حضرت سعید بن عامرؓ

مصنف : عبدالرحمان رافت الباشا

سلسلہ : سیرت صحابہؓ

شمارہ : نومبر 2004

عبدالرحمان رافت الباشا ، ترجمہ محمود احمد غضنفر

            حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ ان ہزاروں میں ایک جوانِ رعنا تھے جو سردارانِ قریش کی دعوت پر مکہ معظمہ کی بالائی جانب مقام تنعیم کی طرف محض اس لیے چل کھڑے ہوئے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت خبیب بن عدیؓ کی شہادت کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں، جنھیں قریش نے دھوکے سے پکڑ لیا تھا۔

            اس کے شبابِ فراواں اور ابھرتی ہوئی جوانی نے اسے اس قابل بنا دیا تھا کہ وہ لوگوں کے کندھے پھلانگتا ہوا ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ ایسے سردارانِ قریش کے برابر کھڑاہو سکے وہاں ان دونوں کے سوا اور بھی شہسوارانِ عرب موجود تھے جو اگلی صفوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔

            اسے اس طرح یہ موقع ملا کہ قریش کے اس اسیر کو بچشم خود پابجولاں دیکھ سکے۔ اس نے اس منظر کا مشاہدہ کیا کہ عورتیں ، بچے اور جوان سب اسے موت کی وادی کی طرف بے دریغ دھکیل رہے ہیں ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ اس صحابی رسولؐ کو شہید کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انتقام لیں اور یوں بدر کے مقتولین کی رسوائی کا بدلہ چکائیں۔

            جب یہ ہجوم اپنے اس قیدی کو لے کر اس مقام پر پہنچاجو پہلے سے اس کی شہادت کے لیے متعین تھا تو اس مرحلہ پر طویل القامت نوجوان سعید بن عامرؓ نے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کی طرف نظر دوڑائی سردارانِ قریش اسے کشاں کشاں تختۂ دار کی طرف لے جا رہے تھے اس نے عورتوں اور بچوں کی چیخ و پکار اور شور میں ایک پر وقار آواز سنی حضرت خبیب رضی اللہ عنہ فرما رہے تھے۔

            اگر تمھارے لیے ممکن ہو تو مجھے مرنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لینے کی مہلت دو!

            پھر سعید بن عامرؓ نے دیکھا کہ حضرت خبیبؓ کعبہ رخ کھڑے ہوکر دو رکعت نماز پڑھ رہے ہیں۔ یہ دو رکعتیں کیسی تھیں، اتنی حسین، اتنی مکمل کہ کیا کہنے! اس کے بعد اس نے یہ دیکھا کہ قوم کے سرداروں کی طرف منہ کرکے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ یہ کہہ رہے ہیں۔

            بخدا! اگر مجھے اس بد گمانی کا اندیشہ نہ ہوتا کہ تم کہیں یہ نہ سمجھو کہ میں نے نماز کو موت کے ڈر سے طوالت دی ہے تو میں نما ز میں اور زیادہ وقت صرف کرتا …… پھر اس نے صنادید قریش کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ حضرت خبیبؓ کا زندہ حالت میں مثلہ کر رہے ہیں یعنی یہ لوگ ان کے جسم کا ایک ایک عضو یکے بعد دیگرے کاٹ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کیا تمھیں یہ پسند نہیں کہ تمھاری جگہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور تم اس تکلیف سے بچ جاؤ؟

            ان کا اس حالت میں کہ خون کے دھارے جسم سے پھوٹ رہے تھے جواب یہ تھا۔

            خدا کی قسم مجھے یہ قطعاً پسند نہیں کہ میں اپنے اہل و عیال میں امن اور چین سے رہوں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کانٹا بھی چبھے پھر جناب سعید بن عامرؓ نے دیکھا کہ لوگ فضا میں ہاتھ ہلا ہلا کر بآواز بلند کہہ رہے ہیں۔اسے مار ڈالو، اسے مار ڈالو، اس کے بعد انھوں نے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ تختۂ دار پر اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے اللہ تعالیٰ سے یہ التجا کر رہے ہیں۔

            الٰہی! ان سب ظالموں کو شمار کرلے اور انھیں تباہی کا مزا چکھا اور ان میں سے کسی کو معاف نہ کر یہ کہہ کر انھوں نے زندگی کی آخری سانس لی یہ وہ لمحہ تھا جب ان کا جسم تلوار اور نیزوں کی ضربات سے چور تھا اور اتنے زخم کھا چکا تھا کہ جن کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔

٭٭٭

            قریش بالآخر مکہ واپس لوٹ آئے اور اس کے بعد پیش آنے والے بڑے بڑے سنگین معرکوں کے نرغے میں حضرت خبیب رضی اللہ عنہ اور ان کے واقعہ شہادت کو یکسر بھلا بیٹھے لیکن اس نوجوان سعید بن عامرؓ کے پردۂ دل سے ایک لحظہ کے لیے بھی حضرت خبیبؓ کی شہادت کا منظر محو نہ ہوا چنانچہ یہ جب بھی سوتے خواب میں یہ منظر دکھائی دیتا اور بیدار ہوتے تو چشم خیال میں یوں محسوس ہوتا جیسے کہ تختۂ دار کے آگے حضرت خبیب ؓ پورے اطمینان کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کر رہے ہیں یہی نہیں بلکہ ان کی پر درد آواز جیسے ان کے کانوں میں گونج رہی ہے اور وہ قریش کے خلاف بد دعا میں مصروف ہیں اور اس خیال سے ان کا کلیجہ دہل جاتا ہے کہ کہیں آسمان کا کڑکا ان کو آ نہ لے یا آسمان سے پتھر گر کر ان کو تباہ نہ کر دیں۔

            حضرت خبیبؓنے جامِ شہادت نوش کرکے جناب سعیدؓ کو وہ کچھ سکھا دیا جس کا انھیں پہلے قطعی علم نہ تھا۔انھیں سکھایا کہ حقیقی زندگی عقیدہ اور عقیدے کی راہ میں تادم ِآخر مسلسل جہاد کرنے کا نام ہے۔ دوسری بات جو اس واقعہ سے انھوں نے سیکھی وہ یہ تھی کہ پختہ و محکم ایمان ایسے عجیب و غریب کردار کو جنم دے سکتا ہے جو عام حالات میں ظہور پذیر نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں انھیں اس حقیقت کا بھی احساس ہوا کہ وہ شخص جس سے اس کے رفقاء اس درجہ محبت رکھتے ہیں کہ اس پر جان نچھاور کر دیں بلا شبہ اللہ کا سچا رسولؐ ہے جن کی تائید کے سامان آسمان کی طرف سے مہیا ہوتے ہیں ۔یہ سوچنا تھا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا چنانچہ برسر مجمع یہ اعلان کر دیا کہ میں بت پرستی کی آلائشوں سے پاک ہو کر اور بے اختیار بتوں سے مونہہ موڑ کر ایک اللہ کے آگے سرِ تسلیم خم کرتاہوں میں آج سے مسلمان ہوں۔

٭٭٭

            حضرت سعید بن عامرؓ نے مکہ کی سکونت ترک کرکے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اور صحبت میں رہنے لگے خیبر اور اس کے بعد ہونے والے غزوات میں شرکت کا شرف حاصل کیا۔

            جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے جوارِ رحمت کی طرف کوچ کیا اس وقت آپؐ حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ سے ان کی خدمات کی وجہ سے خوش تھے آپ کے بعد حضرت ابوبکراور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں میں حضرت سعید بن عامرؓ برہنہ شمشیر بن کر رہے اور ایسی زندگی بسر کی جو مسلمانوں کے لیے کردار کا نمونہ ثابت ہوئی جنھوں نے دنیا کو بیچ کر آخرت کا سودا کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کو اپنی خواہشات کے مقابلہ میں راجح اور مقدم جانا۔

٭٭٭

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ دونوں خلیفہ حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کی صداقت اور تقویٰ کو خوب جانتے تھے، لہٰذا ان کی نصیحتوں کو غور سے سنتے اور ان کی ہر بات پر کان دھرتے۔

            جناب سعید بن عامرؓ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت تشریف لائے جبکہ وہ مسند خلافت پر فروکش ہوئے ہی تھے۔

            آپؓ نے فرمایا۔ اے عمرؓ میں تمھیں اس بات کی وصیت کرتاہوں کہ لوگوں کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں لوگوں سے کبھی نہ ڈرنا اور یہ کہ تمھارے قول و فعل میں تضاد کبھی نہ ہونا چاہیے اس لیے کہ انسان کی بہترین گفتار وہی ہوتی ہے جس کی تصدیق اس کا کردار کرے۔

            اے عمرؓ:اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جن مسلمانوں کا تمھیں نگران بنایا ہے ان کے معاملات کی طرف خصوصی دھیان دیتے رہنا، ان کے لیے وہی پسند کرنا جو خود تمھیں اپنے اور اپنی اولاد کے لیے پسند ہو اور ان کے لیے ہر اس شے کو نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھنا جو خود تمھیں اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے لیے نا پسند ہو۔ شدائد کا سامنا کرنے سے نہ گھبرانا اور راہِ حق پہ مضبوطی سے جمے رہنا اور حق کی راہ میں کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں نہ لانا۔

            حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:سعیدؓ بھلا کس میں یہ ہمت ہے کہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو سکے۔

            سعیدؓ نے فرمایا:آپ اس کے اہل ہیں آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی کا فریضہ سونپا ہے آپ ایک ایسے شخص ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ سے زیادہ اور کوئی اس کا مستحق نہیں۔

٭٭٭

            اس مرحلہ پر حضرت عمرؓ نے جناب سعیدؓ کو اپنی نصرت و تائید کے لیے دعوت دی اور فرمایا:اے سعیدؓ ہم تمھیں علاقہ حمص کا گورنر مقرر کرتے ہیں۔

            انھوں نے اس کے جواب میں فرمایا:‘‘اے عمرؓ اللہ کا واسطہ ہے مجھے اس آزمائش میں نہ ڈالیے۔’’ حضرت عمرؓ نے اس پر خفا ہو کر فرمایا: ‘‘بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم نے خلافت کا بار تنہا میری گردن پر ڈال دیا اور خود اس سے الگ تھلگ ہونے کی کوشش کر رہے ہو۔’’

            خدا کی قسم میں چھوڑنے والا نہیں اس کے بعد آپ نے ان کو صوبہ حمص کا گورنر مقرر کر دیا اور ارشاد فرمایا:

            کیا تمھارے لیے ہم کچھ معاوضہ مقرر نہ کریں؟

            اس پر حضرت سعیدؓ نے کہا۔امیر المومنین! میں معاوضہ لے کر کیا کروں گا بیت المال سے جو کچھ مجھے ملتا ہے وہ بھی میری ضرورت سے زیادہ ہے۔ یہ کہا اور حمص کی طرف چل دیے۔

            کچھ عرصہ بعد اہالیانِ حمص میں سے قابل اعتمادافرادپر مشتمل ایک وفد امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ نے وفد کو حکم دیا۔تم لوگ مجھے ان افراد کے نام لکھ کر دو جو تم میں مفلس و نادارہیں تاکہ میں ان کی مالی مدد کر سکوں۔ وفد نے آپ کی خدمت میں ایک دستاویز پیش کی آپ کیا دیکھتے ہیں کہ اس فہرست میں حضرت سعید بن عامرؓ کا نام بھی درج ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا:کون سعید بن عامرؓ؟انھوں نے بتایا: ہمارا گورنر۔فرمایا آپ کا گورنر مفلس ہے؟

            انھوں نے کہا: جی ہاں، خدا کی قسم کئی کئی دن ان کے چولہے میں آگ نہیں جلتی۔ یہ سننا تھا کہ حضرت عمرؓ بے اختیار رو پڑے اور اتناروئے کہ آپ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی ۔ آپ اٹھے اور ہزار دینار لیے اور ان کو ایک تھیلی میں بھر کر فرمایا:اس سے میرا سلام کہنا اور یہ پیغام دینا کہ امیر المومنین نے یہ تھیلی تمھارے لیے بھیجی ہے تاکہ اس سے تم اپنی ضروریات کو پورا کر سکو۔یہ وفد حضرت سعید بن عامرؓ کے ہاں تھیلی لے کر آیا۔ آپ نے دیکھا کہ اس میں تو دینار ہیں ۔ تھیلی کو اپنے سے دور ہٹا کر بس یہ کہنے لگے: انا للہ و انا الیہ راجعون۔گویا کوئی بپتا نازل ہو گئی یا کوئی ناگوار واقعہ پیش آگیا یہ کیفیت دیکھ کر آپ کی بیوی گھبرائی ہوئی اٹھی اور کہنے لگی:میرے سر کے تاج کیا سانحہ رونما ہو گیا!کیا امیر المومنین وفات پا گئے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ یہ بات کہیں زیادہ اہم ہے۔ اس نے پوچھا: کیا کسی معرکۂ جہاد میں مسلمانوں کو کوئی صدمہ پہنچا؟ آپ نے فرمایا: اس سے بھی بڑی بات۔ اس نے عرض کی: بھلا اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے؟فرمایا: میرے ہاں دنیادر آئی تاکہ آخرت بگاڑ دے۔ میرے گھر فتنہ ابھر آیا۔

            اس نے عرض کی: کیوں نہ آپ اس فتنہ سے گلو خلاصی کر لیں اسے دیناروں کے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔

            انھوں نے فرمایا: کیا تم اس سلسلہ میں میری مدد کرو گی؟عرض کی: جی ہاں کیوں نہیں۔ آپ نے دینار متعدد تھیلیوں میں بند کیے اور غریب مسلمانوں میں تقسیم کر دیئے۔

٭٭٭

            اس واقعہ کو زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ دیارِ شام میں تشریف لائے مقصد یہ تھا کہ اس علاقہ کے حالات معلوم کر سکیں۔

            ان دنوں حمص کا نام کویفہ پڑ گیا تھا جو لفظ کوفہ کی تصغیر ہے یہ اس نام سے اس لیے مشہور ہوا کہ یہاں کے لوگ عمالِ حکومت کے خلاف شکوہ شکایت کرنے میں اہل کوفہ سے بہت حد تک مشابہت رکھتے تھے جب حضرت عمررضی اللہ عنہ کی تشریف آوری حمص میں ہوئی تو یہاں کے لوگ آپ کو سلام عرض کرنے کی خاطر حاضر ہوئے۔آپ نے دریافت فرمایا: تم نے اپنے امیر کو کیسا پایا انھوں نے اس کی شکایت میں زبان کھولی اور ان کے طرزِ عمل کے بارہ میں چار باتیں کہیں جو ایک دوسری سے بڑھ چڑھ کر تھیں۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے گورنر اور شکایت کرنے والوں کو ایک ساتھ طلب کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی حضرت سعیدؓ کے بارے میں وہ میرے گمان کو جھوٹا نہ ہونے دے۔

            مجھے اس پر بہت اعتماد تھا جب یہ لوگ اور ان کا گورنر بوقت صبح میرے پاس آئے تومیں نے دریافت کیا تمھیں اپنے گورنر سے کیا گلہ ہے؟انھوں نے بتایا:کہ یہ دن چڑھے تک گھر سے باہر نہیں نکلتے۔

            اس پر میں نے پوچھا ۔ سعیدؓ تم اس سلسلہ میں کیا کہنا چاہتے ہو۔سعیدؓ چند لمحے خاموش رہے پھر کہا: بخدا میں اس سلسلہ میں کچھ کہنا نا پسند کرتا تھا لیکن اب اس کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں کہ میں حقیقتِ حال صاف صاف بیان کر دوں۔

            صورتِ حال یہ ہے کہ گھر میں میرے پاس کوئی خادم نہیں میں صبح سویرے اٹھتا ہوں اور اہل خانہ کے لیے آٹا گوندھتا ہوں پھر تھوڑی دیر تک انتظار کرتا ہوں تاکہ آٹے میں خمیر پیداہو جائے بعد ازاں ان کے لیے روٹی پکاتا ہوں پھر وضو کرکے لوگوں کی خدمت کے لیے گھر سے نکل کھڑا ہوتا ہوں۔

            حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:کہ میں ان سے پوچھا کہ تمھیں ان کے خلاف اور کیا شکایت ہے؟انھوں نے کہا کہ یہ رات کے وقت کسی کی نہیں سنتے۔میں نے کہا: سعیدؓ اس اعتراض کا تمھارے پاس کیا جواب ہے۔فرمایا: بخدا میں اس امر کا اظہار بھی نا پسند کرتا ہوں۔ مختصراً یہ عرض ہے کہ میں نے دن ان کے لیے وقف کر رکھا ہے اور رات اللہ عزوجل کی عبادت کے لیے۔میں نے پوچھا: آپ کو ان کے خلاف اور کیا شکایت ہے۔ وہ بولے: مہینہ میں ایک دن غفلت سے کام لیتے ہیں؟میں نے دریافت کیا۔ سعیدؓ یہ کیوں؟ سعیدؓ نے کہا: امیر المومنین میرے پاس نہ تو کوئی خادم ہے نہ ان کپڑوں کے سوا میرے پاس کپڑوں کا کوئی جوڑا ہے جو اس وقت کپڑے میں نے پہن رکھے ہیں۔ مہینے میں ایک مرتبہ دھوتا ہوں پھر منتظر رہتا ہوں کہ یہ خشک ہوجائیں جب یہ خشک ہو جاتے ہیں تو میں انھیں پہن کر دن کے آخری حصے میں ان کا سامنا کرتاہوں۔پھر میں نے دریافت کیا:

            کوئی اور شکایت؟انھوں نے کہا:مجلس میں بیٹھے بیٹھے کبھی کبھی ان پر غشی طاری ہو جاتی ہے اوریوں معلوم ہوتا ہے کہ اہل مجلس سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔

            میں نے پوچھا: ‘‘سعیدؓ یہ کیا بات ہے؟ ’’سعیدؓ نے کہا: میں نے حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا منظر بچشم خود دیکھا ہے میں اس وقت مشرک تھا۔ میں نے دیکھا کہ قریش اس کی بوٹیاں کاٹ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں۔ کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تمھاری جگہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں؟

            حضرت خبیب رضی اللہ عنہ جواب میں کہتے ہیں:خدا کی قسم میں یہ ہرگزپسند نہیں کرتا کہ میں تو اپنے اہل و عیال میں اطمینان سے رہوں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم میں ایک کانٹا بھی چبھنے پائے جب بھی وہ دن مجھے یاد آتا ہے سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ میں نے اس دن ان کی کیوں مدد نہ کی۔ ڈرتا ہوں کہ شاید اللہ تعالیٰ میرا یہ جرم معاف نہ کریں۔ اس کے بعد مجھ پر غشی طاری ہو جاتی ہے۔یہ سنا تو حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: اللہ کا شکر ہے کہ جس نے سعیدؓ کے بارے میں میرے حسن ظن کو غلط ثابت نہیں کیا۔ اس کے بعد آپ نے ایک ہزار دینار بھیجے تاکہ ان سے اپنی ضروریات پوری کرلیں۔

            جب یہ دینار حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کی بیوی نے دیکھے تو کہہ اٹھی کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں آپ کی خدمات سے بے نیازی بخشی۔ہمارے لیے ضرورت کی اشیاء خرید لیجیے اور گھر کے کام کاج کے لیے ایک خادم رکھ لیجیے اس پر آپ نے بیوی سے فرمایا:میں تجھے وہ چیز نہ دوں جو اس سے بھی بہتر ہو۔بیوی نے کہا: بھلا وہ کیا۔فرمایا:یہ دینار ہم اسی کو لوٹا دیں جو ہمارے پاس لایا ہے ہم ان دیناروں سے کہیں زیادہ اُس کے محتاج ہیں۔بیوی نے کہا: وہ کون؟فرمایا: کیوں نہ ہم اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسنہ دے دیں۔آپ نے بجا ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آپ نے اسی مجلس میں دیناروں کو مختلف تھیلیوں میں رکھا اور اپنے اہل خانہ میں سے ایک شخص کو حکم دیا کہ جاؤ ،فلاں کی بیوی، فلاں کے یتیم بچوں اور فلاں خاندان کے مساکین اور فلاں قبیلہ کے محروموں میں تقسیم کر آؤ۔

            اللہ تعالیٰ نے حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کو سندِ رضاسے نوازا آپ ان لوگوں میں سے تھے جو دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں چاہے خود

 گھاٹے میں رہیں۔

            حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کے مفصل حالاتِ زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کیجیے:

            (۱) تہذیب التہذیب:۴؍۵۱ (۲) ابن عساکر: ۶؍۴۵۔۱۴۷(۳) صفۃ الصفوۃ: ۱؍۲۷۳ (۴) حلیۃ الاولیاء: ۱؍۲۴۴ (۵) تاریخ الاسلام: ۲؍۳۵ (۶)الاصابتہ:۳؍۳۲۶ (۷) نسب قریش:۳۹۹۔

٭٭٭