہت کی وجہ سے اس قدر سفید تھی کہ مانو خون ہی نہ ہو۔ قانونی پیچیدگی کی وجہ سے اسے نکالنا بھی ہائر مینجمنٹ کے ہاتھ میں نہ تھا۔ لہٰذا اسے ایک کے بعد دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں ٹرانسفر کیا جاتا رہا مگر ہر ڈیپارٹمنٹ مینجر نے کان پکڑ لئے۔ روز مینجر اس لڑکی پر چیختے چلاتے مگر بجائے اس کے کہ لڑکی کا کام بہتر ہوتا، وہ اور مزید ڈپریسڈ ہوتی چلی جاتی۔ مجھے اس زمانہ میں کیش کاونٹرز کا انچارج بنایا ہوا تھا۔ مینجرز کی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے کیش کاونٹرز میں رکھا جائے اور ایک مہینہ بعد اسپیڈ پرفارمنس کی بنیاد پر رپورٹ بنائی جائے جس کے بعد اس لڑکی کو جاب سے نکالا جاسکے۔ یہ میرے لئے ایک اذیت کا سبب تھا، میری دل سے خواہش تھی کہ اس لڑکی سمیت کسی کی بھی جاب میری وجہ سے نہ جائے۔ پہلے ہی روز وہ بیہوش ہوگئی۔ اسے ہوش میں لایا گیا اور کونسلنگ کیلئے پہلی بار مجھے مقرر کیا گیا۔ گفتگو سے مجھے اندازہ ہوا کہ اس کے پارٹنر نے اسے نہ صرف چھوڑ دیا ہے (بریک اپ) بلکہ اس کو یہ یقین بھی دلا دیا ہے کہ وہ نہایت ناکارہ انسان ہے۔ میں اس دن اسکی ذہنی حالت کو سوچتا رہا۔ اگلے روز میں نے اسے ایک آسان سا کام دیا جو اس نے کچھ دیر میں مکمل کر لیا اور مجھے ڈرتے ڈرتے چیک کرنے کیلئے بلایا۔ کام میں ابھی بھی کچھ نقص باقی تھے مگر میں نے تنقید کی بجائے اسکی خوب تعریف کی۔ اپنی تعریف سن کر اس کی آنکھوں میں غیر یقینی کا طوفان امڈ آیا جیسے یہ کوئی ناممکن بات تھی جو میں کہہ گیا۔ میں نے کچھ اور اسٹاف ممبرز کو بلایا اور اس کا کام دکھا کر کہا کہ دیکھو کم وقت میں کام اس طرح سے کیا جاتا ہے۔ اس معمولی واقعہ کے بعد جیسے اس لڑکی کو نیند سے جگا دیا۔ وہ ہر کام دلجمعی اور پھرتی سے کرنے لگی۔ میں بھی اس کے کام کی بالضرور تعریف کرتا۔ مہینہ بعد مجھے مینجرز میٹنگ میں پھر بلایا گیا۔ ہیڈ مینجر نے کہا، عظیم ہم تو اس لڑکی کو نکالنا چاہتے تھے مگر اس نے تو کمال کردیا۔ میں نے پوچھا کہ ایسا کیا ہوا؟ تو میرے سامنے وہ رپورٹ رکھ دی گئی جس میں پچاس اسٹاف ممبرز کی پرفارمنس کا کوائلٹی اور تیزی کے تناسب سے جائزہ لیا گیا تھا۔ اس لڑکی کا نام پہلے نمبر پر تھا۔ میں حیرت اور خوشی سے اس رپورٹ کو دیکھے جاتا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیسے بعض اوقات ہماری معمولی سی حوصلہ افزائی ایک تھکے ہوئے انسان کو دوبارہ کھڑے ہونے کی طاقت عطا کردیتی ہے؟
٭٭٭
اسی طرح ایک کمپنی میں کام کرتے ہوئے مجھے دیگر مسلم کام کرنے والے دوستوں نے ایک لڑکی کے بارے میں غصہ و حقارت سے بتایا کہ اس لڑکی نے کچھ سال پہلے اسلام چھوڑ کر اور اپنے گھر والوں سے بھاگ کر ایک سکھ لڑکے کے ساتھ رہائش کرلی ہے۔ یہی وجہ تھی جسے بنیاد بناکر کوئی بھی مسلم نہ اس سے قریبی دوستی رکھتا اور نہ ہی اسے مسلمان سمجھتا۔ اگلی بار جب میرا اس سے سامنا ہوا تو میں نے اسے گڈ مارننگ کہنے کی بجائے السلام و علیکم کہا۔ اسے سن کر وہ جھینپ کر آگے بڑھ گئی۔ اگلے روز پھر میں نے سلام کیا تو اس نے فوری وعلیکم السلام کہا جیسے انتظار میں ہو۔ پھر وہ خود سلام میں پہل کرنے لگی، میں نے اس کے ماضی یا حال کے بارے میں کبھی گفتگو نہ کی بلکہ انجان بنا رہا۔ اس کے برعکس جب ٹھیک موقع ہوتا تو اس سے دیگر اسلامی موضوعات پر بات ک۔ کچھ دنوں میں رمضان کا مہینہ آگیا۔ پہلے ہی روز وہ تیزی سے آئی اور پوچھا کہ عظیم بھائی آپ نے روزہ رکھا ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دے کر جوابی پوچھا کہ بہن آپ نے رکھا ہے روزہ؟ زور سے گردن ہلا کربولی کہ جی اور باقی بھی رکھوں گی۔ چند مہینوں بعد معلوم نہیں کس وجہ سے اس نے اس سکھ دوست سے علیحدگی اختیار کرلی اور واپس اپنے گھر والوں کے ساتھ ملنے جلنے لگی۔ عبادات اور رب سے تعلق دوبارہ استوار ہوتا نظر آنے لگا۔ مجھے خوشی تھی کہ شائد کسی کمتر درجہ میں اس کے اس بدلاؤ میں مجھے بھی حصہ بننے کا موقع ملا۔ سوچتا ہوں کہ کیسے معمولی باتیں انسان کی سوچ کا زاویہ بدل دیا کرتی ہیں؟
مجھے آج یہ حقیقت سمجھ آگئی ہے کہ انسان میں بڑی بڑی تبدیلیاں اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں سے آیا کرتی ہیں۔ زخم صرف جسمانی نہیں نفسیاتی بھی ہوتے ہیں اور اگر مرہم رکھا جائے تو یہ روح کے زخم بھر بھی سکتے ہیں، یہ گھاؤ ٹھیک بھی ہوسکتے ہیں۔
٭٭٭