ارشادات و مکتوبات مولانا الیاسؒ

مصنف : لطیف الرحمن عادل

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : فروری 2005

مرتبہ: مولانا افتخار احمد فریدی ، ترتیب جدید و تہذیب: لطیف الرحمن عادل

دعوت میں ترغیب و تحریص ہے نہ کہ قوت و زور 

 ‘‘دعوۃ الی اللہ کا موضوع یہی ہے کہ ترغیب و تحریص’ عمل کے منافع و محاسن اور اس کے متعلق اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں اور وعیدوں کے ذکر کی کثرت اور اللہ کی صفات و عادات کو کھولنے کے ذریعہ اللہ کی بات قبول کرنے کی طرف بلایا جائے تاکہ اللہ کی محبت و عظمت قلوب میں پیدا ہو کر دل خداوند تعالیٰ اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر آمادہ ہو جائیں، نہ کہ کسی قوت اور زور سے مجبور کرنا۔ ہاں سیاست یہ ہے کہ پیدا شدہ رغبت کو ضیاع سے بچانے کے لیے حسن تدبیر کے ساتھ بلا اکراہ و ایذا بالتدریج عمل پر ڈالا جائے اورایسے طرق و اسباب اختیار کیے جائیں جن سے عمل میں استقلال و دوام اور ترقی کی رفتار بڑھتی رہے۔’’

اسباب کو استعمال کر یں لیکن نظر خالق پر ہو

 ‘‘اسباب پر نظر ہو جانے سے اللہ کی نصرت ختم ہو جاتی ہے۔ استدلال میں لقد نصر کم اللہ کو پیش کیا۔ اسباب نعم ہیں اسباب کا تلبس استعمالِ نعمت کے درجہ میں ہو نہ کہ ان پر نظر جم کر خالق کے بجائے ان سے جی لگ جائے’’۔

 کام کے اثرات کوکام سمجھنا غلطی ہے

‘‘ خطرہ یہ ہے کہ ہم کام نہ کر رہے ہوں اور سمجھیں کہ کر رہے ہیں۔ کام کے اثرات کو کام سمجھیں۔ کام تو چھ نمبروں کی پابندی ہے’’۔

تبلیغ کے منافع اور اپنی بے بسی

‘‘میں نے اس کے منافع سوچنے چھوڑ دیئے، جتنے سوچے وہ قابو میں نہیں آئے، جتنے قابو میں آئے وہ کہے نہیں، جتنے کہے وہ سمجھ میں نہ آئے جتنے سمجھے اتنے کیے نہیں’’۔

مسلمان کی شان ’ہجرت یا نصرت      

‘‘دین کے لیے نہ ہجرت کی شان ہو نہ نصرت کی تو کون سے مسلمان ہو’’۔

فرائض اور نوافل 

‘‘فرض نماز کے سامنے تو کسی عبادت کا چراغ نہیں جلتا، نوافل میں سب سے افضل تہجد ہے۔ اگر پچھلے پہر کو اٹھ سکے تو تہجد، ورنہ اس کی حسرت کے ساتھ سونے سے پہلے دو، چار رکعت پڑھ لیا کرے’’۔

اسلام کس چیز کا نام ہے

‘‘اسلام! اللہ کے اوامر کو زندہ کرنے میں جان دینے والے (جان قربان کرنے والے) اسباب کو ڈھونڈنا ہے’’۔

تبلیغ کا تعلق علم سے

‘‘تحصیل علوم کے طریق وہی ہیں جو مروج ہیں۔ یہ تبلیغ ان علوم کا طریق ِاستعمال سیکھنا ہے۔ طریق استعمال سیکھے بغیر علوم نفع اور انتفاع پر نہیں پڑ سکتے، بلکہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں’’۔

لایعنی کا نقصان   

‘‘لا یعنی کا مشغلہ آب و تاب کھو دیتا ہے اور محرمات کا اشتغال گندہ کر دیتا ہے’’۔

ذکر کی قسمیں

‘‘ذکر کی بھی دو قسمیں ہیں، ذکرِ مردود اور ذکرِ مقبول، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس میں ثواب نہ بتایا ہو، اس میں ثواب کی امید رکھنا ذکر ِمردود ہے اور زندگی کے ہر شعبہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسا بنانے کی کوشش کرنا ذکر مقبول اور محبوب ہے’’۔

اسلام کا خلاصہ

‘‘اسلام کا خلاصہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسی زندگی کا شوق پیدا ہو جانا ہے’’۔

راحت اور اعلائے کلمۃ اللہ  

‘‘راحت نعمت ہے ’ناقدری کے طور پر چھوڑنا کفرانِ نعمت ہے اور اعلائے کلمۃ الحق میں چھوڑنا باعثِ اجر ہے’’۔

بندگی کیا ہے؟

‘‘بندگی؟ یعنی امرِ خدا کے ماننے میں مزہ آنے لگے’’۔

تسخیر اشیا کا نسخہ

‘‘تم خدا کے آگے نرم ہو جاؤ تو ہر چیز تمھارے لیے نرم ہو جائے گی’’۔

اتباعِ حضورﷺ کا اصل حق

‘‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا اتباع یہ ہے کہ انھوں نے جس چیز کے پھیلانے میں جتنی کوشش کی اور جتنی تکلیف اٹھائی اس کے لیے اسی نسبت سے کوشش اور اسی قدر مشقت ہو’’۔

اعمال کے پیچھے اللہ کی ضمانت ہے      

‘‘ اسباب کی خاصیتیں انسانی تجربات ہیں اور اعمال کی خاصیتیں بوعدہ خداوندی موعود ہیں جن کا اللہ ضامن ہے۔ کتنی بے نصیبی ہے کہ اللہ کی ذمہ داری میں رہنے کے بجائے اپنے کو تجربہ اور طاقت کے حوالے کر دیا جائے’’۔

خیریت کا مفہوم

‘‘صحابہ کے زمانہ میں خیریت کا مفہوم یہ نہیں تھا جو اب ہے۔ اب عرف میں جو مصائب کہلاتے ہیں وہ پہلے نہ تھے بلکہ مصائب’ معاصی تھے۔ اسی کو ایک بار یوں فرمایا:صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین جب ایک دوسرے سے خیریت معلوم کرتے تھے تو اس کا مفہوم یہ ہوتا تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس طریقہ پر چھوڑ گئے تھے وہ باقی ہے، اس میں کچھ فرق تو نہیں آیا’’۔

کام کرنے کی اصل جگہ

‘‘تمھارے کام کرنے کی اصل جگہ اسلامی مقامات، اسلامی سلطنتیں اور ریاستیں ہیں’’۔

کلمہ کی اصل جگہ 

‘‘کلمہ لا الہ الا اللہ میں اقالیم قلب و دماغ وجوارح میں بسنے کی بہت گنجائش ہے اپنے تینوں اقالیم میں بسانے کی نیت سے دعوت دو’’۔

تحقیر کرنے کا نقصان

‘‘جو اپنے نفس کے علاوہ کسی کی تحقیر کے پیچھے پڑتا ہے اللہ اس کی تحقیر کا ارادہ کر لیتا ہے’’۔

حضورﷺ کو ماننے کامطلب

‘‘حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ماننا ان کی بات کا ماننا ہے۔ ان کی بات اور ان کے اعمال کے لیے بے کل ہونا، ان کی محبت کا ثبوت ہے۔ دعوےٰ بغیر ثبوت کے ثابت نہیں ہوتا’’۔

عمل میں نفس کے اتباع سے بچنا کیسے ہو

‘‘جو عمل کرتے وقت اس کے متعلق آئے ہوئے فرمان پر نظر نہ ہو یا مصالح خداوندی کے بجائے اپنی مصلحتوں پر نظر ہو وہ رسمی ہے اور نفس کا اتباع ہے’’۔

عمل اور اوامر الہی

‘‘عمل پلیٹ فارم ہے اور اوامر رسیاں ہیں۔ ان اوامر کی رسیوں کے ذریعہ اللہ تک پہنچ سکتے ہو’’۔

روحانی زندگی اور نفس

‘‘روحانی زندگی ایک سوار ہے اور نفس اس کا گھوڑا ہے اور مادی خوراک اس گھوڑے کی غذا ہے نہ اتنی غذا دو کہ سرکش ہو جائے اور نہ اتنا بھوکا مارو کہ ضعیف ہو کر کام نہ کرے’’۔

قرآن پر غورو فکر

‘‘راتوں کو قرآن کے اندر ہڈیوں کو پگھلانے والے غور و فکر اور دنوں کو اس کے حلال و حرام کے پھیلانے میں جان توڑ کوشش نے ہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑھایا ہے’’۔

راتوں کی عبادت

‘‘جب تک تمھاری راتیں صحابہ کرام کی راتوں کے مشابہ ہو کر اس کے ساتھ ضم نہ ہوں گی تمھارا دنوں کا پھرنا رنگ نہیں لائے گا’’۔

حقوق کی ادائیگی کا صحیح طریقہ

‘‘حقوق کی ادائیگی میں دوسروں کی ضرورت کا احساس کبر پیدا کرتا ہے اور اپنی حاجت تواضع’’۔

           

تواضع اور تذلل کی حقیقت

‘‘تواضع اور تذلل کی حقیقت عزت ہے یعنی حقیقی عزت کو تواضع و تذلل کے پردے میں مستور کر دیا گیا ہے تاکہ نعمت نا قدرے کی نگاہوں سے پوشیدہ رہے’’۔

علم کی آفت

‘‘علوم عجب پیدا کرتے ہیں۔ علم کے بعد عالم سمجھنا زعم ہے ۔اہل طریقت نے رذائل کو جمع کیا، ان سے اپنی حفاظت کرتے ہوئے کام میں لگے’’۔

تبلیغ کا مقام و مرتبہ

‘‘یہ عمل باقی عملوں میں وہ نسبت رکھتا ہے جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماسوا سے ہے۔ اس کو کرتے رہو گے تو سب نیکیوں سے انتفاع کی صورت نکلے گی۔ نیکیاں اس کی صحبت سے ایسے ہی فیض پائیں گی جیسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے۔ یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم مقام ہے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو وہ خدمت سکھانے آئے تھے جو انبیاء کی تھی’’۔

اجتہاد کا حق

‘‘اہل کو اجتہاد کا حق ہے۔ اولی الامر کے اجتہاد کی معاونت کرو اگرچہ اپنی رائے کے خلاف ہو’’۔