دو سالوں کے سنگم پر

مصنف : اذکار ازہر خان درانی

سلسلہ : غزل

شمارہ : دسمبر 2004

 

دوسالوں کے سنگم پر میں
جانے کیا کیا سوچ رہا ہوں
پچھلے سال بھی ایسی ہی اک
سرد دسمبر کی شب تھی جب
دو سالوں کے سنگم پر میں
جانے کیا کیا سوچ رہا تھا
 سوچ رہا تھا وقت کا پنچھی 
ماہ وسال کے پنکھ لگا کر 
اپنی ایک مخصوص ڈگر پر
 اڑتا ہے
دو سالوں کے سنگم پر میں 
بیتی باتیں یاد کروں تو
ڈرتا ہوں
ڈرتا ہوں کہ جانے والے سال کا سورج 
آنے والے سال کے پہلے سورج کو 
اپنے تن کی ساری حدت بخش نہ دے
ڈرتا ہوں کہ
آنے والا موسم بھی
جانے والی زرد رتوں کا عکس نہ ہو
موسم گل کی صورت کے برعکس نہ ہو
صحنِ چمن میں شعلوں ہی کارقص نہ ہو
سوچ رہا ہوں پچھلے سال اس لمحے 
دو سالوں کے ایسے ہی اک سنگم پر 
کیسے کیسے لوگ شریک ِ محفل تھے
کتنے ہیں جو آج یہاں موجود نہیں
سوچ رہا ہوں اگلے سال اسی لمحے
دو سالوں کے ایسے ہی اک سنگم پر 
جب لکھے گا کوئی نظم تو سوچے گا
پچھلے سال کی آخری نظمیں لکھنے والے 
کتنے ہیں جو آج یہاں موجود نہیں