مسلمانوں کی جذباتیت اور جوش خطابت

مصنف : مولانا ابوالحسن علی ندویؒ

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جولائی 2005

عالم اسلام کے سچے خیر خواہ’ ممتاز عالم اور مصلح مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مرحوم کی یہ تقریر‘‘ندوہ’’ سے شائع ہونے والے ‘‘تعمیر ِ حیات’’ میں شائع ہوئی تھی۔ مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر اسے محمد عارف جان صاحب کی کتاب ‘کیا آپ دین سمجھنا چاہتے ہیں’سے شکریے کے ساتھ نقل کیا جا رہا ہے۔

حد سے بڑھی ہوئی جذباتیت اور جوش خطابت کا ایک قدرتی ونفسیاتی نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایسے کاموں سے مناسبت ختم یا کم ہوتی جارہی ہے’ جو صبر واستقلال، مسلسل جدوجہد اور ایک طویل المیعاد سعی و عمل کے محتاج ہیں اور جن کے فوری نتائج نکلنے کا بہت کم امکان ہے اور جو بعض اوقات پہاڑ تراش کر جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتے ہیں۔ان کے مقابلے میں ان کو سرکٹا دینا اور گھر لٹا دینا آسان معلوم ہوتا ہے لیکن زیادہ دن کسی تکلیف کو برداشت کرنا اور کسی کام میں محنت کرنا ان کے ملی مزاج کے خلاف ہوگیا ہے۔

            مسلمانوں کی ان کمزوریوں میں ’ جو اس اخیر دور میں ان کا قومی مزاج بن گئی ہیں’ ان کی حد سے بڑھی ہوئی جذباتیت اور جوش خطابت ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حوادث اور مخالفتوں کا مقابلہ کرنے اور نازک و اہم ذمہ داریوں اور آزمایشوں سے عزت کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کے لیے عزم راسخ’ مہم جوئی وخطر پسندی کا بڑا دخل ہے اور قوموں اور ملتوں کی تاریخ میں اس کی کھلی شہادتیں ملتی ہیں’ لیکن دانش مندانہ اور فرزانہ قیادتوں کو اس جذباتیت’ قلبی جوش و تاثر اور اس کے لیے موثر اور شعلہ نوا خطابت کے بڑے احتیاط وتناسب کے ساتھ کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے’ ورنہ کچھ دنوں کے بعد یہ جذباتی ہیجان اور یہ آتش نوائی اپنا اثر کھو دیتی ہے اور ‘‘بھیڑیا آیا! بھیڑیا آیا’’ کی قدیم کہانی دہرائی جاتی ہے۔

            پھر یہ حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ الفاظ کا بھی ایک درجہ حرارت وبرودت ہوتا ہے۔ اگر معمولی حرارت کے موقع پر آخری درجہ حرارت کے الفاظ استعمال کر لیے جائیں تو وہ الفاظ کا غلط استعمال’ محل ومقام سے صرف نظر اور سامعین کے ساتھ ایک طرح کا دھوکا ہوگا۔ حقیقت پسند اور تعمیری ذہن رکھنے والی بامقصد قومیں اور ملتیں اور ان کے قائدورہنما اس بارے میں بڑے محتاط وحساس ہوتے ہیں۔ جس طرح زرومال کے معاملے میں اسراف’فضول خرچی اور حد سے تجاوز مذموم ہے۔ایسا ہی معاملہ الفاظ کا ہے’ خصوصاً جب وہ قوموں اور ملتوں کی زندگی میں فیصلہ کن کردار اداکریں’ اور ان کو بعض اوقات اپنی جان پر کھیل جانے پر آمادہ کر دیں اور ان کے نتیجہ میں بعض ایسے واقعات ونتائج رونما ہوں’ جن کی تلافی ممکن نہ ہوسکے۔ زرومال سے زیادہ (جن کا اثر افرادوخاندانوں تک محدود رہتا ہے) الفاظ کے استعمال اور سامعین کو جوش دلانے کے بارے میں زیادہ احتیاط واعتدال کی ضرورت ہے۔

            جوش انگیز تحریکوں کے بعد سے دیکھا جارہا ہے کہ ایسے جلسوں میں بھی جن کا مقصد اصلاحی و تعمیری یا اپنے ملی مسائل اور شکایت کا پیش کرنا ہوتاہے ’ جلسے کے مقررین کے درمیان سامعین کے جذبات کو برانگیختہ کرنے اور خطابت کا جوہر دکھانے کا مقابلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جو الفاظ انتہائی ضرورت کے موقع پر استعمال کیے جانے چاہییں’ وہ بے تکلف’ روزِمرہ کے جلسوں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک مقرر کے بعد ددسرا مقرر آتا ہے تو پہلے کو اپنی آتش نوائی اور سحر انگیزی سے بھلا دینا چاہتا ہے۔ اگر ایک کہتا ہے کہ ہم دوسروں کے سروں کا قطب مینار کھڑا کردیں گے تو دوسرا کہتا ہے کہ ہم خون کا بحر احمر جاری کر دیں گے۔ علی ہذا القیاس’ پھر جب ان آخری لفظوں کے بعد بھی عملی نتیجہ نہیں نکلتا تو سننے والوں پر یہ الفاظ بے اثر ہوکر رہ جاتے ہیں’ اور قوت عمل کو نقصان پہنچنے کے سوا اس جوش خطابت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔

            خاص طور پر جس ملک میں مختلف فرقے اور قومیں آباد ہوں اور جہاں حالات کی تبدیلی کے لیے جمہوری طریقے بھی موثر و مفید ہوں’ وہاں اور زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ بعض وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان قوم پیدائشی خطیب اور مقرر ہے اور اس کا ہر فرد پورے جوش و خروش کے ساتھ تقریر کرسکتا ہے’ اس کے بالمقابل ہم دیکھتے ہیں کہ جن قوموں نے بڑے بڑے سیاسی معرکے سر کیے اور مخالف طاقتوں کو اپنے سامنے جھکا لیا’ انہوں نے نہ جوش خطابت سے کام لیا اورنہ الفاظ کی بازی گری سے ،اور وہ اب بھی متوازن وبقدرضرورت خطابت سے بڑے بڑے مسائل حل کر رہی ہیں لیکن ہماری قومی مجالس اور ان کی دھواں دھار تقریروں کے نتیجے میں خود مسلمانوں کا مذاق اس گرم مصالحے اور تیز مرچ کھانے والے کا سا ہوگیا ہے’ جس کو اس سے کم پر تسکین نہیں ہوتی۔

            قوموں اور ملتوں کی زندگی میں’ جن کو اپنی باعزت ملی زندگی کے لیے ایک لمبی مسافت طے کرنی ہوتی ہے’ بے ضرورت اور حد سے بڑھی ہوئی تیز روی’ جو تھوڑی مسافت میں تھکا کر بے دم کر دے’ کوئی دانش مندانہ عمل اور حقیقت پسندانہ مشورہ نہیں۔ اسی کے ساتھ وہ مسلمانوں کے داعیانہ ومصلحانہ مزاج ومقام سے بھی ہم آہنگ نہیں۔

            اس حد سے بڑھی ہوئی جذباتیت اور جوش خطابت کا ایک قدرتی ونفسیاتی نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایسے کاموں سے مناسبت ختم یا کم ہوتی جارہی ہے’ جو صبر واستقلال مسلسل جدوجہد اور ایک طویل المیعاد سعی و عمل کے محتاج ہیں اور جن کے فوری نتائج نکلنے کا بہت کم امکان ہے اور جو بعض اوقات پہاڑ تراش کر جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتے ہیں۔ان کے مقابلے میں ان کو سرکٹا دینا اور گھر لٹا دینا آسان معلوم ہوتا ہے لیکن زیادہ دن کسی تکلیف کو برداشت کرنا اور کسی کام میں محنت کرنا ان کے ملی مزاج کے خلاف ہوگیا ہے۔

            یہ افتاد طبع اور ایک بڑے پیمانے پر یہ صورت حال بہت تشویش ناک ہے’ اس لیے کہ قوموں اور ملتوں کو عزت کا مقام حاصل کرنے اور باعظمت صاحب دعوت کی طرح زندگی گزارنے کے لیے فوری قربانیوں اور جوش وجذبات کے مظاہرے سے زیادہ خاموش’ مسلسل جدوجہد اور صبرواستقلال کی ضرورت ہوتی ہے۔

            یہ مسلمہ حقیقت اور عالمگیر صداقت ہے کہ مغلوب اقوام کو عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے غالب اقوام کے مقابلے میں دوگنا’ بلکہ چار گنا محنت اور جاں فشانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی اصول پر دیکھیے کہ یہودیوں نے امریکہ میں اپنی زندگی میں صلاحیت اور مشکل پسندی کا ثبوت کس خوبی سے دیا ہے۔

            چنانچہ’ ہم مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ اپنے طرز عمل اور رویے پر نظر ثانی کریں۔ اس کے بغیر’ یہ محال ہے کہ غلبہ اسلام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔