قاضی محمد سلیمان منصور پوری

مصنف : محمد وسیم اختر مفتی

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : جولائی 2005

            پیر محمد، مغلیہ دور حکومت میں دلی کے قاضی تھے۔ ان کی اولاد بھی قاضی کہلاتی ۔انہی میں سے قاضی معزالدین ضلع فیروز پور کے قصبے بڈھی مال میں مقیم تھے کہ ان کے پیر مرزا مظہر جان جا ناں نے انہیں حکم دیا کہ وہ منصورپور جا کر تبلیغ کریں ۔ منصورپور ، انبالہ اور بٹھنڈہ کے درمیان عہد تغلق سے آباد ایک تاریخی قصبہ تھا ۔ انگریزوں نے جب ریلوے لائن بچھائی تو اس کا نام بدل کر چھینٹاں والا کر دیا ۔ اب منصورپور کے نام سے ضلع مظفر نگر (یوپی) میں ایک قصبہ باقی رہ گیاہے۔

            قاضی معزالدین یہاں آباد ہوئے،زراعت کرتے اور اسلام کا پرچار بھی۔ ان کے پوتے قاضی احمد شاہ نے ریاست پٹیالہ کے محکمہ مال میں ملازمت اختیار کی اور نائب تحصیل دار بن گئے ۔ ان کے دوبیٹے ہوئے، قاضی محمد سلیمان اور قاضی عبدالرحمان ۔ یہی وہ قاضی سلیمان منصورپوری ہیں جنہوں نے ‘‘ رحمت للعالمین’’ جیسی مشہور کتاب لکھی ۔ ان کی ولادت 1867 ء میں ہوئی ۔ قرآن مجید اور عربی کی تعلیم اپنے والد سے اور لدھیانے کے مولانا عبدالعزیز سے حاصل کی۔ منشی سکھن لال سے فارسی سیکھی ۔ 1884ء میں مہندرا کالج پٹیالہ سے منشی فاضل کا امتحان دیا اور پوری پنجاب یونیورسٹی میں اول آئے۔ ساڑھے سترہ سال کی عمر میں محکمہ تعلیم میں ملازم ہوگئے ۔ ریاست کے گیسٹ ہاؤس کے مہتمم بھی رہے۔ 1900ء میں فیروز پور ، لدھیانہ اور بٹھنڈہ میں کئی ڈکیتیاں ہوئیں ۔ انسپکٹر جنرل پولیس نے اپنے سکھ مشیر کو برخاست کر دیا اور قاضی صاحب کو اس کی جگہ تعینات کیا گیا ۔ احکام ملنے کے بعدتین دن کے اندر قاضی صاحب نے پولیس کے قوانین کا اچھی طرح مطالعہ کر لیا۔ باقی سروس اسی محکمے میں گزاری ، مجسٹریٹ بنے اور سیشن جج کی حیثیت سے ریٹائٹر ہوئے۔

            قاضی سلیمان بلند قامت اور گورے تھے۔ ہمیشہ شیروانی اور چست پاجامہ پہنتے ۔ پگڑی باندھتے اور سلیم شاہی جوتا پہنتے ۔ آپ مرنجاں مرنج اور صلح جو تھے۔ زبان میں بہت تاثیر تھی ۔ جو آپ سے ملتا، کتنا ہی ماڈرن اور بے دین کیوں نہ ہوتا۔ ایک دو ملاقاتوں کے بعد نماز ، روزے کا پابند ہو جاتا ۔ خود اہل حدیث تھے لیکن ہر طبقے اور مسلک کے لوگوں میں یکساں مقبول تھے ۔ آپ علم کی نمائش پسند نہ کرتے تھے۔ باقاعدگی سے جمعہ پڑھاتے ۔وہ مسجد جس میں آپ جمعہ پڑھاتے تھے، اس میں آج بھی پنج گانہ نماز ادا ہوتی ہے ، حالانکہ ہندوستان کی بیشتر مسجدیں ویران پڑی ہیں ۔ بٹھنڈہ کے قیام کے دوران میں، آپ نے سات مرتبہ قرآن پاک مکمل ترجمہ و تشریح کے ساتھ درس میں پڑھایا۔ آندھی ہو یا بارش، گرمی ہو یا جاڑا، ان کے درس میں ناغہ نہ ہوتا تھا۔ انہوں نے ایک مسلم ہائی اسکول بھی بنوایا۔

            قتل اور ڈکیتی کے مقدمات میں آپ کے فیصلوں کو پنجاب ہائی کورٹ نے بہت کم چیلنج کیا۔ آپ مجرموں کو غسل کرنے کو کہتے ،مذہب کا واسطہ دے کر سچ بولنے کی ترغیب دیتے، یوں مقدمے کا فیصلہ آسان ہو جاتا۔

            قاضی صاحب کی تنخواہ بلحاظ عہدہ بہت کم تھی لیکن آپ نے کبھی رشوت نہ لی۔ ایک دفعہ ان کا ایک ہندو دوست ، قتل کے مجرم کی سفارش لایا اور چالیس ہزار روپے تھما دیے۔قاضی صاحب نے جواب دیا۔ رشوت حرام تو ہے ہی، لیکن اس کی رقم جتنی زیادہ ہو اس کا گناہ اتنا ہی بڑھ جاتا ہے۔

            دوسری ریاستوں کی طرح پٹیالہ کے دربار میں بھی حاضری کے کچھ آداب مقرر تھے۔ ایک طریقہ کورنش بجا لاناتھا، جس میں رکوع کی حالت میں جھک کر سلام کیا جاتا ہے۔ یہ عقیدۂ توحید کے بالکل خلاف ہے۔ قاضی سلیمان کورنش بجا لاتے ، نہ راجا نے انہیں اس پر مجبور کیا۔ ایک دفعہ مہاراجا پٹیالہ لندن سے ہوکر آئے اور سب عمائدین سلطنت ان کے استقبال کے لیے ریلوے اسٹیشن پہنچے ۔ قاضی صاحب ہٹ کرکھڑے ہو گئے ۔ راجا کے آنے پر سب کورنش بجالائے لیکن قاضی صاحب کی باری آئی تو راجا خود آگے بڑھ کر ان سے گلے مل گئے۔

            قاضی صاحب تبلیغ دین کے شیدائی تھے۔ ریٹائر ہونے کے بعد ان کی تبلیغی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ آپ انجمن اہل حدیث کے جلسوں کی صدارت کرتے۔ انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسوں میں آپ کو ضرور مدعو کیا جاتا۔ ایک بار آپ نے پورے چھ گھنٹے اسلام کی خوبیاں گنانے میں لگائے۔ آپ سفر خرچ لیتے ،نہ معاوضہ ۔ تقریر حقیقت بیانی اور خلوص سے بھرپور ہوتی ۔سیرت النبی پر انہوں نے جو تقریریں کیں، وہ پڑھنے کے لائق ہیں ۔ وہ مختلف مغربی مصلحین کی تعریف کرتے ، ان کی اصلاح کی خامیاں بتاتے۔ پہلے انبیا کی مدح کرتے اور پھر بتاتے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کیوں ضروری تھی ۔ ایک دفعہ قاضی سلیمان کو کرشن جی کے جنم دن پر جلسے میں مدعو کیا گیا۔ انہوں نے کرشن جی کی زندگی پر اتنے تفصیلی انداز میں روشنی ڈالی کہ ہندو بھی دنگ رہ گئے ۔ دوران سفر میں آپ ریل میں بیٹھ کر عربی کتابوں کے ترجمے کرتے اور مطالعہ کرتے رہتے۔

            قاضی سلیمان منصورپوری کا نمایاں ترین کارنامہ ‘‘رحمت للعالمین’’ کی تصنیف کرنا ہے ۔ اس کا ایک ایک صفحہ عقیدت و احترام کے جذبات سے لبریز ہے۔ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت تفصیل سے بیان کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیے جانے والے ہر اعتراض کا جواب دیا ۔ خصوصاً عیسائی مستشرقین جو شوشے اٹھاتے رہتے تھے ، قاضی صاحب نے لکھا کہ یہ اعتراضات خود پہلے انبیا پر بھی کیے جا سکتے ہیں جن کے یہ پیرو کار ہیں۔ لیکن ہم انہیں بھی اللہ تعالی کا پیغمبر مانتے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان رکھتے ہیں قاضی سلیمان انجیل کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے انہوں نے انجیل میں کی گئی پیشین گوئیاں نکال کر پیش کیں جن میں واضح طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت دی گئی ہے اور ان پر ایمان لانے کو کہا گیا ہے پھر وہ کہتے ہیں ، ‘‘ اس قدر لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ عیسائی بھائی حضرت مسیح علیہ السلام کے ارشاد پر عمل کریں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع اختیار کریں ’’ ۔ رحمت للعالمین میں قاضی سلیمان نے قرآنی اور اسلامی تعلیمات بھی وضاحت سے بیان کیں ۔ انہیں پڑھ کر اسلام پر ایمان پختہ ہو جاتا ہے۔

            تین جلدوں پر مشتمل یہ کتاب ہر مسلمان کو پڑھنی چاہیے ۔ خاص طور پر ہم بچوں سے کہیں گے کہ وہ اس کا مطالعہ ضرور کریں کیونکہ ہم اپنے دل میں اسلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جو محبت پاتے ہیں، اس میں ‘‘رحمت للعالمین ’’ کا بڑا حصہ ہے ۔ ہمیں اپنے بچپن میں اسے پڑھنے کا اتفاق ہواہے ۔ اس کا پہلا حصہ 1913 ء میں شائع ہوا۔ اس زمانے میں کتابیں چھپوا نے سے پہلے لوگ اشتہار دیتے اور کسی بڑے ادارے سے اپنی کتاب چھپواتے ۔ قاضی سلیمان نے کوئی اشتہار نہ دیا اور ایک غیر معروف پبلشر خلیفہ ہدایت اللہ سے اپنی کتاب چھپوائی اس کے باوجود لوگ خط لکھ کر ‘‘رحمت للعالمین’’ بھیجنے کا مطالبہ کرتے ۔ان میں سے اکثر نے لکھا کہ ہمیں خواب میں اس کتاب کو حاصل کرنے کا اشارہ ہوا ہے ۔ ‘‘ رحمت للعالمین’’ کا تیسرا حصہ مکمل نہ ہوا تھا کہ قاضی صاحب بیمار پڑ گئے ۔ اس حصے کی تکمیل ان کی وفات کے بعد سید سلیمان ندوی نے کی۔

            قاضی سلیمان کو اپنے والدین سے بے حد محبت تھی ۔ مہاراجا پٹیالہ کی جانب سے ہر دو تین سال کے بعدجو قیمتی خلعت ملتی وہ اپنے والد کی خدمت میں پیش کر دیتے ۔ حج بھی انہوں نے اسی خلعت کو فروخت کر کے کیے ۔ پہلا 1920 اور دوسرا 1930 میں۔ دوسرے حج کے وقت وہ بیماری سے اٹھے تھے۔وہ ‘‘ رحمت للعالمین’’کی تیسر ی جلد کا مسودہ ساتھ لے گئے۔ بحری جہاز میں اس پر نظر ثانی کی اور کئی ابواب کا اضافہ کیا۔ آپ کا انتقال بھی اسی سفر سے واپسی پر ہوا ۔ نماز جنازہ مولانا اسماعیل غزنوی نے پڑھائی اور پھر آپ کے جسد کو تختے پر رکھ کر سمندر کی لہروں کے سپرد کردیا گیا تاریخ 30 مئی 1930ء تھی ۔ ان کی وفات پر حبیبیہ ہال لاہور میں تعزیتی جلسہ ہوا جس میں علامہ اقبال بھی تشریف لائے۔

            ‘‘ رحمت للعالمین ’’ کے علاوہ بھی قاضی سلیمان نے کئی کتابیں لکھیں ۔ مشہور ترین یہ ہیں ۔ ۱۔‘‘ سفر نامہ حجاز’’ یہ آپ نے پہلے سفر حج کے بعد لکھا تھا ۔ ۲۔ ‘‘ شرح اسماء الحسنیٰ’’ اللہ تعالی کے ننانوے ناموں کی تشریح۔ ۳۔ جنگ بدر میں حصہ لینے والے صحابہ کے حالات جس کانام ‘‘ اصحاب بدر ’’ رکھا ۔ ۴۔ سیرت پر مختصر کتاب جو ‘‘ مہر نبوت ’’ کے نام سے 1899ء میں چھپی ۔ اس کے علاوہ بے شمار تقریریں اور چھوٹے پمفلٹ ہیں ۔ کچھ عیسائیوں اور کچھ قادیانیوں کے رد میں لکھے ۔ ان میں تبلیغی تقریریں بھی ہیں جو انتہائی موثر انداز میں کی گئیں ۔ آپ نے اردو اور فارسی شاعری بھی کی۔

            قاضی صاحب کے حالات زندگی جمع کرنے میں ان کے پوتے حسن معز الدین قاضی نے ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا۔وہ آج کل ماڈل ٹاؤن لاہور میں قیام رکھتے ہیں ۔