صبر کی دیوی

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : ستمبر 2005

            انیس سوا کانوے کا سورج رخصت ہو رہا تھا جب اس نے مجھے اپنی تازہ نظم سنائی تھی جس کا عنوا ن تھا ‘دو سالوں کے سنگم پر ’اس کا آخری بند کچھ یوں تھا۔

سوچ رہا ہوں پچھلے سال اس لمحے
دو سالوں کے ایسے ہی ایک سنگم پر
کیسے کیسے لوگ شریک ِمحفل تھے
کتنے ہیں جو آج یہاں موجود نہیں
سوچ رہاہوں اگلے سال اسی لمحے
دو سالوں کے ایسے ہی اک سنگم پر
جب لکھے گا کوئی نظم تو سوچے گا
پچھلے سال کی آخری نظمیں لکھنے والے
کتنے ہیں جو آج یہاں موجود نہیں

            میں نے اسے کہا تم یہ کیوں گنتے رہتے ہو کہ کتنے ہیں جویہاں موجود نہیں ، یہ کیوں نہیں گنتے کہ کتنے ہیں جو یہاں موجود ہیں۔وہ مسکرا کر خاموش ہو رہا لیکن اگلے برس کے دسمبر میں، میں بھی یہی گن رہا تھا کہ کتنے ہیں جو یہاں موجود نہیں کیونکہ پچھلے سال کی آخری نظمیں لکھنے والا یہ شاعربھی پینتیس برس کی عمرمیں اچانک ہارٹ اٹیک سے چل بسا تھا۔اس کے ساتھ ہی نہ صرف یہ کہ ایک کڑیل جوان خاتون بیوہ ہوئی بلکہ تین کمسن بچیاں بھی یتیم ہو گئیں۔

            میں جب اس کے جنازے پر اس کے گھر پہنچا تو سوچ رہا تھا کہ میرے ساتھ تو اس کی سنگت کی عمر دس برس سے زیادہ نہیں۔ مجھ سے تو اس تھوڑی سی رفاقت کا بوجھ اٹھائے نہیں اٹھتا تو اس کی ماں کا کیا حال ہو گا جس کے دل پر تو پینتیس برسوں کا بو جھ ہے ۔ صرف پینتیس برس نہیں ،بلکہ ان برسوں کے سارے مہینے اور ان مہینوں کے سارے ہفتے اور ان ہفتوں کے سارے دن اور ان دنوں کی سار ی راتیں بلکہ ان راتوں کا ایک ایک پل اور پھرہر ہر پل کا اپنا اپنا بوجھ ، یہ بوجھ تو اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔ لیکن میری حیرانی کی انتہانہ رہی کہ جب میں نے دیکھا کہ وہاں کوئی شکوہ تھا نہ شکایت، کوئی بین تھے نہ ماتم، کوئی شور تھا نہ آہ وفغاں۔مجھے دیکھا تو مجھ سے لپٹ گئیں اور کہا کہ تیرا دوست رخصت ہو گیا اورمیں اتنا بھی نہ کہہ سکا کہ میرا دوست تو بعد میں تھا اور آپ کا بیٹا پہلے ۔ اور پھر انہوں نے پورے وقار اور صبر کے ساتھ اپنے بیٹے کی چارپائی کو رخصت کیا۔انہیں عام عورتوں کی طرح کوئی اوچھی اور بے وقار حرکت آتی ہی نہ تھی۔

            دن پھر راتوں اور راتیں پھر دنوں میں بدلنے لگیں ۔ اس دوران میں عید کے ہر تہوار،خوشی کے ہر موقعے ،ٹھنڈی ہوا کے ہر جھونکے ، پھول کی ہر خوشبو، بلکہ قدموں کی ہر چاپ کے ساتھ انہیں اپنے اس شاعر بیٹے کی یاد آتی لیکن بس ایک آہ کے ساتھ خاموش ہورہتیں ، ان کے صبر اور وقار کا بند کبھی ٹوٹنے نہ پاتا۔

            دو سال بیت گئے کہ ایک دن اچانک خبر آئی کہ ان کا دوسرا بیٹا انتالیس برس کی عمر میں یکا یک برین ہیمرج سے چل بسا۔یہ خوبصورت رعناجوان ایرفورس میں ملازم تھا۔اس کی آنکھوں میں حیا اور گفتگو میں ایک خاص قسم کی سنجیدگی تھی ۔نماز روزے کا پابند اور خوبصورت قرآن پڑھنے والا۔ یہ جانے والا بھی اپنے پیچھے تین کمسن بچے چھوڑ گیا تھا۔میں پھر جنازے پر پہنچا اور یہ سوچ کر پہنچا کہ اب کے صبر اتنا آسان نہیں ۔ وہ تو شاید پہلا موقع تھا اس لیے ماں سنبھل گئی ہو گی ۔ اب مشکل ہے اور پھر چھ یتیم جانیں بھی تو انہیں خون کے آنسو رلا رہی ہو ں گی۔ مگر وہاں وہی وقار اور وہی صبر اسی شان کے ساتھ موجود تھا۔بس آنکھوں سے غم کی گھٹا برس رہی تھی اور اسے تو برسنا ہی تھا کہ یہ عین فطرت ہے۔ مگر یہ کہ کوئی بے وقار حرکت ، کوئی بے ہنگم آواز ، کوئی شور شرابا ان سے سر زد ہو جائے یہ ان کی شان سے بعید تھا۔

            اللہ کی شان دو سال اور بیتے ، سال تھا ۱۹۹۶ کہ اس عظیم خاتون کے خاوند کا انتقال ہو گیا۔اس موت پر انہوں نے جس صبر کامظاہر ہ کیا اس پر مجھے کچھ زیادہ اچنبھا نہیں ہوا کیونکہ اس سے زیادہ صبر ، عزم اور ہمت کا مظاہر ہ تو وہ خاوند کی زندگی میں برسوں سے کر رہی تھیں۔ دین کے غلط تصور کے تحت یہ حضرت برسوں سے مسجدمیں گوشہ نشین تھے ۔ بچوں کی پرورش اور تعلیم سے لے کر ان کی شادیوں تک سب کام اس خاتون نے خود ہی انجام دیے تھے لیکن اس کے باوجود نہ تو کبھی حرف شکایت زبان پر لائیں اور نہ کبھی باپ کی عزت و عظمت کو بچوں کی نظر میں کم کرنے کی کوشش کی ۔ حد تو یہ کہ گھر میں جو بھی فیصلہ کرنا مقصود ہوتا اس کا مشورہ کرکے بچوں سے کہتیں کہ اپنے باپ سے بھی اس کی منظور ی لے آؤ۔اس دور میں مشرقی بیوی اور مشرقی عورت کاشاید اس سے بہتر نمونہ نہ مل سکے۔

            دو سال اور بیتے ، ۱۹۹۸ آیا ۔ سب کو ایک دھڑکا سا لگا کہ اب کس کی بار ی ہے مگر یہ سال سہولت سے گزر گیااور اسی طرح ۱۹۹۹ بھی مگر ۲۰۰۰ کا آنا تھا کہ ایک نیا غم پوری قوت کے ساتھ آن وارد ہوا۔ان کا سب سے چھوٹا بیٹا جس کی پیشانی سے بچپن ہی سے صالحیت کے آثار نمایا ں تھے ،جو نیکی کے ہر کام میں سبقت کی کوشش کرنے والا ، اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنے والا،اور اللہ کی دین کی دعوت میں دن رات ایک کرنے والا تھا، محض چند ہفتے بیمار رہ کر راہی ملک عدم ہو گیا ۔ جس دن یہ تشخیص ہوئی کہ اصل میں کینسر ہے اس کے صرف چند روز بعد یہ سرخ وسفید پھول سا جوان بھی اس شہر میں جا کے بس گیا کہ جس کی طرف لوگوں کو جاتے تو دیکھا ہے مگر وہاں سے واپس آتے نہیں دیکھا۔چھ جانیں پہلے ہی تھیں اب ان میں چارکا اور اضافہ ہو گیا یوں دس یتیموں کا بوجھ اس ماں پر آن پڑاجس کا اب صرف ایک ہی بیٹا تھا اور وہ بھی دور اور بیچارااپنی دنیا میں مگن۔

            حسب معمول مجھے اس جنازے پر بھی جانا تھا اور میں گیا اور یہ سوچ کر کہ صبر تو ٹھیک ہے مگر کب تک ! چٹانوں کے سینے بھی تو شق ہو جایا کرتے ہیں۔ مگر اس عظیم ماں کے آگے چٹانیں بھی ہیچ تھیں ۔ وہ چٹان سے زیاد ہ مضبوط اور اللہ کی رضا پر راضی رہنے میں صحابیات کی مقلد تھیں۔اورحقیقت یہ ہے کہ اپنی زندگی میں اگر مجھے چند مثالیں بیان کر کے یہ سمجھانا ہو کہ صبر کسے کہتے ہیں اور اللہ کی رضا پر راضی رہنا کس چیز کا نام ہے تو یقینا اس عظیم خاتون کا نام سر فہرست ہو گا۔جس نے تین جوان بیٹوں کو پال پوس کر ، جوان کر کے ، بیاہ کے اگلے جہان بڑے وقار سے رخصت کر دیا۔بھلا کوئی آسان ہے ؟ میرے لیے لکھنا بھی شاید آسان ہے اور قارئین کے لیے پڑھنا بھی شاید آسان ہو مگر اس درد کی شدت وہی جان سکتا ہے جس پر بیتی ہو۔اور یہ کہنا بھی شاید مبالغہ نہ ہو کہ اگر ہندو مائتھالوجی کے بزرجمہروں کو ان کی کہانی کاعلم ہو جائے تو وہ انہیں صبر کی دیوی قرار دے دیں۔

            اگرچہ اس بار بھی انہوں نے اپنے سب سے چھوٹے اور سب سے پیارے بیٹے کے غم کو صبرسے زیر کر لیاتھالیکن نہ جانے کبھی کبھی مجھے یہ کیوں محسو س ہوتا کہ وہ اند ر سے ٹوٹ چکی ہیں۔ اور میر ا یہ شک اس دن سچ ثابت ہوا جب ان کے ہمسائی فوت ہو ئی اور اس کے جنازے کو اس کے چاروں بیٹوں نے کندھا دیا تو اس ماں کے دل پہ چھائے حسرت کے بادل ایک بار پھر برسات بن کر برس پڑے۔ کہنے لگیں مجھے بھی یہی امید تھی کہ میری چارپائی بھی میرے چاروں بیٹے اٹھائیں گے مگر میرا تو اب ایک ہی رہ گیا!اور وہ بھی خدا جانے آئے گا کہ نہیں!

            قدرت کے عجیب رنگ ہیں۔عمر کے ہر دور میں انسان کی تمنائیں اور خواہشیں کیسے کیسے رنگ بدلتی ہیں۔مگر ہر خواہش کے مقدر میں پورا ہونا کب ہوتا ہے !بہت سی خواہشیں تو شاید پیداہی اس لیے ہوتی ہیں کہ ان کے جنازے دوش بر تقدیر اٹھ جایا کریں۔اور انسان خود بہت سی حسرتوں کی میتیں لے کر قبر میں اتر جایا کرے۔

             وقت کا پہیہ گھومتار ہا اور ۲۰۰۵ آن پہنچا کہ ایک دن اس عظیم ماں کا وقت بھی آن پہنچا اور وہ بھی چپکے سے اپنے بیٹوں کے دیس سدھار گئیں۔ اور پھر ان کے جنازے کو کندھا دینے کے لئے ان کے چار بیٹے تو موجود نہ تھے البتہ ان کے چار داماد ضرور تھے جن میں سے ایک میں بھی تھا ۔

            آج سے بیس برس قبل جب میں اس گھر میں آیا تھا تو یہ ایک بھرپورہنستابستا گھر تھاجہاں ہر آن چہل پہل اور رونق ہوا کرتی تھی۔ پیشانیاں روشن ، چہرے شاداب اور آنکھیں پر امید تھیں۔زندہ دلی اس گھر کا شعار اور رذائلِ دنیا،کمینگی اور گھٹیا پن سے دوری اس کا طرہ امتیاز تھا۔مگر بیس ہی برس میں دنیا یوں بھی تہ و بالا ہو جایاکرتی ہے اس کاتجربہ کم ہی لوگوں کو ہوا ہو گا۔

            رونقیں جہاں اترتے ہوئے فخر محسوس کرتی تھیں اب وہاں ویرانی اور اداسیوں کے ڈیرے ہیں۔ جہاں قہقہے گونجا کرتے تھے اب وہاں خامشی کا مسکن ہے ۔ وہ درودیوار جو ہر وقت روشن رہا کرتے تھے اب وہاں اندھیروں کا راج ہے ۔ جہاں ہر آن چہل پہل ہوا کرتی تھی اب وہاں سناٹوں کا بسیرا ہے اور وہ جگہ جو ہنستے چہروں اور صاحب دل لوگوں کا مسکن تھی اب وہاں بھوتوں کا گزر ہے ۔اب یہ گھر گردش ایام کا اک ایسا ‘نادر’ نمونہ ہے کہ وہاں سے گزرتے ہوئے بھی ایک ہوک سی اٹھتی ہے اورکسی کییہ بات بار بار ذہن پر ہتھوڑے برسانے لگتی ہے کہ ماں تو گھر کی جڑ ہوتی ہے جب وہ ہی سوکھ جائے تو درخت کی ٹہنیوں ، پھولوں اور پتوں کو تو بکھرنا ہی ہوتا ہے ۔ بکھرنے کا المنا ک منظر اس گھر سے زیاد ہ کہاں ملے گا؟