عظمت کا راستہ ، انسانیت سے محبت ہے!

مصنف : اُمِّ ایمان

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : دسمبر 2005

            وہ مسلمان نہیں تھا، لیکن اس نے لکھا کہ ‘‘دنیا میں اگرکوئی پیغمبر یا صالح شخص نہ بھیجا جاتا اور صرف مسلمانوں کی کتاب ‘‘الفرقان’’ موجود ہوتی تو یہ کتاب انسانی ہدایت کے لیے کافی تھی۔’’ وہ کوئی عام آدمی نہیں تھا۔ اس نے انتہائی دولت مند گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ جس گھر میں وہ پیدا ہوا تھا وہ چار ہزار دو سو بیس کمروں کی شاندار حویلی تھی۔ اس نے کٹر مذہبی گھرانے میں پرورش پائی۔ دو ناولیں لکھ کر وہ عظمت کی بلندی پر پہنچ گیا۔ لوگ اس کی ایک نظر کے لیے اس کے گھر کے سامنے مہینوں ڈیرے ڈالے رہتے۔ اس شخص کی زندگی اور نظریات پر کم و بیش ۲۳ ہزار کتابچے ، تین لاکھ ۳۷ ہزار کتابیں اور پانچ لاکھ چھ ہزار مضامین تحریر کیے گئے۔ وہ شخص جس نے اس قدر عزت، شہرت اور دولت حاصل کرنے کے بعد قرآن کے پیغام کو پا لیا وہ ٹالسٹائی تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ ‘‘میری زندگی میں پیسے اور شہرت نے بڑا کردار ادا کیا ہے لیکن اس کے باعث میں اپنے مقصد ِ حیات کو بھول گیا۔’’ وہ کہتا ہے کہ ‘‘ان دونوں چیزوں کے لیے جینے والوں کو نہیں معلوم کہ ان کو چھوڑ کر جینے میں کتنا لطف اور مزہ ہے۔’’ روس کے قدیم رئیسوں کی طرح ناز و نعم میں پرورش پانے والے اس ادیب نے جب حقیقت کا سراغ لگا لیا تو قرآن کی تعلیم سے متاثر ہو کر اپنی تمام جائیداد غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دی۔ دولت کی زیادتی کو وہ باعث عزت نہیں سمجھتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ‘‘خدا کو جس انسان سے پیچھا چھڑانا ہواور دنیا و آخرت میں تماشا بنانا ہواسے بہت امیر کر دیتا ہے۔ حد سے زیادہ امارت تمام اخلاقی برائیوں کی جڑ ہے۔’’

            اس کی کتابیں کروڑوں کی تعداد میں بکتی تھیں لیکن وہ ان کے ذریعے کمایا گیا تمام روپیہ ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتا تھا۔ اسی بات پر اس کا اپنی بیوی سے اختلاف ہوا اور اتنا بڑھا کہ اس نے گھر چھوڑ دیا اور آخر کار روس کے ایک ریلوے اسٹیشن پر سردی سے لڑتا ہوا نمونیا میں مبتلا ہوا اور دنیا سے رخصت ہو گیا۔ آخری وقت میں اس کے منہ پر جو جملہ تھا وہ یہ تھا کہ ‘‘خدا بڑا مسبب الاسباب ہے۔’’ زندگی کی آخری سانس تک لوگوں کے لیے کی جانے والی اپنی خدمات کو وہ پرکاہ کے برابر بھی نہ سمجھتا تھا۔ ۸۲ سال کی عمر میں ‘‘جستجو اور مسلسل جستجو’’ کے لفظ پکارتا وہ دنیا سے رخصت ہو گیا، لیکن عظیم افراد کی عظمت کا راز کھول گیا کہ دولت اور شہرت اصل وجہ عظمت نہیں قرار دی جا سکتی۔ عظمت کا راستہ تو صرف انسانیت سے محبت کا راستہ ہے۔ عظیم فرد ہو یا عظیم قوم، بنیادی نکتہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے انسانیت کے لیے کیا کیا ؟ جو چیزیں یا نظریات ایجاد کیے ان سے انسانیت کو کس حد تک فلاح حاصل ہوئی۔ لیکن دولت اور طاقت کے حصول کے لیے اسی ٹالسٹائی(Tolstoy)کے ملک کے فرمانروا نے وصیت کی کہ ‘‘تم ہی بالا تر اور برتر قوم ہو اور دنیا پر حکمرانی کا حق تم ہی کو ہے۔’’ روسی قوم نے ‘‘عظیم پیٹر’’(Great Peter)کی اس وصیت کو دل و جان سے قبول کیا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد روس توسیع پسندانہ پالیسی پر اس طرح گامزن ہوا کہ خونِ انسانی کو پانی کی طرح بہاتے ہوئے مشرقی یورپ میں البانیہ، ہنگری، پولینڈ، چیکوسلواکیہ، فن لینڈ، مشرقی جرمنی کے علاوہ ترکی، چین، جاپان اور ایران کے بھی کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا۔ لیکن ابھی کچھ اور چاہیے تھا۔ لہٰذا ایتھوپیا، اسٹونیا اور افغانستان کے کچھ حصوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ تاہم افغانستان پر مکمل قبضے کی خواہش بالآخر اسے لے ڈوبی۔ یوں تاریخ نے ثابت کر دیا کہ ظلم و سفاکی کے ذریعے عظمت کا حصول دیوانے کے خواب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ لیکن تاریخ کی اس حقیقت کا ادراک اگر قوموں کو ہو جاتا تو تہذیب انسانی کی قبا خونِ انسانی سے یوں لتھڑ نہ رہی ہوتی۔ آج عالمِ انسانیت کو ایک اور انسانی حقوق اور تہذیب کی علمبردار قوم سے واسطہ پڑا ہے جو دوسروں کے مذہب (مسلم امہ) کا اتنا احترام کرتی ہے کہ جس کے سربراہ قرآن کاانگریزی میں ترجمہ پڑھ پڑھ کر مسلمانوں کے ساتھ اپنے قصر ابیض کے لان میں افطار کرتے ہیں اور ساتھ میں ایک مسلمان قوم کے لیے ہزاروں ٹن وزنی بارودی بم ‘‘تحفہ رمضان’’ کے نام سے ارسال کرتے ہیں۔ آج دنیا نصف صدی پہلے جاپانی شہروں پر گرائے گئے بموں کے نتیجے میں انسانی صحت، زمین اور چرند پرند پر ہونے والے مضر اثرات کا نوحہ پڑھتی ہے لیکن اسے افغانستان اور عراق پر برسائے گئے بموں کی تابکاری کے اثرات کا جائزہ لینے کی فرصت نہیں۔ وہ فاختاؤں اور کبوتروں کی موت پر تو نوحہ کناں ہوتے ہیں لیکن افغانستان، عراق، چیچنیا اور فلسطین میں جنگ سے مرنے والے لاکھوں بچوں اور عمر بھر معذوری کی زندگی گزارنے والے معصوموں کے لیے ان کے پاس آنسو ہیں نہ نوحے۔ ہاں نمائشی طور پر ایک آدھ انتہائی زخمی بچے کا خاص علاج کرانے کی خبریں ایک آدھ ماہ میں پورے میڈیا پر زور و شور سے جاری کر دی جاتی ہیں۔ عظمت کے حصول کی تمنا بہت آسان ہے لیکن اس کا حصول بہت قربانی مانگتا ہے۔ تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندۂ جاوید رہنے والے حکمرانوں نے دنیا میں عدل و انصاف اور مساوات کو اپنا اولین اصول بنایا تھا۔ مظلوموں اور کمزورں کے لیے طوق و سلاسل اور مکروہ اذیتی طریقوں کے موجد تو تاریخ میں انسانیت کی توہین کرنے والے متکبر فرعون کے طور پر ہی یاد کیے جاتے ہیں۔

(بشکریہ: سہ ماہی ‘‘دعوت’’ ۔ دہلی)