غزل

مصنف : اذکار ازہر خان درانی

سلسلہ : غزل

شمارہ : دسمبر 2004

 

کٹے گی اک نہ اک دن یہ شبِ غم دیکھتے رہنا 
خوشی کے ساز سے نکلیں گے سر گم دیکھتے رہنا 
 
قبولے گا خطا اپنی کبھی دل کی عدالت میں
بنے گا ایک دن انسان یہ آدم دیکھتے رہنا
 
وہ جس کے دم سے زخموں نے بہار جاوداں پائی
ہمیں سے مانگنے آئے گا مرہم دیکھتے رہنا 
 
چراغِ آرزو بن کر ہر اک دل کو اجا لیں گے
بدل دیں گے سحر میں ہر شب ِغم دیکھتے رہنا
 
نگاہِ وقت دیکھے گی محبت کی جہانگیری
مٹائیں گے ستم کا ہر نشاں ہم دیکھتے رہنا
 
کسی بھی گل کی حق تلفی نہ ہوگی اب گلستاں میں
ملے گی خشک پھولوں کو بھی شبنم دیکھتے رہنا 
 
اگرچہ بے سرو ساماں ہیں ازہرؔ پھر بھی ہمت سے
بدل دیں گے نظامِ زندگی ہم دیکھتے رہنا