قرآن کی بے حرمتی ، ایک احتجاج

مصنف : کاشف علی خاں شروانی

سلسلہ : نوائے سروش

شمارہ : اگست 2005

کیا قرآن مجید کی بے حرمتی سے مذہبی آزادی کو ٹھیس نہیں پہنچی؟ کیا یہ امریکی معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مذہبی عدم رواداری اور عدم برداشت کی علامت نہیں ہے؟ اگر ان تمام سوالوں کا جواب اثبات میں ہے اور اثبات میں ہی ہونا چاہیے تو پھر ایسا کیوں ہوا کہ کسی ایک روشن خیال دانشور نے بھی اس واقعے کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں کی؟ کیا اس کے نتیجے میں انہیں اپنے کسی قریبی دوست کی حمایت سے محروم ہوجانے کا ڈر تو نہیں تھا؟ یا پھر انہیں اس جدید دور میں مذہبی موقف اختیار کر لینے کی تہمت لگنے کا خوف تھا۔

            نیوز ویک کی اُس رپورٹ نے پوری مسلم دنیاکوہلاکررکھ دیاجوکہ گوانتاناموبے کی جیل میں امریکی فوجیوں اور تفتیش کاروں کے ہاتھوں قرآن کی بے حرمتی کے بارے میں تھی چنانچہ اس کے آتے ہی مسلم دنیا میں مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ افغانستان میں اسی طرح کا ایک احتجاج بلوے کی صورت اختیار کر گیا جس میں تقریباً 15 افرادجاں بحق ہوئے۔ دوسری طرف امریکہ نے پہلے تو اس رپورٹ کی سچائی سے صاف انکار کیامگر بعد میں تحقیقاتی کمیشن نے پانچ ایسے واقعات کا اعتراف کر لیا۔

            قرآن کی بے حرمتی کے اس واقعے کی جتنی مذمت بھی کی جائے ،کم ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی اگر کوئی آخری شکل ہو سکتی تھی تو وہ یہ ہی واقعہ ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ یہ حشر ایک ایسی کتاب کا ہوا ہے جو مسلمانوں کو تمام مذاہب کے عقائد اور مقدس شخصیات کے احترام کا درس دیتی ہے۔ ارشاد ہے: ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبواللہ عدوا بغیر علم(۱۰۸۔۶) اور اللہ کے سوا یہ جن کو پکارتے ہیں ان کو گالی نہ دیجیو کہ وہ تجاوز کر کے بے خبرانہ ، اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔

            اس واقعے سے پتا چلتا ہے کہ دنیا میں شدت پسندانہ رحجانات کس حد تک فروغ پا چکے ہیں۔اور یہ شدت پسند عناصر صرف مسلمانوں ہی میں نہیں بلکہ خود امریکہ میں بھی قابل ذکرتعداد میں موجود ہیں۔ہمارا یہ مضمون ان ہی شدت پسند عناصر کے خلاف ایک احتجاج ہے۔

            سب سے پہلے امریکہ کو لیتے ہیں۔ اور دیکھتے ہیں کہ معاملات کو اس صورتحال تک پہنچانے میں امریکہ کا کیا کردار ہے۔ ۱۱ ستمبر کے الم ناک حادثے کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان کیا او ر دعویٰ کیا کہ وہ یہ جنگ آزادی اور جمہوریت جیسی مقدس اقدار کے تحفظ کی خاطر لڑ رہا ہے۔ مگر وقت اور زمینی حقائق نے یہ ثابت کر دیا یہ اقدار اس کا کوئی سنجیدہ مسئلہ نہیں تھیں بلکہ اس نے یہ جنگ محض انتقام کی آگ میں برپا کی تھی اور اس کا ثبوت وہ خوفناک اذیتیں اور ستم ہیں جو جنگی قیدیوں پر ڈھائے گئے ۔یہاں تک کہ امریکی فوجی اور تفتیش کار انسانیت کی تمام حدود بھی پھلانگ گئے۔ یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ چند فوجیوں کی طرف سے ۱۱ ستمبر کے واقعات کا رد عمل تھا۔مگر ہماری نظر میں حقائق اس تجزیے کا ساتھ نہیں دیتے۔ہم جانتے ہیں کہ ۱۹۹۹ سے امریکہ میں با اثر قدامت پسندوں (Neocons)کی طرف سے اسلام ، قرآن اور مسلمانوں کو جس شدید پروپیگنڈے کا سامنا تھا، اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا نکل سکتا تھا۔ان دانشوروں کی طرف سے صاف کہا گیا کہ مسلمانوں میں انتہا پسندی کی اصل وجہ قرآن ہے۔ اور اس مقدمے کو ثابت کرنے کے لیے قرآن کی آیات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا گیا ۔ اس پروپیگنڈہ میں امریکہ کا مذہبی طبقہ بھی کود پڑا۔ چنانچہ امریکہ میں ایک چرچ کے باہر انتظامیہ نے یہ بورڈ لگایا کہ ‘‘قرآن کو بیت الخلا میں بہا دینے کی ضرورت ہے۔’’اس جملے سے نوقدامت پسندوں کے عزائم اور بیمار ذہنیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ان نوقدامت پسندوں نے امریکی عوام کو انتہا پسندی کے جس بخار میں مبتلا کیا قرآن کی بے حرمتی اس کا منطقی نتیجہ ہے ۔

             تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے امریکہ کے یہ جرائم صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اور اقوام بھی اس کی زد میں ہیں اور رہی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کو جنگ سے باز رکھنے کے لیے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم برسا کر لاکھوں معصوم جانوں کو چشم زدن میں ہلاک کرنے والا بھی امریکہ ہی تھا۔ اور ویت نام میں کئی سالوں پر محیط جنگ میں ہزاروں لوگوں کے قتل عام اور اس ملک کو کھنڈر میں تبدیل کر دینے کا ذمہ دار بھی امریکہ ہی تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکہ نے ایک سپر پاورکی حیثیت سے جو مظالم دنیا پر ڈھائے ہیں اور جتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو قتل کیا ہے اس کی مثال تاریخ میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔

            امریکہ کی پچھلی ساٹھ ستر سالہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس نے زیادہ تر مسائل کو طاقت ہی کے زور پر حل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں اسے کسی معاہدے یا عالمی قانون کی پروا بھی نہیں رہی۔ امریکی حکمرانوں نے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی عراق اور افغانستان کی صورت حال کے بارے میں اپنے عوام کو دھوکا دینے کی کوشش کی ہے جس نے معاملات کو مزید بگاڑا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ امریکی انتظامیہ ان معاملات کو سدھارنے کا بھی کوئی منصوبہ رکھتی ہے یا نہیں مگریہ واضح ہے کہ طاقت کے اندھا دھند استعمال کی اس امریکی پالیسی نے دنیا کو تباہی کے دھانے پر ضرورپہنچا دیا ہے۔

            امریکی رویے کے تجزیے کے بعد اس سارے مسئلے میں مسلمانوں کے طرزِ عمل کا جائزہ لیا جانا بھی ضروری ہے۔یہ بات تو بہت عرصے سے محسوس کی جارہی تھی کہ مسلم معاشرہ آہستہ آہستہ دولخت ہورہا ہے۔ مگر اس واقعے سے تویہ تقسیم بالکل عیاں ہو گئی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ مزید گہری اور بامعنی ہوگئی ہے۔ اس وقت مسلمانوں کی رہنمائی دو طرح کے گروہ کر رہے ہیں ۔ ایک طرف مذہبی طبقہ ہے جبکہ دوسری طرف روشن خیال ہیں۔ یہ دونوں گروہ فکرو عمل ہر دو اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ دونوں میں انتہا پسندانہ رحجانات پائے جاتے ہیں ۔

            سب سے پہلے روشن خیال حضرات کو لیتے ہیں۔ یہ روشن خیال ہمارے ملک میں انفرادی اور مذہبی آزادی کے علمبردار ہیں۔ یہ ہی گروہ ملک میں خواتین کے حقوق کی بات کرتا ہے اور معاشرے میں پائی جانے والی عدم برداشت کے خلاف بھی آواز اٹھاتا رہا ہے۔ ہمارے نزدیک معاشرے کی اصلاح کے لیے ان کی یہ کوششیں قابل قدر ہیں۔ مگر ہمارے لیے یہ حیرت کا مقام تھا کہ یہ گروہ ملک میں مخلوط میراتھن منعقد کرانے کے لیے تو قانون سے بھی بھڑ جانے تو تیار تھا مگر اس الم ناک واقعے پر ان کے منہ سے افسوس کا ایک کلمہ بھی نہ نکلا۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا قرآن مجید کی بے حرمتی سے مذہبی آزادی کو ٹھیس نہیں پہنچی؟ کیا یہ واقعہ انسانی حقوق کی پامالی نہیں؟کیا یہ امریکی معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مذہبی عدم رواداری اور عدم برداشت کی علامت نہیں ہے؟ اگر ان تمام سوالوں کا جواب اثبات میں ہے اور اثبات میں ہی ہونا چاہیے تو پھر ایسا کیوں ہوا کہ کسی ایک روشن خیال دانشور نے بھی اس واقعے کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں کی؟ کیا اس کے نتیجے میں انہیں اپنے کسی قریبی دوست کی حمایت سے محروم ہوجانے کا ڈر تو نہیں تھا؟ یا پھر انہیں اس جدید دور میں مذہبی موقف اختیار کر لینے کی تہمت لگنے کا خوف تھا۔بہرحال ان کی جو بھی مجبوری ہو، اس اہم مسئلے پر ان کی معنی خیز خاموشی اس بات کا پتا دیتی ہے کہ وہ مسائل کو انسانی بنیادوں پر دیکھنے کے بجائے تعصب کی عینک سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔

            دوسری طرف ہمارا مذہبی طبقہ ہے۔ ہمارے ملک میں عوام کی ایک بڑی تعداد ان کے زیر اثر ہے۔ یہ طبقہ امریکہ کا شدید مخالف ہے بلکہ اسی طبقہ کا شدت پسند عنصر اپنی دانست میں امریکہ کا مقابلہ کر رہا ہے۔ کہنے کو تو یہ گروہ مذہب کے نام پر یہ جنگ لڑ رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں اس نے ہمیشہ مذہبی حدودکو پامال کیا ہے۔ ان کے اس طرح کے اقدامات امریکہ کو مسلمان ملکوں پر قبضے کا جواز فراہم کر رہے ہیں۔ مگر اس مضمون میں ہمارا مخاطب یہ گروہ نہیں بلکہ مذہبی رہنما ہیں۔ ہمارے مذہبی رہنماؤں اور مذہب پسند طبقہ نے جائز طور پر قرآن کی بے حرمتی کے اس الم ناک واقعے پر احتجاج کیا مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ احتجاج کئی جگہ بلوے کی صورت اختیار کر گیا جیسے کہ افغانستان میں۔ ممکن ہے اس طرح کے واقعات سے کچھ حضرات کے سیاسی مقاصد تو پورے ہوگئے ہوں مگر سوال یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوا؟ ہم اس موقع پر پُر امن احتجاج کے مخالف نہیں۔ بلکہ اسی احتجاج کا نتیجہ ہے کہ امریکہ اس واقعہ کی تحقیقات کرانے پر مجبور ہوا۔ ورنہ تین سال سے تو ان واقعات پر پردہ پڑا ہی ہوا تھا۔دکھ اس بات کا ہے کہ ہم نے اپنی قوم کی تربیت کا ایک سنہری موقع ضائع کر دیا ۔

            ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ مسلمان بحیثیت مجموعی ایک زوال آمادہ اور شکست خوردہ قوم ہیں۔ زندگی کے ہر میدان میں مغرب سے شکست کے بعد ہم رد عمل کی نفسیات میں جی رہے ہیں۔ ہماری مذہبی قیادت کا یہ فرض تھا کہ وہ اس کٹھن وقت میں امت کی درست سمت میں رہنمائی کرتی، مسلمان قوم کو ردعمل کی نفسیات سے نکالا جاتااور قوم کے اندر صحت مندانہ روایات کے احیاکی کوشش کی جاتی تاکہ قوم موجودہ فکری ابتری اور اخلاقی افلاس سے نکلنے میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی۔ خاص طور پر قرآن کی بے حرمتی کے اس واقعے کے بعد پر امن احتجاج کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو یہ احساس دلانابھی انتہائی ضروری تھا کہ اس بے حرمتی کے ذمہ دار ہم بھی ہیں۔مسلمانوں کو یہ سمجھایا جاتا کہ ہمارے اعمال اس بات کی گواہی سے دینے سے عاجز ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اس آخری ہدایت کے حامل ہیں، قرآن اب ہماری زندگی کا ایک زندہ مسئلہ نہیں ہے اوردنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کے اجتماعی نظم قرآنی ہدایات کے مطابق استوارنہیں ہیں۔ اگر مسلمانوں کے اپنے ہاں قرآن کی یہ وقعت ہے تو پھر غیروں سے کیسا گلہ ہے۔ مگر اس کے بر عکس ہمارے رہنماؤں نے مسلمانوں کو ردعمل کی نفسیات ہی میں جینے کا مزید سامان مہیا کر دیا ہے۔ آپ کوان کے ہاں انتہا پسندانہ رحجانات تو بہت مل جائیں گے مگر معاملات کو سدھارنے کی سوچ والا شاید ہی کوئی ملے۔ سچ یہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے خدا کی اس آخری ہدایت کی وہ قدر نہیں کی جس کی یہ مستحق تھی۔ یہ واقعہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا ہے اور اب اس کے بعد بھی لگتا ہے ہم خواب غفلت سے جاگنے کو تیار نہیں۔ کل ہمیں خدا کے حضور جواب دہ ہونا ہے۔ کیا ہمارے پاس اپنی اس کوتاہی کا کوئی ایک جواب بھی ہے؟

            ہمارا یہ مضمون،جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ ایک صدائے احتجاج تھا اس واقعے کے تینوں اہم کرداروں کے خلاف۔ اس لیے ہمیں اِ ن تینوں گروہوں کے تجزیے کے تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑا۔ ہوسکتا ہے کہ کسی شخص کو ہمارے اس تجزیے کے کسی جزو سے اختلاف ہو مگر ایک حقیقت سے شاید کوئی شخص انکار نہ کر سکے کہ اب مسلمانوں بلکہ پوری دنیا کوہوشمند قیاد ت کی ضرورت ہے۔

            دنیا کے امن وسلامتی کو ان انتہا پسند گروہوں سے شدید خطرہ ہے۔ امریکہ اور اس کے ہمنوا طاقت کے نشے میں چور ہیں اور عالمی قانون اور اخلاق کی بیڑیاں ان کے نزدیک ‘موئے آتش دیدہ’ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں جبکہ دوسرا گروہ محض رد عمل کا شکار ہو کر مذہب اور اخلاق کے تمام حدود پار کر چکا ہے۔ اس موقع پر مسلمانوں کے ذی شعور،باہمت مستقل مزاج اور ہوش مند لوگوں کو آگے بڑھ کر متبادل لیڈر شپ فراہم کرنی چاہیے۔ تاکہ مسلمان اس فکری و عملی انتشار سے باہر نکلیں۔ قرآن کی بے حرمتی ایک المیہ ہے مگر ایسے ہی المیے کچھ قوموں کا رخ عظمت ورفعت کی طرف موڑ دیتے ہیں اور کچھ قوموں کو زوال اور پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا دیتے ہیں۔ ہم نے کس رخ سفر کرنا ہے’ اس کا فیصلہ اب ہمارے ہاتھوں میں ہے ۔