زادِ راہ

مصنف : علی احمد باکثیر الیمنی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جولائی 2005

علی احمد باکثیر الیمنی / ترجمہ: قلب بشیر خاور بٹ

پہلا منظر

(ایک نوجوان حضرت ابوذرؓ غفاری کے گھر آتا ہے۔ آپ اس کا استقبال کرتے ہیں۔ نوجوان کا نام ثعلبہ ہے۔ وہ کہتا ہے:)

ثعلبہ:                 معاف کیجیے گا اے صحابیؓ رسولؐ، بغیر جان پہچان کے حاضر ہوا ہوں۔

ابوذرؓ:                 کوئی بات نہیں اے نوجوان…… آپ کا تعارف؟

ثعلبہ:                 میرا نام ثعلبہ بن حاطب ہے۔

ابوذرؓ:                 کیا آپ انصاری ہیں؟

ثعلبہ:                 جی ہاں …… قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں سے ہوں۔

ابوذرؓ:                 بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر …… تشریف رکھیں!

ثعلبہ:                 اے ابوذرؓ! میں ایک غریب آدمی ہوں۔ سنا ہے آپ صدقہ و خیرات تقسیم کرتے ہیں …… میں چاہتا ہوں کچھ مجھے بھی ملے۔

ابوذرؓ:                 (حیران ہوکر) اے نوجوان کیا تو غریب ہے؟

ثعلبہ:                 بخدا اے ابوذر، میرے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے۔

ابوذرؓ:                 سن اے نوجوان، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں کے گھروں کا چکر لگاکر روٹی کے چند نوالے اور گنتی کی چند کھجوریں مانگتا ہے، بلکہ مسکین وہ ہے جس کے بارے میں قرآن حکیم ارشاد کرتا ہے۔ لا یسئلون الناس الحافا مگر وہ لوگ ایسے نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں۔ اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ لوگوں کے سامنے دست سوال پھیلانے والا جب قیامت کے دن حاضر ہو گا تو اس کے چہرے پر گوشت نہ ہو گا۔

ثعلبہ:                 عجیب۔ ابوذرؓ کیا آپ مجھے خیرات نہیں دینا چاہتے جو یہ باتیں سنانی شروع کر دیں؟

ابوذرؓ:                 نہیں ، نہیں! بلکہ میرا ارادہ تو صرف نصیحت کرنے کا ہے کہ تو ایک مضبوط جسم کا نوجوان ہے اور کام کرکے کما سکتا ہے۔

ثعلبہ:                 لیکن کون سا کام کروں، مجھے کوئی کام نہیں ملتا۔

ابوذرؓ:                 جو کام بھی ملے وہ کرو۔ چاہے لکڑیاں کاٹ کر بیچنی پڑیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: لا ن یاخذ احدکم حبلہ ثم یاتی الجبل فیاتی بحزمۃ من حطب علی ظھرہ فیبیعھا فکیف اللہ بھاوجھہ خیرلہ من ان یسال الناس اعطوہ امنعوہ

ثعلبہ:                 اے صحابئ رسولؐ میری بیوی کے ہاں عنقریب ولادت ہونے والی ہے اور آپ مجھے پہاڑوں سے لکڑیاں کاٹ کر بیچنے کی نصیحت کر رہے ہیں۔

ابوذرؓ:                 کیا جلد ہی ولادت متوقع ہے؟

ثعلبہ:                 میں آپ کے پاس ہرگز نہ آتا اگر ایسی بات نہ ہوتی۔

                        (ابوذر تھوڑی دیر کے لیے گھر کے اندر جاتے ہیں واپسی پر ہاتھ میں دو تھیلے پکڑے ہوئے ہیں، تھیلے نوجوان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں)

ابوذرؓ:                 میرے پاس اس وقت یہ کھجوریں اور تھوڑے سے جو ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ بھی نہیں، یہ قبول کرو اے ثعلبہ، بخدا اگر میرے پاس اس سے زیادہ ہوتا تو ضرور عطا کرتا۔

ثعلبہ:                 جزاک اللہ خیراً اے ابوذرؓ! یہ ہمارے لیے بہت کافی ہے۔

دوسرا منظر

(ثعلبہ اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں تھیلے ہیں وہ اپنی بیوی زہیرہ کے سامنے دونوں تھیلے رکھتے ہوئے کہتا ہے:)

ثعلبہ:                 یہ لو زہیرہ اور بچے کے یومِ ولادت کے لیے سنبھال رکھو۔

زہیرہ:                کیا کہہ رہے ہیں آپ، ابھی تو چھٹا مہینہ ہے۔

ثعلبہ:                 جلد ہی نواں مہینہ بھی آنے والا ہے۔ یہ چیزیں اس وقت کام آئیں گی۔ خبردار اس دن سے پہلے ان کو نہ چھیڑنا!

زہیرہ:                اگر ہمیں اس سے پہلے ہی ان کی ضرورت پڑ جائے تو؟

ثعلبہ:                 خبردار ان کو چھونا بھی نہیں!

زہیرہ:                آخر کیوں؟

ثعلبہ:                 جناب ابوذرؓ نے یہ چیزیں ہمیں اسی دن کے لیے عطا کی ہیں اور میں ان کے سامنے جھوٹا نہیں ہونا چاہتا۔

زہیرہ:                ثعلبہ، آخر کب تک یوں لوگوں سے مانگتے رہو گے کیا تمھیں اس سے بہتر کوئی کام نہیں ملتا؟

ثعلبہ:                  (غصے سے) خاموش۔ اگر تمھارا باپ امیر ہوتا تو مجھے بھی امیر کر دیتا۔

تیسرا منظر

(حضرت ابوذر غفاریؓ کا گھر۔ ثعلبہ داخل ہوتا ہے)

ابوذرؓ:                 کیا ہوا ثعلبہ؟کیا تمھاری بیوی کے ہاں ولادت ہو گئی؟

ثعلبہ:                 نہیں اے صحابی ٔرسول اللہ۔ ہم ابھی انتظار ہی میں ہیں۔ اور جو کچھ آپ نے عطا فرمایا تھا اس میں سے بھی کچھ میں نے اللہ کی راہ میں خیرات کر دیا ہے۔

ابوذرؓ:                 کیا اس میں سے خیرات کر دیا؟

ثعلبہ:                 ہاں اے ابوذر، مجھے شرم آتی تھی کہ میرے گھر اتنا مال پڑا رہے۔ پس اس میں سے کچھ میں نے صدقہ کر دیا ہے۔

ابوذرؓ:                 اے ثعلبہ، اللہ کریم نے تمھارے لیے اور جو بہت سارے راستے کھول رکھے ہیں۔

ثعلبہ:     کون سے راستے؟

ابوذرؓ:                 دو آدمیوں کے درمیان انصاف کرنا صدقہ ہے۔ کسی آدمی کو گھوڑے پر سوار ہونے میں مدد دینا یا اس کا سامان اٹھا کر گھوڑے پر رکھوا دینا صدقہ ہے۔ اچھی بات کہنا صدقہ ہے۔ راستے کو تکلیف دہ چیزوں سے پاک کرنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا یہ سب صدقہ ہے ثعلبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی فرماتے سنا ہے۔

ثعلبہ:                 لیکن اے ابوذرؓ، میں چاہتا ہوں کہ مساکین اور فقراء میں مال تقسیم کروں۔

ابوذرؓ:                 میرا خیال ہے تم دولت کے بارے میں حریص ہو!

ثعلبہ:                 یہ لالچ صرف اور صرف صدقہ و خیرات کے لیے ہے اے ابوذرؓ!

ابوذرؓ:                 تو پھر صبر کرو، حتیٰ کہ اللہ تمھارے لیے رزق کے دروازے کھول دے۔

ثعلبہ:     کیا خیال ہے آپ کا؟ کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر دولت کے لیے دعا کی درخواست نہ کروں؟

ابوذرؓ:                 اگر تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروانا چاہتے ہو تو ان سے مال و دولت سے بہتر چیز کے لیے دعا کرواؤ۔

ثعلبہ:                 نہیں نہیں، مجھے صرف مال چاہیے، کیونکہ اس حالت میں بھی میں نماز پڑھ سکتا ہوں۔ روزہ رکھ سکتا ہوں۔ اللہ کی حمد و ثنا جب چاہوں کر سکتا ہوں، لیکن صدقہ بالمال نہیں کر سکتا۔

چوتھا منظر

(ثعلبہ کا گھر، وہ اپنے گھر خوشی خوشی آتا ہے اور اپنی بیوی کو پکارتا ہے)

ثعلبہ:                 زہیرہ زہیرہ!

زہیرہ:                کیا بات ہے ثعلبہ

ثعلبہ:                 مبارک ہو زہیرہ، اب میں بہت امیر ہوجاؤں گا، میرے پاس مال و دولت کے ڈھیر ہوں گے۔

زہیرہ:                لیکن یہ سب کچھ آئے گا کہاں سے؟

ثعلبہ:                 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صدقہ ملے گا۔

زہیرہ:                کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں مال و دولت عطا فرمائیں گے؟

ثعلبہ:                 انھوں نے مجھے اس سے زیادہ اچھی چیز عطا فرمائی ہے۔ وہ چیز عطا فرمائی ہے جو کبھی بھی ختم نہیں ہو گی۔

زہیرہ:                کیا تمھارے لیے جنت کی دعا فرما دی ہے؟

ثعلبہ:                 جنت کی ؟ نہیں …… دعا رزق کے لیے …… ثروت کے لیے، مال و دولت کے ڈھیروں کے لیے!

زہیرہ:                الحمدللہ، اب ہمیں لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کرنا پڑے گا۔

ثعلبہ:                 تمھارا برا ہو، دستِ سوال دراز کرنے کا کیا موقع ، میں تو لوگوں میں صدقات و خیرات تقسیم کرنے والا ہوں گا۔

زہیرہ:                اچھا تو اس نیک کام کی ابتدا آج سے ہی کر دو۔ اور فطرانہ ادا کرو جو تمھارے ذمہ واجب الادا ہے۔

ثعلبہ:                 فطرانہ؟

زہیرہ:                یہ ماہِ رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہے۔

ثعلبہ:                  فی الحال تو ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔

زہیرہ:                ٹھیک ہے ، لیکن ہمارے پاس ایک تھیلا جو اور ایک تھیلا کھجوروں کا ہے۔

ثعلبہ:                 وہ تو ہم نے اپنے بچے کے یومِ ولادت کے لیے سنبھال کے رکھا ہے۔ یہ ہمارے لیے جائز نہیں ہے کہ حضرت ابوذرؓ کے ساتھ کیے ہوئے وعدے سے انحراف کریں۔

زہیرہ:                عجیب! لیکن حضرت ابوذرؓ یہ کبھی نہ چاہیں گے کہ تم فطرانہ ادا نہ کرو اور پھر تمھیں ڈر کیسا۔ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھارے لیے دعائیں نہیں کیں؟

ثعلبہ:                 لیکن دعا کے اثر سے میں ابھی تک امیر تو نہیں ہوا نا!

زہیرہ:                اف، لیکن کیا تم ڈرتے نہیں کہ واجب الادا فطرانہ ادا نہ کرنے سے اللہ کے نبی کی دعا سے بھی محروم ہو جاؤ گے۔

ثعلبہ:                 (کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد) تم سچ کہتی ہو زہیرہ ، …… میں آج ہی فطرانہ ادا کرتا ہوں جو کچھ تمھارے پاس ہے مجھے دو ، جلدی کرو۔

پانچواں منظر

(حضرت ابوذرؓ کا گھر، ثعلبہ آتا ہے۔ حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں)

ابوذرؓ:                 کیا ہو گیا ہے تمھیں اے ثعلبہ؟ کچھ دنوں سے تم مسجد میں نماز کے لیے نہیں آ رہے؟

ثعلبہ:                 معاف کیجیے گا اے ابوذرؓ۔ اصل میں میں نے شہر والا چھوٹا مکان چھوڑ دیا ہے اور نواحی بستی میں نسبتاً کھلا مکان لے لیا ہے۔

ابوذرؓ:                 یہیں شہر میں بڑا مکان لے لیا ہوتا ، تاکہ مسجد نبوی کے قریب رہتا۔

ثعلبہ:                  نہیں ابوذرؓ، میرے لیے یہ ممکن نہ تھا کیونکہ بھیڑبکریوں کی کثرت کی وجہ سے مدینہ منورہ کے میدان تنگ ہو گئے تھے۔ میں لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتا، بہرحال نمازِ جمعہ کے لیے آپ مجھے حریص پائیں گے۔

ابوذرؓ:                 کل تیری بھیڑ بکریوں کے لیے مدینہ منورہ کے مضافات کی چراگاہ بھی تنگ ہو جائے گی، تو کیا اس نواحی بستی سے بھی دور جا کر رہنے لگے گا، حتیٰ کہ جمعتہ المبارک کے لیے بھی نہیں آیا کرے گا؟

ثعلبہ:                 معاذ اللہ، اے ابوذرؓ! کبھی ایسا نہ ہو گا کہ میں نبیؐ کے ساتھ جمعہ کی نماز نہ پڑھ سکوں۔

ابوذرؓ:                 میں سوچ رہا تھا نہ جانے کس مصیبت نے تمھیں گھیر لیا ہے تم کیوں ہمارے ہاں نہیں آئے!

ثعلبہ:                 (فخریہ لہجہ میں) کیا خیال ہے آپ کا اے ابوذرؓ اگر میں ہفتہ بھر آپ کے پاس رہوں تو آپ کے لیے بوجھ تو نہ بن جاؤں گا؟

ابوذرؓ:                 نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔

ثعلبہ:                 اگر اجازت ہو تو میں اپنے کھانے پینے کا سامان گھر سے لیتا آؤں، کیونکہ الحمدللہ آج کل دولت و ثروت میرے گھر کی لونڈی ہے۔

ابوذرؓ:                 (غصے سے) اللہ تجھے ہدایت دے مجھے تیرے مال و دولت کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ میری نظروں سے دور ہو جا۔ اور خبردار کبھی میری طرف نہ آنا۔

چھٹا منظر

(ثعلبہ کا گھر۔ دولت کی فراوانی نظر آتی ہے۔ وہ صدقات و زکوٰۃ وصول کرنے والے عامل سے باتیں کر رہا ہے۔)

عامل:                 اے ثعلبہ بن حاطب، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صدقات وصول کرنے والا ہوں۔ اور مال زکوٰۃ لینے آیا ہوں۔

ثعلبہ:                 مجھے کیا معلوم کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی بھیجے ہوئے ہو؟

عامل:                 ہوش کرو ثعلبہ، کیا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جھوٹ بولوں گا!

ثعلبہ:                 لیکن میں تو تمھیں نہیں جانتا۔

عامل:                 یہ رہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نامہ، لو اسے پڑھو (ثعلبہ حکم نامہ پڑھتا ہے اور کمزور لہجے میں کہتا ہے) معاف کرنا بھائی، برا نہ ماننا۔ یہ سب کچھ میں نے اطمینان کے لیے کیا اور یہ میرا حق ہے۔

عامل:                 اچھا تو پھر اپنے مال و اسباب کے حسابات دکھاؤ!

ثعلبہ:                 آپ یوں کریں کہ پہلے دوسروں سے زکوٰۃ وصول کرآئیں اور پھر جاتے ہوئے مجھ سے بھی لیتے جائیں۔

عامل:                 زکوٰۃ سب سے وصول کی جا چکی ہے، بس اب تم ہی رہتے ہو۔

ثعلبہ:                 خدا کی قسم میری سمجھ میں تو یہ بات بالکل نہیں آرہی کہ مسلمانوں پر زکوٰۃ کیسے واجب کر دی گئی ہے۔ یہ زکوٰۃ جزیہ کی بہن کے سوا اور کیا ہے؟

عامل:                 اللہ تجھے غارت کرے یہ کیا کہہ رہا ہے تو؟

ثعلبہ:                 ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہوں۔

عامل:                 بخدا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تیری شکایت کروں گا۔

ثعلبہ:                 (غصے سے) خبردار اگر تم نے شکایت کی تو!

عامل:                 اے منافق، بخدا میں ایسا ہی کروں گا!

ثعلبہ:                 تو پھر میں بھی کہوں گا کہ تم نے مجھے بے ایمانی پر اکسایا تھا اور جب میں راضی نہ ہوا تو مجھ پر الزام تراشی شروع کردی۔

عامل:                 کیا تو بھول گیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ تیرے بارے میں ضرور وحی نازل ہو گی۔

ثعلبہ:                 (سوچتے ہوئے آہستہ آہستہ کہتا ہے) اچھا ٹھہرو میں تمھارے لیے ایک نیکی کرتا ہوں، تم میری پہلی باتوں کو نظر انداز کردو میں تمھاری پردہ پوشی کروں گا۔

عامل:                 (بہت غصے سے) اللہ تجھے تباہ کرے، تو میری کیا پردہ پوشی کرے گا، جو چاہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کرنا۔

ثعلبہ:                 تم مجھے ایک غریب آدمی لگتے ہو، کیا خیال ہے تمھارا، کیوں نہ تمھارے بچوں کے لیے کچھ تحائف دے دوں؟

عامل:                 یہ تیرا دوسرا بڑا گناہ ہے، خدا کی قسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تیری شکایت ضرور کروں گا۔

ثعلبہ:                 (مصنوعی خوشی ظاہر کرتے ہوئے) اللہ تمھارا بھلا کرے میرے بھائی، اب تو تم نے مجھے یقین دلادیا ہے کہ واقعی تم ایک ایمان دار اور سچے آدمی ہو۔ کتنا پیارا ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چناؤ۔

عامل:                 اچھا تو اب تُومجھے یہ یقین دلانا چاہتا ہے کہ تو میرا امتحان لے رہا تھا؟

ثعلبہ:                 واقعی میں تو صرف آپ کا امتحان لے رہا تھا۔

عامل:                 رہنے دے میں سب کچھ جانتا ہوں۔

ثعلبہ:                 بخدا میرا اس کے سوا کوئی اور ارادہ نہ تھا۔

عامل:                 اور یہ تیرا تیسرا حملہ ہے اے منافق۔

ثعلبہ:                 کیا تو نے میرا دل چیر کر دیکھ لیا ہے کہ میں کیا چھپا رہا ہوں اور کیا ظاہر کر رہا ہوں؟

عامل:                 اچھا اب جو کچھ بھی ہے میرے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چل، جو کہنا ہو وہاں کہہ لینا۔

ثعلبہ:                 تم چلو اور میں ابھی اپنے گھوڑے پر آتا ہوں۔

عامل:                 ٹھیک ہے۔

(عامل باہر نکلتا ہے اور زہیرہ کمرے میں داخل ہوتی ہے)

زہیرہ:                یہ کیا کر دیا ہے آپ نے؟

ثعلبہ:                 کیا تو ہماری گفتگو سن رہی تھی؟

زہیرہ:                شروع سے لے کر آخر تک۔ کاش مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں مجرم کی حیثیت سے کھڑے ہو گے۔

ثعلبہ:                 کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس چھوٹی سی بات پر پکڑکریں گے جو میری زبان سے بغیر نیت اور ارادے کے نکل گئی تھی؟

زہیرہ:                مجھے معلوم ہے تمھارا یہی ارادہ تھا کہ زکوٰۃ ادا نہ کرو، تم نے تو اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا کبھی شکر ادا نہیں کیا۔

ثعلبہ:                 وہ میرے مال میں سے جو کچھ مانگتے ہیں وہ دے دوں گا۔ پھر انھیں اور کیا چاہیے؟

زہیرہ:                ثعلبہ، یہ تم کہہ رہے ہو، یاد رکھو تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ نہیں دے رہے۔ یہ تو تمھارے مال پر اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔

ثعلبہ:                 اللہ کا حق ہو یا اس کے رسول کا۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میں انھیں دے دوں گا پھر اور کیا چاہتے ہیں وہ مجھ سے؟

زہیرہ:                وہ چاہتے ہیں کہ تم اللہ اور اس کے رسول کے لیے مخلص ہو جاؤ۔

ثعلبہ:                 بخدا میں اللہ ، اس کے رسولؐ اور مسلمانوں کے لیے مخلص ہوں۔

زہیرہ:                اگر تم واقعی مخلص ہوتے تو تمھیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

ثعلبہ:                 تم بھی مجھ پر ناراض ہو رہی ہو!

زہیرہ:                مجھے تو تم پر رحم آ رہا ہے۔

ثعلبہ:                 کیا خیال ہے تمھارا؟ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں یا …… ؟

زہیرہ:                تمھارے دماغ میں فتور آگیا ہے کیا؟ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسولؐ کسی شخص کو بھیجیں اور وہ تمھیں باندھ کر لے جائے؟

ثعلبہ:                 میں نے کون سا جرم کیا ہے کہ مجھے پکڑ کر لے جایا جائے گا۔ نہ ہی میں نے کفر کیا ہے اور نہ ہی مرتد ہوا ہوں۔

زہیرہ:                بہتر ہے کہ خود ہی مطیع اور فرمانبردار بن کر حضورؐ کے دربار میں حاضر ہو جاؤ اور اپنے جرم کا اعتراف کرکے معافی مانگو۔ شاید اللہ کے رسولؐ تمھیں معاف فرما دیں اور اللہ سے تمھاری مغفرت کے لیے دعا فرمائیں۔

ثعلبہ:                 سچ کہا تم نے اے زہیرہ، بخدا وہ تو واقعی بڑے رحیم و کریم ہیں۔ میں جاتا ہوں۔ تائب ہو گیا ہوں۔

ساتواں منظر

(حضرت ابوذرغفاریؓ کا گھر۔ زہیرہ اور ثعلبہ داخل ہوتے ہیں۔ زہیرہ کہتی ہے:)

زہیرہ:                اے رسول اللہ کے محترم صحابی، آپ کی بہت مہربانی ہو گی اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے شوہر کی سفارش فرما دیں۔

ابوذرؓ:                 لیکن اس کے متعلق تو قرآن حکیم کی آیات نازل ہو چکی ہیں۔ اب میں کیسے سفارش کر سکتا ہوں۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے: و منھم من عاھدوا للہ لئن اتانا من فضلہ لنصد قن ولنکونن من الصالحین فلما اتاھم من فضلہ بخلوا بہ وتولوا وھم معرضونo (ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا۔ اگر اس نے اپنے فضل سے ہم کو نوازا تو ہم خیرات کریں گے اور صالح بن کر رہیں گے، مگر جب اللہ نے اپنے فضل سے انھیں دولت مند کر دیا تو وہ بخل پر اتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ انھیں اس کی پروا تک نہیں ہے)

زہیرہ:                یا ابوذرؓ آپ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں کہ اس سے صدقہ قبول فرما لیں۔

ثعلبہ:                 جی ہاں آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں کہ میرا صدقہ قبول فرمالیں۔ میں کچھ زیادہ دینے کے لیے تیار ہوں۔

ابوذرؓ:                 مجھے معلوم ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب کسی کی سفارش پر بھی تیرا صدقہ قبول نہیں فرمائیں گے۔

زہیرہ:                حضرت، یہ تو اب تائب ہے اور اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔

ابوذرؓ:                 یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ اب اس شخص کے پاس خیر نام کی کوئی چیز ہے بھی کہ نہیں۔ اگر خیر ہوتی تو اللہ کے رسولؐ ضرور توبہ قبول فرما لیتے۔

ثعلبہ:                 (عاجزی سے) اچھا تو یہی کچھ سفارش کر دیں کہ وہ میرے مال میں بے برکتی کی دعا نہ کریں۔

ابوذرؓ:                 سنا تم نے زہیرہ؟ اسے تو اپنے مال و دولت کے علاوہ کسی چیز کا ہوش ہی نہیں۔

ثعلبہ:                 سبحان اللہ۔ میں اپنے مال کی وجہ سے خوف کیوں نہ کھاؤں؟

زہیرہ:                خدا تمھیں غارت کرے۔ کہو کہ میں شرمندہ ہوں اور توبہ کرتا ہوں۔

ثعلبہ:                 ہاں یا ابوذرؓ، میں شرمندہ ہوں اور توبہ کرتا ہوں۔

ابوذرؓ:                 ذرا اپنا مقام اس آیت کریمہ میں تو دیکھو۔ فاعقبھم نفاقا فی قلوبھم الی یوم یلقونہ بما اخلفواللہ بما وعدوہ وبما کانوا یکذبون (ان کی اس بد عہدی کی وجہ سے جو انھوں نے اللہ کے ساتھ کی اور اس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے۔ اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھا دیا ہے)

ثعلبہ:                 نہیں نہیں خدا کی قسم میں جھوٹا نہیں ہوں اور نہ ہی منافق ہوں۔

ابوذرؓ:                 اللہ تجھے تباہ کرے، کیا ہم اللہ کے قول کو جھٹلا کر تیری بات کی تصدیق کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر تیرے منافق اور کاذب ہونے کی گواہی دی ہے۔

ثعلبہ:                 (خوشی اور خوف کے ملے جلے اثرات سے کہتا ہے) کیا ساتویں آسمان پر؟ ساتویں آسمان پر(پھر بہت زور سے قہقہہ لگاتا ہے) ہا ہا ہا ہا …… ساتویں آسمان پر۔ پھر تو میں تم سے ہزار درجے بہتر ہوں اے ابوذرؓ! کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے ساتویں آسمان پر یاد فرمایا ہے اور میرا ذکر کیا ہے۔

زہیرہ:                ہائے میری قسمت پھوٹ گئی …… اے ابوذرؓ یہ تو شاید پاگل ہو گیا ہے۔

ابوذرؓ:                 سن اے منافق تیرے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ارشاد فرمایا ہے۔

زہیرہ:                اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ ابوذرؓ یہ پاگل ہو گیا ہے۔

ابوذرؓ:                 نہیں یہ شیطان ہے، اسے ساتھ لے کر یہاں سے چلی جاؤ!

ثعلبہ:                 (زور زور سے پھر قہقہے لگاتا ہے اور زہیرہ اسے باہر کی طرف دھکیلتی ہے۔ ثعلبہ برابر کہے جا رہا ہے۔ ساتویں آسمان پر، ساتویں آسمان پر(زہیرہ اسے دھکیل کر باہر لے جاتی ہے)۔

ابوذرؓ:                 (دونوں ہاتھ افسوس سے ملتے ہیں اور پھر دعا مانگتے ہیں)۔

                        لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا وھب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب۔

            (بشکریہ مختار علی صاحب جنہوں نے کتاب ‘عالم بالا کے سائے میں’ فراہم کی جس میں سے یہ مضمون مترجم اور مصنف کے شکرے کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔)