رمضان کا استقبال

مصنف : مولانا ابوالحسن علی ندویؒ

سلسلہ : گوشہ رمضان

شمارہ : اکتوبر 2005

رمضان اپنی زبان میں آپ سے مخاطب ہوتا ہے اورآج کے مسلمانوں کو قرون اولی کی کہانی سناتا ہے۔

            دوستو! پہلے میں سال کے دوسرے مہینوں کی طرح ایک مہینا تھا، اپنے دوسرے بھائیوں اور رفیقوں سے کسی قسم کا امتیاز مجھے حاصل نہیں تھا، نہ کوئی خاص بات میرے اندر تھی، نہ کسی پیغام کا میں حامل تھا اور نہ دینی ارکان میں سے کوئی رکن مجھ سے متعلق تھا، رجب، ذی القعدہ، ذوالحجہ اور محرم پر مجھے حسد …… استغفراللہ …… رشک ہوتا تھا کیونکہ یہ : اشھر حرم (محترم مہینے) تھے اور ان میں سے ذوالحجہ پر مجھے اور خاص وجہ سے رشک آتا تھا، وہ یہ کہ وہ حج کا مہینہ تھا …… مجھے وہم و گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ مجھے کبھی اتنا بڑا اعزاز بخشا جائے گا اور روزے جیسے اہم اور مقدس پیغام کا مجھے حامل بنایا جائے گا، لیکن یہ اللہ کا فضل ہے اور وہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے، بہرحال اب سنیے:

            ‘‘اے لوگو! رمضان کا مہینا تم پر سایہ فگن ہو رہا ہے۔ بڑا عظیم الشان مہینا ہے اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اللہ نے اس مہینے کے روزے فرض کیے ہیں اور رات کے قیام (تراویح) کو نفلی عبادت ٹھہرایا ہے۔ جو شخص اس ماہ میں ایک نفلی نیکی کرے گا، اس کا ثواب اور دنوں کے فرض کے برابر ہو گا اور جو کوئی ایک فرض ادا کرے گا اس کا ثواب اور دنوں کے ستر فرضوں کے برابر ہو گا۔ یہ ماہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ غمخواری و غمگساری کا مہینا ہے، اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔’’

            تمام لوگ میرا چاند دیکھنے کے لیے بلند ٹیلوں اور مکانوں پر چڑھ گئے، غروبِ آفتاب کے بعد مدینہ میں کوئی شخص ایسا نظر نہ آتا تھا جو آسمان کی طرف نظر اٹھائے میری جستجو نہ کرر ہا ہو، ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ سب سے پہلے وہ میری آمد کا مژدہ سنائے۔

            پروردگار عالم نے ارادہ فرمایا کہ میرے آنے میں اب مزید تاخیر نہ ہو،لہٰذا اس کی طرف سے حکم طلوع ہوا اور مدینہ کے اس سرے سے اس سرے تک ایک مسرت کی لہر دوڑ گئی، لوگوں کی زبانوں پر ایک نغمہ مسرت جاری ہوا۔

             مجھے اس کہنے میں معاف رکھیں کہ ابتدائے اسلام میں لوگوں کو میری آمد سے جو مسرت ہوئی تھی، وہ اس مسرت سے بڑھ کر ہوتی تھی جو آج آپ کو عید کا چاند دیکھ کر ہوتی ہے …… میں اس کے اسباب میں نہیں جاؤں گا کیونکہ یہ ایک طویل بات ہے، اور ویسے بھی آپ کو کڑوی لگے گی۔

            (میری آمد سے) مدینہ کے لوگوں میں ایک نئی زندگی اور ایک نیا نشاط عبادت ابھر آیا، یہ لوگ عشاء کے بعد ایک ایک، دو دو اور ٹکڑیاں ٹکڑیاں ہو کر نوافل میں مشغول ہو گئے قرآن کی تلاوت کرتے اور نمازیں پڑھتے رہتے، یہاں تک کہ جب رات کاآخر ہوا، اور سحر قریب ہوئی تو رات کی باسی روٹی یا کھجور اور پانی میں سے جس کو جو میسر آیا، اس نے اس سے سحر کھائی، پھر مساجد کی راہ لی اور نماز فجر ادا کی۔

            یہی وہ مقام ہے جہاں وہ لوگ آج کل کے روزہ داروں سے ممتاز ہوجاتے ہیں، آج اگر آپ میں سے کوئی رات کو تھوڑی دیر عبادت کر لیتا ہے اور پھر روزہ کی نیت کر لیتا ہے تو وہ اپنا حق سمجھتا ہے کہ دن میں جتنا چاہے سوئے، چنانچہ آج شہر میں بہت کم ایسے روزہ دار ملیں گے جو سوتے یا اونگھتے نظر نہ آتے ہوں، رات کو خواہ کتنا ہی تھوڑا قیام کریں مگر اس کے بدلے میں دن کا ایک خاصا حصہ ضرور نیند کی نذر کر دیا جاتا ہے…… اس کے برعکس صحابہ و تابعین (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کا حال یہ تھا کہ رات کا قیام ان کے دن کے نشاط میں کوئی فرق نہیں ڈالتا تھا، وہ رمضان میں عبادت بھی کرتے تھے اور مشقت حیات بھی برداشت کرتے تھے اور کبھی تو روزے کی حالت میں جہاد بھی کرتے تھے، ان کے زمانہ میں رمضان اشیاء کی طبائع نہیں بدلتا تھا اور نہ دن کو رات بناتا تھا، وہ الٹے ان میں قوت اور نشاط کا ر بڑھا دیتا تھا اور کوئی نیکی بھی جس کو لوگ پہلے سے کرتے تھے، رمضان المبارک کی آمد سے منقطع نہیں ہوتی تھی، میرے آنے سے اہل مدینہ کے اخلاق میں کوئی فرق نہیں آیا انھوں نے تو مسلمان ہونے کے بعد سے ہی غیبت، فحش کلامی اور بد گوئی سے زندگی بھر کا روزہ رکھ لیا تھا، تو وہ روزوں میں بھی پاک زبان، پاک نفس اور پاک باطن رہتے تھے ، ہاں اگر فرق ہوتا تھا تو یہ ہوتا تھا کہ وہ ان دنوں میں جائز غصہ کو بھی ضبط کرتے تھے۔ اگر ان میں سے کسی کو کوئی شخص گالی دیتا یا لڑنے کی باتیں کرتا تو اس کا جواب یہ ہوتا کہ :

            ‘‘میں روزہ دار ہوں۔’’

            میری آمد پر وہ لوگ نیکی اور غمخواری کے بے حد حریص ہو گئے، یوں سمجھئے کہ ہوا سے مقابلہ کرتے تھے، ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ تھا:

            ‘‘جب رمضان آتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امورِ خیر میں آندھی سے بھی تیز رفتار ہو جاتے تھے۔’’

            روزہ دار کو افطار کرانے ، غلاموں کو آزاد کرانے، ستم رسیدوں کی امداد کرنے اور بھوکوں کو کھانا کھلانے میں ایک دوسرے پر سبقت کرتے تھے، چنانچہ اسی وجہ سے فقراء و مساکین میری آمد کے منتظر رہتے تھے۔

            ان لوگوں نے اپنے مشاغل میں روزہ گزارا، لیکن اللہ سے غافل نہیں ہوئے اور نہ بیع و تجارت نے ان کو اللہ کی یاد اور جماعتوں کی حاضری سے غافل کیا، شام کو گھر لوٹے اور ذکر و تلاوت میں مشغول ہو گئے۔ مساجد کا حال اس وقت یہ ہو جاتا تھا کہ اگر تم جاؤ تو ذکر کی بھنبھناہٹ کے سوا کوئی آواز نہ سن پاؤ۔

            آفتاب غروب ہوا، موذن نے اذان دی اور میں نے دیکھا کہ سید الاولین و الآخرین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوہارے اور کچھ پانی سے افطار فرمایا اور پھر اس پر اتنا شکر کہ انواع و اقسام کی افطاریوں پر بھی لوگوں کو یہ مقام شکر نصیب نہیں ہو سکتا۔ سنئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں:

            ‘‘تشنگی دور ہوئی، رگیں تر ہوئیں اور اللہ نے چاہا تو اجر واجب ہو گیا۔’’

            آپؐ کے اصحاب نے بھی اسی طرح چند کھجوروں اور پانی کے چند گھونٹ سے روزہ کھولا اور اللہ کی حمد کی، پھر نماز پڑھی اور جو کچھ اللہ نے عنایت فرمایا صرف بقدر ضرورت کھا لیا، نہ اس میں اسراف ہوتا تھا اور نہ ناک تک پیٹ بھرتا تھا۔

            مہینا بھر ان کا یہی معمول رہتا تھا، نہ اس میں کوئی فرق آتا اور نہ وہ اس سے اکتاتے اور برداشتہ خاطر ہوتے، بلکہ ہر دن نشاط کی ایک نئی کیفیت پیدا ہوتی اور عبادت و نیکی کی حرص بڑھتی تھی، گویا روزوں سے ان کی روح کو غذا ملتی تھی، اور مہینے کے آخر میں ان کی قوت اور نشاط پہلے سے بھی بڑھا ہوا نظر آتا تھا۔

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک مسلسل نشاط اور ذوق عمل سے مخمور رہتے تھے۔ یہاں تک کہ جب آخری عشرہ آتا توبالکل ہی کمر کس لیتے تھے، رات عبادت میں گزارتے اور اہل خانہ کو بھی جگاتے اور پھر اعتکاف فرما لیتے تھے۔

            میں جب اس دور سعادت کے روزہ داروں کا بعد کے روزہ داروں سے مقابلہ کرتا ہوں تو صورت و شکل میں تو کوئی فرق نہیں پاتا، مگر خشوع و اخلاق اور ایمان و احتساب کی کیفیات میں کھلا فرق محسوس کرتا ہوں، اگر سابقین کی ایک رکعت کا وزن کیا جائے تو بعد والوں کی بہت سی رکعتوں پر بھاری نکلے گی کہ وہ اپنے ایمان و احتساب میں بھاری تھے۔

            اور دوسرا فرق جو میں بتلا سکتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ان پر روزہ اپنے گہرے اخلاقی اور نفسیاتی اثرات چھوڑ کر جاتا تھا، یوں کہیے کہ ان کی طبیعتوں پر روزہ کی ایک نہ مٹنے والی چھاپ پڑ جاتی تھی اور اگلے سال جب میں پھر لوٹ کر آتا تو ان میں وہی عفت، وہی تقویٰ، وہی صدق و امانت، وہی رقت، وہی کریم النفسی، وہی حرص و طاعت، وہی لذات نفس سے نفرت، وہی آخرت کی فکر اور وہی دنیا سے بے رغبتی پاتا۔ الغرض ہر دوسری مرتبہ وہ مجھے پہلے سے زیادہ پاک باطن اورصاف دل ملتے تھے۔

            قصہ مختصر! جب میرا وقت ختم ہو گیا اور روانگی کا دن آیا تو انھوں نے مجھے ایک بہت ہی پیارے دوست کی طرح رخصت کیا، آنسو کسی طرح تھمتے نہ تھے اور آہیں قرار پاتی نہ تھیں، لبوں پر یہ دعا تھی کہ خدایا یہ ملاقات آخری ملاقات نہ ہو، یہ دن اس کے بعد بھی بار بار آئیں۔ یہ ہے خیر القرون میں میرے استقبال کی ایک ہلکی سی تصویر۔

(بشکریہ:ہفت روزہ ختم نبوت، کراچی)

٭٭٭