اعتکاف ، رمضان کی خاص عبادت

مصنف : رانا محمد ارشد وڈالوی

سلسلہ : گوشہ رمضان

شمارہ : اکتوبر 2005

            اسلام رہبانیت کا بالکل بھی قائل نہیں لیکن اسلام میں اگرکسی چیزکورہبانیت کے مشابہ کہا جا سکتا ہے تو وہ رمضان کے دس دنوں کااعتکاف ہے جس میں ایک مسلمان دنیاوی امور سے کنارہ کش ہو کرمسجد میں قیام کر کے یاد الہی اور عبادات میں مصروف ہو جاتا ہے۔

            اعتکاف سنت نبویﷺ ہے۔ نبی ﷺکی عادت شریفہ ان ایام میں اعتکاف فرمانے کی ہمیشہ رہی ہے ۔ اس لیے اکثر علما کے نزدیک آخری عشرہ رمضان کا اعتکاف ہی سنت ہے ۔ اگرچہ بعض دفعہ حضور نے پورے رمضان المبارک کے دوران بھی اعتکاف فرمایا ہے ۔ البتہ جس سال حضور کاوصال ہوا اس رمضان کے دوران میں آپ نے بیس روز کا اعتکاف فرمایا ۔ معتکف کے لیے ضروری ہے کہ وہ بیسویں روزے کے افطار سے قبل مسجد میں قیام پذیر ہو جائے۔معتکف کا یہ قیام شوال کاچاند نظر آنے تک رہتا ہے ۔ بعض ائمہ کے نزدیک تین روز حتی کہ ایک روز کا اعتکاف بھی جائز ہے جوبہر حال اس سنت اعتکاف کے زمر ے میں نہیں آتا جس پر حضور ﷺ نے ہمیشہ مداومت فرمائی ہے ۔ آخری عشرہ رمضان کے معتکف کے لیے دو حج اور دو عمرے کے ثواب کی بشارت بھی ہے اعتکاف کے دوران میں معتکف کو فرض نماز کے ساتھ ساتھ کثرت نوافل ، تلاوت قرآن پاک، اورتدبرکلام پاک کے ساتھ ساتھ دعا اور استغفار کا خاص اہتمام کرنا چاہیے ۔ دوران اعتکاف معتکف کو بلا ضرورت مسجد ( عورت کی صورت میں مخصوص جگہ) سے باہر جانے کی ممانعت ہے ۔ آخری عشرہ رمضان میں ‘‘شب قدر’’ کی بشارت بھی دی گئی ہے حضور ﷺ کے ارشادکا مفہوم ہے کہ جس عورت یا مرد کو خواہش ہو کہ بعد از مرگ اس کی قبر روشنی سے منور ہو ،اسے چاہیے کہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں کثرت عبادت کا اہتمام کرے کہ شب قدر ان ہی راتوں میں مستور ہے ۔ اور شب قدر کی عبادت ہزارمہینوں کی راتوں کی عبادت سے افضل ہے ۔ شب قدر کی بہت فضیلت ہے معتکف کو یہ مواقع حاصل ہونے کے نسبتاً زیادہ امکانات ہوتے ہیں ۔

             لاکھوں مسلمان سنت نبوی کی پیروی میں ہر سال آخری عشرہ رمضان میں اعتکا ف کرتے ہیں ۔ رب کعبہ ہر مسلمان کو اعتکاف کی فضیلت سے فیض یاب فرمائے آمین ۔

             آخری عشرہ رمضان میں معتکف ہونا ہی ‘‘سنت نبوی’’ ہے ۔ لیکن اس کے علاوہ اعتکا ف کی دو اقسام اور بھی ہیں ۔

           واجب اعتکاف : یہ اعتکاف کسی منت یا نذر کی وجہ سے ہوتا ہے جیسا کہ میرا فلاں کا م ہو گیا تو میں اتنے دنوں کا اعتکا ف کروں گا یا کروں گی یا بغیرکسی کام پر موقوف کرنے کے یونہی کہہ دیا کہ مجھے اتنے دنوں کا اعتکاف کرنا ہے ۔ اس طرح اپنے اوپر لازم کر لیا۔ یہ واجب ہو جاتا ہے اس کو پورا کرنا لازم ہے ۔

            نفلی اعتکاف : نفلی اعتکاف میں نہ کسی وقت کی قید ہے اور نہ ہی ایام کی مقدارکی ، البتہ کمی میں اختلاف ہے ۔ بعض ائمہ کے نزدیک ایک دن سے کم کا نفلی اعتکاف جائز نہیں اور بعض کے نزدیک تھوڑی دیر کا بھی جائز ہے ۔ واللہ علم بالصواب!