امکان 

مصنف : عنایت علی خان

سلسلہ : نظم

شمارہ : اکتوبر 2005

لیلۃ القد ر اور یوم آزادی ، اس حوالے سے شاعر کی آرزو پیش خدمت ہے 

 
 وہ کہتے ہیں تجھے یہ جشن آزادی مبارک ہو 
میں کہتا ہوں کہ آزادی تو اک فصل بہاراں ہے 
وہ گلشن پہ چھاتی ہے 
تو گلشن اک حسیں انگڑائی لے کر جاگ اٹھتا ہے 
عنادل کے ترانوں سے فضا معمور ہوتی ہے 
ہوا میں نغمگی ہوتی ہے غنچے کھلکھلاتے ہیں 
نہالان چمن اک نشہ نشوونما سے جھوم اٹھتے ہیں 
گلوں کی سرخ روئی پر شفق کورشک آتا ہے 
سنہری تتلیاں بھی والہانہ رقص کرتی ہیں 
زمین فرش زمرد کا نمونہ پیش کرتی ہے 
تو بے شک ! 
اک بہار جان فزاہوتی ہے آزادی 
مگر میں دیکھتا ہوں 
میرے گلشن پر 
 خزاں موسم کا ڈیرہ ہے 
عجب دلدوز منظر ہے 
کہاں کے غنچہ و گل ہر شجر کی 
بے ثمر بے برگ شاخوں پر 
فقط زاغ و زغن قبضہ جمائے ہیں 
جو دن کو ان کی بے ہنگم صدا دہشت بڑھاتی ہے 
تو شب کو بوم کی وحشت خزا آواز آتی ہے 
 ٭٭٭
 جو مجھ سے کہہ رہے ہیں جشن آزادی مبارک ہو 
میں ان سے پوچھتا ہوں 
کیا یہ آزادی کا منظر ہے ؟ 
کہ آزادی تو اک فصل بہاراں بن کے آتی ہے 
مگر اپنا گلستاں تو خزاں آشنا ہے یکسر 
یہ فصل گل نہیں ہر گز 
یہ آزادی نہیں ہر گز 
کبھی سوچا بھلا 
اس تیرہ بخشی کا سبب کیا ہے ؟ 
سبب کیا ہے ؟ 
سنو! وہ میں بتاتا ہوں 
سنو! ہم نے یہ خطہ اس کے مالک 
یعنی اپنے مہرباں آقا سے 
اس وعدے پہ مانگا تھا 
کہ ہم اس خطہ ارضی پہ اک گلشن سجائیں گے 
جہاں اس کی رحمت سے 
بہاروں کا سماں ہو گا 
جہاں والوں کو اس خطے پہ 
جنت کا گماں ہو گا 
مگر ہم آج اس وعدے کو یکسر بھول بیٹھے 
بلکہ یہ تک بھول بیٹھے ہیں 
کہ مالک نے یہ آزادی 
ہمیں اس شب عطا کی تھی 
کہ جس شب 
مالک ارض وسما کے اپنے لفظوں میں 
ہزاروں سال سے بڑھ کر مبارک ہے 
یہ وہ شب ہے جو بے شک ساعتِ اتمام نعمت ہے 
تو لوگو! 
کیوں نہ ایسا ہو ؟ 
کہ آئندہ 
اسی شب کو منائیں جشن آزادی 
کہ شاید اسی طرح وہ عہد و پیمایاد آجائے 
کہ ہم اس خطہ ارض پہ اک گلشن سجائیں گے 
اسے قرآن کے احکام کا معمل بنائیں گے 
جو ایسا ہو 
تو ممکن ہے 
کہ یہ تجدید پیما کام آ جائے 
جو ہم اپنی روش بدلیں 
تو ہم پر 
خالق ارض و سماکورحم آ جائے 
خزاں موسم بدل جائے 
بہار بے خزاں آئے 
 ٭٭٭
 عنایت علی خاں