روزے کے مقاصد

مصنف : علامہ سید سلیمان ندویؒ

سلسلہ : گوشہ رمضان

شمارہ : اکتوبر 2005

            ہم یقین کے ساتھ نہیں بتا سکتے کہ انسانی سوسائٹی میں روزہ کے خیال کی ابتدا کب سے ہوئی اور ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اس کے شروع ہونے کے اسباب کیا تھے؟ روزہ کے ابتدائی حالات اسی طرح پوشیدہ ہیں جس طرح قدیم قوموں میں شریعت کی ابتدا سے ہم نا آشنا ہیں کہ کس قوم نے شریعت کے نظام کو اختیار کیا اور پھر اس نظام کو دوسروں تک پہنچایا۔ روزہ کے متعلق جس قدر نظریے بیان کیے گئے ہیں وہ ظن و تخمین پر مبنی ہیں البتہ اتنامعلوم ضرور ہے کہ روزہ انسانی عبادات میں قدیم عبادت ہے۔ اس کا پھیلاؤ دنیا کی تمام قوموں میں رہا ہے۔

            مجوسی، آتش پرست، مانوی، بدھ، برہمن، ستارے اور جانور پرست سب میں روزہ کا رواج رہا ہے۔ یہود، نصاریٰ اور مسلمان روزہ کی عظمت کو دین کے بڑے رکن کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں۔ مختلف قوموں اور مختلف نظامہائے شریعت میں روزہ کا طریقہ جداگانہ رہا ہے۔ قوموں میں حالات کی تبدیلی سے روزوں کی تعداد میں بھی کمی بیشی ہوتی رہی ہے۔ طریقۂ عمل کے لحاظ سے کسی قوم میں روزہ کی شکل یہ رہی کہ اس کے افراد روزہ کی حالت میں کھانے ، پینے، جنسی تعلقات اور بات چیت سے دور رہا کرتے تھے، کسی مذہب میں ان میں سے کچھ کو اختیار کیا گیا اور باقی سے پابندی اٹھا لی گئی لیکن ہر حالت میں روزہ سے مقصود یہ رہا کہ بدن اور نفس کو کچھ وقت کے لیے محبوب ترین چیزوں کے استعمال سے محروم رکھا جائے، بات سے رک جانے کا روزہ قدیم قوموں میں رائج تھا۔

            اسپنسر اور جیلن نے اپنی تصانیف میں وسطی آسٹریلیا کے باشندوں کے حالات میں لکھا ہے کہ جب کسی عورت کا شوہر مر جاتا تھا تو اس کی بیوی سال بھر بات نہ کرنے کا روزہ رکھتی تھی۔ روزہ کا یہ طریقہ یہود میں بھی پایا جاتا تھا۔ قرآن مجید میں حضرت مریم ؑکی زبان میں اس کی تعبیر یوں ہے: ‘‘فلن اکلم الیوم انسیا۔’’ آج کسی انسان سے بات نہیں کروں گی۔کھانے اور پینے سے رک جانے کے طریقے مختلف رہے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ ہر قسم کے کھانے اور ہر رنگ کے پینے سے رک جانے کے طریقہ کو روزہ کہتے ہیں۔ یہ طریقہ صابی، مانوی مذہب اور مسلمانوں میں پایا جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کچھ محدود اور متعین چیزوں سے نفس کو روک دیا جائے، یہ طریقہ نصاریٰ میں رائج ہے۔

            روزہ رکھنے کے مختلف طریقے ہیں: ایک تو یہ کہ دن رات کا پورا روزہ، دوسرے دن بھر کا روزہ یا اس طرح کے ایک حصے کا روزہ، ایک روزہ یہ ہے جو سورج ڈوبنے سے شروع ہوتا ہے اور رات بھر رہتا ہے یا رات کے کسی حصے تک رکھا جاتا ہے، کچھ روزے ایسے ہیں جو برابر کئی دنوں تک چلے جاتے ہیں، کچھ صرف ایک دن کے لیے ہوتے ہیں۔ کسی کا تعلق رات یا اس کے کسی حصے سے ہوتا ہے بعض روزے مسلسل ہوتے ہیں لیکن ان میں فصل آجاتا ہے۔ اس مدت کے فصل کے بعد پھر شروع ہو جاتے ہیں، روزہ کی ایک قسم وہ ہے جو قوم کے تمام افراد پر فرض ہے یا بعض افراد پر خاص شرط کے ساتھ فرض کر دیا گیا ہے یا بعض افراد یہ روزہ مستحب طور پر رکھتے ہیں۔

روزہ کے اغراض و مقاصد:

            مختلف مذاہب میں روزہ کے اغراض و مقاصد بدلتے رہتے ہیں۔ ہم ان میں چند کا ذکر کرتے ہیں۔

اول:…… روزے زمانہ کے موسمی حالات کے پیش نظر رکھے جاتے ہیں، کسی خاص فصل یا موسم کے آنے کے وقت یہ روزہ رکھا جاتا ہے کسی مہینا یا ہفتہ کو خاص کر لیا جاتا ہے یا آسمان کا ستارہ جب کسی خاص منزل کو پہنچ جاتا ہے، کبھی کسی اہم تاریخی واقعے کی مناسبت سے روزہ رکھا جاتا ہے جو کسی اجتماعی حالات میں آیا ہو تو گویا اس روزے میں اس واقعہ کی اہمیت کویا ان حالات کوجو اس واقعہ سے تعلق رکھتے ہوں مقصود ٹھہرا لیا جاتا ہے اور ثواب کا مرتبہ دوسرے درجہ پر ہوتا ہے جیسے رمضان شریف کا مہینا، یہ قرآن مجید کے نزول کی تاریخ ہے۔ مسلمان اس تاریخ کو نہایت مقدس سمجھتے ہیں۔ اس طرح عیسوی ماہ کی سترہ تاریخ یہودیوں کے نزدیک مقدس ہے اور وہ اس دن روزہ رکھتے ہیں اس دن یہودیوں کے دارالحکومت یروشلم میں انھیں شکست ہوئی تھی۔

دوم:…… بعض آسمانی غیر مادی تغیرات جیسے سورج گرہن یا چاند گرہن۔

سوم:…… کسی کی وفات کی یاد میں۔

چہارم:…… کسی شخص کا کسی خاص عمر تک پہنچ جانا یا زندگی کے کسی مرحلہ سے گزرنا۔

پنجم:…… گناہوں سے کفارہ کے لیے خواہ یہ گناہ معلوم ہوں یا معلوم نہ ہوں۔

ششم:…… بعض مثبت اور نفع بخش مقاصد کے حصول کے لیے جیسے نفس کی پاکیزگی کا روزہ، چلہ کشی کا روزہ، نفس پر عکس الٰہی کا پرتو ڈالنے کے لیے یا الہامی کیفیت کو معلوم کرنے کے لیے آسمانی دنیا سے تعلق جوڑنے کے لیے یا خارق عادت چیزوں پر قدرت پانے کے لیے یا ان دیکھی طاقتوں کو زیر اثر لانے کے لیے یابارش برسانے کے لیے یا ہوائیں چلانے کے لیے وغیرہ وغیرہ۔

ہفتم: ……اجتماعی یاانفرادی نقصان یا بیماری سے دور رہنے کے لیے جیسے طوفان کا آنا یا وبا کا پھیل جانا۔

ہشتم:…… کبھی روزہ دوسری عبادت کے لیے تمہید یا وسیلہ بنتا ہے تاکہ وہ عبادت مقبول ہو جائے، یا یہ روزہ اس عبادت کا اہم جز سمجھا جاتا ہے جیسے قربانی کے وقت کا روزہ، نذر پوری کرنے کے لیے نذر کے وقت سے ہونا، زکوٰۃ ادا کرتے وقت روزہ رکھ لینا یا صدقہ کے دینے کے وقت روزہ سے رہنا یا اعتکاف اور نماز کی ادائیگی کے وقت سے روزہ سے ہونا۔

            ان تمام اقسام میں سب سے اہم اور زیادہ مشہور قسم جو اکثر مذاہب میں رائج ہے وہ پہلی قسم ہے۔ یہ روزہ خاص موسم میں رکھا جاتا ہے ہر سال ، ہر مہینے یا ہرہفتے اس کی تکرار ہوتی ہے، اس روزہ کا تعلق مقررہ تاریخ سے ہوتا ہے اور کسی اجتماعی واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ وہ مذاہب کے معتقد جنھوں نے اس قسم کو اختیار کرکے اسے اپنے دین کا جز بنا دیا وہ صابی، مانوی، برہمن، یہودی اور مسلمان ہیں، ہم ان مذاہب میں سے چند کے متعلق بحث کریں گے اور بتائیں گے کہ ان کی شریعت میں روزہ کی نوعیت کیا ہے؟

سالانہ روزے

صابی اور مانوی مذہب:

            ابن ندیم نے اپنی کتاب الفہرست میں صابی مذہب کے متعلق ذکر کیا ہے کہ صابی مذہب میں بابل کے قدیم مذہبی اثرات اب تک باقی ہیں۔ اس مذہب کی اصل ستاروں کی پوجا ہے، صابی مذہب میں تیس دن کے روزے فرض ہیں جو آٹھ مارچ سے شروع ہوتے ہیں، اس کے علاوہ وہ نو روزے اور سات روزے رکھتے ہیں، پہلے نو روزے ۹؍دسمبر سے اور سات روزے ۷؍فروری سے شروع ہوتے ہیں، ان دو تاریخوں کے روزے ان کے نزدیک بہت زیادہ مقدس اور محترم ہیں۔ وہ اپنی عیدوں کو فطر کی ساتویں عید، فطر کی ماہواری عید، بائیس دنوں کی فطر کی عید سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان تیس دنوں کا روزہ چاند کے احترام کے لیے ہوتا ہے۔ نو دنوں کا روزہ الہٰ بخت کی عظمت کے نام پر رکھتے ہیں۔ ان کے اس الہٰ کے دوسرے نام زوش، جوپیٹر اور مشتری ہیں۔ سات دنوں کا روزہ سورج کے احترام کے لیے ہوتا ہے جو اس مذہب میں خیر کا دیوتا ہے۔ یہ تیس دنوں اور نو دنوں کے روزہ میں سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک ہر قسم کے کھانے، پینے سے رک جاتے ہیں اور سات دنوں کے روزوں میں صرف گوشت اور شراب کا استعمال نہیں کرتے۔

            ابن ندیم نے کلدانیوں اور مانویوں کے مذہب کے متعلق لکھا ہے کہ وہ قدیم بالی، مسیحی اور فارسی مذہب سے ماخوذ ہے، اس مذہب میں ستاروں کی عظمت کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ ان کے پیشوا جس کی طرف یہ مذہب منسوب ہے اس کا نام مانی بن فتق ہے۔ اس مذہب میں روزے کے اوقات مختلف ہیں،جب سورج قوس کو اتر آتا ہے اور چاند پورا روشن ہو جاتا ہے تو اس وقت مانوی مسلسل دو دن کا روزہ رکھتے ہیں، جب چاند کی پہلی تاریخ ہوتی ہے تو اس وقت بھی دو مسلسل روزے رکھتے ہیں، پھر جب چاند نکلتا ہے اور سورج دلو کی منزل کو اترجاتا ہے اور مہینے کے آٹھ دن گزر جاتے ہیں تو اس وقت مانوی پورے تیس دنوں کا روزہ رکھتے ہیں، ان کے خواص اور محترم اشخاص پیر کے دن بھی روزہ رکھتے ہیں اسی کے ساتھ وہ ہر مہینے سات روزے رکھتے ہیں۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہفتہ واری ، ماہواری، اور سالانہ روزے رکھتے، اور چاند کے مہینے میں پہلے دو دن کے روزے اور سات دن کے روزے رکھتے۔ سال میں چونتیس روزے رکھتے جن میں سے دو اس وقت کے ہوتے جب کہ سورج قوس پر اتر آتا اور دو اس وقت کے ہوتے جب کہ سورج جدی کی منزل پر اتر آتا اور مسلسل تین روزے اس وقت رکھتے جب کہ سورج دلو کی منزل پر اتر آتا۔

            ابن ندیم کی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مانوی مذہب کے متعلق فلوجل نے نقل کیا ہے کہ وہ اتوار کا روزہ اس بنیاد پر رکھتے تھے کہ وہ اپنے اعتقاد کے مطابق یہ یقین رکھتے تھے کہ قیامت اتوار کے دن قائم ہو گی،اس لیے ان کا اعتقاد تھا کہ اگر قیامت آجائے تو وہ سب روزے سے ہوں لیکن لیون لگرانڈ اور وسرمارک نے کہا کہ وہ اتوار اور پیر کا روزہ چاند اور سورج کی عظمت کے لیے رکھا کرتے تھے۔ بعد کی دلیل پہلی دلیل سے زیادہ صحیح ہے، جس طرح دوسرے روز ے ستاروں کی گردش سے متعلق ہیں، اسی طرح ان روزوں کا تعلق بھی ستاروں سے زیادہ قرین قیاس ہے، پھر اتوار کے روزے کو سورج سے نسبت دی گئی ہے۔ انھوں نے اس کا نام ایل یو س رکھا ہے، پیر کا روزہ چاند سے نسبت رکھتا ہے جس کا نام سین ہے، ان کے یہاں منگل کا بھی روزہ تھا جسے وہ مریخ کے لیے رکھا کرتے تھے اور اس کا نام ایس تھا۔ جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک سورج دیوتا اور چاند دیوی بہت زیادہ محترم تھے اس لیے کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم ان دوروزوں کو انہی کی طرف منسوب نہ کریں۔

             صابی مذہب کے متعلق ابن ندیم نے لکھا ہے۔ صابی عقیدہ کے لوگوں پر دن میں تین وقت کی نماز فرض تھی۔ پہلی نماز سورج نکلنے سے آدھ گھنٹے پہلے یا اس سے کم مدت میں شروع ہوتی تھی اور سورج طلوع ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا وقت ختم ہو جایا کرتا تھا۔ اس میں نماز کی آٹھ رکعتیں اور ہر رکعت میں تین سجدے ہوا کرتے تھے۔ دوسری نماز سورج کے زوال کے ساتھ ختم ہو جایا کرتی تھی۔ اس نماز میں پانچ رکعتیں اور ہر رکعت میں تین سجدے ہوا کرتے تھے۔ تیسری نماز دوسری نماز کی طرح تھی اور سورج غروب ہونے کے وقت پڑھی جاتی تھی، ان اوقات کا تعلق دن کے تین پہروں سے تھا۔ طلوع، نصف النہار اور غروب کا وقت۔

            نفل نمازیں وتر نماز کی طرح تین تھیں اور دن میں تین بار پڑھی جاتی تھیں۔ پہلی نماز دن کے دو بجے چاشت کی نماز کے مقابلہ میں ہے، دوسری نماز زوال کے بعد ، یہ عصر کی نماز کے مقابلہ میں ہے۔ تیسری نماز رات کے تین بجے، یہ عشاء کی نماز کے مقابلہ میں ہے، ان کی کوئی نماز طہارت کے بغیر نہیں ہوا کرتی تھی۔ مانوی مذہب کے تعلق سے ابن ندیم نے لکھا ہے کہ ان کے عقیدہ میں چار یا سات نمازیں فرض تھیں۔ پہلی نماز زوال کے وقت، دوسری نماز زوال اور سورج غروب ہونے کے درمیان، پھر سورج غروب ہونے کے بعد مغرب کی نماز اس کے تین گھنٹے کے بعد عشاء کی نماز۔

            ابن ندیم نے وضاحت کی ہے کہ یہ تمام نمازیں ستاروں کی تقدیس اور سورج کی عظمت کے لیے پڑھی جاتی تھیں۔ نمازی پانی سے یا کسی دوسری چیز سے مسح کرکے سورج کے سامنے کھڑا ہو جاتا تھا اور پھر سجدہ کرتا تھا۔ سجدہ میں وہ یہ کلمات دہراتا تھا: ‘‘ہمیں ہدایت دینے والے فارقلیط مبارک اور اس کی فوج نیرون کی تسبیح کرتا ہوں۔’’ وہ سجدہ کرنے کے بعد سیدھا کھڑا ہو جاتا اور دوسرے سجدہ میں یہ کلمات کہتا:‘‘اے روشنی کے اصل اور سراپا نور ، تیری تسبیح کرتا ہوں۔’’

روزہ ہندو مذہب میں:

            برہمن اور بدھ مذہب کے روزے سورج اور چاند کی منزلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ برہمنوں میں جوگی خزاں اور بہار کے شروع موسم میں روزہ رکھتے ہیں۔ کھتری سردی اور گرمی کے شروع موسم کے علاوہ ہر چاند ماہ کے شروع دو دنوں میں اور چودھویں تاریخ کا روزہ رکھتے ہیں۔ ان کی مقدس کتاب ‘‘وید’’ میں ہے کہ وہ سورج گرہن کے وقت کھانے پینے، جنسی تعلق اور نماز سے رک جاتے ہیں۔ یہ عمل ان کے نچلے طبقہ میں پایا جاتا ہے لیکن برہمن جوگی اور کھتری صرف اتنے واجب پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس کے علاوہ گھر میں کھانے کی جتنی قسمیں ہو سکتی ہیں ان سب سے رک جاتے ہیں۔ سورج گرہن کے وقت جن برتنوں میں صدقہ کرتے ہیں انھیں توڑ ڈالتے ہیں۔

            ان کی شریعت برہمن کے تیرہ پجاریوں پر روزہ کی حالت میں اس امر کو فرض کر دیتی ہے کہ سورج کے ڈوبنے کے وقت سے شفق کے غائب ہونے تک کھانے، پینے، نیند اور سفر کرنے سے باز رہیں اور ہندو مذہب میں جس قدر فرقے ہیں ان سب کی اصل سورج کی تقدیس پر ہے ۔اس مذہب کے روزہ دار سورج غروب ہونے سے اس کے نکلنے تک کھانے، پینے سے پرہیز کرتے ہیں اور پھر اس وقت روزہ توڑتے ہیں جب پورا سورج آسمان پر روشن ہوجاتا ہے۔ اگر آسمان پر بادل ہوں اور سورج ان کے پیچھے جائے تو وہ سورج نکلنے کا انتظار کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ پورے آب و تاب کے ساتھ چمکنے لگے، اس سلسلہ میں عجیب بات یہ ہے کہ یہی طریقہ شمالی امریکہ کے سنانیموگ قبائل میں بھی رائج ہے۔

            بدھ مذہب میں چاند کے مہینے کے حساب سے چار دن کے روزے رکھے جاتے ہیں۔ چاند کی پہلی تاریخ، نویں تاریخ، پندرھویں تاریخ اور بائیسویں تاریخ۔ یہ روزے سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک رکھے جاتے ہیں، وہ ان چار دنوں میں پورا آرام کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے نزدیک افطاری کی تیاری حرام ہے، وہ کھانے کا انتظام سورج نکلنے سے پہلے کرتے ہیں۔

روزہ یہودی مذہب میں:

            یہودی مذہب میں روزہ کی قسمیں بے شمار ہیں، یہودیوں کا سب سے اہم روزہ عیسوی ماہ کی دسویں تاریخ کا روزہ ہے جسے وہ کفارے کے دن کا روزہ کہتے ہیں۔ یہ روزہ یہودیوں پر اپنے گناہوں سے معافی کے تعلق سے فرض کیا گیا ہے۔ یہودی پرانے زمانہ میں ہفتہ کے دن اور ہر چاند ماہ کی پہلی تاریخ کو روزہ رکھا کرتے تھے، وہ ان دنوں میں کوئی کام نہیں کیا کرتے تھے، اس کے بعد روزہ کا حکم ختم ہو گیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ ان دنوں میں صرف کام نہ کریں۔ ان دنوں میں روزہ سے معافی اس واقعہ کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ پہلے زمانہ میں ان دنوں کا روزہ رکھا کرتے تھے کیونکہ منسوخی کا حکم اس وقت صادر کیا جاتا ہے جب کہ اس حکم پر پہلے سے عمل کیا جاتا رہا ہو۔ ان دو دنوں کے روزوں کا چاند کی حرکتوں سے گہرا تعلق ہے۔ میں نے پہلے روزہ کے متعلق کافی وضاحت کی ہے لیکن ہفتہ کا روزہ اس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ ہفتہ کا آخری روز ‘‘سنیچر’’ ان کے عہد قدیم میں چاند کی اپنی منزلوں میں داخل ہونے سے تعلق رکھتاتھا، چنانچہ ان کے آسمانی اوقات کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر حصہ چاند کی چار منزلوں میں سے ایک سے تعلق رکھتا ہے۔ یہودیوں کا یہ روزہ ایک حیثیت سے بدھ مذہب کے چارروزوں سے مطابقت رکھتا ہے جسے وہ مہینا میں چار مرتبہ رکھتے ہیں۔ یہودیوں میں کچھ یہودی ساتویں مہینے کے پہلے دن روزہ رکھتے تھے اور عوام ان کے لیے کھانا تیار کرکے بھیجا کرتے تھے۔ یہودی ساتویں مہینے کی چوبیس تاریخ کو بھی روزہ رکھا کرتے تھے اور اس دن کے روزہ کو ایک تقریب کی شکل میں مناتے تھے ۔ بنی اسرائیل اس دن اپنے تمام بدن پر راکھ مل لیا کرتے تھے۔

            جب یہودیوں کو بابل جلا وطن کر دیا گیا تو اپنے تاریخی واقعات کے سلسلہ میں کئی روزے رکھا کرتے تھے اور ہر روزہ کو اس کی تاریخ سے نسبت دیا کرتے تھے۔ ان کے روزوں میں سے چوتھا روزہ ہے جو جولائی کی سترہ تاریخ کو پڑتا ہے، اس تاریخ کو یروشلم ‘‘بیت المقدس’’ برباد کر دیا گیا اور ‘‘ہیکل’’ ڈھا دیا گیا۔ چھٹا روزہ ‘‘استیر’’ کا ہے جو مارچ کی تیرہ تاریخ کو پڑتا ہے، یہ روزہ ‘‘ہامان’’ اور ‘‘استیر’’ کے واقعہ کی مناسبت سے رکھا جاتا ہے۔ ‘‘ہامان’’ کسی فارس کے بادشاہ کا وزیر تھا، اس نے یہودیوں کو ہلاک کرنے کی ٹھانی لیکن بادشاہ کی ملکہ ‘‘استیر’’ کو اس سازش کا علم ہو گیا۔ ‘‘ہامان’’ کی تدبیر ناکام رہی۔ یہ ‘‘ہامان’’ فرعون کے وزیر کے علاوہ دوسرا ‘‘ہامان’’ ہے۔ ساتواں روزہ ستمبر کی تیسری تاریخ کا ہے اس تاریخ کو یہودیوں کے آخری سربراہ ‘‘جدلین’’ قید کے بعد قتل کر دیے گئے تھے۔ دسواں روزہ وہ ہے جو ‘‘یروشلم’’ پر حصار ڈالنے کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ یہودی یہ روزہ جنوری کی دس تاریخ کو رکھتے ہیں، اس کے علاوہ یہودی کئی مستحب روزے رکھتے ہیں جن کا تعلق ان کے بزرگوں کی وفات کے دن سے ہے، جیسے موسیٰ علیہ السلام ، ہارون علیہ السلام یا وہ شہداء جو دین کی خدمت میں شہید ہوئے، اس طرح روزوں کی تعداد پچیس تک پہنچ جاتی ہے۔

روزہ اسلام میں:

            اسلام نے لوٹ کر آنے والے روزوں کی کئی قسمیں کی ہیں، کچھ روزے سال میں ایک مرتبہ رکھے جاتے ہیں، کچھ روزے مہینے میں ایک مرتبہ رکھے جاتے ہیں اور کچھ روزے ہفتہ ہفتہ رکھے جاتے ہیں، ان اقسام میں جو روزہ رمضان میں رکھا جاتا ہے، وہ روزہ فرض ہے، ہر ہفتہ، پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھا جاتا ہے، یہ روزہ مستحب ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر پیر اور جمعرات کے دن روزہ سے ہوتے تھے، ماہ رجب کے ابتدائی تین دنوں میں روزہ رکھنا مستحب ہے، تین دنوں کا روزہ مقید نہیں ہے بلکہ اس مہینے میں زیادہ روزے رکھنا بھی مستحب ہے، ماہِ شعبان میں روزے رکھنا مستحب ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں: میں نے نہیں دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ شعبان کی طرح کسی دوسرے مہینے میں زیادہ روزے رکھے ہوں۔

            ماہ شوال کے چھ روزے جو شوال کی دوسری تاریخ سے شروع ہوتے ہیں، مستحب ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ جس نے ماہ رمضان کے روزے رکھے اور اس کے ساتھ ماہِ شوال کے چھ روزے رکھے گویا اس نے سال بھر کے روزے رکھ لیے، ماہ ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو جو یومِ عرفہ ہے روزہ رکھنا مستحب ہے لیکن یہ روزہ ان لوگوں کے لیے ہے جو حج میں نہ ہوں۔ حاجی کے لیے جو عرفات میں ہے اس کے لیے اس دن کا روزہ رکھنا منع ہے۔ محرم کے مہینے کا روزہ رکھنا مستحب ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ رمضان کے روزے کے بعد کون سے روزے افضل ہیں؟ انھوں نے کہا: وہ مہینا جسے تم محرم کے نام سے پکارتے ہو۔ ہر چاند ماہ کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کا روزہ مستحب ہے۔ حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم ہر مہینے ایام بیض کے یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے رکھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دنوں کے روزے سال بھر کے روزوں کا ثواب رکھتے ہیں۔ ان دنوں کو ایامِ بیض اس لیے کہتے ہیں کہ ان دنوں میں چاند پورا روشن ہوجاتا ہے۔ اس طرح ماہ محرم کی نویں، دسویں اور گیارہویں تاریخ کا روزہ مستحب ہے۔

            روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی ایک جماعت کو مدینہ منورہ میں دیکھا کہ وہ یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روزہ کے متعلق دریافت فرمایا۔ انھوں نے کہا: ہم یہ روزہ اس دن کی یاد میں رکھتے ہیں جس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کے فریب سے نجات دی تھی اور ان کے لیے مصر سے ہجرت کو آسان کر دیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھارے مقابلہ میں ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حق کے زیادہ سزاوار ہیں اور میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس روزہ سے روزہ دار کے گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ کر دیں گے۔ آپؐ نے اس دن کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کے لیے فرمایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ یہودیوں کی مخالفت فرماتے تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دسویں تاریخ کے ساتھ نویں تاریخ کا روزہ بھی شامل کر لیا جائے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور یہ روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے کہا: ‘‘یا رسول اللہ! یہ وہ روزہ ہے جس کی یہود اور نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان شاء اللہ آئندہ ہم نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے۔ راوی کہتا ہے کہ آئندہ سال نہیں آیا کیونکہ دوسرے سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ سے ایک دن قبل اور ایک دن بعد مباح فرمایا تھا تاکہ یہود کی پوری مخالفت ہو جائے۔ علامہ ابن قیمؒ نے عاشورہ کے متعلق جتنی احادیث وارد ہیں ان کے متعلق یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اول بہتر یہ ہے کہ عاشورہ سے قبل اور بعد کا روزہ رکھ لیا جائے، دوسری صورت میں نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے، تیسری صورت یہ ہے کہ محرم کے پورے دس روزے رکھے جائیں۔

            یہود کے روزوں کے اوقات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود کے عاشورہ کا روزہ ہمیشہ دسویں محرم کو نہیں پڑتا تھا۔ صرف اس سال اس روزہ کا وقوع دسویں محرم کو ہو گیا تھا جس کی طرف حدیث اشارہ کرتی ہے کیونکہ یہود کی جنتری کا تعلق عیسوی جنتری سے ہے جو اسلامی جنتری سے مختلف ہے، عاشورہ کے روزہ کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ عاشورہ کا روزہ جاہلی عرب سے تعلق رکھتا ہے اور یہود کے روزہ سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: عاشورہ کے دن قریش جاہلیت میں روزہ رکھا کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہ روزہ رکھا کرتے تھے۔ جب آپﷺ ؐمدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں بھی یہ روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اس روز ہ کا حکم فرمایا۔ جب رمضان شریف کا روزہ فرض ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو چاہے اس تاریخ کا روزہ رکھے جوچاہے اسے ترک کر دے۔

            مسلمانوں کے کچھ فرقوں نے روزہ کی کچھ قسموں کو اجتماعی حالات کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ وہ ان دنوں انہی حالات کی مناسبت سے واقعات کی یاد میں روزہ رکھتے ہیں۔ ایک فرقہ کے کچھ لوگ ماہ محرم کی شروع تاریخ کے دس روزے رکھتے ہیں، رات کا قیام کرتے ہیں۔ اوراد پڑھتے ہیں، بدن کو تکلیف دیتے ہیں، وہ یہ سب کچھ اہل بیت کی یاد میں کرتے ہیں جنھوں نے کربلا میں شہادت پائی۔ مسلمان فقہاء کے نزدیک نبی، شہید اور کسی نیک شخص کی یاد میں کسی قسم کا روزہ نہ واجب ہے اور نہ ہی مستحب۔

            اسلامی روزوں سے ہٹ کر وہ روزے جو تکرار کے ساتھ آتے ہیں ان کی دو قسمیں ہیں، پہلی قسم کا تعلق اجتماعی حالات سے ہے، دوسری قسم کا تعلق موسمی حالات سے ہے لیکن وہ قسم جس کاتعلق اجتماعی حالات سے ہے وہ روزوں کی اہم قسم ہے، ان کی اہمیت زیادہ ہے اور یہ روزے تعداد میں زیادہ ہیں، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان روزوں کا تعلق زندگی کے اہم واقعات سے ہے۔ ان روزوں سے ذہن میں گزشتہ واقعات کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ یہ روزے اکثر آسمانی مذہبوں میں پائے جاتے ہیں، اگر چہ ان روزوں کی شرعی حکمت واقعات کے مقابلہ میں زیادہ اہمیت رکھتی ہے، تاہم ان روزوں کو متعلقہ واقعات سے منسوب کیا جاتا ہے۔ دوسری قسم کے روزے جن کا تعلق موسمی حالات سے ہے، اصحاب علم نے ان روزوں کے اسباب میں مختلف آرا کا تذکرہ کیا ہے۔ کسی نے اسے ستارہ پرستی کے مظاہر سے وابستہ کیا ہے اور کسی نے چاند و سورج کو عظمت کا نشان تسلیم کرکے روزوں کا ان سے عقیدت کا رشتہ جوڑ دیا ہے۔ انسانی فکر وخیال میں روزوں کی یہ شکل اور ترویج کا ابتدائی نقطہ یوں رونما ہوا کہ انسان نے جب کائنات پر نظر ڈالی تو اسے بہت سی چیزیں اپنے سے زیادہ قوی نظر آئیں جن کے سامنے اسے اپنی کمزوری کا احساس کرنا پڑا، پھر اسی احساس کے پیش نظر انسان نے روزے کے مختلف ڈھنگ اختیار کیے جن میں تزکیہ نفس کم اور جسمانی ریاضت کا تصور زیادہ تھا۔