قیامت کی یاد دہانی

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : نوائے سروش

شمارہ : دسمبر 2005

کیا قیامت کا ہے کوئی دن اور؟

             ۸، اکتوبرکازلزلہ ، کیا یہ اللہ کا عذاب تھا یا محض ارضیاتی تبدیلیوں کانتیجہ ؟کیا یہ گناہوں کی سزا تھی یا محض آزمائش ؟

            یہ ایک علمی بحث ہے ، جو اہل دانش کے درمیان جاری ہے ۔ اس بحث کا نتیجہ جو بھی برآمدہویہ بہر حال ایک حقیقت ہے کہ اس زلزلے کی خوفناک یادیں مدتوں متاثرین کو رلاتی رہیں گے اور اس کے ما بعد اثرات بھی سالوں پر محیط ہو نگے ۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ اسے عذاب قرار دیں یا آزمائش ۔ جو قیامت تھی وہ توبیت گئی البتہ اگر یہ قیامت بڑی قیامت کی یاد کو تازہ کر دے اور ہمیں اصل میں اس کے لیے متفکر کر دے تو پھر یہ زحمت ہمارے لیے ایک لحاظ سے رحمت بن جائے گی۔وہ بڑی قیامت کیاہے قرآن یوں گویاہوتا ہے :

             وہ ایک دھماکا ہو گا ، زمین زلزلوں سے ہلا دی جائے گی اور وہ اپنے اندر دبے خزانے اگل دے گی ۔ انسان کہے گا کہ اس کو زمین کو کیا ہو گیا ہے ؟

             وہ کچھ نہیں ، بس ایک چیخ ، ایک چنگھاڑ ۔

            جب سورج لپیٹ لیا جائے گا اور ستارے بکھر جائیں گے ……

            پہاڑ روئی کے گالوں کی ماند اڑ رہے ہونگے ۔ انسان پتنگوں کیا ماند پراگندہ ومنتشر ہو نگے۔

             آسمان پھٹ جائے گا ، زمین پھیلا دی جائے گی ۔

            آسمان دھوں دھواں ہو جائے گا ۔

            جب کان بہرے کر دینے والی آواز بلند ہو گی ، اس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا ۔ ان میں سے ہر شخص پر ایسا وقت آپڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہو گا !! ……

             اور …… اے انسان تو تو اپنے رب کی طرف کشاں کشاں چلا جا رہا ہے ، ……

            اور …… اے انسان ، کس چیز نے تجھے اپنے اس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا ہے۔ جس نے تجھے پیدا کیا ، تجھے نِک سُک سے درست کیا اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا ۔

             یہ ساری منظر کشی قیامت کے ہولناک دن کی ہے ، جو قرآن نے جگہ جگہ کی ہے ۔ قیامت کی ہولناکی کے یہ تمام مناظر ، 8 اکتوبر کے زلزلے میں موجود تھے ، چیخ بھی تھی ، گڑگڑاہٹ بھی تھی ، زمین کا تھر تھر کانپنا بھی تھا ، گردو غبار کا دھواں بھی اٹھا ، اندھیرا بھی ہوا ، عمارتیں بھی لرزیں اور انسان و جانور لقمہ اجل بھی بنے ۔ عینی شاہدین کے مطابق سیمنٹ سریا سے بنی بلند و بالا عمارتیں ریت کے گھروندے ثابت ہوئے۔ پلک جھپکنے میں فلک بوس عمارتیں ، زمیں بوس تھیں اور کروڑوں کی جائیداد کے مالک ، لمحوں میں فقیر ہو چکے تھے ۔ یہ میرے مالک کی مرضی تھی جو ہر جگہ اپنی قدرت کے کرشمے دکھار ہا تھا۔ جس بھی آدمی سے بات ہوئی ا س کے منہ میں قیامت کا لفظ تھا۔

عذاب نہیں آزمائش

              ہر آدمی اس تباہی کوعذاب قرار دینے کی کوشش کررہاہے خصوصا مولوی حضرات۔یہ الفاظ تباہی کی سنگینی کو ظاہر کرنے کے توٹھیک ہیں ورنہ ، حقیقتًا ، اس تباہی وبربادی کا اس عذاب سے کوئی تعلق نہیں ہے ، جو قانون قدرت کانتیجہ ہوتاہے۔

            اس قانون عذاب کے مطابق ، اللہ کسی قوم پر عذاب نازل کرنے سے پہلے ، اپنا رسول مبعوث فرماتے ہیں ، جو قوم کو حق کی دعوت دیتا ہے ۔ حتی کہ وہ دعوت ِحق کا حق ادا کر دیتا ہے ۔ اللہ کا رسول جب اپنی تمام ترصلاحیتیں اور ساری توانائیاں حق کی وضاحت و اشاعت میں صرف کر دیتا ہے تو پھر اللہ کریم اپنی قدرت کاملہ اور علم کاملہ سے یہ طے کرتے ہیں کہ اب رسول کے حق پہنچانے میں کوئی کسر نہیں رہی ، اور یہ کہ قوم حق کو پہچان چکی ہے ۔ لیکن اس کو محض ہٹ دھرمی اور عناد سے نہیں ما ن رہی اور یہ کہ ان کے اندر اب حق کی قبولیت کا کوئی امکا ن نہیں رہا تو پھر وہ اپنے رسول کی زبان سے اس قوم کو عذاب کی وعید سناتا ہے اور وقت مقررہ وقت پر اس قوم کا استیصال کر دیا جاتا ہے ۔ اس کے اندر سے صاحبان ایمان کو بالکل بچا لیا جاتا ہے ۔ اس سب کی تفصیلات قرآن کی مکی سورتوں میں جگہ جگہ ملتی ہیں ۔چونکہ یہ عذاب بھی زلزلوں ، سیلابوں ، دھماکوں اور گردو غبار کے طوفان کی شکل میں آتے رہے اس لیے ! اس طرح کی قدرتی آفات کو آسانی سے عذاب الہی کہہ لیا جاتا ہے ۔

            لیکن اب ختم نبوت کے بعد قدرتی آفات کی شکل میں آنے والی ان تکالیف کو نہ تو وہ عذاب قرار دیا جا سکتا ہے جو اللہ کریم مختلف قوموں کوتکذیبِ رسالت کی بنا پر دیتے رہے ہیں اور نہ ہی انہیں شامت اعمال اور گناہوں کی سزا قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اعمال کے حساب و کتاب اور جزاوسزا کے لیے اللہ نے آخرت کا دن مقرر کر رکھاہے۔ اہل ایمان پر حالیہ نازل ہونے والی آفت کو عذاب قرار دینے کا کوئی بھی قرینہ ہمارے پاس موجود نہیں بلکہ ایساکہنا اصل میں ان مصیبت زدہ بھائیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنا ہے ۔ یہ لوگ کسی طور پر بھی اپنے دینی اعمال و افعال کے لحاظ سے ، ہم کو جو اس آفت سے مکمل طور پر بچ گئے ہیں ، کم نہیں تھے ۔ نہ ہی گناہوں اور بداعمالیوں میں ہم سے زیادہ تھے کہ اللہ نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا ہو اور ہمیں بچالیاہو ۔ بلکہ یہ آزمائش ہے ، ان کے لیے بھی اور ہم بچ جانے والوں کے لیے بھی ، انکے لیے صبر کی آزمائش ہے اور ہمارے لیے شکر کی ، ان کے لیے ان مصائب کوبرداشت کرنے کی اور ہمارے لیے اس موقع پر ان کو سہارا دینے کی آزمائش۔ دیکھیے ہم سے کون اس آزمائش پر پورا اترتا ہے ۔ خالق کائنات نے ارشاد فرمایا

              ‘‘ بہت بزرگ ، بہت فیض رساں ہے ، وہ (پروردگار) جسکے ہاتھ میں عالم کی بادشاہی ہے ،اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔ (وہی) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ۔ تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے ۔ اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی ’’ ( الملک : 67 : 1-2 )

            یہ لوگ اللہ اور اسکے رسول کو ماننے والے لوگ تھے ۔ مساجد آباد تھیں، تلاوت قرآن جاری تھی ، نماز اور روزے کا اہتمام موجود تھا ، تبلیغی جماعتیں ، دینی جماعتیں اور مذہبی دانشور دعوت و تذکیر کا عمل جاری رکھے ہوئے تھے ۔ اس لیے ، یہ کیسے یقین کیا جا سکتا ہے کہ یہ بستیاں خداوند کریم کے نافرمانوں اور اس کے رسول کی تکذیب کرنے والی بستیوں کے سے انجام سے دوچار ہوئی ہونگی ۔

 موت کی حکمرانی

             ہمارے نزدیک یہ موت ہے ۔ جسطرح کسی بندے کی موت ، سزا کی وجہ سے نہیں ہوتی اور نہ ہی شامت اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ اسی طرح یہ حادثہ بھی ایک اجتماعی موت کی شکل ہے ۔ یہ نہ تو ان لوگوں کے لیے عذاب ہے اور نہ ہی ان کے شامت اعمال کا نتیجہ ۔ لاکھوں کی تعداد کی موت اور طریقِ موت ، اللہ کا ہاں یوں ہی طے تھا اور ہو کر رہا ۔ اس کے فیصلوں کے نفاذ کو نہ تو کوئی روک سکتا ہے اور نہ ہی اسے کوئی عاجز کر سکتا ہے ۔ موت ہمیشہ سے جدائیاں ڈالتی رہی ہے ۔ موت نے ہمیشہ ماؤں کی گود کو خالی اور بچوں سے شفقت ِمادری چھینی ہے ۔ موت کا ہمیشہ ماتم کیا گیا ہے ، نوحہ لکھا گیا ہے ، لیکن 8 اکتوبر کی موت نے کچھ اس انداز سے اپنا آپ دکھایا ہے کہ مدتوں اس کا نوحہ لکھا جاتا رہے گا ۔ جان ومال کے گھاٹے کا یہ عالم تھا کہ پوری بستیوں کی بستیاں اوندھے منہ لیٹی تھیں ، وحشت طاری تھا ۔ نہ کوئی نوحہ تھا اور نہ ہی کوئی آہ وفغاں ۔ نوحہ کون پڑھتا ، کس کے لیے پڑھتا ، ماتم کون کرتا ، کس کا کرتا کہ دونوں ہی تو تہ خاک اتر چکے تھے ، نوحہ کرنے والے بھی اور وہ بھی جن کے لیے نوحہ کیا جاتا !!

فاین تذھبون

            صوبہ سرحد کا شہر بالاکوٹ ،وادی کاغان کا دروازہ، جو کبھی ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز تھا ، اب ‘‘ زیریں کوٹ ’’ میں بد ل چکا ہے ۔ اس کا مین بازار اب ملبے کا ڈھیر بن چکاہے اور دکانیں زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ کبھی ہم بھی فخر وغرور کا مرقع تھیں اور ہر آنے والی کی نگاہیں اپنی چکاچوندسے چندھیا دیا کرتی تھیں۔آج دیکھو ! ہمیں ، جو دیدہ عبرت نگاہ ہو ، ہر چیز فانی ہے بس وہی ایک باقی ہے ہاں بس وہی ایک !!

            ذرا آگے چلے ، تو دریائے کنہار بہتا نظر آتا ہے جس کی سریلی اورمدہوش کر دینے والی آواز اب مدہم اورمغموم ہو چکی اور اجڑی بستیوں کا نوحہ بن کر رہ گئی ہے۔ بالاکوٹ کی خوبصورت وادی ، موت کی وادی میں تبدیل ہو چکی ہے ، وہ وادیاں، پربتوں کی شہزادیاں ، وہ کہسار دلبہار ، سر سبز و شاداب جنگلات اور دلکش مناظر ، آج ، اجڑے اجڑے ، سہمے سہمے اور دہشت زدہ ہیں۔ موت نے ہمیشہ کی طرح سب کو شکست دے دی ہے۔

             آہ !بالاکوٹ جس نے تاریخ میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ، جو جفاکش بہادروں اور شہیدوں کی سرزمین تھی ، آج وہ سرزمین بے مکین ہے۔ بالاکوٹ کی فضاؤں سے آج یہ صدا سنائی دیتی ہے ۔ اے انسان ! تو کہاں جاتا ہے تو کہاں کھویا ہے ( دنیا کے دلفریب نظاروں میں کھو گیا ہے تو ، تو درحقیقت آخرت کا مسافر ہے ) یہ ایک یاددہانی ہے ، اہل عالم کے لیے ۔ ان کے لیے جو سیدھی راہ پر چلنا چاہیں ۔

             مظفرآباد کا بھی کیا حال سنایا جائے ؟ وہ جو کبھی دیدہ دل فراش راہ کیے ، سیاحوں کے منتظر رہتا تھا ، آج حسرت ویاس کی تصویر بنا ہے۔ جہاں زندگی اپنے جوبن پر ہوا کرتی تھی آج یہ شہر قبرستان میں بدل چکا ہے۔ وہ بلند وبالا پہاڑ جوکبھی حسن وجاہت کا مرکز تھے ، آج ویرانیاں لیے مٹی کے ڈھیر میں بدل چکے ہیں ۔ نیلم اور جہلم ، جو کبھی اپنا مصفی اور شفاف پانی لیے اٹھکیلیاں بھر ا کرتے تھے ، آج اپنے باسیوں کی لاشیں لیے ماتم کناں ہیں۔ یونیورسٹی ، ہسپتال ، سکول ، کالجز ، دفاتر ، سیکرٹریٹ ، چھاؤنی ، بازار اور مارکیٹیں پلک جھپکنے میں ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں۔ چاروں طرف موت کی حکمرانی ہے ہائے !کیا ویرانی سی ویرانی ہے۔ بندوں کامرنا تو سنا تھا یہاں تو عمارتیں بھی مر گئیں ہیں، بس رہے نام اللہ کا !

رشتہ انسانیت

              یہ سانحہ جتنا بڑا اور خوفناک تھا ، ہماری قوم نے اتنے ہی بڑے صبر اور حوصلے سے اسے برداشت کیا ۔ اور ملک و بیرون ملک سے جو رد عمل سامنے آیا ہے ، واقعتا ، مردہ دل اس سے پھر زند ہ ہوجاتاہے۔ قدرتی آفت کے اس موقع پر دنیا بھر نے ، جس طرح دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے ، پاکستان کی طرف Rush کیا ، اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت کا رشتہ ہی دراصل وہ عظیم رشتہ ہے جس میں ہم سب بندھے ہوئے ہیں ۔ آپس کی دشمنیاں اور قوموں کے باہمی اختلافات ، اگرچہ ، ایک حقیقت ہیں ، لیکن سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہم سب ایک آدم کی اولاد اور ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ہم نے دیکھا کہ ایک فرانسیسی اور امریکی ڈاکٹر بھی اسی طرح ان زلزلہ زدگان کی مرہم پٹی کر رہا تھا ، جس طرح ان کا پاکستانی ڈاکٹر بھائی ۔ اس آفت میں پاکستانی عوام نے حقیقی معنوں میں ایک قوم ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ انسانی کاوشوں میں یقینا کمزوریاں اور جھول ہوتے ہیں ، اور اس سارے منظر میں یہ جھول نظربھی آتے ہیں ، لیکن ، بحیثیت مجموعی ، حکومتی اداروں ، حکومت مخالف سیاستدانوں اور عوام الناس سب کا کردار لائق تحسین ہے ۔ قدرتی آفتوں اور انسان کا تعلق بڑا پرانا ہے ۔ کسی بھی قوم کو ، کسی بھی وقت ، کسی بھی قسم کی قدرتی آفت سے پالا پڑ سکتا ہے۔ عقلمند قومیں اس کی تیاری رکھتی ہیں ، لیکن حالیہ زلزلے نے یہ واضح کر دیا کہ ہماری کوئی تیاری نہیں تھی ۔ اس زلزے نے ہمارے نظام میں موجود کئی بڑے بڑے شگافوں کو آشکار کیا ہے ۔ ہم اس پیمانے پر اور اس قسم کی تباہی کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں تھے ، بلکہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہمارے ذمہ داروں نے آج تک اس سمت سوچا بھی نہ تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ زلزے کے خاتمے کی بعد سے ،رات گئے تک ، ہمیں نہ تو نقصانات کا صحیح اندازہ ہو سکا اور نہ ہی حکومتی حکومتی سطح پر کسی قسم کی فوری منظم کوشش سامنے آسکی ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم پہلے سے موجود ایک خود کار سسٹم کے تحت ، آفت زدہ لوگوں کی مدد کے لیے فوری منصوبہ لیے چل پڑتے ، لیکن ہم ابتدائی قیمتی گھنٹوں میں منصوبہ بندی کرتے رہ گئے اور اس دیر نے سینکڑوں قیمتی جانیں ، جنہیں بروقت اقدام کر کے ملبے سے زند ہ نکالا جا سکتا تھا، ضائع کر دیں۔

            ضرورت اس امر کی ہے کہ قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے ، مستقل بنیادوں پر ایک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے یاکم از کم سول ڈیفنس کے محکمے کو موثر بنایا جائے جوکہ اس وقت کسی بھی سفید ہاتھی سے کم نہیں۔ ہم آفات کو تو Avoid نہیں کرسکتے ، لیکن اس کے نقصانات کو کم سے کم تر کیا جا سکتا ہے ۔ دنیا نے ایسا کر دکھایا ہے ، ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے ۔ ملک میں بے شمار این جی اوز ہیں ، جن میں سے بعض نے تو ، قابل رشک کارکردگی کا مظاہر ہ کیا ہے ۔ ان کے علاوہ مختلف سیاسی اور مذہبی تنظیموں کے خدمت خلق کے شعبہ جات ہیں ، ان لوگوں نے ہی ان حالات میں نمایاں کارکردگی کا مظاہر ہ کیا ہے ،مگر انکے مابین کوئی کوارڈینیشن موجود نہیں ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر ایک مستقل اتھارٹی ہو جو ایک طرف تو اس طرح کی آفات میں خود ہی امدادی کاموں کو بروقت شروع کرنے کی اہل ہو اور دوسری طرف ان تمام این جی اوز کی بھی نہ صرف رہنمائی کر سکے بلکہ ان سے منظم اور موثرکام بھی لے سکے ۔ یہ حکومت کا فرض ہے ، اسے انجام دینا چاہیے ۔ اگر وہ یہ فرض انجام نہیں دیتی تو وہ ملک و قوم کی مجرم ہے ۔

مربوط کاوشیں

              متاثرین زلزلہ کی مکمل بحالی کا کام کئی سالوں پر محیط ہو گا ۔ اس لیے اس کا م کو موثر طریقے سے انجام دینے کے لیے ، یہ نہایت ضروری ہے کہ تمام کارنرز سے کی جانے والی کاوشوں کو انتہائی منظم اور مربوط بنایا جائے وگرنہ یہ کام کما حقہ ، مکمل نہیں کیا جا سکے گا۔ اب تک کی بے ربطی اور ہنگامی پن سے ، قومی وسائل کا جتنا زیاں ہو رہا ہے ، سب پر عیاں ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن میں بھی رابطہ مفقود ہے ۔ امداد ی تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کے خدمت ونگز کی آپس میں Co-ordination کا کیا سوال ، خود حکومت کے اپنے ادارے بھی ، سوائے فوج کے ، شدید بدنظمی کا شکار ہیں ۔ جس کا دل کرتا ہے ، جو چاہتا ہے اعلان کر دیتا ہے ۔ اخبار میں اشتہار چھپوا لیتا ہے ، بینرز لگوالیتا ہے اور پیسے اکٹھے کرنے شروع کر دیتا ہے ، آگے کی کچھ خبر نہیں کہ وہ رقم کہاں گئی ، کدھر خرچ ہوئی ۔ مختلف سرکاری اداروں کے درمیان باہمی ربط کے نظام نہ ہونے اور ان کی آپس کی کشمکش کے باعث ، زخمی اور بیمار متاثرین دھکے کھاتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بدنظمی پر جلد قابو پایا جائے ۔ قوم نے جس خلوص اور قومی جذبے سے ردعمل کا اظہار کیا ہے ، اور قوم کے اندر ایثار و قربانی ، قومی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کے جو جذبات پیدا ہوئے تھے ، افسوس ہے کہ ان کو منظم ، مربوط اور بارآور بنانے کی کوئی حکومتی کاوش نظر نہیں آرہی ۔ کہنے کو تو، قومی رضا کار تحریک کا اعلان کر دیا گیا ہے ، لیکن اس کے خدوخال ابھی واضح نہیں کیے جا سکے۔ اگر یہی حالت رہی تو پھر توقع کرنی چاہیے کہ جذبہ جنوں جلد ہی سرد پڑ جائے گا اور یہ متاثرین کی بحالی کے کسی دیر پا منصوبے میں کام نہیں آسکے گااور یہ ایک بڑی قومی بدقسمتی ہو گی ۔

غلطی کہاں پر ہے؟

              ہمیں جس پیمانے پر تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑا ہے ، اس پر ضرور سوچنا چاہیے کہ اتنی بڑی قیامت کی وجہ کیا تھی ۔ ہمارا خیال ہے کہ اس نقطہ پر ابھی تک غور نہیں کیا گیا ۔ ہمارے ہاں قسمت ، مقدر اور اللہ کی مرضی کی جو غلط تشریحات کی جاتی ہیں ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اتنی بڑی تباہی کی وجوہات تک جاننے کے خواہاں نہیں ہیں ۔ ہم لوگ ، اس طرح کی ہلاکتوں کو ، مقدر کا لکھا جان کر ایک طرح کی مجرمانہ چشم پوشی کے مرتکب ہیں ۔ زلزلہ تو یقینا ایسی چیز ہے کہ جس سے نہ تو بچا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی پیشین گوئی کی جاسکتی ہے لیکن اس کے نتیجے میں جان ومال کے نقصانات کو نہ صرف کم کیا جاسکتا ہے بلکہ زیرو لیول پر بھی لایا جاسکتا ہے ۔ جو ہو چکا سو ہو چکا ، آئندہ کے لیے اس پہلو پر غور کرنا چاہیے تاکہ بروقت اقدامات سے ہلاکتوں کو کم کیا جا سکے ۔

            ان دنوں ، زلزلہ زدہ علاقوں کا ہم نے جو سفر اختیارکیا ہے ، اس میں اپنی آنکھوں کے مشاہدے کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں 90% ہلاکتیں اور زخم ناقص طرز تعمیر کا نتیجہ ہیں ۔ کوئی ماہر تعمیراتی انجینئر ، تو یقینا زیادہ تکنیکی انداز سے بات کر سکے گا لیکن ہمارے ایسا عام آدمی ان نقصانات کا باعث ان کے مکانات کو ہی سمجھتا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ زلزلوں کے زون میں ، اس طرح کی تعمیرات کی اجازت دینا ، یا اس طرح کی ناقص تعمیرات سے چشم پوشی کرنا ، یقینا حکومتوں کی مجرمانہ غفلت ہے ۔ یہ خود کشی تھی جس کی ہم نے اجازت دے رکھی تھی اور آج ہم سب اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔ اس لیے ہم تجویز کریں گے کہ پورے ملک کی ، جغرافیائی اور موسمی حالت کو مد نظر رکھ کر ،تمام تر موجودہ سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں کا جائزہ لینا چاہیے اور اس کے مطابق تبدیلی کرنی چاہیے ۔ خاص کر کوئی بھی نئی تعمیر ،محفوظ تعمیرکے اصولوں پر بننی چاہیے ۔ کیا حکومتوں اور سرکاری افسروں کے لیے یہ لمحہ فکریہ نہیں ہے کہ زلزلہ زدہ علاقوں میں ،سب سے زیادہ تباہی سرکاری عمارتوں کی ہوئی ہے۔ کیوں ؟ یقینا ، ان کی ناقص طرز تعمیر کے باعث ، اور یہ ناقص تعمیرات کیوں ہوئی تھیں ، سب پر عیاں ہے ، ہم کیا عرض کریں !