اسرائیل

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : نوائے سروش

شمارہ : نومبر 2005

وہ دین جو تمام انسانوں کا دین ہونے کا دعوی رکھتا ہو، وہ مستقلاً کسی قوم کے ساتھ بحیثیت قوم ، دوستی یا دشمنی کا اعلان کیسے کرسکتا ہے؟ جو امت انسانیت کے لئے رحمت و محبت کی علمبردار بنا کر بھیجی ہوگئی ہو، وہ مستقلاً کسی کی دشمن کیسے ہو سکتی ہے ؟

            اسرائیل کے معنی ہیں اللہ کا بندہ۔ یہ سیدنا یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا جو ان کو اللہ تعالیٰ نے عطا کیا تھا۔ آپ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پوتے ، سیدنا اسحاق علیہ السلام کے بیٹے اور سیدنا یوسف علیہ السلام کے والد محترم ہیں ۔ آپ کی نسل بنی اسرائیل کہلاتی ہے ، جو کہ مدت تک اللہ کریم کی لاڈلی قوم رہی ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پناہ رحمت نازل کی تھی ۔ اس نسل میں ان گنت انبیائے کرام مبعوث ہوئے ا ور ان میں بعض تو حکومت و سلطنت کے منصب پر بھی فائز رہے ۔ قرآن مجید میں اس قوم کا سب سے زیادہ تذکرہ موجود ہے ۔ اس تذکرے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ جب رب کریم نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت یہ طے کر لیا کہ دنیا کے منصب امامت سے اب اس قوم کو معزول کر دیا جائے اور ان کے چچا کی اولاد بنی اسماعیل کو اس منصب پر فائز کر دیا جائے تو ا س نے بنی اسرائیل کے اندر پیدا ہو جانے والی ایک ایک خرابی کا تذکرہ قرآن مجید میں بیان کیا ہے۔ حتیٰ کہ یہ فیصلہ سنا دیا کہ سیدنا محمد ﷺ کی قیادت میں ، بنواسماعیل اور امت محمدیہ کو منصب امامت پر فائز کیا جاتا ہے۔ یہ منصبِ دعوت شہادت کا منصب ہے ، یہ منصب اللہ کے پیام کو پورے عالم میں پہنچا دینے کا منصب ہے۔ یہ کارِ رسالت ہے کہ جس پر رب کریم نے ختم نبوت کے صدقے امت محمدیہ کو فائز کیا ہے ۔ اس کی تفصیل سورۃ بقرہ اورآل عمران میں دیکھی جاسکتی ہے۔

            عصر حاضر میں، اسرائیل اس یہودی سلطنت کا نام ہے جو فلسطین کی سر زمین پر غاصبانہ قبضہ کرکے اقوام متحدہ نے 1948 میں قائم کی تھی۔ یہ سلطنت دنیا میں واحد یہودی سلطنت ہے جو خالصتاً مذہب اور نسل کی بنیاد پر قائم ہوئی ہے۔ یہ ریاست کس طرح قائم ہوئی اور اس کے پیچھے کون کون سی قوتوں نے کیا کیا کردار ادا کیا ہے ، اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔ البتہ اتنی بات واضح ہے کہ یہ ریاست انگریزوں کی عنایت خسروانہ سے قائم ہوئی اور امریکہ بہادر کی سر پرستی میں چل رہی ہے ۔ اس ریاست کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا سوال آج کل وطن عزیز میں شدت سے اٹھایا گیا ہے اور مختلف حلقوں میں طویل بحث کا آغاز ہو چکا ہے۔            حقیقت میں یہ ایک خالص سیاسی موضوع تھا جس نے مذہب کا رنگ اختیا رکر لیا ہے۔ ہمیں مسئلہ کی اس نوعیت سے اختلاف ہے اور اسی اختلاف کی وضاحت اس تحریر کا مقصد ہے۔

            عصر حاضر کا فلسطین ، اسرائیل تنازعہ اپنی بنیادوں میں سیاسی وجوہ رکھتا ہے ۔اسے مذہبی رنگ دینا درست نہیں ہے ۔ ہماری رائے میں اسرائیل کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا حکومت پاکستا ن کا صوابدیدی اختیار ہے اگر اب تک بوجوہ، اس نے اسے تسلیم نہیں کیا تو بھی درست تھا اور اگر حالات حاضرہ کے تقاضے کے طور پر اب وہ اسے تسلیم کرنا چاہتی ہے تو بھی ایسا کیاجاسکتا ہے ۔ البتہ اس کے لئے اسے جو راستہ اختیار کرنا چاہیے، ہمارے نزدیک وہ رائے عامہ کے نمائندہ ایوانوں کے درمیان سے ہو کر گزرتا ہے اور حکومت کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ یہی راستہ استعمال کرے۔ اگر پارلیمنٹ (جیسی کچھ بھی یہ ہے) اس کی منظوری دیتی ہے تو فبھا ، وگرنہ نہیں ، پارلیمنٹ میں حکومت اس کام کے Merits and Demerits بیان کرے اور اپوزیشن بھی اپنے تحفظات واضح کرے، پھر ہی کسی نتیجے پر پہنچنا ایک درست ا قدام ہوگا۔

            حکومت کے سیاسی مخالفین جن میں سیاسی علما ء پیش پیش ہیں ، نے ایوانوں سے باہر مذہب اور دین کے حوالے سے نہ نہ کی جو رٹ لگا رکھی ہے ، اگرچہ وہ اس کا حق رکھتے ہیں، لیکن ہمارے خیال میں اس کے لیے مذہب کا سہارا لینا درست نہیں۔

             یہ دانشور اپنے موقف کے حق میں جن قرآنی آیات سے استدلال کرتے ہیں وہ یہ ہیں۔

            ـ‘‘اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ ، یہ آپس میں ہی ایک دوسرے کے رفیق ہیں اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہیں میں سے ہے یقینا اللہ، ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کردیتا ہے’’۔ (المائدہ 51= )

            ‘‘اے لوگوں! جو ایمان لائے ہو، مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ ، کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ کو اپنے خلاف صریح حجت دے دو’’ ۔ (النساء 144)

            ‘‘مومنین ، اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہر گز نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ۔ہاں یہ صاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لئے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کرجاؤ۔ مگراللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے’’۔ (آل عمران 28)

             ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جو اللہ کریم نے یہود و نصاریٰ کے بارے میں بیان فرمائی ہیں ۔یہ اور اس قبیل کی دیگر آیات کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ اس کشمکش کا نقشہ کھینچ رہے ہیں جو آقائے نامدار سیدی محمد کریم ﷺ کے عہد مبارک میں مسلمانوں اور یہود و مشرکین کے درمیان برپا تھی۔ سیاق وسباق کا جائزہ لینے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کی ہدایات وقتی حالات کے تحت اور اسی کشمکش کے پس منظر میں دی گئی تھیں، ان کی تعمیم کرنا یا انہیں ابدی احکامات سمجھنا ، ایک ایسی الجھن کو جنم دے گی کہ جس کا کوئی حل نہیں نکالا جا سکے گا، کیونکہ اسی قرآن میں ایک سے زیادہ مقامات پر ان کی تعریف بھی موجود ہے اور ان سے تعاون کرنے اور لینے کے احکامات بھی ہیں۔ حتیٰ کہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو بھی جائزہ رکھا گیا ہے ۔ ان آیات سے صاف واضح ہوتا ہے کہ یہاں یہودو نصاری سے دوستی اور ولایت سے منع کیا جارہا ہے نہ کہ معمول کے دنیاوی تعلقات سے ۔ کیا موجودہ دور کے محض سفارتی تعلقات اور کسی ملک کو تسلیم کرنا، اس قلبی و جگری دوستی کے مترادف ہے ، کہ جس سے ہمیں یہاں منع کیا جارہا ہے ؟ کیا اسلامی تاریخ ، اپنے غیر مسلم ہمسایوں سے نفرت اور دشمنی کی گواہی دیتی ہے یا ان سے روزمرہ کے دنیاوی تعلقات کی موجودگی کا پتہ دیتی ہے ؟ یقینا سفارتی تعلقات کو کبھی بھی قلبی دوستی قرار نہیں دیا گیا اور نہ ہی کبھی مسلم معاشرت میں ، محض کسی کا عقیدہ کبھی دشمنی اور نفرت کی واحد بنیاد رہا ہے ۔ بلکہ تاریخ کے ایک طویل حصے میں یہودیوں اورمسلمانوں کے بڑے عمدہ تعلقات رہے ہیں کیا اس وقت کے علماء کرام اور سیاسی قائدین کے سامنے یہ آیات نہیں تھیں؟۔

            اگر انہی آیات کی بنا پر سفارتی تعلقات ممنوع قرار پاتے ہیں تو پھر دنیا بھر میں محض یہودی ریاست ہی کیوں اس کا مصداق ٹھیرائی جاتی ہے، دیگر بیسیوں عیسائی ریاستوں سے ہمارے جو سفارتی تعلقات قائم ہیں، وہ اس کی زد میں کیوں نہیں آتے؟ امریکہ اور برطانیہ ، فرانس اور جرمنی، کیا مسلم ریاستیں ہیں؟ روس اور چین ،جاپان اور کوریا، کیا دین اسلام کے ماننے والے ہیں کہ ان سے سفارتی تعلقات پر کوئی قدغن نہ ہو ؟۔ سب سے بڑی بات تو انڈیا کی ہے جو ایک ہندوریاست ہے ۔ پھر اسے ہم نے اپنا دشمن بھی قرار دے رکھا ہے ۔ اس سے ہم3 جنگیں بھی لڑچکے ہیں لیکن اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی پوری آن بان سے قائم ہیں ،کیوں؟ کیا یہ ان آیات کی خلاف ورزی نہیں؟۔ نہیں ہر گز نہیں نہ یہ خلاف ورزی ہے اور نہ ہی اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا ان آیات کا کوئی مطالبہ ہے۔

            مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان سفارتی ، تجارتی ، معاشرتی اور انسانی تعلقات پر نہ تو یہ آیات کوئی قدغن لگاتی ہیں اور نہ ہی ہمارا دین اس چیز سے منع کرتا ہے ۔ ایک ایسا دین، جو پوری انسانیت کا دین ہو اس طرح کے انسانی تعلقات کو منع کر بھی کیسے سکتا ہے۔ وہ دین جو تمام انسانوں کا دین ہونے کا دعوی رکھتا ہو، وہ مستقلاً کسی قوم کے ساتھ بحیثیت قوم ، دوستی یا دشمنی کا اعلان کیسے کرسکتا ہے؟ جو امت انسانیت کے لئے رحمت و محبت کی علمبردار بنا کر بھیجی ہوگئی ہو، وہ مستقلاً کسی کی دشمن کیسے ہو سکتی ہے ؟ لہذا ان آیات مبارکہ سے اس طرح کا استدلال کرنا محض اپنی بات کوقرآن کے منہ میں ڈالنا ہے۔

            سیاسی مصلحت اور عالمی حالات کے تناظرمیں اسرائیل کو تسلیم کرنا یا نہ کرناحکومت وقت کا کام ہے ،ہم تو جوبات واضح کرناچاہتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ قرآن مجید کی مذکورہ آیات کا اطلاق غلط کیا جارہا ہے۔ ایک خاص پس منظر میں کہی گئی بات کو عام قاعدہ قانون بنانا بہر حال درست نہیں۔

            وہ دانشور جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خلاف ہیں وہ مذہبی استدلال کے علاوہ جو باتیں کہہ رہے ہیں ان پر بھی مختصر سا تبصرہ ضروری ہے اور اس سے ہمارا مقصد بحث برائے بحث نہیں ، بلکہ افہام و تفہیم ہے۔

            کہا جاتا ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز اور غیر قانونی ریاست ہے ۔یہ بات گہرے غور وفکر کی متقاضی ہے کہ اسرائیلی ریاست کی تاریخی ، اخلاقی اور قانونی حیثیت کیا ہے، جسے ہم تسلیم کرنے چلے ہیں۔ اس کے قیام کے پس منظر میں عالمی صہیونی سازش ،مغربی استعمار کی مسلم دشمن چالیں اور لاکھوں فلسطینی بھائیوں کا خون شامل ہے ۔ تقسیم فسلطین جس پر اسرائیل مملکت قائم ہوئی ہے ، ایک انتہائی غیر فطری ، غیر اخلاقی، غیر منطقی اور مسلم دشمن کارروائی تھی۔ جب خود قائداعظم اور ان کے بعد کے تمام حکمرانوں نے فوجی طاقت سے تخلیق پانے والی اس مصنوعی ریاست کو تسلیم نہیں کیا تھا تو موجودہ حکمرانوں کو بھی جلدی نہیں کرنی چاہیے۔

            اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل مغربی استعمار کی قوتِ قاہرہ کے نتیجے میں ، دھونس ، دھاندلی مکر و فریب اور دہشت گردی سے وجود میں آیاہے ، اور بلاشبہ فلسطینی بھائیوں کو بندوق کی زد پر اپنے ہی وطن میں اجنبی بنا کر رکھا گیا ہے اور یہ کہ اسرائیل کی دہشت گرد کارروائیاں آج تک جاری ہیں ۔ لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا یہود کا اس سرزمین سے کوئی واقعی تعلق ہے بھی یا نہیں؟ کیا ارضِ فلسطین ہمیشہ سے مسلم فلسطینی بھایؤں کی ملکیت رہا ہے یایہود بھی اس سے کوئی رشتہ رکھتے ہیں؟۔

             یہود کا یہ کہنا ہے کہ یہ سرزمین ہمارے آبا کی سرزمین ہے اور اس پر قبضہ کر کے ہم نے کوئی ناجائز کام نہیں کیا بلکہ اپنی ہی آبائی سرزمین حاصل کی ہے ۔ بنی اسرائیل کا ، سرزمین فلسطین سے اس وقت تعلق قائم ہوا تھا جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام ، عراق سے ہجرت فرما کر یہاں تشریف لائے تھے۔ کچھ عرصے بعد ، سیدنا یوسف علیہ السلام کے بلاوے پر یہ لوگ مصر میں جا آباد ہوئے۔ وہاں کچھ عرصہ شاندار زندگی گزارنے کے بعد ان کا حکومت و سلطنت میں رسوخ ختم ہوا اور یہ فرعونیوں کی بدترین غلامی میں پھنستے چلے گئے۔ جس سے سیدنا موسی علیہ السلام کے زمانے میں اور ان کی قیادت میں ،انہیں رہائی ملی اور یہ قوم مصر سے نکل آئی ۔ مصر سے نکلتے ہوئے ارض فلسطین ہی ان کی منزل تھی جو آخر کار کئی سالوں کی صحرانوردی کے بعد اس قوم کو حاصل ہوئی۔ سیدنا داود اور سیدنا سلیمان علیہ السلام کی بادشاہی کے زمانے میں اسی سرزمین پر بنواسرائیل کو وہ سرفرازی اور بلندی نصیب ہوئی جس کا تذکرہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر ہوا ہے۔ پھر گردش زمانہ کے طفیل ان کو فلسطین سے دیس نکالا ملا ، دنیا بھر میں یہ ذلیل و خوارہوتے رہے اور مختلف اقوام و ملل کی پناہ میں زندگی گزارتے رہے۔ صدیوں بعد مغربی استعمار کے تعاون سے اور اپنی عقلمندی اور فلسطینیوں کی ناسمجھی کے باعث یہ قوم بیسویں صدی کے نصف اول میں ، ارض فلسطین پر دوبارہ قدم جمانے میں کامیاب ہو ئی ۔ اس مختصر تاریخی جائزے سے کیا ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ یہودیوں کا ارض فلسطین سے بالکل کوئی تعلق نہیں بنتا ۔

            یہاں ہم ایک اور حقیقت کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے نزدیک ، یہود ایک راندہ درگاہ، اللہ کے غضب کا شکاراور ایک قسم کے مستقل عذاب میں گرفتار قوم ہے قرآن مجید کہتا ہے کہ قیامت تک یہ قوم سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کے زیر تسلط رہے گی، اس لئے ہمیں اس میں کوئی اچنبھا اور حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ تاریخ کے موجودہ دور میں امریکی سپر پاور بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی سے ، اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہے یا ماضی میں حکومت برطانیہ نے اسرائیلی حکومت کے قیام میں کلیدی کردار اد اکیا تھا۔ جب بھی کوئی دانشور یہ کہتا ہے کہ امریکہ بہادر بڑی ڈھٹائی سے اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے اور یہ کہ امریکہ اگر اپنا ہاتھ اسرائیل کے سرسے اٹھالے تو عرب چندمنٹوں میں اسے ختم کر دیں تو ہمیں خوشی ہوتی ہے کیونکہ یہ حقیقت قرآن کی حقانیت کی دلیل بنتی ہے ۔آج اگر امریکہ کی پناہ میں یہودی خونی شرارتیں کر رہا ہے تو کل یہ ہماری پناہ میں بھی تھا اور آنے والے کل میں ،یہ عین ممکن ہے کہ رب تعالیٰ دوبارہ ہمیں اس پر مسلط کر دے کہ ہم بھی تو سیدنا مسیح علیہ االسلام کے ماننے والوں میں سے ہیں۔

            باقی رہا یہ مسئلہ کہ، اسرائیل ہمارے فلسطینی مسلمانوں بھائیوں پرپچھلے 60 سالوں سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور یہ کہ ارضِ فلسطین کو تقسیم کرکے یہ ریاست وجود میں لائی گئی ہے۔ تو آخر ہماری دینی غیرت کیسی برداشت کر سکتی ہے کہ ہم اس کو تسلیم کر یں ۔یہ استدلال اگرچہ لائق توجہ اور غیرت و حمیت کو مہمیز دینے والا ہے لیکن حقائق کی دنیا میں اس طرح کے استدلال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ کیا ہم وہ قوم نہیں ہیں کہ جو اپنے ہی جگر کے ٹکڑے کو بنگلہ دیش ماننے پرمجبور ہوئے تھے۔ یہ مسئلہ تو اتنا شدید نہیں ہے جتنا بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا مشکل تھا۔ لیکن ہم نے یہ کڑوی گولی نگلی لیکن آج ہم اس کے میٹھے اثرات دیکھ رہے ہیں۔ خو د ہمیں یعنی پاکستان کو بھی توا نڈیا نے تسلیم کیا تھا جو کہ انڈین سرزمین کو تقسیم کرکے بنایا گیا تھا ۔ اس لئے اس طرح کے جذباتی نعرے ، سفارتی دنیا میں ایک حد تو چل سکتے ہیں تادیر نہیں۔

            جہاں تک فلسطینی بھائیوں پر اسرائیل کے ظلم و ستم کی بات ہے تو حقیقت یہ ہے کہ اس پر ہمارا دل خون کے آنسو روتا ہے ۔یہ ایک بہت بڑا انسانی المیہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ جو لوگ اسرائیل کو تسلیم کرلینے کے حامی ہیں ان کا بھی اصل میں یہی موقف ہے کہ اس راستے سے ہم اپنے ان بھائیوں کی زیادہ بہتر خدمت کر سکتے ہیں ا ور یہ کہ ان پر ہونے والے ظلم و تشدد کو کم کرانے اور ان کی آزاد اور خودمختار مملکت قائم کروانے میں زیادہ موثر کر دار ادا کرسکتے ہیں۔ ہماری رائے میں ان لوگوں کو اس Option پر کام کرنے دینا چاہیے، شاید کہ اس طرح ہی ہمارے ان بھائیوں کی تکالیف کے ازالے کا کوئی راستہ نکل آئے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ فلسطینی بھائیوں پر ظلم و ستم ، صرف اسرائیل ہی نے نہیں ڈھایا بلکہ ان کے مسلمان ہمسایہ ممالک نے بھی ان مظلوموں پرظلم وستم ڈھانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔ 70,71 میں جب اردن کے شاہ حسین نے بعض واقعات کے نتیجے میں یہ خیال کیا کہ فلسطینی مہاجر ، خود اس کے اپنے اقتدارکے لئے خطرہ ہیں تو اس نے ان کو اردن سے نکالنے کے لئے فلسطینی کیمپوں پر فوج کشی کی جس کی قیادت پاک فوج کے اس وقت کے بریگیڈیر ،بعد کے جنرل اور صدر مملکت محمد ضیاالحق نے کی تھی۔ اردن کے علاوہ مصر اور شام نے بھی مختلف مواقع پر فلسطینی کاز اور عرب اتحاد کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ خود اس زمانے میں جب اسرائیل کا قیام ابھی محض خواب و خیال ہی تھا، انگریزوں کو بیت المقدس پر قبضے میں سہولت ،انہی عربوں نے فراہم کی تھی۔ یہ سر زمین حجازکے حکمران شریف مکہ ہی تھے، جنہوں نے ترکوں کی دشمنی میں انگریزوں سے ساز باز کر لی تھی، جس کے نتیجے میں اس مقدس سرزمین پر انگریزوں کے منحوس قدم پہنچے ، اور عثمانی خلافت تباہ ہوئی۔ جنگ عظیم اول کے زمانے میں ا رض فلسطین پر انگریز حاکم تھا تو اس نے اس علاقے میں یہودیوں کی آباد کاری شروع کی۔ انگریزوں کی سر پرستی میں دنیا بھر سے یہودی، ہجرت کرکے فلسطین آنے شروع ہوئے چند ہی برسوں میں انہوں نے آبادی کے تناسب کو بدل کے رکھ دیا۔ ان یہودی آبادکاروں کو ، مہنگے داموں کے لالچ میں گھر بنانے کے لئے اپنی زمین بیچنے والے خود یہی فلسطینی تھے جو اس وقت انگریزوں اور یہودیوں کی ساز شوں کو سمجھ نہ سکے اور اپنی سرزمین ان کے ہاتھوں فروخت کرتے چلے گئے اور آج دنیا بھر میں روتے پھرتے ہیں۔ جنگ عظیم دوم میں جب ہٹلر نے ہزاروں یہودیوں کو تہ تیغ کیا اور لاکھوں کو جلاوطن کردیا تو یہ لوگ مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر حکومت برطانیہ کی پناہ میں آئے اور فلسطین میں آباد کئے گئے ، یوں 35/30 برس کے عرصے میں انگریزوں نے اپنی حکومت کے جبر کے تحت، آس پاس کے عرب حکمرانوں اور امرا کی ہوس حکمرانی کے باعث اور غریب فلسطنیوں کی سادہ لوحی کی وجہ سے فلسطین میں ایک غیر اعلانیہ یہودی ریاست قائم کردی جس کا باقاعدہ اعلان اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے مئی 1948 میں کروا کر خود اپنے وطن کو لوٹ گئے۔

            ‘‘ہم جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے’’ کے مصداق یہ جہاں سے بھی لوٹے فساد چھوڑ آئے۔

            یہ انگریز ہی تھا جوچند برس قبل جب برصغیر سے واپس پلٹا تھا تو پیچھے کشمیر کا مسئلہ چھوڑ گیا تھا جس سے پچھلے 50 سالوں سے برصغیر پاک و ہند کے عوام ڈسے جار ہے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر طقبہ فکر میں یہ رائے پختہ ہو چکی ہے کہ ہمارے روز افزوں زوال اور مسلمانوں کی موجودہ دگرگوں حالت کے پیچھے صیہونی مکاری اور یہودی منصوبہ سازوں کی علمداری کا حصہ ہوتا ہے ۔یہ قوم ہروقت مسلمانوں کوزک پہنچانے کے منصوبے سوچتی ، سکیمیں بناتی اور انہیں روبہ عمل لاتی ہے اور یہ کہ یہ قوم ہماری ازلی اور مستقل دشمن ہے لہذا اس کی ریاست کو تسلیم کرنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے ۔ یہ بات اگر ٹھیک ہو بھی توبھی ہمارا سوال یہ ہے کہ کیاہم یہود کے دوست ہیں ؟جب ہم بھی ان سے دشمنی رکھتے ہیں اور انہیں مار آستین سمجھتے ہیں تو پھر ان سے کیسے توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے پیارو محبت کے نغمے الاپیں گے۔ اگر وہ توسیع پسندانہ عزائم رکھتے ، اور گریٹر اسرائیل کا نعرہ بلندہ کرتے ہیں تو کیا ہمارے گلی کوچوں میں اسرائیل کو نسبت نابود کرنے اور دہلی کے لال قلعے پر پرچم لہرانے کی باتیں نہیں ہوتیں ۔ کیا ہم دنیا کے ہر ملک کوفتح کرنے اور مغلوب کرنے کے خواب نہیں دیکھتے ۔ ہمارے جارحانہ عزائم کسی سے پوشیدہ ہیں کیا؟

            موجودہ گلوبل حالات میں اس طرح کی باتوں کا اب کوئی موقع نہیں ۔ ہر ملک اور قوم کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ یہاں نہ کوئی کسی کا مستقلًا دوست ہے اور نہ ہی کوئی مستقلا دشمن ، بعض اوقات حالات آپ کو کسی مسلم ملک سے اختلاف اور دشمنی پر مجبور کرسکتے ہیں اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ دشمن سمجھنے والے ملک سے آپ کو ٹھنڈی ہوا آنے لگے۔۔۔۔۔!