رمضان کی برکات

مصنف : پیام دوست

سلسلہ : گوشہ رمضان

شمارہ : اکتوبر 2006

اللہ سے تعلق

روحِ انسانی کی فطرت رجوع الی اللہ ہے مگر نفس کی خواہشات اور شہوات اس کی فطرت کو مجروح کرتی رہتی ہیں۔ روزہ نفس کے میلانات پر پابندی عائد کرکے روح کو اس کے فطری رجحان کے مطابق پروان چڑھنے میں مدد دیتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں بندہ دنیا سے کٹ کر اللہ کی رضاجوئی کے لیے سرگرم عمل ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ نے اس کا خاص اجر بیان فرمایاہے۔ آپﷺ نے فرمایا:‘‘آدمی کے ہر اچھے عمل کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ اس عام قانون سے مستثنیٰ اور بالاتر ہے۔ وہ بندہ کی طرف سے خاص میرے لیے ایک تحفہ ہے اور میں ہی اس کا اجر و ثواب دوں گا۔ میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی خواہش نفس اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں: ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک و مولیٰ کی بارگاہ میں شرف یابی کے وقت ۔ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے اور روزہ ڈھال ہے’’۔

جذبہ صبروشکر کی تربیت

روزہ بیک وقت دو چیزوں کی تربیت ہے: ایک صبرکی اور دوسرے شکرکی۔ بھوک و پیا س کی شدت اس کو صبر کی تربیت دیتی ہے اور جب شام کو ٹھنڈ ا پانی پیتا اور کھانا کھاتا ہے تو رب کی نعمتوں کا استحضار اسے جذبہ شکر سے بھر دیتا ہے ۔

فتنوں کے دروازوں کی بندش

آپ ﷺ نے فرمایا: ‘‘جو شخص ان دو چیزوں کے بارے میں مجھے ضمانت دے سکے جو اس کے دونوں جبڑوں اور دونوں ٹانگوں کے درمیان ہیں’ میں اس کے لیے جنت کا ضامن بنتا ہوں’’۔ شیطان انھی راستوں سے سب سے زیادہ انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ روزہ ان دونوں پر قابو پانے میں مدد دیتا ہے۔

قوتِ ارادی کی تربیت

رمضان میں انسان ایک ماہ تک اس بات کی مشق کرتا رہتا ہے کہ اپنے مالک و خالق کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جائز خواہشات کو بھی دبائے اور ہر سال کی یہ مشق اسے اس قابل بناتی چلی جاتی ہے کہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں اپنی خواہشات و جذبات کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف رہے۔ اس طرح وہ خواہشات اور جذبات کی غلامی سے نکل کر اپنے پروردگار کی غلامی میں آجاتا ہے۔ یہی غلامی جنت کی ابدی بادشاہی کا پیش خیمہ ہے۔

آپ کا حصہ

اس ماہ کی عظمتیں اور برکتیں بلاشبہ عظیم ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کی رحمتیں اور برکتیں ہر اس شخص کے حصہ میں آجائیں جو اس مہینہ کو پائے۔ کسان کی طرح محنت اور عمل ہو گا تو جنت کے انعامات کی فصل تیار ہوگی اور جتنی محنت ہو گی اتنی ہی اچھی فصل ہوگی ۔دل پتھر کی طرح سخت ہوں اور آپ غافل کسان کی طرح سوتے پڑے رہ جائیں تو روزہ اور تراویح کی رحمتوں کی ساری بارش‘‘چٹان’’ پر سے بہہ جائے گی اور آپ کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔

آیئے دیکھتے ہیں کہ رمضان کی تیاری کیسے کی جائے اور رمضان میں کن باتوں کا خیال رکھا جائے اور کن باتوں سے بچا جائے۔

دعا: رمضان سے پہلے ہی اس دعا کا اہتمام شروع کر دیا جائے کہ اے اللہ! مجھے اس رمضان سے بھرپور نفع اٹھانے کی توفیق عطا فرما۔ اس بات کو یاد رکھتے ہوئے دعا کیجیے کہ جبرئیل ؑ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا:‘‘اس آدمی کے لیے ہلاکت ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنے گناہوں کی بخشش اور معافی نہ حاصل کرسکا اور آپؐ نے اس کے جواب میں آمین کہی’’۔

خریداری کی تکمیل: رمضان اور عید کی خریداری کے حوالے سے جتنے کام پہلے ممکن ہیں کرڈالیے ورنہ ہوتا یہ ہے کہ شب قدر اور چاند رات جیسی قیمتی راتیں عید کی خریداری میں ضائع ہوجاتی ہیں۔ اگر مجبوراً رمضان کے دوران میں بازار جانا پڑ ہی جائے تو کوشش کریں کہ کم از کم وقت لگے۔ دل میں ہر وقت یہ فکر اور دعا ہو کہ دنیا کے یہ جتنے کام ہیں جتنی جلد ہوسکے نمٹ جائیں اور زیادہ سے زیادہ وقت اللہ کے ذکر اور قرآن کی تلاوت میں صرف ہو۔

ملاقاتوں کی تکمیل: بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جن سے ایک مرتبہ کی ملاقات مہینہ بھر کے لیے کافی ہوتی ہے ایسی ملاقاتوں سے بھی رمضان سے پہلے ہی فارغ ہوجائیں۔

حقوق کی ادائیگی: رمضان سے پہلے اگر حقوق اللہ آپ کے ذمہ باقی ہیں مثلاً زکوٰۃ ادا نہیں کی’ روزے قضا ہیں تو ان کو ادا کر کے فارغ ہوجائیں۔ اسی طرح حقوق العباد میں کسی کا حق ذمہ ہے تواسے بھی ادا کیجیے یا اس سے معاف کروائیے ۔ اگر بالمشافہ ہمت نہ ہو تو ایک تحریر لکھ کر اس کے پاس بھیج دیں کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے ہمیں اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے ایک دوسرے کو معاف کر دینا چاہیے۔ اگر آپ کی طرف سے زیادتی ہوئی ہے تو ایسا خوش اسلوبی کا برتاؤ کریں کہ دوسرا فریق خوش ہوجائے۔ اگر آپ سے کسی نے زیادتی کی ہے تو اسے سچے دل سے معاف کردیں تاکہ اللہ آپ کو معاف کردے۔

سچی توبہ: یاد رکھیے ناپاکیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق نہیں پیدا ہوسکتا۔ لہٰذاسچے دل سے پچھلے تمام گناہوں پرندامت کے ساتھ استغفار کریں اور آیندہ نہ کرنے کا عزم کریں۔

گناہوں کے اسباب سے دُوری: وہ محفلیں’ وہ دوست اور وہ تمام چیزیں جو انسان کو گمراہ کرنے کا باعث بنتی ہیں خصوصاً جو آپ کی کمزوری ہیں ان سے دُور رہنے کی کوشش کیجیے۔

تراویح کے لیے مسجد کا انتخاب: ایسی مسجد تلاش کریں جہاں بڑے اطمینان سے اور ٹھہرٹھہر کے قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہو۔

حفظِ قرآن اور دعائیں: رمضان سے قبل ہی کم از کم اتناقرآن ضرور یاد کر لیں کہ جس سے آپ رمضان کی راتوں میں طویل قیام کرسکیں۔ اسی طرح نماز کا ترجمہ’ قرآنی و مسنون دعائیں بھی یاد کرنا چاہییں۔ نبی ﷺ قیام’ سجدہ اور رکوع میں مختلف اذکار مزید بھی کیا کرتے تھے انھیں بھی یاد کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ ان کا درست تلفظ بھی سیکھنا چاہیے۔

رمضان چارٹ: رمضان چارٹ تیار کیجیے۔ مختلف کالم بنایئے۔ کون سی کمزوریاں دُور کرنی ہیں۔ کون سی خوبیاں اپنانی ہیں۔ کتنا قرآن تلاوت کرنا ہے اور کتنے اذکار روزانہ کرنے ہیں وغیرہ۔ روزانہ اس کو پُرکیجیے اور اپنا احتساب کیجیے۔

رمضان میں کرنے کے کام

نیت کی درستگی: روزہ خالص آخرت کے اجر کے لیے رکھیے۔ آپؐ نے فرمایا: جس نے دکھاوے کا روزہ رکھا اس نے شرک کیا’’۔ (احمد)

نمازوں میں سرگرمی: نماز کو اپنے معمولات کا سب سے اہم حصہ بنائیے۔ مسجد میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز باجماعت کی پابندی کا عزم کیا جائے اور یہ کہ آیندہ نہ کوئی نماز فوت ہوگی اور نہ جماعت چھوٹے گی۔ خواتین بھی نماز اوّل وقت میں ادا کرنے کی کوشش کریں۔

انفاق فی سبیل اللہ: نبی ﷺ رمضان میں بہت سخاوت کرتے تھے اور آپؐ کی سخاوت تیز ہوا سے زیادہ ہوتی تھی۔

سحر اور افطار کے احکام: آپﷺ نے فرمایا: ‘سحری میں برکت ہے اسے ہرگز نہ چھوڑو’ اگر کچھ نہیں تو اس وقت پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا جائے کیونکہ سحری کھانے والوں پر اللہ تعالیٰ رحمت فرماتا ہے اور فرشتے ان کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں۔مزید فرمایا‘‘میری اُمت اس وقت تک خیر پر رہے گی جب تک افطار میں عجلت اور سحر میں تاخیر کرتی رہے گی’’۔ اسی طرح افطار کے وقت مسنون دعاؤں کااہتمام کرنا چاہیے مثلاًذَہَبَ الظَّمَآءُ وَابْتَلَتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ ۔پیاس چلی گئی اور رگیں تر ہوگئیں اور اگر اللہ نے چاہے تو اجر ثابت ہوگیا’’۔

عمرہ: ہو سکے تو رمضان میں عمرے کا اہتمام کیاجائے۔ آپﷺ نے فرمایا: ‘‘رمضان میں عمرے کا وہی اجر ہوگا جو میرے ساتھ حج کرنے کا ہے’’۔

اہم اوقات کا دھیان رکھنا: مرد و خواتین دونوں سحری کے لیے اپنے مقرر کردہ وقت سے کم از کم آدھ گھنٹہ قبل اٹھیں۔ یہ تہجد کا وقت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سب سے زیادہ انھی گھڑیوں میں متوجہ ہوتی ہے۔ نفل ادا کیجیے ، اذکار پڑھیے اوراور رو رو کر دنیا اور آخرت کے لیے دعائیں کیجیے۔ اسی طرح افطار سے دس پندرہ منٹ قبل کوشش کر کے فارغ ہو جائیں اور اس قیمتی وقت سے بھی بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔نبی ﷺنے فرمایا: ‘‘افطار کے وقت روزے دار کی دعا رد نہیں کی جاتی’’۔

گناہوں سے پرہیز: آپﷺ نے فرمایا: ‘‘جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا ہی نہ چھوڑا تو اللہ کو اس بات کی حاجت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے’’۔ ‘‘روزہ (عذابِ الٰہی کے لیے) ڈھال ہے پس روزہ دار کو چاہیے کہ نہ فحش بات کہے’ نہ بدتمیزی کرے۔ اگر کوئی شخص اُس سے لڑے یا گالی دے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں’’۔

سالانہ منصوبہ بندی کیجیے: رمضان جائزے کا وقت ہے۔ اس رمضان میں اور پچھلے رمضان کے دوران میں ہم نے کیا حاصل کیا اور آیندہ کیا کرنا ہے مثلا کتنا دین کا علم حاصل کرنا ہے، کون سی خوبیاں اپنے اندر اجاگر کرنی ہیں اور کون سی برائیاں چھوڑنی ہیں،بچوں کی تربیت اور تعلیم کے سلسلے میں کس مقصد کو حاصل کرنا ہے۔ اس سب کی منصوبہ بندی کیجیے۔ اس بابرکت مہینہ میں جو بھی منصوبہ بنایا جائے گا اس میں اللہ کی رحمت شامل ہوگی۔

نیکی کی جستجو: ہرلمحہ ہر قسم کی نیکی کی طلب مومن کی فطرت کا لازمی جزو ہونا چاہیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:‘‘جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی نفل عبادت ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا اور اس ماہ میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانہ کے ستر فرضوں کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے جس نے اس مہینہ میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ آپﷺ سے عرض کیا گیا: یارسول اللہ ﷺ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا تو آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی سے یا ایک کھجور سے یا ایک گھونٹ پانی سے ہی کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے گا۔ اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہ لگے گی تاآنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔ اس مبارک ماہ کا ابتدائی حصہ رحمت اور درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے رہائی ہے۔ اور جو اس ماہ میں اپنے غلام (ملازم) کے کام میں کمی کردے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو جہنم سے رہائی اور آزادی دے دے گا’’۔

خالق کی عبادت کے ساتھ اس کی مخلوق سے حسنِ سلوک بے پناہ اجر کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک نیک بخت خاتون رمضان شروع ہوتے ہی اہلِ محلہ میں سے تنگدست عورتوں کے کپڑے مفت سینا شروع کر دیتیں۔ غریب عوتیں اور ان کے بچے خوش خوش ان کے پاس بیٹھ کر اپنے کپڑے سلتے دیکھتے۔ اِس طرح سارا رمضان وہ غریب محلے داروں کی خوشیوں کا ذریعہ بنی رہتیں اور ان کی قلبی دعائیں سمیٹتیں۔ اسی طرح ہر انسان ایسے طریقے سوچ سکتا ہے جو اس کے وسائل و ذرائع کی مناسبت سے اس کے لیے رمضان میں زیادہ سے زیادہ خیروبرکت دلا سکیں۔ اہل ثروت حاجت مندون کی امداد کی طرف دھیان دیں۔ جو تنگدست ہیں مگر دین کا علم رکھتے ہیں وہ لوگوں کو دینی تعلیم دینے کی طرف توجہ دیں۔ جن کے پاس یہ بھی نہ ہو مگر ہوں تندرست وہ حاجت مندوں کے جسمانی کام کر کے ہی نیکیاں سمیٹنے کی کوشش کریں۔

کھانے میں اعتدال: روزہ اس لیے ہے کہ آدمی اپنی خواہشوں پر قابو پاسکے لیکن بعض لوگ رمضان کو لذتوں اور چٹخاروں کا مہینہ بنا لیتے ہیں۔ صحیح طرزعمل یہی ہے کہ کھانے پینے کو روزے کا مقصد نہ بنایا جائے اور اس کے لیے خصوصی اہتمام نہ کیا جائے۔ خوشحال لوگوں کو چاہیے کہ اپنے کھانے پینے پر اسراف کے بجائے غریب اور مسکین روزہ داروں کی مدد کریں۔

روزہ اور قرآن کا باہمی تعلق: اللہ تعالیٰ نے قرآن کے نزول کے لیے رمضان کا مہینہ منتخب فرمایا اور اس نعمت کی شکرگزاری کے لیے اس پورے مہینے کے روزے رکھنا فرض قرار دیا۔ لہٰذا رمضان میں تلاوتِ قرآن شب و روز کرنی چاہیے۔ آپﷺ نے فرمایا:‘‘جس نے رمضان میں روزے رکھے ایمان و احتساب کے ساتھ بخش دئیے گئے اس کے تمام سابقہ گناہ اور جس نے رمضان میں (راتوں کو) قیام کیا ایمان و احتساب کے ساتھ بخش دیئے گئے اس کے تمام سابقہ گناہ’’۔

‘‘روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے (یعنی اس بندے کی جو دن میں روزہ رکھے گا اور رات میں اللہ کے حضور میں کھڑے ہوکر اس کا پاک کلام پڑھے گا یا سنے گا) روزہ عرض کرے گا اے میرے رب! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پوری کرنے سے روکے رکھا تھا’ آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما اور قرآن کہے گا کہ میں نے اس کو رات کے سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا’ خداوند آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما’ چنانچہ دونوں کی سفارش اس بندہ کے حق میں قبول فرمائی جائے گی اور اس پر خاص نوازشیں کی جائیں گی’’۔

رمضان کی راتوں کو زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کے ساتھ بسر کیا جائے۔ روزوں کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے اور قرآن کے بارے میں ارشاد ہے کہ یہ متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔ لہٰذا روزے سے تقویٰ حاصل کیجیے اور رات کو قرآن کی بارش اپنے قلب پر برسایئے تاکہ آپ کی روح اس سے نشوونما حاصل کرے۔ تاہم یاد رہے کہ آپﷺ نے فرمایا:‘‘کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنھیں اپنے روزوں سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی راتوں کو کھڑے ہو کر عبادت کرنے والے ایسے ہیں جنھیں اپنی اس عبادت سے نیند کو محرومی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا’’۔

دعوت الی القرآن: دنیا کی ساری نعمتیں آخری سانس کے ساتھ ہمارے لیے ختم ہوجائیں گی۔ جو چیز زندگی کے ان فانی لمحات کو لازوال زندگی میں اور ان ختم ہوجانے والی نعمتوں کو ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتوں میں بدل سکتی ہے۔ وہ صرف قرآن مجید کی نعمت ہے۔ کسی انسان کی سب سے بڑی خدمت اور اس کے ساتھ سب سے بڑی ہمدردی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتی کہ آپ اسے اللہ کے غضب اور اس کی آگ سے بچاکر جنت سے ہم کنار کردیں۔ دنیا کی بھوک پیاس دنیا کی زندگی کے ساتھ ختم ہوجائے گی’ یہاں کا ہر دکھ گزر جائے گا مگر آخرت کی بھوک پیاس کبھی ختم نہ ہوگی وہاں کے دکھ درد کبھی ختم نہ ہوں گے ۔ فیصلہ اور دعا کیجیے کہ رمضان اور اس کے بعد آپ کی جان’ مال اور وقت کا ایک حصہ قرآن سیکھنے اور سکھانے کے کام میں صرف ہوگا۔

آخری عشرہ

جس طرح رمضان المبارک کو دوسرے مہینوں کے مقابلے میں فضیلت حاصل ہے اسی طرح اس کا آخری عشرہ پہلے دونوں عشروں سے افضل ہے۔‘‘جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اللہﷺ کمرکس لیتے اور شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگا دیتے’’۔

آخری عشرہ کی فضیلت کی ایک وجہ اس میں لیلۃ القدر کا ہونا ہے۔ لیلۃ القدر کی فضیلت کی وجوہات درج ذیل ہیں:

قرآن مجید کا نزول: قرآن مجید لیلۃ القدر میں نازل ہوا۔

امورِ دنیا کی تقدیر و تقسیم: قرآن نے اس رات کو لیلۃ القدر یعنی فیصلوں کی رات کہا ہے۔ سورۃ الدخان میں ارشاد ہے: ‘‘اس رات میں تمام پر حکمت امور کی تقسیم ہوتی ہے خاص ہمارے حکم سے’’۔

اس رات کی اہمیت کا کون اندازہ کرسکتا ہے جس میں پوری کائنات کے لیے خدائی پروگرام طے ہوتا ہے اور سارے جہاں کا فیصلہ ہوتا ہے’ نیز فرمایا: ‘‘اس میں فرشتے اور روح الامین (امور کو دنیا میں نافذ کرنے کے لیے) اترتے ہیں ہر معاملے میں اپنے رب کی اجازت سے’’۔

برکت اور سلامتی کی عظیم رات: سورہ قدر میں اس رات کی عظمت کو دو پہلوؤں سے بیان کیا گیا ہے کہ ‘‘یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے’’۔ اور ‘‘یہ رات سلامتی ہے طلوعِ فجر تک’’۔

لیلۃ القدر کا تعین: آپؐ نے فرمایا: ‘‘لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو’’۔

عبادت کا اہتمام: یہ کوئی عام رات نہیں ہے کہ اسے سو کر گزار دیا جائے۔ جو رحمتیں برکتیں اور خدا سے قرب کے مواقع اس ایک رات میں حاصل ہوتے ہیں وہ ہزاروں راتوں میں بھی نہیں ہوسکتے۔

آپؐ نے فرمایا:‘‘جس نے شب قدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ قیام کیا اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں’’۔

چنانچہ کسی شخص کو بھی اس کی تلاش سے بے نیاز نہیں ہونا چاہیے۔ کوشش کیجیے کہ کم از کم آخری عشرہ کی ہر طاق رات کا بیشتر حصہ اللہ کے حضور قیام و صلوٰۃ’ تلاوت و ذکر اور دعا و استغفار میں گزاریں۔ نصف شب سے سحری تک ہوسکے تو ضرور جاگیں۔ قرآنی و مسنون دعاؤں کی کوئی مستند کتاب لے کر اس کی تمام دعائیں رو رو کر اللہ تعالیٰ سے مانگیے تاکہ کوئی خیر مانگنے سے رہ نہ جائے۔ عبادت کرتے ہوئے یہ ارشاد نبوی ﷺ یاد رہے۔‘‘جو شخص شب قدر (کی برکات حاصل کرنے) سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا۔ اس سعادت سے صرف بے نصیب ہی محروم کیا جاتا ہے’’۔

شب قدر کی خاص دعا

اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ (ترمذی) ‘‘اے اللہ تو بہت معاف اور کرم کرنے والا ہے اور معاف کر دینا تجھے پسند ہے پس تو میری خطائیں معاف فرما دے’’۔

رمضان کی آخری رات

رمضان کی آخری رات میں اُمت کے لیے مغفرت اور بخشش کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ عمل کرنے والا جب اپنا عمل پورا کرے تو اس کو پوری اُجرت مل جاتی ہے۔

اعتکاف

روزے کا اصل مقصد دل’ دماغ’ جسم اور روح سب کو خدا کی طرف متوجہ کرناہے اور اسی کو حاصل کرنے کے لیے روزے کے ساتھ اعتکاف کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اعتکاف روزہ کی طرح لازم نہیں ہے۔ اعتکاف کی چند دن کی تربیت کا عمل معتکف کے دل پر یہ گہرا اثر چھوڑے گا کہ دنیا میں اپنے چاروں طرف ہر طرح کی رنگینیاں اور دلکشیاں دیکھنے کے باوجود خدا سے تعلق مضبوط رکھے۔ خدا کی نافرمانی سے بچے’ اس کی اطاعت میں قلب و روح کا سکون تلاش کرے۔رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔ وفات تک آپ کا یہ معمول رہا۔ آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں۔ معتکف گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اعتکاف کے بغیر وہ جو نیکیاں کیا کرتا تھا اس کا ثواب بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا رہتا ہے ۔

معتکف کو اپنا سارا وقت نوافل’ تلاوتِ قرآن ’ذکر، درود، احادیث اور علومِ دینیہ کی کتب کے مطالعے میں گزارنا چاہیے۔ کسی عمل سے طبیعت اُکتائے تو دوسرے میں لگ جائے’ بے کار باتوں میں نہ لگے۔ سادہ اور ہلکی غذا استعمال کرے تاکہ یکسوئی سے عبادت کرسکے۔

رمضان کے بعد

۱- مومن کے دو روزے ہیں، ایک عارضی اور ایک دائمی۔ عارضی روزہ رمضان میں اور دائمی روزہ شعور کی عمر سے موت تک ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ‘‘اور مرتے دم تک اپنے رب کی بندگی میں لگے رہو’’۔ (الحجر۱۵:۹۹)کیسے تعجب کی بات ہے کہ عارضی روزے کی پابندی اور دائمی روزے کو کھیل بنا لیا جائے۔

۲- رمضان کا سب سے بڑا تحفہ قرآن مجید ہے۔ رمضان اس نعمت کی یاد دہانی کرا کے رخصت ہوجاتا ہے۔ لازم ہے کہ بقیہ سارا سال اس کی تلاوت اور اس میں غوروتدبر جاری رہے۔

۳- ہر ماہ چند نفلی روزے ضرور رکھیے تاکہ نفس پر قابو پانے کی جو تربیت آپ نے رمضان کا پورا مہینہ حاصل کی، اس کی مشق بقیہ گیارہ ماہ میں بھی ہوتی رہے۔ آپﷺ نے فرمایا:‘‘ جس نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ایک نفلی روزہ رکھا اللہ اسے جہنم سے اتنا دُور کردیں گے جتنا فاصلہ ایک کوا جینے سے مرنے تک طے کرسکتا ہے۔

۴- رمضان ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ جو ہمدردی اور غم خواری آپ نے رمضان میں سیکھی ہے اسے رمضان کے بعد بھی جاری رکھیے ۔

آخری بات

زندگی کا سفر برق رفتاری سے جاری ہے۔ اس راہ میں شیطانی ہواؤں کے جھلسا دینے والے جھکڑ بھی ہیں۔ نفس کو بے تاب کر دینے والی خواہشیں بھی ہیں’ آرزوؤں اور تمناؤں کے الجھا دینے والے جال بھی ہیں’ گناہوں کے تباہ کر دینے والے حملے بھی ہیں اور آدمی کو غیرسنجیدہ’ لاپروا اور نادان بنا دینے والی فضا ئیں بھی ہیں۔ان تباہ کن قوتوں سے مقابلہ کرنے اور ان کے شر سے محفوظ رہتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے شب و روز کی اس گردش میں جگہ جگہ ایسے پڑاؤ مہیا کر دیے ہیں کہ آپ ان پر پہنچ کر بقیہ سفر کے لیے خود کو تازہ دم بنا لیں۔ آپ کے لیے رمضان ایک بار پھر یہ موقع لے کر آتا ہے کہ آپ اپنی محنت و ریاضت سے اس مہینے میں اپنے آپ کو اس لائق بنا لیں کہ سال بھر شیطان اور اپنے نفس سے جوانمردی سے نبٹ سکیں اور خواہشات کو زیر کرنے میں ہمت اور حوصلہ سے کام لے سکیں۔ رمضان کے شب و روز کی عبادتوں سے اپنے اندر اتنی توانائی پیدا کرلیں کہ آسانی کے ساتھ بقیہ سفر طے ہو سکے ۔ خدانخواستہ یہ قیمتی لمحے اگر یونہی ضائع ہوگئے اور آپ کچھ حاصل نہ کرسکے تو آخرت میں اپنی بے بسی’ بے چارگی اور بے پناہ مشکلات کا تصور کیجیے۔ آنے والے گیارہ ماہ شیطان اس کے لشکر اور نفس جیسے مکار دشمن کے تباہ کن حملوں کا تصور کیجیے۔ کیسے یہ سفر آپ بغیر کسی ڈھال کے طے کرسکیں گے۔ پھر یہ موقع گیارہ ماہ کی طویل گردش کے بعد ہی آپ کو میسر آسکے گا اور نامعلوم کون دورانِ سفر ہی اس موقع سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائے۔

سمجھ دار اور مبارک باد کے مستحق ہیں وہ لوگ جو اس مبارک موقع سے خاطرخواہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کر کے قلب و روح میں تازگی پیدا کرکے روزے رکھ کر تقویٰ کی ناقابلِ تسخیر قوت فراہم کر کے باقی ماندہ سفر شروع کیجیے، ان شاء اللہ جنت کی منزل آپ کی منتظر ہوگی۔

٭٭٭