آخرت کیا ہے؟ اسے کیسے سمجھا جائے؟

مصنف : مولانا عامر گزدر

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جولائی 2005

                         آخرت پر ایمان کوئی ایسا عقیدہ یا نظریہ نہیں ہے ،جسے بس زبانی طور پرمان لیا جائے،بلکہ یہ ایمان باللہ ہی کی طرح ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے ،جس کاانکار کوئی شخص ہٹ دھرمی یا تعصب کی بنا پر تو کرسکتا ہے،لیکن کسی دلیل اور استدلال کی بنیاد پر انکار ممکن نہیں ہے۔ انسان کا شعور آخرت کو ثابت کرتا ہے۔ اُس کی عقل بھی اس کی شہادت دیتی ہے ۔خود اُ س کے نفس میں آخرت کی گواہی موجود ہے ۔یہ پوری کائنات اور اس میں موجود اللہ کی پروردگاری اس پرشاہد ہے ۔اور خود انسانی تاریخ بھی یہی گواہی دیتی ہے کہ آخرت تو بہرحال قائم ہوکر رہے گی۔

ایمان بالآخرت کا مطلب

            آخرت پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اِس حقیقت کو مانا جائے کہ یہ دنیا اور اِس میں ہماری یہ زندگی سب کچھ عارضی ہے ۔یہ زندگی آزمائش اور امتحان کی زندگی ہے ۔ایک دن ہماری یہ زندگی اوریہ ساری کا ئنات اپنے اختتام کو پہنچے گی۔ اور پھر ایک نئی دنیا وجود پذیر ہوگی،جو امتحان کے اُصول پر نہیں بلکہ جزا وسزا کے قانون پر برپا ہوگی ۔ اور اُس میں ہمیں ایک ایسی نئی زندگی حاصل ہوگی،جو عارضی نہیں بلکہ ابدی ہوگی۔ اور دنیوی زندگی کے امتحان کے نتائج وہاں بے کم و کاست ظاہر کردیے جائیں گے۔تمام انسان اپنی دنیوی زندگی کے افکار و اعمال کے لیے اپنے خالق اور پروردگار کے حضور جوابدہ ہوں گے۔ پھر کامیاب قرار دیے جانے والے ہمیشہ کے لیے جنت کی نعمتوں میں اور ناکام ہمیشہ کے لیے جہنم کے عذاب میں جھونک دیے جائیں گے۔

ایمان بالآخرت کی اہمیت

            اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ دین کی پوری تاریخ پر، اگر سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک، ایک نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دین الٰہی کی دعوت کابنیادی مقدمہ اور بنیادی با ت اگر کوئی ہے تو وہ یہی‘ آخرت’ ہے، جس کی یاددہانی کے لیے ہی پیغمبروں کی بعثت ہوئی۔

آخرت کے بارے میں قرآنی استدلال

            آخرت کے حوالے سے قرآنِ مجیدکے تمام دلائل کو تو اِس مختصر تحریرمیں بیان نہیں کیا جاسکتا، البتہ اس کے بنیادی اور اہم دلائل کی نوعیت کوقارئین کے سامنے پیش کیا جارہاہے ۔

            اس عالم میں جو چیز بھی پیدا ہوئی ہے ،بالعموم زوجین (جوڑے ) کی صورت میں پیدا ہوئی ہے۔ جیسے مرد وعورت،بھوک اور غذا،پیاس اور پانی،سردی اور گرمی،اندھیرا اور اُجالا وغیرہ…… تدبر کی نگاہ سے دیکھیے تو ہر شے در حقیقت ایک ہی وجود ہے ، جسے دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔جیسے انسان ایک حقیقت ہے جسے یہاں مرد وعورت کے جوڑے کی صورت میں دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔جوڑے کا ہر حصہ اپنی ذات میں ایک غیر معمولی اور شاہکار مخلوق ہونے کے باوجود ایک نامکمل وجودہے۔اُس میں کچھ خلا ہیں جن کو پُر نہیں کیا جاسکتا ۔کچھ نقائص ہیں جن کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔کچھ تقاضے ہیں جن کو پورا نہیں کیا جاسکتا، سوائے اِس کے کہ وہ اپنے جوڑے سے مل کر تکمیل پائے۔یعنی اُس کی تکمیل بہرحال اپنے جوڑے سے ملنے کے بعد ہی ممکن ہے۔مثال کے طور پر مر دایک غیر معمولی ،باصلاحیت اور شاہکار مخلوق ہے۔ لیکن ہم میں سے ہر شخص اس بات کا اعتراف کرے گاکہ وہ اگر تنہا ہوتو اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود ایک نامکمل وجودہے۔اُس میں کچھ خلا اورکچھ تقاضے ہیں ،جن کی تکمیل اپنے جوڑے سے وابستہ ہونے کے بعد ہی ہوسکتی ہے۔

             اِس بنیادی مقدمہ کی روشنی میں اس دنیا اور اس میں ملنے والی ہماری زندگی کا جائزہ لیجیے۔قرآنِ مجید ہمیں اِس طرف توجہ دلاتاہے کہ غور کریں کہ اس کائنات میں بھی کچھ خلا اور نقائص ہیں جو پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اِس دنیا اور ہماری زندگی کا بھی ایک جوڑا ہونا چاہیے، جو تمام خلاؤں اور نقائص کو دور کردے اور تمام تقاضوں کو پورا کردے۔ اللہ پروردگارِ عالم کے ارشاد کے مطابق وہ جوڑا یومِ آخرت کے بعد وجود پذیر ہونے والی دنیا اور اُس میں انسان کو ملنے والی زندگی ہے۔ ارشاد فرمایا ہے : وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ۔ ‘‘اور ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں تاکہ تم (اِس حقیقت کی )یاد دہانی حاصل کرو ( کہ اِس دنیا کا بھی ایک جوڑا ہونا چاہیے )’’ (الذاریات ۵۱:۴۹) ۔

دنیا کی زندگی میں موجود نقائص اورخلا

            اِس دنیا اور اِس میں ہماری زندگی کے وہ خلا ،جنہیں بغیر کسی استثنا کے اِس دنیا کا ہر شخص یہاں دیکھ سکتا ہے،حسبِ ذیل ہیں:

عارضی دنیا کی عارضی زندگی

            ہم میں سے ہر شخص کی خواہش ہے کہ وہ ابد تک زندہ رہے۔موت اِس زمین پر ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اِس کو حل کرلینے سے پوری طرح مایوس ہوجانے کے بعد ہی ہم نے اِسے قبول کیا ہے۔ زندگی میں تلخی نہ ہو اور زمانہ ہمیں بڑھاپے کی بے بسی کی حالتوں تک نہ پہنچائے تو ہم میں سے کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا،لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہم یہاں ہمیشہ کی زندگی حاصل نہیں کرسکتے۔

انسان کا وجود اپنے خیالات کی وسعتوں تک نہیں پہنچ سکتا

             ہماری خواہش ہے کہ ہمارے وجود کی رسائی وہاں تک ہو جہاں تک ہمارے خیالات کی پہنچ ہے۔اپنی اِس خواہش کو اِس دنیا میں پورا کرنے کے لیے ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ہماری اِس جدوجہد کی داستان تاریخ کے اوراق میں ثبت ہے۔اِس میں شبہ نہیں کہ اِن پچھلی تین صدیوں میں بہت سی کامیابیاں ہمیں حاصل ہوئی ہیں،لیکن اِس جدوجہد ہی نے یہ حقیقت بھی ہم پر واضح کردی ہے کہ اپنے خیالات کی وسعتوں،اپنی خواہشات،اپنی تمناؤں تک آخری درجے میں رسائی حاصل کر لینا اِس دنیا میں ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔فی الواقع انسان کے وجود میں اِس بات کی صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ جو چاہے وہ ہو جائے،جو تمنا کرے وہ حاصل ہوجائے،جس چیز کی خواہش کرے وہ حاضر ہوجائے اور اپنے خیالات تک رسائی حاصل کرلے۔

دنیا کی زندگی : ‘‘ماضی کے پچھتاوے اور مستقبل کے اندیشے’’

             اِس دنیا میں جو زندگی ہم گزارتے ہیں اُس کو اگر دو لفظوں میں بیا ن کیجیے تو یہ ماضی کے پچھتاووں اور مستقبل کے اندیشوں کی ایک داستان ہے جو ہم میں سے ہر شخص صفحۂ عالم پر لکھتا ہے اور پھر مٹی میں دفن ہوجاتا ہے۔‘‘اے کاش یہ ہوجاتا’’ اور ‘‘کہیں یہ نہ ہوجائے’’،ہماری داستانِ حیات بس یہیں سے شروع ہوتی اور یہیں ختم ہوجاتی ہے۔لیکن انسان سے پوچھیے کہ اُس کی تمناؤں کی دنیا بھی کیا یہی ہے؟ اِس عالم میں ہرشخص اس سوال کا جواب یقیناً نفی ہی میں دے گا۔ہم میں سے کوئی شخص اِس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتا کہ ہماری تمناؤں کی دنیا اگر ہو سکتی ہے تو وہی ہوسکتی ہے جس میں نہ ماضی کا کوئی پچھتاوا ہو اور نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ۔اور یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ ہو جانا اِس دنیا کے ناممکنات میں سے ہے۔

عدل و انصاف کو اپنی آخری صورت میں حاصل کرنا یہاں ممکن نہیں

             ہماری آرزو ہے کہ یہ دنیا ہمیشہ عدل وانصاف پر قائم رہے۔ یہ وہ شے ہے جسے حاصل کرنے کے لیے ہم نے سب سے زیادہ جدوجہد کی ہے۔ہم نے اِس کے لیے اپنی آزادی سے دستبرداری اختیار کی ۔ ایک نظام کے تحت زندگی بسر کرنے کی پابندی قبول کی۔اپنے اوپر اپنے ہی جیسے انسانوں کو حکومت کرنے کا حق دیا۔اِسی عد ل وانصاف کے لیے بارہا جان ومال کی قربانی پیش کی ۔لیکن یہ نعمت عظمیٰ اپنی آخری صورت میں ،کیا اِس دنیا میں ہمیں کبھی حاصل بھی ہوسکی؟ بلا شبہ تاریخ میں اِس دنیا کے بعض خطّوں میں ایسی ہستیاں رہی ہیں جن کی وساطت سے انسانی استطاعت کی حد تک معاشرے کو عدل وانصاف حاصل ہوا ۔ایک انسان کی حیثیت سے اپنے زمانے اور اپنے دائرۂ عمل میں وہ جو کچھ کرسکتے تھے ،بے شک اُنہوں نے کیا۔ لیکن اِسی دنیا کے وہ مجرم جو کسی کی گرفت ہی میں نہ آسکے،اور وہ جوگرفت میں توآئے، مگر انہیں اُن کے جرم کی قرار واقعی سزا دینا کسی طرح ممکن نہ ہوا۔اُن کے لیے یہ دنیا کہاں جائے؟ہزاروں عورتوں کو بیوہ اور لاکھوں بچوں کو یتیم کردینے والے کتنے وحشی ہیں جو بڑے اطمینان کے ساتھ موت کی آغوش میں چلے گئے اور دنیا کی کوئی عدالت انہیں سزا دینا تو ایک طرف،اپنے سامنے پکڑ لانے میں بھی کامیاب نہ ہوسکی۔ یہ اِس عالم میں ہماری زندگی کے وہ خلا ہیں،جن سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ یہ دنیا بھی ہر لحظہ اپنے جوڑے کی تلاش میں ہے۔ اور وہ جوڑا آخرت ہے۔اِس حقیقت کا انکار کوئی شخص اگر کرتا ہے ،تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ عورت کے لیے مرد اور پیاس کے لیے پانی کی ضرورت کا انکار کرتا ہے۔      

 دنیوی زندگی کااخروی زندگی سے تقابل

            دنیوی زندگی کے تقابل میں اگر آخرت کی کامیاب زندگی کو دیکھا جائے تو قرآن مجید کی روشنی میں اُس کی جو صورت ہمارے سامنے آتی ہے ،وہ اِس طرح ہے کہ روزِ جزاکو دنیوی زندگی کے یہ تمام خلا اور نقائص دور کردیے جائیں گے ۔قرآنِ مجید کے مطابق یہی وہ دن ہوگا جب موت ہمیشہ کے لیے مرجائے گی(البینۃ۹۸: ۶۔۸)۔ اور جب کامیاب قرار دیے جانے والوں کی رسائی اُن کے خیالات کی پہنچ تک ہوگی، وہ جو چاہیں گے انہیں دیا جائے گا،جس چیز کا مطالبہ کریں گے وہ اُنہیں حاصل ہو گی(حم السجدہ۴۱: ۳۱)۔اور جب عدل وانصاف اپنی آخری صورت میں قائم کردیا جائے گا(الزلزال۹۹:۷۔۸)۔ اور جب اُس دن سے ڈرنے والے خدا کی اُس ابدی بادشاہی(جنت) میں داخل ہوجائیں گے،جہاں قرآن کے الفاظ میں :‘‘ نہ اُن کے لیے ماضی کا کوئی پچھتاوا ہوگا اور نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ’’۔ (البقرۃ ۲:۱۱۲)

انسان کے اپنے وجود میں آخرت کی گواہی موجود ہے

             یہی آخرت ہے جس کا ایک ادنیٰ نمونہ خود ہم اپنے وجود میں بھی پاتے ہیں۔ہمارے اپنے نفس میں فطرت کی ایک ایسی رہنمائی موجود ہے جو ہماری ہر بھلائی کی تحسین اور ہر برائی پر سرزنش کرتی ہے ۔یہ درحقیقت ایک عدالت صغریٰ (چھوٹی عدالت )ہے ،جو اپنے وجود ہی سے اِس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اِس پورے عالم کے لیے بھی ایک عدالت کبریٰ(قیامت) قائم ہونی چاہیے۔یہ عدالت اگر قائم نہیں ہوگی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کو اِس زمین پر مکمل آزادی حاصل ہے اور اُس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہونی؟اور وہ اگر آزاد ہے توخود اُس کے نفس میں موجود یہ عدالت کیا ہے؟اوراُسے خیروشر کاشعورکہاں سے حاصل ہوا؟ کیوں حاصل ہوا ؟(القیامہ۷۵:۲)

اللہ کی پروردگاری بھی آخرت کی شہادت دیتی ہے

            یہ بھی کسی طرح ممکن نہیں ہوسکتاکہ وہ پروردگار جو زمین کے اِس گہوارے میں غیر معمولی اہتمام کے ساتھ ہماری پرورش کررہا ہے،اُن لوگوں کو انعام نہ دے جنہوں نے اُس کی پروردگاری کا حق پہچانا ،اور اُن کو سزا نہ دے جنہوں نے اس حق سے انکار کیا۔اُس نے یہ سب کچھ انسان کو بغیر کسی استحقاق کے دیا ہے تو اِس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ وہ اُسے ایک دن اِس سب کچھ کے لیے جواب دہ ٹھہرائے۔اگر ایسا نہ ہوتو اِس کے معنی یہ ہیں کہ حق پہچاننے والے اور نہ پہچاننے والے،دونوں اُس کے نزدیک برابرہیں۔ظاہر ہے کہ یہ بات ایک صاحب حکمت خداوند اور پروردگار کے بارے میں ،جس کی حکمت اِس عالم کے ذرّے ذرّے سے نمایاں ہے،کسی بھی طرح نہیں مانی جاسکتی(النبا ۷۸: ۶۔ ۱۷)

انسان کی اپنی تاریخ آخرت پرگواہ ہے

            یہی فیصلے کا دن ہے جس کا مشاہدہ انسانوں نے اپنی تاریخ میں بارہا اِس زمین پر بھی کیا ہے۔جن قوموں نے اللہ کے رسولوں کی واضح دعوت کا جانتے بوجھتے انکار کیا اور اُس کے سامنے سرکش ہوگئیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق کو تسلیم کرلینے کی مہلت کے بعد اِسی دنیا میں اُن پر عذاب مسلط کرکے اُنہیں صفحۂ ہستی سے مٹادیا گیا۔ اور جن لوگوں نے حق کے سامنے سرِتسلیم خم کیا اور ایمان کے دائرہ میں داخل ہو ئے، اُنہیں اِسی دنیا میں سرفرازی سے نوازا گیا۔یہ در اصل آخرت کی قیامت کبریٰ کی ایک جھلک ہے جسے انسان جب چاہے تاریخ کے آئینے میں دیکھ سکتا ہے۔اور اِس دنیا میں یہ قیامت روزِ جزا ہی کے اُصول پرقائم ہوئی تھی ،یعنی جو لوگ ایمان اور عمل صالح پر قائم تھے اُنہیں اُن کی جزا دی گئی اورجو انکار اور خدا کی دعوت کے سامنے سرکشی کے رویے پر قائم تھے، اُنہیں اُن کی سزا دی گئی۔ قومِ نوح ،قومِ عاد،قومِ ثمود، قومِ لوط کی بستیوں کے کھنڈر اور فرعون کی نعش آج اُسی قیامت صغریٰ کی یادگاریں ہیں،جو پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ آخرت کی عدالت کبریٰ بھی ہے جو ایک دن قائم ہونی ہے اور جس خداوند نے جزا و سزا کے قانون پریہ عدالت برپا کی تھی وہی پروردگار اُس فیصلے کے دن کو بھی قائم کرے گا۔(القمر۵۴)

آخرت پر ایمان کا تقاضا

             آخرت پر حقیقی ایمان اگر ہے تو قرآن مجید کے مطابق اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان اِس دنیا کی زندگی میں آخرت کی ابدی کامیابی کو اپنا نصب العین قرار د ے کر زندگی بسر کرے۔ اور اُس دن پر ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اِس دنیا میں اِس طرح جیے کہ وہ کوئی مسافر ہے یا اجنبی، جس کی ساری جدوجہد اِسی لیے ہوتی ہے کہ وہ خیر وعافیت کے ساتھ اپنے وطن میں اپنی منزل تک پہنچ جائے۔ اور آخرت کی اِس فلاح کے لیے وہ اپنے علم و عمل کو یہاں تمام آلایشوں سے پاک کرے۔اِس لیے کہ آخرت کی ابدی فلاح کا انحصار اِسی ‘پاکیزگی’ پرہے ( الاعلیٰ ۸۷:۱۴) ۔ اور انسان کے لیے اِس ‘تزکیہ’ کے حصول کا واحد راستہ قرآنِ مجید کے مطابق یہ ہے کہ وہ اپنے علم اور عمل میں اللہ کے دین کو اختیار کرے ۔(الجمعہ ۶۲: ۲)