دعا، رمضان کی خاص عبادت

مصنف : صاحبزادہ خورشید احمد گیلانیؒ

سلسلہ : گوشہ رمضان

شمارہ : نومبر 2004

اے اللہ اس شخص کو بخش دے جس کے پاس دعا کے علاوہ کوئی سرمایہ نہیں (حضرت علی)

دعا لفظوں کے تکرار کا نہیں بندگی کے اظہار کا نام ہے

            دعا بظاہر ایک دینی اصطلاح ہے، اور اہل دنیا اسے نیکوں، غازیوں، صو فیوں اور مولویوں کا وظیفہ گردانتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ غریب، محتاج، سائل، اور کمزورلوگوں کانفسیاتی سہارا، یہ بلا شبہ پاکبازوں اور صوفیوں کا وظیفہ ہے۔ اور محتاج اور بے وسیلہ لوگوں کی روحانی ڈھارس، لیکن بات یہاں آ کر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ دعا وہ وظیفہ ہے جو بندے کو احساسِ بندگی دلاتا اور رحمت ِ حق کو مہمیز کرتا ہے۔ دعا وہ نقطۂ اتصال ہے جو بندے کی تمنا اور اللہ کی عطا کو ایک جگہ جمع کر دیتا ہے دعا وہ حالت ہے جب بندہ اللہ سے سرگوشی کرتا ہے اور اس کی رحمت بڑی دیر تک کان لگائے رہتی ہے، بندہ جو باتیں کسی انسان سے نہیں کہہ پاتا وہ بے تکلف اپنے مالک و مولا سے بیان کر دیتا ہے بعض اوقات کوئی ضرورت مند، کوئی محتاج، کوئی کارگہہ حیات میں پچھڑ جانے والا کوئی غریب، کوئی مسکین اور کوئی سفید پوش اپنے جیسے یا اپنے سے بڑھ کر کسی دولت مند، اور کسی خوشحال شخص سے اپنی ضرورت بیان کر بھی دے تو دونوں صورتوں میں اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے خواہ اسے جھڑک یا ٹال دیا جائے یا اسے کچھ عطا کیا جائے عطا کئے جانے کی شکل میں وہ سر جھکانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مگر بارگاہِ ایزدی سے نہ تو کبھی ڈانٹ پڑتی ہے نہ کسی کو جھڑک دیا جاتا ہے اور حسب تمنا عطا کر دینے پر بھی بندے کو پشیمان نہیں کیا جاتا بلکہ اس کا دراصل مان بڑھایا جاتا ہے کہ بندہ اپنے رب پر مان نہ کرے تو کس پر کرے، اس کو عطائے ذاتِ لم یزل پر ناز نہ ہو تو کس پر ہو، اس کی محبت دربارِ خداوندی سے پوری نہ ہو گی تو اور کہاں ہو گی؟

اور جتنے بھی سہارے ہیں سبک کرتے ہیں

عزتِ نفس بڑھاتا ہے سہارا تیرا

            بسا اوقات رشتہ دار ضروریات پوری کر دیتے ہیں، احباب آڑے وقت میں کام آجاتے ہیں۔محلے دار ڈھال بن جاتے ہیں دفتری رفقاء مدد کرتے ہیں، رحم کھانے والے بھی ہاتھ تھام لیتے ہیں، سخی لوگ ہاتھ کی میل سمجھ کر کچھ دے دیتے ہیں، ٔخدا ترس بندے بھی ہاتھ بٹا دیتے ہیں آخر اسباب کی دنیا ہے کوئی نہ کوئی حیلہ بروئے کار آجاتا ہے مگر ان میں سے ہر ایک کبھی نہ کبھی عنوان بدل بدل کر احسان جتاتا اور اپنا آپ دکھاتا ہے۔ رہ گئی ذاتِ باری تعالیٰ، وہ دیتی بھی ہے اور بندے پر خوش بھی ہوتی ہے کہ اس نے مجھے پکارا، اس نے مجھے بلایا، اس نے مجھے یاد کیا، اس نے مجھ سے مانگا۔ اس کے ہاں تو کیفیت یہ ہوتی ہے کہ ؂

آتا ہے فقیروں پہ اسے پیار کچھ ایسا

خود بھیک دے اور خود کہے منگتے کا بھلا ہو

            اس مفہوم کی ایک حدیث بھی ہے ‘‘اللہ اس بندے سے ناراض ہوتا ہے جو اس سے نہ مانگے’’ یعنی لوگ مانگنے پر منہ بناتے اور اکتاتے ہیں جبکہ خدا مانگنے پر خوش ہے دستِ سوال دراز کرنے پر مسرور اور دعا کرنے پر راضی ہوتا ہے کہ سائل و محتاج کے سوال اور اظہارِ مدعا پر وہ فرشتوں کی مجلس میں بندے کی عزتِ نفس کا مذاق نہیں اڑاتا بلکہ انھیں گواہ بنا کر کہتا ہے ‘‘فرشتو! میرے بندے نے مجھ سے سوال کیا ہے میں اس سے بہت خوش ہوں جاؤ اسے خوشخبری دے دو کہ جو کچھ اس نے مانگا وہ بھی اسے دے دیا گیا اور جو وہ بھولے سے مانگ نہیں پایا وہ بھی عطا کر دیا گیا۔’’

            ہر شخص کو یہ احساس ہے کہ دنیا میں کسی سے کچھ مانگنا کس قدر اذیت ناک اور تکلیف دہ ہوتا ہے آدمی گلے تک زمین میں گڑ جاتا ہے، پیشانی پر پشیمانی کے کتنے بڑے بڑے گومڑ نکل آتے ہیں، زبان کس قدر ہکلاتی اور تھتھلاتی ہے کانوں کی لویں شرم سے تپ جاتی ہیں، آنکھوں کی پتلیاں کس بے بسی سے گردش کرتی دکھائی دیتی ہیں سانس کے ساتھ آواز بھی بے ترتیب ہو جاتی ہے، دل کی دھک دھک سے سینہ پھٹنے کو آجاتا ہے۔ ماتھے کا عرقِ انفعال ڈوبنے کو کافی ہوتا ہے۔ بولتے ہوئے ہونٹوں کا کھنچنا اور بھنچنا قیامت سے کم نہیں ہوتا، خدا کسی کو کسی کا محتاج نہ کرے۔

شالا مسافر کوئی نہ تھیوے ککھ جنہاں تیں بھارے ہو

            لیکن وہی محتاج انسان جب خدمت الٰہی میں حاضر ہوتا ہے، کھل کر روتا ہے مگر شرمندہ نہیں ہوتا الٹا دل کا غبار دھل جاتا ہے، گڑ گڑاتا ہے مگر ہچکچاتا نہیں، بندہ دھاڑیں مار کر روتاہے۔ مگر مہربان رب اس کا داغ ندامت ہمیشہ کے لیے دھو دیتا ہے۔ وہ کہنیاں زمین پر گراتا ہے مگر خدا اس کا مان رکھتا ہے۔ وہ عاجزی سے گال زمین پر ٹیکتا ہے غفور و رحیم خدا اسے حقارت سے نہیں بہت پیار سے دیکھتا ہے۔ وہ جس قدر بے بسی سے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ رؤف و کریم بڑی تیزی سے اس کے قریب آجاتا ہے۔ اس کی جانب سے ملتا تو ہے ہی پر مرحلہ دعا اس عطا سے کہیں بڑھ کر کیف آگیں اور روح افزا ہوتا ہے۔

کیسے مزے کے دن تھے کہ راتوں کو صبح تک

میں تھا’ تری جناب تھی، دستِ سوال تھا

            بعض اوقات اللہ تعالیٰ بندے کا ذوقِ طلب بڑھانے اور آتش شوق بھڑکانے کے لیے دعا کی قبولیت میں تاخیر کر دیتا ہے یہ بندے کے لیے تعزیر نہیں اس کی دعا کو اکسیر بنانے کے لیے ہوتی ہے۔ مالک الملک یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ بندہ واقعی مجھے سب کچھ سمجھتا ہے یا ابھی کسی اور سے بھی آس لگائے بیٹھا ہے۔ایسا نہ ہو کہ محض میری رحمت کو ٹٹولنے آیا ہو۔ ایک فرمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق تین بار تو اللہ تعالیٰ اپنا رخِ رحمت ادھر ادھر کرتا ہے مگر چوتھی بار اس کا کرم چھلک پڑتا ہے اور بندے کی کشت زارِ آرزو کو سیراب کر دیتا ہے۔ بعض بندے بڑے عجلت پسند اور تھڑ دلے ہوتے ہیں۔ اپنی اس ادا سے وہ رحمتِ حق کو تو نہیں البتہ خود کو آزمائش میں ڈال دیتے ہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ تو سیا ہ راتوں میں چمکنے اور سیاہ پتھر میں بسیرا کرنے والے حقیر کیڑے کی سنتا رہتا ہے۔ بھلا وہ اشرف المخلوقات انسان کی کیوں نہ سنے؟ انسان خواہ سیہ کار ہو یا نیکوکار، تہجد گزار ہو یا ناہنجار، پرہیزگار ہو یا رسوائے روزگار، خوش اطوار ہو یا بدکردار، دینے والامنہ دیکھ کر نہیں دیتا، اپنی شانِ کرم دیکھتا ہے اسی لیے تو حضرت علیؓ اپنی دعا میں کہتے تھے۔

            ‘‘الٰہی تو میرے ساتھ وہ معاملہ فرما جو تیرے شایانِ شان ہے وہ نہ کر جس کا میں حق دار ہوں’’ مانگنے کی یہ ادا ہو تودعا اشارہ ابرو سے آگے نہیں بڑھ پاتی اس سے پہلے قبول ہو جاتی ہے۔ بندے پر لازم ہے کہ جلدی نہ دکھائے اپنی دردمندی ظاہر کرے وہ عجلت افروزی سے زیادہ دلسوزی پر زور دے، آشفتہ سر نہ بنے صحیح معنوں میں گداگر بن کر رہے، وہ ساعتیں شمار نہ کرے، ابرِ کرم کے برسنے کا انتظار کرے، شیخ سعدیؒ نے ایک حکایت کے پیرائے میں بیان کیا ہے کہ کسی شخص کو شوق چڑھا کہ وہ ولی اور مجذوب بن کر مرجع خلائق کہلائے اور یہ سب کچھ چند دنوں میں ہو جائے ڈنڈا ڈیرا اٹھایا اور پہاڑ کی کھوہ کو چل دیا، دو چار روز عالمِ استغراق میں رہا۔ کچھ وظیفہ کیا، چند دعائیں پڑھیں اور بیٹھ گیا فتوحات کے انتظار میں ، بھلا ہفتے بھر میں کیا ہونا تھا؟ اس کا تو خیال تھا کہ بس کوئی دن ہو گا لوگ کھنچے چلے آئیں گے۔ ڈالیاں دوڑتی اور قابیں اچھلتی آئیں گی، دودھ کے مٹکے پہنچ جائیں گے اور آبِ یخ کی صراحیاں لبالب دھری ہوں گی۔ بھلا کبھی فقر بھی اس مکر سے ہاتھ آیا ہے؟ اور کوئی فقیر اس تدبیر سے بنا ہے؟ وہ شخص طالبِ جاہ تھا بھوک پیاس سے نباہ نہ کر سکا، وہ خواستگار آسائش تھا آزمائش میں نہ پڑ سکا، فوراً اٹھا پوستین گلے میں حمائل کی، ہاتھ میں کشکول تھا، اور قریب کی بستی میں جا نکلا، پہلے ہی در پر صدادی تھی کہ ایک خونخوار کتے سے پالا پڑ گیا، یہ بدکتا جا رہا تھا اور کتا لپکتا آ رہا تھا۔ یہ پیچھے کو سرکتا کتا آگے کو مچلتا، تنگ آ کر نام نہاد فقیر نے کتے سے پوچھاکہ میں بے نوا بھکاری ہوں تمھارا کیا بگاڑا ہے؟ نہ تمھیں جھڑکا، نہ ڈھیلامارا، نہ ڈانگ اٹھائی، تم میرے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو؟ شیخ سعدی رحمتہ اللہ لکھتے ہیں اس موقع پر قدرت نے کتے کو قوتِ گویائی بخشی اور وہ بولا، اوئے کم ظرف، تم تو گئے تھے آستانِ رب پر بیٹھنے، اس سے ملنے اور اس سے مانگنے، یہ کیا کہ چار دن میں جی بھر گیا اور آگئے ہو غیر اللہ کے در پر، مجھے دیکھو کئی سالوں سے اپنے مالک کی ڈیوڑھی میں بندھا ہوں، کچھ ڈال دیتا ہے تو کھا لیتا ہوں، نہیں ڈالتا تو اسے بھونکتا نہیں ہوں، کئی دن فاقے بھی کاٹتا ہوں، مگر مالک کا در چھوڑ کر کسی دوسرے کی چوپڑی روٹی پر طمع کی نگاہ نہیں ڈالی، اپنے مالک کی چھوڑی ہڈی پر گزارا کیا ہے، جا یہاں سے چلا جا ورنہ تجھے پھاڑ کھاؤں گا، تب اس ملمع ساز کی آنکھ کھلی اور چلتا بنا، رب کے حضور حاجات کا پیش کرنا یا دعا مانگنا کمیت نہیں ایک کیفیت ہے، مانگنے کے لیے ضروری نہیں کہ کوئی عربی ادب کا لبیدو جاحظ ہو، فارسی لٹریچر کا رومی و سعدی ہو، انگریزی ادب کا ملٹن اور آسکر وائلڈ ہو، اردو کا غالب و ابوالکلام ہو، نہیں کیفیت ایک نابلد محض کی بھی ہو سکتی ہے، گونگا بھی اپنے انداز میں رب کریم کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا سکتا ہے، ہکلانے والا شخص بھی اپنا دل کھول کر رکھ سکتا ہے، کج مج بیان بھی سادگی سے اپنا مدعا پیش کر سکتا ہے، رب کی رحمت محض رازیؒ و غزالیؒ کے لیے نہیں اور نہ ہی اس پر جنید با یزیدؒکا اجارہ ہے۔ یہ لوگ ہزار مقبول بارگاہِ الٰہی سہی، اگر خدا صرف ان کی سنتا رہا۔ تو ہم جیسے خاطی و عاصی کس در پہ جائیں گے۔ جبکہ مریض سب سے زیادہ حاذق حکیم کی طرف لپکتا ہے۔ اور طبیب کا سارا سامانِ طب مریض کے لیے ہوتا ہے، سخی کا دروازہ خوشحالوں کے لیے نہیں، ہمیشہ بدحالوں کے لیے کھلتا ہے۔ ماں کا دریائے شفقت ہنستے کھیلتے بچے کے لیے نہیں، روتے بلبلاتے بچے کے لیے جوش مارتا ہے۔ جس طرح ماں کو پتا ہوتا ہے کہ اس کے بچے کی جائے پناہ اس کی گود ہے اس کا واحد مرکز ِ شفقت اس کا سینہ ہے، اور اس کا واحد سہارا اس کی بانہیں ہیں چنانچہ ماں بھی بچے کے لیے وقف ہوتی ہے اور بچہ بھی دائیں بائیں نہیں جھانکتا’ لپک کر سیدھا ماں کی جھولی میں آ گرتا ہے، یہی کیفیت اگر بندے کی ہو، رب کو یہ یقین ہو کہ میرے بندے کا اس کے علاوہ کوئی سہارا نہیں اور بندے کو بھی پختہ اعتقاد ہو کہ رب کے علاوہ کوئی لائقِ بھروسا نہیں، تو پھر وہ کچھ رونما ہوتا ہے جسے قرآن معجزہ کہتا ہے۔ ایک بچہ جب اپنے باپ سے فرمائش کرتا ہے کہ وہ اسکول جاتے ہوئے تھک جاتا ہے، گرمی اسے ستاتی ہے، دوست اسے طعنے دیتے ہیں اور یہ جانے بغیر کہ اس کے باپ کے پاس وسائل ہیں یا نہیں، سائیکل کی مانگ کر بیٹھتا ہے۔ پہلے دن باپ اسے نرمی سے سمجھاتا ہے کہ بیٹا پیسے ہوتے تو ضرور سائیکل لے کر دیتا، دوسرے دن کی طلب پر ذرا جھڑکنے کے انداز میں کہتا ہے، جان من! مجھے علم ہے تمھیں تکلیف ہوتی ہے مگر میری تکلیف اور مجبوری کا بھی خیال کرو، اس سے اگلے دن اکتاہٹ کے انداز میں باپ ڈانٹتے ہوئے بتاتا ہے کہ کیا تمھاری سائیکل کے لیے کسی کی جیب کاٹوں؟ کسی کی دیوار پھلانگوں؟ کسی سے بھیک مانگوں؟ لیکن جب بچہ بول اٹھتا ہے ابا جان! میری فرمائش بے جا سہی اور آپ کی مشکل بجا سہی مگر کیا کروں مجھے جب بھی کچھ کہنا ہے آپ سے کہنا ہے اور جو مانگنا ہے آپ سے مانگنا ہے کوئی اور باپ کہاں سے لاؤں کہ اس سے فرمائش کروں؟ یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں باپ اپنا دل سینے سے باہر ابلتا ہوا محسوس کرتا ہے پھر وہ اپنی روزمرہ ضروریات کی پروا نہ کرتے ہوئے بیٹے کی دلجوئی کا سامان کرتا ہے، یہی کیفیت دراصل بندے کے لیے مطلوب ہے کہ وہ اللہ کی رحمت کو اپنی عاجزی، مسکینی، بے بسی، بندگی، حاجت طلبی، اشک ریزی اور خود سپردگی کے باعث ایسے موڑ پر لے آئے تو پھر رحمتِ خداوندی چھلک چھلک پڑتی ہے اور لہک لہک اٹھتی ہے بندہ پہلے اظہارِ بندگی تو کرے پھر شانِ خداوندی کا نظارہ کرے۔

            یہ کیا جھٹ مانگا اور پٹ انتظار میں بیٹھ گیا، دعا جب تک کیفیت نہ بنے، لذت کے سانچے میں نہ بیٹھے اور تمنا کے پیکر میں نہ ڈھلے ، پھر وہ دعا نہ ہوئی، محض مدعا بن گیا۔ اور وہ بھی بے رنگ اور بے کیف! بندہ جب اپنے ہاتھوں کو مجسمہ سوال بنا لیتا ہے اور دامن کو کشکول میں بدل دیتا ہے تو پھر ایک آہ سرد اور ایک قطرہ اشکِ گرم اس کے سب سے بڑے سفارشی اور قبولیت کے ضامن بن جاتے ہیں، دعا لفظوں کے تکرار کا نہیں بندگی کے اظہار کا نام ہے، جب انسان یہ کہنے پر آجائے تو پھر خدا عرش علیٰ سے اتر کر آسمان دنیا پر آجاتا اور اپنے بندے کی دعا سنتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ’ کے یہ الفاظ کس قدر وجد انگیز، ذوق آفریں اورروح پرور ہیں کہ ‘‘اللھم اغفر لمن لا یملک الا الدعا’’ (اے اللہ اس شخص کو بخش دے جس کے پاس دعا کے علاوہ کوئی سرمایہ نہیں)

            بندہ مال و زر پر اتر آئے، خانوادہ و خاندان کا رعب جمائے، عہدہ و منصب کی جھلک دکھائے، قبیلہ و برادری کا حوالہ سنائے اور اپنے نوافل و اذکار پر سینہ پھیلائے اور پھر کہے مولا! میری بھی سن، یہ عرض گزاری تو نہ ہوئی دنیا داری ہوئی، اللہ کی منشاء پہ ہے کہ میرے بندے تو میرے لیے سب رشتے توڑ کر آ، ساری دنیا تیرے ساتھ نہ جوڑ دوں تو پھر کہنا، تو کاسۂ دل کو تمنا سے خالی کرکے آ، تیرے دل کو شاہ و والی نہ بنا دوں تو پھر کہنا، تو اپنی گردن نیچی کرکے آ، تیری ٹوپی جہاں بھر میں اونچی نہ کر دوں تو پھر کہنا، تو خواہشوں کے آنگن میں جھاڑو پھیر کے آ، میں اس میں بے نیازی کے چاند نہ اتار دوں تو پھر کہنا، تو ایک بار پلکیں بھگو کر آ، تیرے سارے دھونے نہ دھو دوں تو پھر کہنا، تو رشتہ و پیوند کو بھول کے آ، میں تجھے کونین میں ارجمند نہ کر دوں تو پھر کہنا، اور تو ایک بار صرف میرا بن کر آ، راحت و عظمت دارین تیرے نام نہ کر دوں تو پھر کہنا!

            رحمتِ رب کو پیسہ یا حوالہ درکارنہیں ہوتا بس ایک حیلہ مطلوب ہوتا ہے اس لیے جہاں دعا کا ساتھ لفظ چھوڑ جاتے ہیں جملے پیچھے رہ جاتے ہیں اور حرف جواب دے جاتے ہیں، وہاں کوئی حیلہ کام آجاتا ہے، خواہ وہ دل کی تیز دھڑکن ہو، جسم کی کپکپی ہو، روح کی بیقراری ہو، آنکھوں کی اشکباری ہو، دامن کا بے ساختہ پھیلاؤ ہو، ہاتھوں کا گدایانہ ارتعاش ہو، لہجے کا اضطراب ہو اور کچھ بھی میسر نہ ہو تو گناہوں کا اعتراف ہی قبولیت دعا کا زینہ بن جاتا ہے بندہ بے صبرا نہ ہو، لمحوں میں قطع منازل کا اسے لپکا نہ ہو، ذرا لذتِ انتظار کا آشنا ہو، پھر دیکھے کہ عرش اور فرش کا فاصلہ کیسے گھٹتا ہے، افلاک اور خاک کا کیسے ملاپ ہوتا ہے، اور آقا و بندہ کیسے ہمکلام ہوتے ہیں؟ یہ ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ جو کچھ کرتے کماتے ہیں سب کچھ بچوں کے لیے ہوتا ہے۔ ان کی سہولت، ان کی خاطر داری اور ان کے مستقبل کے لیے ہم گھر میں مٹھائی اور پھلوں کا ٹوکرا لے آتے ہیں، بچوں کے لیے لاتے ہیں مگر جب مانگتے ہیں تو سب کچھ انھیں نہیں دے دیتے اس لیے نہیں کہ ان کے لیے نہیں لائے بلکہ ان کے لیے جتنا ضروری اور مناسب ہے وہ دیتے ہیں، جیب میں ہزاروں روپے ہوتے ہیں لیکن بچوں کو خرچ کرنے کے لیے پانچ دس روپے ملتے ہیں کیوں؟ کیا یہ سب کچھ بچوں کے لیے نہیں ؟ بلاشبہ ان کے لیے ہے لیکن دیا اتنا جائے گا جتنا ان کے لیے موزوں ہے، اسی طرح بلا تشبیہ و مثال، جو کچھ کائنات میں ہے سب کچھ بندوں کے لیے ہے اللہ نے یہ سب کچھ اپنی سہولت کے لیے نہیں جوڑ رکھا، انواع و اقسام کے کھانے، شیریں اور یخ پانی، متنوع ملبوسات، نرم بستر، اونچے بنگلے ، میٹھی نیند، ذائقے دار پھل، نظر نواز مناظر، جنت نظیر باغات، گنگناتی آبشاریں، ہفت رنگ قوس و قزح، کاروبار، تجارت، پیسہ، دولت، برادری، منصب، عہدہ، تاج و کلاہ، لشکر و سپاہ، سریر و تخت، حریر و زربفت، یہ سب چیزیں بندوں کے لیے ہیں، اللہ ان سب سے بے نیاز ہے، بندہ ان میں کچھ بھی مانگے تو ضروری نہیں ہر چیز فی الفور مل جائے، بندوں کے لیے جو ضروری ہے وہی دیا جائے گا۔ جس نے یہ حکمت ربانی پا لی گویا اس نے جیتے ہی اپنی زندگی جنت بنا لی، قرآن مجید میں ہے کہ ‘‘کئی چیزیں تمھیں بے حد مرعوب ہیں مگر دراصل تمھارے لیے موزوں نہیں اور کئی باتیں جنھیں تم اپنے لیے مکروہ جانتے ہو فی الحقیقت تمھارے حق میں بہتر ہیں۔ یہ فلسفہ انسان کو وہ شان عطا کردیتا ہے کہ پھر ؂

شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی

والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ورنہ خدا دینے پہ آئے تو اس نے بندوں کو کیا نہیں دیا؟ اور کیا نہیں دے سکتا؟ فرعون کو چار سو سال عمر بھی دی اور بادشاہت بھی! قارون کو دولت بھی اور رعونت بھی، سکندر کے قدموں میں تین چوتھائی دنیا ڈال دی، قیصر کو روم جیسی سلطنت بخش دی اور کسریٰ کو تاجِ ایران عطا کر دیا، کیا یہ باتیں ان کے حق میں گئیں؟ نہیں، ان کے مقابلے میں انبیاء کرام دکھوں میں گھرے رہے، حضرت نوح علیہ السلام کو عمر بھر قوم کی مزاحمت کا سامنا رہا، حضرت لوط علیہ السلام اپنی بیوی کے ہاتھوں تنگ رہے، حضرت یوسف علیہ السلام کی سرِ بازار بولی لگی، حضرت یعقوب علیہ السلام ہجرِ یوسف ؑ میں آنکھوں کا نور کھو بیٹھے، حضرت زکریا علیہ السلام آرے کی زد میں آئے، ساری کائنات میں اللہ کے سب سے پیارے انسان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم طائف اور صحن کعبہ میں لہولہان ہوئے، تین سال شعب ابی طالب میں محصور رہے۔ تین سو میل سنگلاخ پہاڑیوں کا سفر کیا، جب مکہ سے مدینہ کو ہجرت ہوئی، نواسہ رسول حسینؓ کو میدانِ کربلا میں حرفِ برملا کہنے پر جامِ شہادت نوش کرنا پڑا۔ کیا یہ لوگ گھاٹے میں رہے؟ ہرگز نہیں! یہ لوگ دراصل رازِ الٰہی پانے والے لوگ ہیں تبھی تو اپنی مراد پا گئے، دعا درحقیقت رازِ الٰہی پانے کی تمنا ہے، جس پر یہ راز کھل گیا اس پر کشاد و فلاح کے سارے دروازے کھل گئے، وہ شخص راز پا گیا جسے معلوم ہوا کہ میں کچھ نہیں سب کچھ میرا پروردگار ہے،پھر سب کچھ اسی کا ہو جاتا ہے، ارض بھی، سما بھی، بندے بھی اور خدا بھی!

            دعا یہی سلیقہ سکھاتی ہے آئیے ہم سب اللہ تعالیٰ کے حضور التجا کریں، بارِ الہا، ہم بھی تیرے، یہ کائنات بھی تیری، یہ وسائل رزق بھی تیرے، یہ ذرائع علم بھی تیرے، یہ کیفیاتِ قلب و دماغ بھی تیری اور یہ ملک بھی تیرے نام کا صدقہ ہے، تو ہمیں اپنا بنا لے ، کائنات کو ہمارے لیے موم کر دے، وسائلِ رزق کو سب کے لیے عام کر دے، ذرائع علم سے ہر ایک کو فیض پہنچا، اور اس ملک کی لاج اپنے نام کے صدقے رکھ لے، اسے کسی کا محتاج نہ بنا، اس کو وجود بخشا ہے تو اسے شناخت بھی عطا فرما۔ آمین

تشنہ لب چڑیا کے منہ میں گر’ نمی آجائے گی

تیرے دریائے کرم میں کیا کمی آجائے گی