شکایات اور نفرت کا تیزاب

مصنف : مولانا وحید الدین خان

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مارچ 2005

            ہندستان کی آزادی سے پہلے کا واقعہ ہے۔ دیہات کے ایک آدمی شہر آئے اور اپنے ایک ملاقاتی کے یہاں مقیم ہوئے۔ ان کی ضیافت کے لیے گھر کے اندر سے خربوزہ بھیجا گیا۔ ایک بڑی پلیٹ میں خربوزہ کے ساتھ چھری رکھی ہوئی تھی۔ انھوں نے جب اس کو دیکھا تو سخت حیران ہوئے۔ انھوں نے کہا: میری سمجھ میں نہیں آتا کہ خربوزہ اور چھری کا کیا جوڑ ہے۔ حتیٰ کہ انھوں نے خربوزہ کھائے بغیر اسے لوٹا دیا۔

            بعد کو ایک شخص نے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ خربوزہ کھانے کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھ سے دبا کر اس کو توڑا اور کھا گئے۔ پھر یہ چھری کس لیے۔ میں تو اسے ٹونا ٹوٹکا سمجھا، اس لیے میں نے اسے نہیں کھایا۔

            اسی قسم کا ایک اور واقعہ مذکورہ شخص کے ساتھ رات کو پیش آیا۔ رات کو جب ان کے سونے کے لیے بستر بچھایا گیا تو ان کے بستر پر ایک تکیہ بھی تھا۔ وہ رات بھر تکیہ کو دیکھتے رہے اور سو نہ سکے۔ بعد کو اس کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ میں تو یہی سمجھا کہ اس کے اندرمال ہے ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں اس ‘‘گٹھڑی’’ کی رکھوالی کروں یا سوؤں۔

            اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی کو دوسرے کے بارے میں شکایات پیدا ہو جاتی ہیں۔حتیٰ کہ وہ اس کے خلاف سخت برہم ہو جاتا ہے ۔ اپنے طور پر وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی شکایت اور برہمی بالکل بجا ہے۔ حالانکہ اس کی وجہ صرف اس کا ناقص علم ہوتا ہے۔ پوری صورتِ حال سے بے خبری کی بنا پر وہ بطور خود ایک رائے قائم کر لیتا ہے اور اس پر شدت سے قائم ہو جاتا ہے۔ حالانکہ اصل واقعہ کے اعتبار سے اس کی شکایت کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔

            اس برائی سے بچنے کی ترکیب قرآن میں یہ بتائی گئی ہے کہ جب بھی کوئی بات سنو تو اس کی تحقیق کر لو۔ اگر آدمی واقعتاً سنجیدہ ہو تو وہ دو میں سے کوئی ایک رویہ اختیار کرے گا۔ یا تو سنی ہوئی بات کو بھلا دے گا اور اس کا کوئی چرچا نہیں کرے گا اور اگر کسی وجہ سے وہ اس کا تذکرہ کرنا چاہے تو سب سے پہلے وہ متعلقہ شخص سے اس کی تحقیق کرے گا۔ اور تحقیق کے بعد جو بات سامنے آئے گی اس کو مان لے گا۔ تحقیق کے بغیر شکایتوں کا چرچا کرنا جتنا غلط ہے اتنا ہی غلط یہ بھی ہے کہ تحقیق کے بعد بھی آدمی اپنی رائے پر قائم رہے اور متعلقہ شخص کی تردید کے باوجود وہ اس کو مسلسل دہراتا رہے۔

٭٭٭

            مغرب کے ایک ماہر نفسیات کا قول ہے کہ نفرت کی مثال ایک قسم کے تیزاب کی سی ہے۔ ایک عام برتن میں اس کو رکھا جائے تو وہ اپنے برتن کو اس سے زیادہ نقصان پہنچائے گا جتنا اس کو، جس پر وہ تیزاب ڈالا جانے والا ہے۔

            اگر آپ کو کسی کے خلاف بغض و نفرت ہو جائے اور آپ اس کو نقصان پہچانے کے درپے ہو جائیں تو جہاں تک آپ کا تعلق ہے، آپ کے سینے میں تو رات دن ہر وقت نفرت کی آگ بھڑکتی رہے گی۔ مگر دوسرے شخص پر اس کا اثر صرف اس وقت پہنچتا ہے جب کہ آپ عملاً اس کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوگئے ہوں۔ مگر ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ آدمی کسی کو وہ نقصان پہنچا سکے جو اس کو وہ پہنچانا چاہتا ہے۔ نفرت کے تحت عمل کرنے والے کا منصوبہ بیشتر حالات میں ناکام رہتا ہے۔

            مگر جہاں تک نفرت کرنے والے کا تعلق ہے، اس کے لیے دو میں سے ایک عذاب ہر حال میں مقدر ہے۔ جب تک وہ اپنے انتقامی منصوبہ میں کامیاب نہیں ہوتا انتقام کی آگ میں جلتے رہنا اس کا مقدر ہے اور اگر بالفرض کامیاب ہو جائے تو اس کے بعد ضمیر اس کا پیچھا کرتارہتا ہے۔ وہ اپنے حریف کو قتل کرکے خود بھی اپنے چین کو ہمیشہ کے لیے قتل کرلیتا ہے۔ انتقام کے جنون میں اس کا انسانی احساس دبا رہتا ہے مگر جب حریف پر کامیابی کے نتیجہ میں اس کا انتقامی جوش ٹھنڈا پڑتا ہے تو اس کے بعد اس کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے اور ساری عمر اس کو ملامت کرتا رہتا ہے کہ تم نے بہت برا کیا۔

            فوجداری کے ایک وکیل نے ایک بار راقم الحروف سے کہا کہ میرا سابقہ زیادہ تر ایسے لوگوں سے پیش آتا ہے جن پر قتل کا الزام ہوتا ہے مگر میں نے اپنی زندگی میں جتنے بھی قاتل دیکھے سب کو میں نے پایا کہ قتل کے بعد وہ اپنے کیے پر پشیمان تھے۔ وقتی جوش میں آ کر انھوں نے قتل کر دیا مگر جب جوش ٹھنڈا ہوا تو ان کا دل انھیں ملامت کرنے لگا۔ یہی ہر مجرم کا حال ہے۔ کوئی مجرم اپنے کو احساسِ جرم سے آزاد نہیں کر پاتا۔ جرم کے بعد ہر مجرم کا سینہ ایک نفسیاتی قید خانہ بن جاتا ہے جس میں وہ مسلسل سزا بھگتتا رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ منفی کارروائی سب سے پہلے اپنے خلاف کارروائی ہے۔ منفی کارروائی کا نقصان آدمی کی اپنی ذات کو پہنچ کر رہتا ہے خواہ وہ دوسروں کو پہنچے یا نہ پہنچے۔

٭٭٭