غزل

مصنف : انشا اللہ خان انشا

سلسلہ : غزل

شمارہ : نومبر 2004

 

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
 
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِبہاری’ راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکیلیاں سُوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
 
تصور عرش پر ہے ’ اور سر ہے پائے ساقی پر
غرض کچھ اور دُھن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں
 
یہ اپنی چال ہے افتادگی سے اب کہ پہروں تک
نظر آیا جہاں پر سایہ دیوار بیٹھے ہیں
 
کہاں صبر و تحمل ’ آہ ننگ ونام کیا شے ہے
یہاں روپیٹ کر ان سب کو ہم یکبار بیٹھے ہیں
 
نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جہاں پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بیکار بیٹھے ہیں
 
بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشا
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں