اپنے کام سے کام

مصنف : مولانا وحید الدین خان

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جون 2005

            تقریباً پانچ سال پہلے دہلی میں میری ملاقات ایک مسلم نوجوان سے ہوئی۔انہوں نے کمپیوٹر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کے دو رشتہ داروں کے ساتھ میں اُن کے گھر پر ملا۔ ہم لوگ تقریباً ایک گھنٹہ تک وہاں رہے۔ اس پورے وقت میں مَیں نے یہ محسوس کیاکہ یہ نوجوان نہ صرف اپنے فن میں ایکسپرٹ ہے بلکہ اس کے اندر ایک انوکھی صفت ہے۔ اس صفت کو ایک لفظ میں کہہ سکتے ہیں،اپنے کام سے کام۔ اسی وقت میرے دل میں یہ بات آئی تھی کہ یہ نوجوان ضرور اعلیٰ ترقی کرے گا۔۱۶، اکتوبر ۲۰۰۴کے اخبار میں یہ خبر پڑھی کہ مذکورہ نوجوان کو ایک بین الاقوامی ادارہ میں وائس چیئرمین کی جگہ پر فائز کیا گیا ہے۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً ۳۵ سال ہے۔

            اپنے کام سے کام کوئی سادہ بات نہیں۔ اپنے کام سے کام کا مطلب اپنے وقت اور اپنی طاقت کو بچانا ہے۔ اپنے آپ کو اس قابل بناناہے کہ صلاحیتیں مفید طور پر استعمال ہو سکیں۔ اپنے وقت اور اپنی صلاحیت کا کوئی جزئی حصہ بھی کسی غیر ضروری کام میں ضائع نہ ہونے پائے۔

            جس آدمی کے اندر اپنے کام سے کام کا مزاج ہو وہ دوسروں کے لیے آخری حدتک قابل قبول انسان بن جائے گا۔ وہ دوسروں کے خلاف نہیں بولے گا۔ وہ دوسروں کے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔ وہ دوسروں کے ساتھ اسی حالت میں تعاون کرنے پر راضی ہو جائے گا جس حالت میں کہ وہ ہیں۔ اسی طرح دوسرے بھی اس کے ساتھ اسی حالت پر تعاون کرنے پر راضی ہوجائیں گے جس حالت میں ،کہ وہ خود ہے۔

            لوگ اس انسان کو پسند کرتے ہیں جو دوسروں کے لیے مسئلہ پیدا کیے بغیر اپنا کام کرے اور جو آدمی اپنے کام سے کام رکھے ،وہ دوسروں کے لیے ایک پسندیدہ انسان بن جائے گا۔ اپنے کام سے کام رکھنا کوئی سادہ بات نہیں ۔ یہ زندگی کا ایک کامیاب اصول ہے۔ جو آدمی اس اصول کو پوری طرح اپنا لے وہ اس دنیا میں کبھی ناکام نہیں ہوسکتا۔

            اسی مزاج کا ایک اظہار وہ ہے کہ جس کو اسٹیٹس کوازم(statusquoism)کہا جاتا ہے۔ کسی مقصد میں کامیابی کے لیے اسٹیٹس کوازم واحد کارگر تدبیر ہے۔ اسٹیٹس کوازم کا مطلب ہے:۔حالت موجودہ سے ٹکرائے بغیر اپناکام کرتے رہنا۔

             کام کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کی سوچ یہ ہو کہ پہلے موجودہ صورت حال کو بدلو۔ اس کے بعد اپنا مطلوب کام شروع کرو۔ یہ راستہ منفی راستہ ہے۔ اس میں یہ نقصان ہے کہ آدمی اپنی قوت و طاقت کا بڑا حصہ غیر ضروری طور پر مفروضہ مشکلات کو دور کرنے میں لگا دیتا ہے۔ جب کہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ مشکلات کو نظر انداز کر کے مواقع کو استعمال کیا جائے۔ اپنے کام سے کام کا مطلب اسی طریقے کو اختیار کرنا ہے۔

             اصل یہ ہے کہ دنیا کبھی مشکلات یا ناموافق باتوں سے خالی نہیں ہو سکتی ۔ مشکلات کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ ایک مشکل کو ہٹاتے ہی دوسری مشکل سامنے آجاتی ہے اور دوبارہ وہی ناموافق صورت حال باقی رہتی ہے جو پہلے تھی۔ ایسی حالت میں عقلمندی یہ ہے کہ مشکلات و مسائل کو زندگی کا ایک لازمی حصہ سمجھا جائے اور اس کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

             یہ دنیا کسی ایک کے لیے نہیں ہے بلکہ سب کے لیے ہے۔ عقلمند آدمی وہ ہے جو یہ جانے کہ دنیا کی اس شاہراہ پر دوسروں کو راستہ دے کر ہی اپنا راستہ ملتا ہے۔ جو آدمی زندگی کی شاہراہ پر دوسروں کو راستہ دیے بغیر آگے بڑھناچاہے اس کے لیے جو چیز مقدر ہے وہ قبرستان ہے ،نہ کہ مطلوب منزل۔ یہی فطرت کا قانون ہے اور یہ ہی انسانی تاریخ کا فیصلہ بھی۔