امی جان کے نام ایک خط

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : مارچ 2005

پیاری امی جان

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

 امی جان آج آپ کو رخصت ہوئے کتنے دن بیت گئے لیکن روز اک آہ سی ہے جودل سے اٹھا کر تی ہے ۔اسے کوئی اور تو سن نہیں پاتا لیکن شاید آپ اسے سنتی ہوں۔ میں تو البتہ’ اکثر آپ کی آواز سنا کر تا ہوں۔ آپ رات کو مجھے آواز دے کر بلایا کرتی تھیں نا! کل رات بھی یوں ہی محسوس ہوا کہ جیسے آپْ نے مجھے آواز دی ہو میں تیزی سے اٹھا آپ کے کمرے کی طرف لپکا لیکن دیکھاوہ تو خالی تھا۔امی جان اس وقت رات کے دو بجے تھے میں آپ کے بستر پر بیٹھ کر خوب رویا لیکن آہستہ سے’ کہ کوئی میری آواز نہ سن لے ۔سوچا کہ میرے بیوی بچے کیا کہیں گے کہ یہ اتنا بڑا ہو کے بھی روتا ہے۔ لیکن امی جان میں بڑا کب تھا’میں تو آپ کی سب سے چھوٹی اولاد تھا نا’ لیکن آپ کے جاتے ہی اب میں بڑا ہو گیا ہوں۔

 امی جان آج باہر بارش ہو رہی ہے سرد ی بہت زیا دہ ہے لیکن مجھے کسی نے بھی نہیں کہا کہ سویٹر پہن لویا چادر لے لو’ سرد ی لگ جائے گی۔کوئی کیوں کہتا؟اب تو میں خود بڑا ہو گیا ہوں نا! اور بڑوں کو بھلا کب کہا جاتا ہے! میں تو ہمیشہ سے سب کے لیے ‘‘بڑا سا’’ تھا ایک چھوٹا تو آپ کیلئے تھا ۔ اب میں چھوٹا کس کے لئے ہوں گا۔ یہ سوچ کے ایک دفعہ پھر’ آپ کی یاد سے دل بھر گیا سوچا کہ آج رونے کے بجائے آپ کو ایک خط لکھتا ہوں اور امی جان یہ تو آپ جانتی ہیں کہ میں نے زندگی میں بہت کم خط لکھے اور آپ کو تو بالکل بھی نہیں لکھے۔ لکھتا بھی کیسے کہ کبھی آپ مجھ سے یا میں آپ سے جدا ہوا ہی نہیں تھا۔ اب جو لکھنے بیٹھا ہوں توسوچتا ہوں کہ کیا لکھوں۔اصل میں خط تو آپ لکھوایا کرتی تھیں’ اُس وقت بھی جب میں پانچویں جماعت میں پڑھا کر تا تھا اور تب بھی جب میں سولھویں جماعت میں تھا ’ میری اُن بہنوں کوجنہیں والدصاحب نے تیرہ اور چود ہ برس کی عمر میں بیاہ دیا تھا۔اور پھر خط لکھوا کر آپ سنا بھی تو کرتی تھیں۔اور سن کے اس کی اصلاح بھی کیا کرتی تھیں اور میں حیران ہوتا تھا کہ آپ نے نہ کبھی سکول کا منہ دیکھا او ر نہ اساتذہ کا’ پھر بھی آپ زبان وبیان کی اصلاح کیسے کرتی ہیں۔ بالکل اسی طرح میں اُس وقت بھی حیرا ن ہوتا تھا جب آپ اچانک مجھے خبر دار کرتی تھیں کہ رسالہ یا ناول پڑھ رہے ہو نا! سکول کی کتابیں پڑھو اور پھر میں اپنے دوستوں سے اکثر رسالے یا ناول لاتا لیکن چھپا کر’ کیونکہ مجھے اس با ت کا علم ہو گیا تھا کہ آپ ان پڑھ ہونے کے باوجود نصابی کتب اور ناولوں کو فوراً پہچان لیتی ہیں۔ اور اب تو کتنے ہی برسوں سے آپ نے مجھے یہ کہناتو چھوڑ دیا تھا لیکن اس کی جگہ ایک اور جملے نے لے لی تھی۔کہ کبھی کتابوں سے مغز ماری نہ بھی کیا کرو ’ کبھی تو آرام کر لیا کر و’ بوڑھے ہونے تک پڑھتے ہی رہو گے! لیکن امی جان میرا پڑھنا کیسے رکتا۔ آپ نے یہ پڑھنا تو راتوں کو اللہ سے مانگ مانگ کر لیا تھا۔پتا نہیں آپ کو مجھے پڑھانے کا اتنا شوق کیوں تھا اور اسکے لیے وہ کو ن سی قربانی تھی جو آپ نے نہ دی تھی۔شاید نہیں بلکہ یقینا یہ ان قربانیوں اور دعاؤں ہی کا صلہ ہے کہ آج میں چار حرف پڑھ لیتا ہوں اور دو حرف لکھ بھی لیتا ہوں۔ورنہ کسے امید تھی کہ سوکھے ٹکڑوں پہ پلنے والا آپ کا یہ بچہ بھی پڑھ سکے گا۔ہاں امی جان سوکھے ٹکڑوں سے یاد آیا کہ کتنی ہی صبحیں ایسی تھیں جن میں میں نے آپ کو خشک مرچوں کو رگڑ کر ان سے ناشتا کرتے دیکھا تھا۔اور ساتھ ہی آپ تلاش میں رہتیں کہ کہیں سے دو آنے مل جائیں اورجب آپ ان دو آنوں کا دہی منگوانے میں کامیاب ہو جاتیں تو میر ی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔اور میرے سے زیادہ آپ کی ۔ لیکن روز ایسا ہونا تو بہر حال ممکن نہ تھا۔ امی جان جس طرح میں نے کبھی بہتر ناشتے کی ضد نہ کی تھی اسی طرح آپ جانتی ہیں کہ میں نے پڑھنے کے لیے بھی نئی کتابوں کی ضد، کبھی نہ کی تھی۔ ہر سال کسی کی فارغ کردہ کتابوں کا آپ میرے لیے پہلے ہی سے بندوبست کر رکھتی تھیں اور آپ نے دیکھا کہ میں انہیں کس طرح سنبھال کر رکھتا تھا۔ اور شاید یہی سنبھالنے کی عاد ت آج تک میرے ساتھ چلی آتی ہے ۔اب بھی میں کتابوں کو ویسے ہی پیار او رحفاظت سے رکھتا ہوں جیسے تب رکھا کرتا تھا۔ اور امی جان اب تو ان کی حفاظت کے لیے میں باقاعد ہ ایک لائبریری بنا رہا ہوں۔ کاش اس لائبریر ی کے افتتا ح پر آپ موجود ہوتیں۔ اب میں اس کا نام آپ کے نام پر رکھوں گا۔تا کہ دنیا تا دیر اس بات کو یاد رکھے کہ یہ اس عظیم خاتون کی یاد گار ہے جو خود تو پڑھنا لکھنا نہ جانتی تھی لیکن اسے پڑھانے لکھانے کا بے حد شوق تھا اور یہ سب کتابیں اس کے اسی شوق کا صدقہ اور یہ مقام اس کی اسی محبت کی یاد گار ہے۔اور ہاں آپ نے زندگی سے رخصت ہوئے جو ہزار روپیہ یہ کہہ کر دیا تھا کہ صدیق کی مسجد کو دے دینا وہ بھی میں نے اسی لائبریری میں لگادیا ہے ۔ امی جان !آپ جانتی ہیں کہ میرے پاس ایک ہی تختی ہوتی تھی اور ایک ہی سیاہی کی دوات جو شاید سال بھر ساتھ دیا کرتی تھی ۔ میرے دوست آج بھی کہتے ہیں کہ تم دوات اور سیاہی کتنا سنبھال کے رکھا کرتے تھے انہیں کیا معلو م کہ مجھے تو یہ فکر ہوتی تھی کہ اگر کہیں گم کردی تو پھر دوبارہ کو ن لے کر دے گا۔امی جان آپ کے پوتے روز پنسل بھی بدلتے ہیں اور پین بھی’ کاپیاں بھی گم کرتے ہیں اور کتابیں بھی ۔ ناشتے پر بھی جھگڑتے ہیں اس لیے نہیں کہ ناشتا نہیں ملا بلکہ اس بات پر کہ انڈہ ان کی مرضی کا فرائی نہیں ہوا اور پراٹھا مطلوبہ سائز سے کم ہے لیکن امی جان آپ کو تو یاد ہے ہم سب بہن بھائی کبھی آپ سے جھگڑے تھے!

 میرے پڑھانے کا شوق آپ کو کہاں کہاں نہ لیے پھرا۔یہی شوق آپ کو اپنے لینڈ لارڈ تایا کے پاس لاہور لے آیا تھا۔ وہی تایا جس کی ۶۲۵’ایکڑ سے زیادہ زمین تھی اور جس کے پاس ایک کھٹار ا سی کار’ ایک بوسید ہ سی پتلون اور انگریز فوج کی غلامی کی یاد گار، ایک پرانا سا ہیٹ تھا۔البتہ وفا دار نوکروں کی ان کے ہاں کمی تھی اور وہ کمی انہوں نے آپ سے پوری کر لی تھی بلکہ ایک مزدوری میں انہیں دو ملازم مل گئے تھے۔ سچ ہے ماں اپنی ممتا کے ہاتھوں ہی مار کھاتی ہے ۔ آپ سی ذہین خاتون کے ساتھ بھی یہی ہو ا تھا۔اگر اب آپ کی ملاقات اپنے اس تایا اور اس کی بیٹی سے ہو تو میری طرف سے ان سے یہ ضرور پوچھیے گا کہ میری زندگی کے ان دو سالوں کا حساب کون دے گا؟ویسے مجھے امید ہے آپ مروت اور بڑے پن کے حیا میں ایسا کریں گی نہیں کیونکہ یہی مروت اور حیا تو زندگی پھر آپ کا خاصہ رھی اور ہاں امی جان ان سے یہ بھی پوچھیے گا کہ عمر بھر کی محنت سے کما یا ہوا مال یہاں آب کے کیا کام آیا؟ اور بتائیے گا کہ آپ کی زمینوں پر قبضے ہو گئے مال غیروں میں بٹ گیا حتی کہ آپ کی اولاد بھی اس سے خاطر خواہ فائد ہ نہ اٹھا سکی۔

 امی جان آپ کی گرتی ہوئی صحت دیکھ کر میں بعض اوقات یہ سوچنے لگ جاتا کہ اگر اللہ کے حضور سے آپ کا بلاوا آگیا توآپ کے نہ ہونے سے کیا میری زندگی میں کوئی کمی واقع ہو گی اس موقع پر عقل کہتی تمہارے پاس سب کچھ تو ہے ’ بیوی بھی ’ بچے بھی ’ گھر بھی ’ عزت بھی ’ مال بھی اوردوست احباب بھی ۔اب تم کو ن سا چھوٹے سے بچے ہو کہ ماں بنا زندگی بسر نہ ہو سکے گی ۔یہ سوچ کر میں مطمئن ہو جاتا لیکن اب معلوم ہوا کہ بعض مقامات پر عقل کے پرواقعتا جل جایا کر تے ہیں۔امی جان آپ کے بنا ’بظاہر تو میرا کچھ بھی نہیں گیا لیکن حقیقت میں بہت کچھ چلا گیا۔امی جان صبح اب بھی ہوتی ہے لیکن اداس سی ’شام اب بھی ہوتی ہے لیکن‘ سونی سی’۔ دفتر میں اب بھی جاتا ہوں، لیکن بجھا سا ۔ کام سارے اب بھی کرتا ہوں، لیکن لٹا سا۔خوشیوں کے کتنے ہی لمحات ہیں جو روٹھ گئے ۔آپ کو سلام کرنے کی خوشی ’ آپ سے دعا لینے کی خوشی’ آپ کے انتظار کی خوشی ’ آپ کی ڈانٹ ڈپٹ کی خوشی’ آپ کے بستر پر بے مقصد بیٹھنے کی خوشی اور آپ سے بیتے دنوں کے قصے سننے کی خوشی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں خلا میں کھڑا رہ گیا ہوں یا کسی ویرانے میں ۔ اک احساس تحفظ تھا جو مجھ سے چھن گیااور ایک چھتر ی تھی جو ٹوٹ گئی۔ امی جان آپ کے جانے سے وہ دو ہاتھ بھی چلے گئے جو اگر اٹھ جاتے تھے تو آسمان سے اترنی والی بلائیں وہیں رک جایا کرتی تھیں۔آپ کے جانے سے وہ آنکھیں چلی گئیں جوہر وقت میرے آنے کی راہ دیکھا کرتی تھیں۔آپ کے جانے سے وہ دل چلا گیا جو میرے ہی نام پر دھڑکا کرتا تھا۔آپ کے جانے سے وہ ہونٹ چلے گئے جو میرے ہی نام سے ہلا کرتے تھے آپ کے جانے سے وہ اخلاص رخصت ہو گیا جس میں کسی ملاوٹ کاشائبہ نہ تھا۔ دل و جاں کی کتنی ہی بہاریں تھیں جو اب کبھی لوٹ کر نہ آئیں گی۔ مجھے سب دعاؤں کے لیے کہتے ہیں اب میں کسے دعاؤں کے لیے کہوں گا۔

 امی جان میں نے زندگی میں کتنے ہی جنازے پڑھائے اور ہر جنازے کے موقع پر میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ نماز سے قبل جانے والے کے کچھ اوصاف بیان کردوں۔ اور امی جان یہ اوصاف اور خوبیاں بیان کرنے میں مجھے کبھی کوئی دقت پیش نہیں آئی ۔ میرے پاس کبھی الفاظ کی کمی نہ ہوئی ۔ مجھے یوں محسوس ہوا کرتا ہے کہ الفا ظ ہیں کہ ہاتھ باند ھے چلے آتے ہیں۔ امی جان آپ کے جنازے سے قبل بھی میں نے یہ کوشش کی تھی کہ کچھ بیان کردوں ۔ لیکن سارے الفاظ پیچھے رہ گئے اور آپ کی عظمت آگے نکل گئی۔ بیان کے سارے سوتے خشک ہو گئے ۔ زبان گنگ ہو گئی اور میں اس سے زیاد ہ کچھ بھی نہ کہہ سکا کہ لوگو یہ ایک ماں کاجنازہ ہے۔اب سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ ماں کی عظمت بیان کرنے کے لیے شاید ماں کہہ دینا ہی کافی ہے ۔ باقی سارے لفظ تو محض حاشیہ آرائی ہے۔ ماں اور محبت دونوں کا آغاز ایک ہی حرف سے ہوتا ہے اس لیے شاید دونوں کا خمیر بھی مشترک اور ایک سا ہے۔ماں کا وجود محبت کے بغیرنا ممکن اور محبت کی تصویر ما ں کے بغیر نا مکمل۔اور ہاں امی جان موت کے بعد آپ کے چہر ے پر کتنی رونق اور خوبصورتی تھی ۔بالکل ایسی ہی جیسی حاجیوں کے چہروں پرعرفات جاتے ہوئے ہوتی ہے اوریہ دن بھی تو امی وہی تھااور آپ کی روح بھی تو اسی وقت رخصت ہوئی تھی جب حاجی عرفات کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ ایسی ہی رونق آپ کے چہرے پر اس وقت بھی تھی جب آپ میرے ساتھ عمر ہ کر رہی تھیں۔آپ کی اس ‘خوبصورتی’ پر شاید سب سے بامعنی تبصر ہ آپ کی پانچ سالہ پوتی نے کیا تھا ۔ میں نے پوچھا ’دادی اماں کیسی لگتی تھیں تو اس نے کہا جوان جوان سی لگتی تھیں۔اور یقینا اللہ کریم نے آپ کو ایسی ہی جوانی نصیب فرما دی ہو گی کہ جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی کے دل پر اس کا گمان گزرا۔

 امی جان زندگی کے جبر مسلسل نے مجھے عجیب سا کر دیا ہے بہت کم ایساہوتا ہے کہ مجھے کسی کے جانے کا غم ہو او ر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ مجھے کسی کے آنے کی خوشی ہو۔ اور میں اکثر اپنے سے سوال کیا کرتا تھا کہ تیرے اندر شاید مطلوبہ جذبات کا وہ خانہ ہی نہیں ۔ لیکن آپ کیاگئیں کہ میرے یہ سارے‘‘ خانے’’ بیدار ہو گئے۔یہ ‘خانے’کیا اب تو ان کی ہر ہر رگ دکھتی ہے۔

امی جان مجھے دعا مانگنے کا سلیقہ بھی نہیں۔ لوگ کہتے ہیں ماں کیلئے فلاں فلاں دعا پڑ ھا کرو لیکن میں یہ سوچتا ہوں کہ دعابھی کوئی پڑھنے کی چیز ہوتی ہے یہ تو مانگنے کی چیز ہے۔لیکن جب آپ کی مغفرت اور بلند ی درجات کے لیے دعا مانگنے لگتا ہوں تو الفاظ ایک دفعہ پھر ساتھ چھوڑ جاتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح اس دن دعامیں الفاظ میرا ساتھ چھوڑگئے تھے جب میرا بیٹا گم ہوا تھا ۔اس دن بھی میں آنسوؤں کی زبان میں اپنے اللہ سے اتنا ہی کہہ سکا تھا کہ شام سے قبل مجھے بیٹا واپس کردو۔ اور اللہ نے یہ دعافوراً ہی قبول کر لی تھی امی جان ایسے ہی میں آپ کے لیے بھی لمبے چوڑے الفاظ بھول جاتا ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ اللہ نے آپ کی مغفرت اور بلند ی درجات کی دعا بھی ایسے ہی قبول کر لی ہوگی کیونکہ اس کے مانگتے وقت بھی میرے آنسو ویسے ہی رواں ہوتے ہیں جیسے اس دن ہوئے تھے۔

 امی جان زندگی میں آپ جن سے ملنا چاہتی تھیں اور بار بار کے پیغامات کے باوجود وہ لوگ نہ آئے، اب وہ سب بھی آپ کی تعزیت کرنے آئے تھے۔اور ان میں سے بعض تورو بھی رہے تھے۔

 آپ کی مسلسل بیماری نے ایک عجیب طرح کی مصروفیت پیدا کر دی تھی ۔ اب وہ بھی نہ رہی ۔ کل تو میڈیکل سٹور والا بھی پوچھ رہا تھا کہ اب آپ کافی دنوں سے دوا ئیں لینے نہیں آئے ۔خیریت تو ہے!

 امی جان ہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ آج سات فروری ہے مجھے آپ کی کوکھ سے جنم لیے ہوئے آج پورے چوالیس بر س بیت گئے اور آپ کو آج رخصت ہوئے بیس دن۔ آپ کے ساتھ گزارے ہوئے چوالیس برس لمحے لگتے ہیں اور آپ کے بغیر گزارے یہ بیس دن ان گنت سال۔ اب آپ سے آخر ت میں ملاقات تک یہ لمحے ’ یہ دن ’ یہ مہینے شاید اسی طرح ٹھہرے ٹھہرے سے چلیں اور میں بھی شاید اسی طرح بھٹکا بھٹکا’ اور تھکا تھکا سا زندگی کے دن پورے کروں کہ میرا دنیا کا واحد سہارا آپ ہی تو تھیں اور میرے گھر کی ساری رونقیں آپ ہی کے دم سے تھیں۔سب لوگ اصلاً تو آپ ہی سے ملنے آتے تھے آپ کے صدقے ہم بھی مل لیا کر تے تھے ۔ اب کون آئے گا۔کون جانے ۔ بیس دن ہو گئے اب تو میری بہنوں نے بھی فون نہیں کیا ۔ پہلے تو وہ اکثر فون کر کے آپ کا حال پوچھ لیا کر تی تھیں۔ لوگ کہتے ہیں بڑ ی بہنیں ما ں کی جگہ ہوتی ہے لیکن امی جان! کہنا تو آسان ہے مگرما ں کون بن سکتا ہے!

 اچھا امی جان اب اجازت چاہتا ہوں۔ خط شاید طویل ہو گیا ہے ۔ سوچتا ہوں کہ اپنی بہنوں کو خط لکھتا تو آپ کو سنا کے درست کر لیا کرتا تھاآپ کو یہ خط بھیجنے سے قبل ’کسے سنا کے درست کروں ۔نہ یہ درست ہو اورنہ یہ پوسٹ ہو۔اور پوسٹ بھی کیسے ہو مجھے کون سا خلد بریں میں آپ کا ایڈریس معلوم ہے ؟ ہاں البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ ‘‘خاکِ مرقد پہ تیر ی لے کے یہ فریاد آؤں اب لکھ کے یہ خط ’ میں کسے سناؤں’’ ( روحِ اقبال سے معذرت )

 والسلام ’ اللہ کی ان گنت رحمتیں اور انوارات ہوں آپ پر۔

 آب کا سوگوار بیٹا

 صدیق