با مقصد شرارت

مصنف : نعیم احمد بلوچ

سلسلہ : گوشہ اطفال

شمارہ : ستمبر 2004

یہ کہانی جو آپ پڑھ رہے ہیں زیادہ پرانے زمانے کی نہیں ہے ۔ یہ کہانی فرضی بھی نہیں ہے ’ بلکہ سچی ہے ۔ اس کا ایک لفظ بھی جھوٹا نہیں ۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب یثرب شہر کے لوگ تیزی سے اسلام قبول کر رہے تھے ۔ شہر کے سارے سردار مسلمان ہو چکے تھے ۔ اسلام کی تبلیغ کا یہ کا م ایک عظیم صحابی کر رہے تھے’ مگر ذرا ٹھہریئے! کیا آپ کو معلوم ہے ‘‘ صحابی ’’کسے کہتے ہیں ؟ اگر معلوم نہیں تو ہم بتائے دیتے ہیں ۔

ہمارے پیارے نبی اور اللہ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ نے جب عرب میں اسلام کی تعلیم دی تو جن لوگوں نے آپ کی تعلیم کو سچ مان آپ سے اسلام سیکھا وہ صحابی کہلائے ۔ جو صحابی آپ سے جتنی زیادہ تعلیم حاصل کر سکا ’ وہ اتنا ہی بڑ ا صحابی کہلایا ۔

اب ہم واپس اپنی کہانی کی طرف آتے ہیں ۔ تو جو صحابی یثرب میں اسلام کی تبلیغ کر رہے تھے ’ ان کا نام مصعب بن عمیر ؓ تھا ۔ ان کو حضرت محمد ﷺ نے خود یثرب بھیجا تھا ۔ آپ ان دنوں ابھی مکہ ہی میں رہتے تھے ۔

یثرب کے ایک قبیلے کا نام بنو سلمہ تھا ۔ اس کے سردار عمرو بن جموح تھے ۔ یہ ابھی اسلام نہیں لائے تھے ’ لیکن ان کی بیوی او رتینوں بیٹے مسلمان ہو چکے تھے ۔ عمرو کو اس بات کا علم نہ ہو سکا کہ ان کے گھر کے تمام لوگ مسلمان ہو گئے ہیں ۔

ایک دن عمرو نے اپنے بیٹے معاذ کو مصعب بن عمیر ؓ سے باتیں کرتے دیکھا ۔ انہوں نے گھر آکر اپنی بیوی ’ ھند ؓ سے کہا :

‘‘تمہیں اپنے بیٹوں کا خیال رکھنا چاہیے ۔ کہیں یہ نہ ہو کہ وہ مصعب بن عمیر کی باتوں میں آکر اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ دیں !’’

بیوی نے کہا :‘‘آپ کا حکم سر آنکھوں پر ’ لیکن کیا آپ وہ بات سننا پسند کریں گے جو آپ کے بیٹے معاذ نے مصعب بن عمیر سے سنی ہے ؟’’

عمرو بن جموح غصے سے بولے :‘‘اچھا تو اس کا مطلب ہے کہ میر ا بیٹا اپنے دین کو چھوڑ چکا ہے !……اور مجھے اس کا علم بھی نہ ہو سکا !’’

ان کی بیوی نے فوراً کہا :‘‘ یہ ضروری نہیں کہ جو مصعب سے ملے وہ اس کا دین بھی مان لے …… ہمارے بیٹے معاذ نے مصعب کو ایک محفل میں جو بات بیان کرتے سنا ’اسے یاد کر لیا …… آپ ذرا سنیں تو سہی کہ آخر یہ شخص لوگوں کو کیا سکھا رہا ہے ۔’’

‘‘ہمیں اس شخص کا علاج کرنا پڑے گا ۔’’ وہ غصے سے بولے ۔ پھر اپنے بیٹے کو آواز دینے لگے ۔

بیٹے نے آکر ان کے کہنے پر وہ باتیں سنائیں جو مصعب بن عمیر نے بیان کی تھیں ۔ ان میں سورہ فاتحہ بھی تھی ۔ سورہ فاتحہ سن کر وہ کہنے لگے ‘‘یہ تو بہت عمدہ کلام ہے ! کیا اس کی ہر بات اس طرح کی ہوتی ہے ؟’’ معاذ نے کہا :‘‘اس سے بھی شاندار ’ ابا جان ایسی ہی باتیں سن کر تو سارے لوگ مسلمان ہو رہے ہیں …… کیا آپ ان پر ایمان نہیں لائیں گے ؟’’

بیٹے کی بات سن کر وہ تھوڑی دیر خاموش رہے ۔ پھر بولے :‘‘دین بدلنا کوئی چھوٹی بات نہیں بیٹا! یہ کام بڑی سوچ سمجھ کا ہے ۔ اس لیے میں اپنے معبود سے مشورہ لیے بغیر ایسا نہیں کر سکتا ۔’’

 بیٹے نے کہا ۔ ‘‘ لیکن ابا جان آپ کا معبود تو ایک لکڑی کا بت ہے ’ اس سے آپ کیسے مشورہ کریں

 گے ؟’’

باپ غصے سے بولا:‘‘تم میرے معبود ‘‘منات’’ کی توہین نہ کرو …… اور میر ا فیصلہ اچھی طرح سن لو ’ جب تک میں اس سے مشورہ نہیں کرلیتا ’ اپنا دین نہیں چھوڑوں گا !’’

معاذ نے دیکھا کہ ان کے والد سیدھے وہاں سے اپنے بت منات کے پاس گئے ہیں ۔

اس زمانے میں قبیلوں کے سرداروں نے اپنے بت علیحدہ سے بنا رکھے تھے ۔ وہ انہیں گھر کے کسی خاص حصے میں رکھتے تھے ۔ معاذ نے اپنے والد کو منات کے پاس دیکھا ۔ وہ اس سے پوچھ رہے تھے کہ کیا وہ مصعب بن عمیر کی باتوں پر ایمان لے آئیں لیکن جب بت نے کوئی جواب نہیں دیا تو بڑے افسردہ ہوئے اور اس سے معافی مانگتے ہوئے کہنے لگے ۔ ‘‘ میر ے پیارے منات’ آپ ناراض نہ ہوں ’ میں آیندہ ایسی کوئی بات آپ سے نہیں کروں گا ۔’’

معاذ یہ منظر دیکھ کر سمجھ گئے کہ اب ان کے والد ایمان نہیں لائیں گے ۔ وہ افسردہ دل کے ساتھ اپنے بھائیوں کے پاس گئے ۔ ان کے بھائیوں کے نام معوذ او رخلاد تھے ۔

تینوں بھائیوں کو جب کوئی راستہ نہ سو جھا تو وہ اپنے دوست معاذ بن جبل کے پاس پہنچے ۔

چاروں دوست آپس میں مشورہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ جب تک منات کا خوف بڑے میاں کے دل سے نہیں نکلتا وہ ایمان نہیں لائیں گے ۔ آخر انہوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کی ایک ترکیب نکال ہی لی ۔

ایک رات عمرو کے گھر سے تین سائے نکلے ۔ تھوڑی دیر بعد ان کے ساتھ ایک اور سایہ آ ن ملا ۔ ان سب کا رخ گندگی کے ایک گڑھے کی طرف تھا ۔

ان چاروں نے ایک لمبی سی بھاری چیز بھی اٹھا رکھی تھی۔ اسے انہوں نے گندگی کے گڑھے میں پھینک دیا اور واپس چل دیے ۔ انہیں یہ کام کرتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا تھا ۔

صبح ہوئی تو عمرو اپنے بت کی پوجا کرنے اس کے پاس پہنچے لیکن وہ سخت حیران ہوئے ۔ انکا بت منات اپنی جگہ سے غائب تھا ۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ منات خود تو کہیں نہیں جاسکتا ۔ ‘‘تو پھر کس نے اسے غائب کیا ؟’’وہ اپنے دل سے پوچھنے لگے ۔ گھر والوں سے پوچھا توانہوں نے بھی یہ کہا کہ بھلا ہم آپ کے بت کے بارے میں کیا بتا سکتے ہیں ؟ آخر وہ اسے تلاش کرنے نکلے ۔ پوچھتے پوچھتے وہ گندگی کے گڑھے تک جاپہنچے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کا بت سر کے بل گندگی میں پڑا ہوا ہے ۔ انہیں شدید غصہ آیا ۔ بت کو باہر نکالا او راچھی طرح دھو کر اسے واپس گھر لے آئے ۔ خوشبو لگا کر اسی جگہ رکھا جہاں سے اٹھایا گیا تھا ۔ پھر اس سے مخاطب ہو کر کہنے لگے ۔

 ‘‘خدا کی قسم اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ تمہارے ساتھ یہ حرکت کس نے کی ہے تو میں اسے بہت ذلیل اور رسوا کروں ۔ ’’ انہوں نے اپنے طور پر معلوم کرنے کی کوشش بھی کی لیکن کچھ سراغ نہ لگا کہ یہ حر کت کس کی تھی ۔

رات ہوئی تو پھر انکے گھر سے چار سائے نکلے اور گندگی کے ڈھیر تک آئے ۔ کل کی طرح انہوں نے پھر ایک چیز کو گندگی میں پھینکا اور خاموشی سے واپس ہو گئے ۔

اگلی صبح عمرو کا بت پھر اپنی جگہ سے غائب تھا ۔ وہ بہت سٹپٹائے ۔ اب انہیں خود شرم محسوس ہو رہی تھی کہ وہ گھر والوں کو کیا بتائیں کہ ان کا ‘‘معبود’’ آج پھر غائب ہو گیا ہے ۔ وہ خود ہی خاموشی سے باہر نکلے ۔ آج پھر تلاش کرتے ہوئے کل والی جگہ پر گئے ۔ منات وہیں موجود تھا او راسی طرح گندگی سے لتھڑا ہوا تھا ۔ غصے سے بڑ بڑ اتے ہوئے اسے باہر نکالا اور نہلا دھلاکر واپس اپنی جگہ پر رکھا ۔ اگلے دن پھر یہی معاملہ ہوا ۔ پھر تو معمول ہی بن گیا ۔ وہ صبح اٹھتے او رمنات کو اپنی جگہ سے غائب پاتے ۔ سیدھے گندگی کے ڈھیر میں جاتے او روہ انہیں وہیں گندگی میں اوندھے منہ گرا مل جاتا ۔ جب چھٹی دفعہ وہ اسے گھر لائے تو سخت پریشان ہو چکے تھے ۔ انہوں نے اپنی تلوار منات کے گلے سے لٹکائی اور بولے:

‘‘اے میرے منات ! مجھے تو علم نہیں کہ تیرے ساتھ یہ سلوک کون کرتا ہے ؟ اگر تم میں ہمت ہے تو خود اپنا دفاع کرو ۔ یہ تلوار تمہا رے حوالے کیے جارہا ہوں ۔’’

عمرو یہ کہہ کر جب واپس لوٹ رہے تھے تو دل میں سوچ رہے تھے کہ اب بھی اگر منات نے اپنی حفاظت نہ کی تو پھر مصعب بن عمیر کاکہنا ٹھیک ہی ہو گا کہ یہ معبود محض لکڑی یا پتھر کے بت ہیں جو کسی کو فائدہ دے سکتے ہیں نہ نقصان!

ادھر رات ہوئی اور عمرو گہری نیند سوئے تو وہی پراسر ار سائے پھر حرکت میں آئے ۔ انہوں نے روز کی طرح آج بھی منات کو وہاں سے اٹھایا او رگھر کے باہر لے گئے ۔ معمول کے مطابق جب ان کا چوتھا ساتھی ان کی مدد کو آیا تو وہ رسی سے بندھی ایک چیز کو گھسیٹ رہا تھا ۔ رسی کے ساتھ ایک مردہ کتا بندھا ہوا تھا ۔ انہوں نے مراہوا کتا منات کے گلے میں لٹکایا اور اسے ایک پرانے کنویں میں پھینک آئے ۔ بنو سلمہ قبیلے کے لوگوں نے اس کنویں سے پانی نکالنا بند کر دیا تھا ۔ اور اب وہ اس میں کوڑا کرکٹ پھینکتے رہتے تھے ۔ کام سے فارغ ہو کر چاروں سائے اپنے اپنے گھروں کو واپس ہو گئے ۔

صبح ہوئی تو عمرو جلدی سے اپنے بت کی طرف گئے کہ دیکھیں آج بھی وہ غائب ہے یااس نے اپنی بے عزتی کرنے والے سے بدلہ لے لیا ہے ۔ لیکن بت کو اپنی جگہ نہ پا کر انہیں بہت مایوسی ہوئی ۔ وہ بڑ بڑ اتے ہوئے ایک دفعہ پھر اس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ۔ کئی گھنٹوں کی تلاش کے بعد آج انہوں نے منات کو گندے کنویں میں دیکھا تو انہیں پہلی مرتبہ بت پر سخت غصہ آیا ۔ اس کے گلے میں مردہ کتے کو دیکھ کر انہیں بت سے شدید نفرت ہوئی ۔ منات کو مخاطب کرتے ہوئے بولے :

 ‘‘خداکی قسم اگر تو واقعی معبود ہوتا تو تیرے ساتھ یہ سلوک کبھی نہ ہوتا …… تو اپنی حفاظت نہیں کر سکا تو میرے کیا کام آئے گا ؟ تم ٹھیک جگہ پہنچ گئے ہو …… اب اس بدبو دار کتے کی لاش کے ساتھ یہیں رہو۔ ’’

اور آج وہ اسے وہیں چھوڑ کر واپس آگئے ۔ گھر پہنچے تو ان کے تینوں بیٹے ان کا انتظار کر رہے تھے ۔ باپ کو منات کے بغیر دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔ انکی بیوی نے پوچھا :‘‘اللہ آپ کے دشمنوں کو برباد کرے ۔ آج منات کے بغیر ہی گھر واپس آگئے ؟’’

عمرو بولے :‘‘وہ بے کار بت اپنی ٹھیک جگہ پر پہنچ گیا ہے …… مصعب بن عمیر او راس کی باتوں پر ایمان لانے والے بالکل ٹھیک کہتے ہیں ۔ یہ بت کچھ نہیں کر سکتے ۔ آؤ ہم اس نئے دین کو قبول کر کے مسلمان ہو جائیں …… خدا کی قسم میں ان بتوں سے بے زار ہو گیا ہوں ۔ ’’

ان کے بیٹوں او ربیوی نے گھر کے سربراہ کے منہ سے یہ الفاظ سنے تو وہ بہت خوش ہوئے ۔ تینوں بیٹے انہیں مصعب بن عمیر ؓ کے پاس لے گئے جہاں عمرو بن جموح نے کلمہ پڑھ کر اللہ کے ایک ہونے کی گواہی دی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا اقرار کیا ۔ باپ کے مسلمان ہونے کے بعد تینوں بھائی اپنے دوست معاذ بن جبل کے پاس پہنچے ۔ وہ آج بہت خوش تھے ۔

دراصل وہ تین سائے جو منات کو گندگی میں پھینکتے تھے ’ عمرو بن جموح کے یہی تین بیٹے معاذ ’ معوذ اور خلاد رضی اللہ عنھم تھے ۔ ان کے چوتھے ساتھی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ تھے ’ جنہوں نے آخری دن منات کے گلے میں مردہ کتے کو لٹکایا تھا ۔ یہ ساری ترکیب انہوں نے اس لیے لڑائی تھی کہ ان کے بوڑھے باپ کو معلوم ہوکہ یہ بت کچھ نہیں کر سکتے ’ یہ تو بے جان چیزیں ہیں ۔ لیکن انہوں نے ساری زندگی اپنے باپ کو یہ نہیں بتایا کہ یہ ان کے بیٹے ہی تھے جنہوں نے ان کے بت کے ساتھ شرارت کی تھی ۔

٭……٭……٭