اخلاقی ماڈل

مصنف : مولانا وحید الدین خان

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جولائی 2005

ہر آدمی خدا اور بندوں کے درمیان ہوتا ہے۔ خدا کے مقابلہ میں اس سے جو چیز مطلوب ہے وہ تقویٰ ہے اور انسانوں کے مقابلہ میں اس سے جو چیز مطلوب ہے وہ حسن اخلاق ہے۔

            حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بعثت لاتمم حسن الاخلاق۔(موطا امام مالک، حسن الخلق، مسند احمد ۲؍ ۳۸۱) یعنی میں اس لیے بھیجا گیا ہوں تا کہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کروں۔

            اخلاق سے مراد کسی انسان کا وہ سلوک ہے جو وہ دوسروں کے ساتھ کرتا ہے۔ جب بھی کسی انسان کا سابقہ دوسرے انسان سے پڑتا ہے، خواہ وہ خاندان کے اندر ہو یا خاندانی زندگی کے باہر، تو وہ اپنے قول وعمل سے کسی ایک یا دوسری صورت میں اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔ اسی اجتماعی سلوک کا نام اخلاق ہے۔

            اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ انسان دوسروں کے ساتھ معاملہ کرنے میں بلند کرداری کا ثبوت دے۔ کوئی غصہ دلائے تو وہ اس کو معاف کردے۔ کوئی کڑوا بول بولے تو وہ میٹھے بول کے ساتھ اس کا جواب دے۔ کسی سے شکایت ہو جائے تو وہ اس کے بارے میں وہی کہے جو حقیقت ِ واقعہ کے مطابق ہو۔ وہ کسی کی بڑائی پر حسد نہ کرے۔ وہ کسی کے مال کا لالچ نہ کرے۔ وہ کسی کی برائی بیان نہ کرے۔ اس کا سلوک ہمیشہ منصفانہ ہو۔ جب وہ وعدہ کرے تو اس کو پورا کرے۔ جب اس کو کوئی امانت دی جائے تو وہ اس امانت کو ٹھیک ٹھیک لوٹائے۔ اس کو کسی سے اختلاف ہوجائے تو وہ ایسا نہ کرے کہ وہ اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے لگے۔ وہ فخر اور گھمنڈ کے مظاہرے سے اپنے آپ کو بچائے۔ وہ ہر سچائی کا کھلا اعتراف کرے وغیرہ۔

            اسی قسم کی روش کا نام اخلاق ہے۔ ہر پیغمبر نے ہر زمانہ میں انہی اخلاقی اصولوں کی تعلیم دی ہے۔ خدا کی شریعت میں ، توحید کے بعد جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے وہ یہ ہی اخلاق ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاقیات کی تکمیل کرنے کا مطلب کیا ہے۔ اس کا مطلب زندگی کے ہر شعبہ میں حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں ہر قسم کے واقعات پیش آئے۔اس طرح آپ کو موقع ملا کہ آپ ہر معاملہ میں اخلاقی اصولوں کا عملی مظاہرہ کریں۔ اس طرح پیغمبر اسلام اخلاق کا ایک جامع ماڈل بن گئے۔

            حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان خیارکم احسنکم اخلاقا(البخاری، کتاب الادب، مسلم، کتاب الفضائل، الترمذی، کتاب البر، مسند احمد ۲؍۱۶۱) یعنی تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو۔ گویا کہ اخلاق آدمی کے ایمان و اسلام کی پہچان ہے۔جتنا اچھا اخلاق، اتنا ہی اچھا اسلام۔

            اصل یہ ہے کہ اخلاق کوئی علیحدہ صفت نہیں۔ وہ آدمی کے داخلی ایمان کا خارجی ظہورہے۔ ایمان آدمی کے اندر خوفِ خدا اور تواضع جیسی صفات پیدا کرتا ہے۔ یہ صفات جب انسانی سلوک کی سطح پر ظاہر ہوں تو اسی کانا م اخلاق ہے۔

            جو آدمی لوگوں کے ساتھ سرکشی کرے اس نے خدا کے آگے بھی سرنڈر نہیں کیا۔ جو آدمی دوسروں کے مقابلہ میں فخرکا اظہار کرے وہ خدا کے ساتھ بھی عاجز نہیں بنا۔ جو آدمی دوسرے انسانوں کے ساتھ بے رحمی کا سلوک کرے اس کو گویا اس خدا کی معرفت حاصل نہیں ہوئی جس کی صفت قرآن میں رحمان و رحیم بتائی گئی ہے۔

            ہر آدمی خدا اور بندوں کے درمیان ہوتا ہے۔ خدا کے مقابلہ میں اس سے جو چیز مطلوب ہے وہ تقویٰ ہے اور انسانوں کے مقابلہ میں اس سے جو چیز مطلوب ہے وہ حسن اخلاق ہے۔ انہی دونوں چیزوں کے مجموعہ سے وہ شخصیت بنتی ہے جس کو مومن کہا گیا ہے۔ یہ دونوں صفات ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ بلکہ وہ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ جہاں تقویٰ ہوگا وہاں حسن اخلاق ہوگااور جہاں حسن اخلاق ہوگا وہاں تقویٰ بھی ضرور پایا جائے گا۔ ایک چیز کا نہ ہونا اپنے آپ یہ ثابت کرتا ہے کہ دوسری چیز بھی وہاں موجود نہیں۔

            اچھا اخلاق کیا ہے اور برا اخلاق کیا۔ اچھا اخلاق دراصل مثبت ردعمل کا دوسرا نام ہے۔ اور اسی طرح برا اخلاق منفی رد عمل کا دوسرا نام ۔آدمی جب سماج میں جیتا ہے یا وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ کوئی کام کرتا ہے تو ہر وقت اس کو دوسروں کی طرف سے مختلف قسم کے سلوک کا تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ ایسی حالت میں اگر وہ لوگوں سے مثبت ذہن کے ساتھ معاملہ کرے تو وہ اچھے اخلاق والا آدمی ہے اور اگر وہ لوگوں سے منفی سوچ کے ساتھ معاملہ کرے تو اس کو برے اخلاق والا آدمی کہا جائے گا۔

            اس اخلاقی روش کا تعلق زندگی کے ہر شعبہ سے ہے۔ آدمی جہاں بھی ہو اور جس حال میں بھی ہوا س کو دو میں سے ایک روش کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔اس وقت یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی آدمی اچھے اخلاق والا انسان ہے یا برے اخلاق والا انسان۔

            مثبت اخلاق یہ ہے کہ آدمی فریق ثانی کے رویہ سے غیر متاثر رہ کر اعلیٰ انسانی اصول کی روشنی میں اپنا کردار بنائے۔ اس کے مقابلہ میں منفی اخلاق یہ ہے کہ آدمی فریق ثانی کی روش سے متاثر ہوجائے ، وہ اعلیٰ انسانی اصولوں کو بھول کر جوابی کردار کا مظاہرہ کرنے لگے۔

            حسن اخلاق در اصل ایک اعلیٰ انسانی اصول کا نام ہے۔ حسن اخلاق کا تقاضا ہے کہ آدمی جہاں بھی ہو اور جس حال میں بھی ہو، وہ یک طرفہ طور پر اخلاقی اصول پر قائم رہے۔ وہ خاندان کے اندر بھی بااخلاق ہو اور پڑوس کے اندر بھی بااخلاق۔ وہ کسی ریاست کا عہدیدار ہو تب بھی بااخلاق ہو اور تعلیمی ادارہ کا معلم ہو تب بھی با اخلاق۔ وہ اسٹیج کا مقرر ہو تب بھی بااخلاق ہو اور اخبار کا صحافی ہو تب بھی بااخلاق۔ وہ تاجر ہو تب بھی بااخلاق ہو اور اگر گاہک ہو تب بھی با اخلاق۔ وہ مقیم ہو تب بھی با اخلاق ہو اور مسافر ہو تب بھی با اخلاق۔

            وہ دوستی میں با اخلاق ہو اور دشمنی میں بھی بااخلاق۔ وہ لینے کے وقت بھی بااخلاق ہو اور دینے کے وقت بھی با اخلاق۔ وہ اتفاق کے وقت بھی با اخلاق ہو اور اختلاف کے وقت بھی بااخلاق۔ وہ دباؤ کے وقت بھی بااخلاق ہو اور دباؤ نہ ہو تب بھی با اخلاق۔ وہ اپنوں کے ساتھ بھی با اخلاق ہوا ور غیروں کے ساتھ بھی بااخلاق۔

            حسن اخلاق کی روش پر قائم رہنے کی صورت کیا ہے۔ کیسے یہ ممکن ہوتاہے کہ کوئی آدمی لوگوں کے ساتھ رہتے ہوئے حسن اخلاق کے اصولوں کو نہ چھوڑے۔ اس کا واحد راز محاسبہ کا تصور ہے۔ لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے بار بار ایسے تجربے پیش آتے ہیں جو آدمی کو حسن اخلاق کی روش سے ہٹا دیں۔ایسے مواقع پر اگر آدمی اس احساس سے خالی ہو کہ خدا کے یہاں اس کی پکڑ ہونے والی ہے تو وہ اپنی خواہش پر چلے گا، وہ اپنے نفس کی پیروی کرنے لگے گا، اس کو جب کسی پر غصہ آئے گا تو وہ انتقام تک پہنچ جائے گا، وہ جب کسی کو اپنے سے بڑا دیکھے گا تو وہ حسد اور جلن کا شکار ہوجائے گا، اس کو کسی سے اختلاف ہو گاتو وہ بے انصافی کی بولی بولنے لگے گا،کسی سے اس کو ٹھیس پہنچے گی تو اس کو اس وقت تک چین نہیں آئے گا جب تک وہ اس سے بدلہ نہ لے لے۔

            اس مقابلہ میں بد اخلاقی کی روش اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ آدمی خدا کی پکڑ سے بے خوف ہوجائے۔ اس کو یہ ڈر نہ ہو کہ اس کے منہ سے جو بول نکلیں گے وہ خدا کے یہاں لکھ لیے جائیں گے۔ وہ اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے جو عمل کرے گا وہ خدا کے یہاں ریکارڈ ہوجائے گا اور پھر قول وعمل کے اس ریکارڈ کی بنیاد پر خدا کے یہاں اس کے لیے ابدی جنت یا ابدی جہنم کا فیصلہ کیا جائے گا۔ جو آدمی حساب کے اس آنے والے دن سے بے خوف ہوجائے وہ بے قید ہو کر ہر وہ کام کرے گا جو اس کا جی چاہے، جو اس کے جذبات کو تسکین دینے والا ہو۔

            موجودہ دنیا میں آدمی بظاہر اپنے آپ کو آزاد پاتا ہے۔ یہی آزادی ہر قسم کی بداخلاقیوں کی جڑ ہے۔ حسن اخلاق پر قائم رہنے کی واحد صورت یہ ہے کہ آدمی یہ سمجھے کہ وہ محاسب خدا کے ماتحت ہے، وہ کسی بھی حال میں خدا کی پکڑ سے بچنے والا نہیں۔ یہ احساس آدمی کے اندرسیلف کنٹرول کی روح پیدا کرتا ہے۔ وہ آدمی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے آپ کو اخلاقی ڈسپلن میں رکھے۔ وہ اپنے آپ کو اخلاقی اصولوں کا پابند بنائے۔ وہ خود اپنے ارادہ سے اپنے آپ کو اخلاق کی رسی میں باند ھ لے۔

            حسن اخلاق کا تعلق بظاہر دوسروں سے ہے مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے اس کا تعلق سب سے زیادہ خود صاحب اخلاق سے ہوتا ہے۔ اخلاق کسی انسان کی تربیت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ایک قسم کے اخلاق سے اعلیٰ انسانی شخصیت بنتی ہے اور دوسرے قسم کے اخلاق سے بری شخصیت تشکیل پاتی ہے۔

            آپ کو کسی سے اختلاف یا شکایت ہو اس کے باوجود آپ ا س کے بارے میں انصاف کا بول بولیں تو آ پ کا یہ بول آپ کے اندر ایک بلند انسا نی شخصیت کی تعمیر کرے گا۔ اس کے برعکس اگر آپ ایسا کریں کہ جس سے آپ کو اختلاف یا شکایت ہو جائے تو آپ ہر موقع کو استعمال کر کے اس کی کردار کشی کرنے لگیں تو اس کے نتیجہ میں آپ کے اندر ایک پست شخصیت بننے لگے گی۔ بد اخلاقی کی روش خود اپنے آپ کو قتل کرنے کے ہم معنی ہے اور حسن اخلاق کی روش اپنے آپ کو نئی زندگی دینے کے ہم معنی۔

            اس مثال سے دوسری صورتوں کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہر اخلاقی روش انسان کی اپنی شخصیت کو یا تو بناتی ہے یا بگاڑتی ہے۔ وہ انسان کے اپنے داخلی وجود کو یا تو زندگی دیتی ہے یا اس کو ہلاک کر دیتی ہے۔ حسن اخلاق سب سے پہلے آدمی کا اپنا مسئلہ ہے اور اس کے بعد دوسروں کا مسئلہ۔

            حسن اخلاق آدمی کو خدا کی رحمتوں کے سایہ میں پہنچانے والاہے۔ اس کے برعکس بداخلاقی کی روش آدمی کو خدا کی رحمتوں سے دور کردیتی ہے۔ بد اخلاقی کارویہ بظاہر آدمی کسی دوسرے کے خلاف کرتا ہے مگر عملاً وہ خود اس کے خلاف ثابت ہوتا ہے۔ آدمی اگر بداخلاقی کے اس نقصان کو جانے تو وہ کبھی کسی کے خلاف بد اخلاقی کا طریقہ اختیار نہ کرے۔