رستم بننے تک

مصنف : سید علی رضا

سلسلہ : گوشہ اطفال

شمارہ : ستمبر 2005

             نیازی نے اتوار میگزین مضبوطی سے اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما ہوا تھا اور اس کا یوں بغور مطالعہ کر رہا تھا جیسے کوئی اناڑی ڈاکٹر مریض کی ایکسرے رپورٹ میں گھور گھور کر پتھری دریافت کر رہا ہو۔

            میں خاصی دیر سے میگزین کے لیے منتظر بیٹھا تھا۔ جب نیازی کا اس سے علیحدہ ہونے کا کوئی پروگرام نہ لگا تو مجھ سے رہا نہ گیا: "آخر تم اس میں کیا پڑھ رہے ہو؟ بچوں کے صفحے سے تمہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ادب تمہارے پلے نہیں پڑتا، سیاست تمہارا پسندیدہ موضوع نہیں ہے اور فلموں کا صفحہ اس میں آتا نہیں کہ تم اتنی دیر لگاؤ۔"اب بھی وہ بند منہ کا پھوڑا بنا بیٹھا رہا تو میں نے میگزین جھپٹ لیا۔اے یہ کیا بدتمیزی ہے؟" وہ چیخ پڑا۔تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم دیکھ کیا رہے تھے؟" میں نے اس کے کھولے ہوئے صفحے کو تجسس سے دیکھتے ہوئے کہا۔جان بنانے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس میں ازاربند ڈال رہا تھا اب تو صرف پیر ڈالنے کی دیر ہے۔" وہ بولا۔"لاحول ولا قوۃ یہ کیا بے ہودگی ہے۔" میں نے کہا"تمہارے لیے ہو گی، میرے لیے اہم بات ہے خیر تمہاری آسانی کے لیے عرض ہے کہ میں بہت جلد آرنلڈ ہوویئرز نیکر(Arnold Who wear Nicker ایسا باڈی بلڈر بننے والا ہوں۔"یہ کون ہے بھئی؟" میں حیران رہ گیا۔

             "بھئی وہی جو انگلش فلموں میں آتا ہے" وہ بولا اور میری ہنسی چھوٹ گئی۔احمق وہ آرنلڈ شیوارزنگر ہے۔"شلوار اور نیکر میں کیا رکھا ہے، آرنلڈ تو ہے ناں!"میں اب سمجھا کہ وہ شیوارز کو شلوار سمجھا ہے۔ میں ہنستے ہوئے بولا:"کیسے بن جاؤ گے تم اس جیسے باڈی بلڈر میری معلومات کے مطابق اس کے بازو کی مچھلیاں 22انچ کی ہیں جبکہ تمہارے بازو پر مچھلیاں نہیں مکھیاں ہیں،وہ بھی ڈھائی ڈھائی انچ کی۔ ‘‘اڑالو مذاق !لیکن جب میرے پٹھے بن جائیں گے تو تمہارا مجھ سے دم نکلا رہے گا!رہ گئی بات جان کیسے بناؤں گا...... تو اس کا جواب ہے.......یہـ!’’اس نے میگزین مجھ سے چھین کر ایک جگہ انگلی رکھ دی۔ وہ الٹی سیدھی قسم کی اشتہاری دواؤں کے اشتہارات تھے جو ہر اتوار میگزین میں آتے ہیں۔اچھا اچھا تو تم یہ استعمال کرو گے..... لیکن کسی سے مشورہ وشورہ کیا ہے؟ میں نے سنا ہے یہ دوائیں خاصی حد تک مضرِ صحت ہوتی ہیں اور ان کے خطرناک اثرات (Side Effects) ہوتے ہیں۔‘‘ارے یار جب یہ لکھا ہے کہ‘‘نو سائیڈ افیکٹس’’تو پھر مشورہ کیسا؟’’

             ‘‘ٹھیک ہے لیکن تم کون سی دوا استعمال کرو گے؟’’ میں نے دلچسپی سے اشتہارات پڑھتے ہوئے پوچھا۔

             یہ والی جس پر ‘‘قوت کا بحر اوقیانوس’’لکھا ہے پھر میں مسٹر کراچی اور مسٹر پاکستان کے مقابلے جیتوں گا میرے بازو کی مچھلیاں صرف مچھلیاں نہیں رہیں گی، وہیل مچھلیاں بن جائیں گی، میں کسی کو اپنے مسلز دکھایا کروں گا تو پٹھوں کے زور کے باعث میرے کپڑے پھٹ جایا کریں گے اور وہ جو تمہارا دوست ہے ناں.... مخمور مغفور....... کیا نام تھا اس کا..." وہ یاد کرنے لگا۔مسرور!‘‘ہاں!جس نے ہمیں ان غنڈے لڑکوں سے بچایاتھا!وہ میرے آگے پانی بھرتا نظر آئے گا!’’اچھا اور یہ سب کب ہوگا؟’’جب میں دوا استعمال کرنا شروع کر دوں گا۔!’’اور وہ کب شروع کروگے؟‘‘بس یار’’اس نے آہ بھری۔‘‘جب ابا پیسے دینا شروع کر دیں گے!’’

٭٭٭

            ‘‘السلام علیکم’’اس نے بڑی شائستگی سے سیلز مین کو سلام کیا۔جی بات اصل میں کچھ یوں ہے کہ یہ میرا بڑا عزیز دوست ہے....’’نیازی نے نرم لہجے میں کہنا شروع کیا۔‘‘یہ بڑا شرمیلا ہے، خود بات نہیں کر پاتا، اسی لیے مجھے ساتھ لایا ہے’’میں نیازی کو گھورنے لگا۔ اس کی چال میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔مسئلہ یہ ہے کہ میرا پیارا دوست بہت کمزور ہے’’اس نے کہا اور اس کی چال بھانپ کے میری آنکھیں پھٹ گئیں....عمر ما شاء اللہ 19ہونے کو ہے لیکن وزن صرف 42 کلوگرام ہے....’’

             ‘‘نیازی’’میں نے ڈانٹا۔دیکھا آپ نے!مجھ پہ خفا ہو رہا ہے کہ میں نے یہ بات آپ کو کیوں بتائی.... اصل میں اس اتوار کو اس نے اخبار میں نئی دوا کا اشتہار پڑھا، وہ جو ہے اپنا طاقت کا بحر مردار!اوہو....میرا مطلب ہے قوت کا بحرِاوقیانوس!

             ‘‘مم مگر...’’میں نے کچھ کہنا چاہا مگر نیازی نیچ پن کے عروج پر تھا۔مگر وگر نہیں کرو، صحت کے معاملے میں شرم کیسی!خیر بھائی صاحب آپ دوا دے دیں میرا دوست آپ کا شکرگزار رہے گا!’’ارے اس میں شکریہ کیسا، یہ توہمارا‘‘بجنس’’ہے... آپ ٹھہریں میں اندر سے دوا لے کر آتا ہوں!’’سیلز مین مجھے ترس کھائی نگاہوں سے دیکھتا ہوا اندر بھاگ گیا۔

             میں نے بری طرح دانت پیس کر نیازی کو گھورا۔آہ ہا ہا!کیاخوب!’’کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ علی! گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا!’’اس نے لہک کر شعر پر ہاتھ صاف کیا۔یہ تم نے کیا حرکت کی ہے؟ دوا مجھے لینا تھی یا تمہیں؟42کلو وزن میرا ہے یا تمہارا؟‘‘میں نے چیخ کر کہا۔یہ لیں.... تین سو روپے دے دیں!’’سیلز مین دوائی کا ڈبہ لے آیا... میرا دل چاہا کہ نیازی کا ٹینٹوا دبا دوں۔

٭٭٭

            ‘‘نیازی بیٹے!’’نیازی کی امی پریشانی کے عالم میں اسے آواز دیتی آئیں۔ ان کے ہاتھ میں نیازی کے دودھ کا گلاس تھا۔’’دیکھو بیٹا یہ تمہارے گلاس سے کیا نکلا ہے ’’ماسی کہہ رہی ہے ہفتہ بھر سے یہ عجیب و غریب شے تمہارے دودھ کے گلاس سے نکلتی ہے!دیکھو تو کیا ہے آخر!’’میں نے دیکھا، ان کی ہتھیلی پر ایک عجیب سی چیز رکھی تھی، جیسے مکڑی کا ٹوٹا پھوٹا جالا، اس میں کچھ کنکر سے بھی شامل تھے۔یا یا یا یا یہ....’’نیازی سٹ پٹا گیا۔ پھر سنبھل کر بولا۔ ‘‘پتا نہیں امی.... کیا نکل رہا ہے!‘‘یہ کیا چکر ہے؟’’میں نے اسے گھورا۔

             ‘‘یار وہی طاقت کی دوا ہے۔ سفوف ہے دودھ میں گھول کر پینا ہوتا ہے۔ تھوڑا سا سفوف دودھ میں نیچے بیٹھ جاتا ہے اور ایسی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ویسے یار... اس دوا سے میرا وزن تو بڑھ رہا ہے ، بھوک بھی خوب لگتی ہے،البتہ پیٹ میں دردمحسوس ہوتا ہے۔‘‘ہوں’’اس کا مطلب ہے یہ دوا کام کر رہی ہے، کرتے رہو استعمال۔’’لیکن پیٹ میں ہوا بہت بھر جاتی ہے،‘‘دیکھو’’اس نے اپنے مٹکے جیسے پیٹ کی نمایش کی۔تو پھر؟‘‘یہ.... یہ دیکھ’’اس نے نیا میگزین میرے آگے پھیلایا۔ نئی دوا کا اشتہار!سوکھی کلائیوں، پچکے گالوں اور دبلے بازوؤں سے دس دن میں چھٹکارا!بس اب یہ بھی استعمال کروں گا!’’جو کرنا ہے کرو!میرا دماغ مت چاٹو!’’وہ اشتہار نگاہوں کے سامنے پھیلا کر اپنے آپ کو ہیوی ویٹ کے روپ میں دیکھنے لگا اور میں اکتا کر واپس ہو گیا۔

٭٭٭

            میں نیازی کے کمرے میں داخل ہوا تو عجیب منظر تھا۔ پورا کمرہ دھویں اور بدبو سے بھرا ہوا تھا۔ دھویں میں مجھے نیازی چارپائی پر الٹا لیٹا ہوا نظر آیا۔ اس کا چہرہ فرش کی جانب تھا اور ایک ہٹا کٹا، بکھرے بالوں اور عجیب سے کپڑوں میں ملبوس شخص اس کی ناک میں دھونی دے رہا تھا۔ یہ دھونی پلیٹ میں جلتی ہوئی کسی چیز سے نکل رہی تھی۔ نیازی کی امی بھی پاس کھڑی تھیں اور نیازی کے گلے سے جو خوف ناک آوازیں نکل رہی تھیں، ان پر آنسو بہا رہی تھیں۔ میں نے سہمے اور غم زدہ لہجے میں معاملہ پوچھا تو بولیں: "علی بیٹا، تمہارے دوست کو کوئی دودھ میں تعویذ گھول کر پلاتا رہا ہے .... کل میں نے خود کاغذ کا پرزہ اور جالا سا اس کے گلاس میں دیکھا تھا اور شام کو اسے پیٹ میں شدید درد ہوا۔ ہاتھوں اور ٹانگوں میں اکڑن ہونے لگی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ کسی دشمن نے میرے لاڈلے پر جادو کر دیا......اسی لیے اس عامل کو بلایا ہے....‘‘انہوں نے اتنا کہا تھا کہ نہ جانے نیازی کی نظر مجھ پر کیسے پڑ گئی۔وہ بری طرح بلبلایا: ‘‘آگئے ہو... آگئے ہو۔’’عامل نے یہ سنا تو زور سے ایک نعرہ مارا...پتا نہیں کیا جنتر منتر پڑھا اور ‘‘شوں.... شوں’’کرکے ایک تھوک بھری پھونک نیازی کے چہرے پر ماری۔ ساتھ ہی اس نے اپنا موٹا سا ڈنڈا نیازی کی کمر پر رسید کیا اور نیازی یوں چیخا جیسے قربانی کا بکرا ہو۔ میں نے غور کیا تو نیازی کو چارپائی سے باندھ رکھا تھا اور وہ حرکت نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی آنکھوں اور ناک سے بے تحاشا پانی بہ رہا تھا، عامل سمجھ نہیں رہا تھا کہ نیازی نے مجھے دیکھ کر نعرہ لگایا ہے، وہ تو یہ سمجھا کہ نیازی کے اندر کوئی بھوت پریت بولا ہے، اسی لیے وہ خوش ہوا تھا، اس دوران میں اس نے ڈنڈے کا ایک اور‘‘وار’’اس کی کمر پر کیا اور نیازی بری طرح سے بلبلایا!اور اب اس کا موڈ ڈنڈے کے زور سے نیازی سے بھوت نکالنے کا تھا۔

            یہ ٹھیک تھا کہ یہ سب کچھ نیازی کی اپنی حماقتوں کا نتیجہ تھا لیکن پھر بھی وہ نیازی تھا... میرا دوست....اور نہیں تو کم از کم ایسی حرکتیں تو کرتا ہی تھا جس کی وجہ سے میں کہانی لکھ لیتا تھا... اسی لیے میں آگے بڑھا۔ عامل کے ہاتھ سے اس کا ڈنڈا کھینچا اور دھونی والی پلیٹ کو ہاتھ مار کر گرا دیا اور گرج کر بولا: ‘‘ہاں آگیا ہوں میں...’’اور پھر آؤ دیکھا نہ تاؤ، عامل کے ہاتھ سے ڈنڈا چھینا اور ایک بھرپور وار عامل کی ٹانگوں پر کیا۔ عامل کے لیے یہ حملہ بہت اچانک تھا۔ وہ بہت ہی بزدل اور احمق ثابت ہوا۔ اسی وقت سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کمر ے سے باہر نکل بھاگا۔میں نے کمرے کا پنکھا چلایا۔ کھڑکیاں کھولیں اور نیازی کو بھی کھولا اور کہاـ:‘‘اس سے پہلے کہ تمہاری امی مجھے بھی جن بھوت سمجھے۔ ساری بات خود سمجھا دو۔’’نیازی نے شوں شوں کرتے ہوئے جو کچھ کہا وہ زبان تو میں لکھ نہیں سکتا، البتہ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ غلطی سے نیازی نے دوا کا سفوف پڑیا سمیت دودھ میں ڈال دیا تھا اور اس پڑیا کو اس کی امی تعویذ سمجھیں اور بس پھر آگئی اس کی شامت...یہ کہانی سن کر اس کی امی عامل کی طبیعت درست کرنے کو بھاگیں اور میں نیازی کی طرف متوجہ ہوا، جو اپنی ڈیڑھ انچ کی مچھلیوں کو دیکھ رہا تھا۔ اس کا یہ جنون دیکھ کر میں نے اپنا سر پیٹ لیا اور جب میں نے اس کے یہ الفاظ سنے تو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔‘‘علی... تم نے اس جعلی عامل سے میری جان چھڑائی....بہت اچھا کیا۔ کم بخت کے دھواں سے میرے پھیپھڑے ‘‘سٹیم روسٹ’’ہو گئے ہیں۔ لیکن میں آرنلڈ بن کر چھوڑوں گا.... اور پتا ہے آرنلڈ بن کر سب سے پہلے کس کا کچومر نکالوں گا .... اسی عامل کا...’’اور وہ درد سے کراہتے ہوئے اپنی کمر سہلانے لگا۔