حضرت عبداللہ بن عمرؓ

مصنف : حافظ غلام مصطفے اشرف

سلسلہ : سیرت صحابہؓ

شمارہ : اگست 2006

حضرت عبداللہ بن عمرؓ 2 ہجری بعد بعثت نبوی ﷺپیدا ہوئے ۔ حضرت عمرؓ نے جب اسلام قبول کیا تو ابن عمرؓ پانچ برس کے بچے تھے ۔ والدگرامی کے قبول اسلام کے ساتھ وہ خود بخود ہی اسلام کے دامن رحمت سے وابستہ ہو گئے او ران کی نشوونما خالص اسلامی ماحول میں ہوئی ۔ 13 ہجری بعد بعثت حضرت عمرؓ نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو ابن عمرؓ بھی والد گرامی کے ساتھ مدینہ پہنچ گئے اس وقت ان کا سن گیارہ برس کا تھا ۔ غزوات کا آغاز ہوا اور آپﷺ غزوہ بدر کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے شوق جہاد سے بے تاب ہو کر حضور سے لڑائی میں شریک ہونے کی اجازت مانگی ’لیکن حضور کا معمول تھا کہ آپ پندرہ برس سے کم عمر کے لڑکوں کو لڑائی میں شریک ہونے کی اجازت نہ دیتے تھے ۔ چونکہ ابن عمرؓ کی عمر اس وقت صرف تیرہ برس کی تھی اس لیے حضور نے انہیں واپس بھیج دیا ۔ غزوہ احد میں وہ چودہ برس کے تھے اس لیے اس میں بھی شریک نہ ہو سکے ۔

            سب سے پہلا غزوہ جس میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے داد شجاعت دی وہ غزوہ احزاب تھا 6 ہجری میں صلح حدیبیہ سے پہلے انہیں بیعت رضوان میں شریک ہونے کا عظیم شرف حاصل ہوا ۔ اس طرح وہ اصحاب الشجرۃ میں شامل ہو گئے جنہیں اللہ تعالی نے کھلے لفظوں میں اپنی خوشنودی کی بشارت دی ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حسن اتفاق سے بیعت رضوان کا شرف انہیں اپنے جلیل القدر والد سے پہلے حاصل ہو گیا وہ اس طرح کہ حضرت عمرؓ نے انہیں ایک انصاری سے گھوڑا لانے کے لیے بھیجا ۔ حضرت عبداللہؓ باہر نکلے تو سرور عالمﷺ صحابہ کرامؓ سے بیعت لے رہے تھے ۔ انہوں نے لپک کر پہلے خود بیعت کی اور پھر والد گرامی کو جاکر اطلاع دی ۔ وہ بھی فوراً بارگاہ رسالت میں پہنچے اور بیعت کی سعادت حاصل کی ۔ بیعت کی سعادت کے بعد حضرت ابن عمرؓ نے خیبر ’ فتح مکہ ’ حنین ’ طائف اور تبوک کے غزوات میں حضور کی ہمرکابی کا شرف حاصل کیا ۔ فتح مکہ کے وقت ابن عمرؓ کا سن بیس برس کا تھا او روہ ایک منہ زور تیز رفتار گھوڑے پر سوار تھے ۔ ان کے جسم پر ایک چھوٹی سی چادر تھی اور ہاتھ میں ایک بھاری نیزہ ۔ ایک جگہ گھوڑے سے اتر کر اس کے لیے گھاس کا ٹنے لگے ۔ اتفاق سے حضور کی نظر ان پر پڑی تو آپﷺ نے مدح وتحسین کے لہجے میں فرمایا : ‘‘یہ عبداللہؓ ہے عبداللہؓ ’’ اس کے بعد وہ حضورﷺ کے پیچھے پیچھے مکہ میں داخل ہوئے ۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ حضور کے ساتھ سوار تھے اور حضرت بلال ؓ اور حضرت عثمان بن طلحہؓ آپ کے جلو میں تھے ’ خانہ کعبہ کے صحن میں اونٹ بٹھا کر کنجی منگوائی گئی اور کعبہ کا دروازہ کھول کر تینوں ایک ساتھ داخل ہوئے ان کے بعد خانہ کعبہ میں سب سے پہلے داخل ہونے کی سعادت ابن عمرؓ کو حاصل ہوئی ۔ امام شعبیؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ قریش کے چار جوان حرم کعبہ میں جمع ہوئے اور چاروں میں طے پایا کہ ہم سے ہر شخص رکن یمانی پکڑ کر اللہ تعالی سے اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری کرنے کے لیے دعا مانگے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اٹھے اور دعا مانگی : ‘‘الہی تو عظیم ہے اور تجھ سے عظیم چیزیں ہی مانگی جاتی ہیں اس لیے میں تجھ کو تیرے عرش ’ تیرے نبیﷺ اور تیری ذات کی حرمت کا واسطہ دے کر دعا کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک ارض حجاز پر میری خلافت نہ قائم ہو جائے ۔ ’’ ان کے بعد ان کے چھوٹے بھائی مصعب بن زبیرؓ نے دعا مانگی : ‘‘الہی تو کائنات کی ہر شے کا خالق ہے آخر میں ہر چیز کو تیری ہی طرف لوٹنا ہے میں تجھ سے تیری قدرت کا واسطہ دے کر جس کے قبضے میں تمام عالم ہے ’ دعا کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک کہ میں عراق کا والی نہ ہو جاؤں ……’’ پھر عبدالملک بن مروان نے دعا کی : ‘‘اے ارض وسما کے مالک میں تجھ سے ایسی چیز مانگتا ہوں جس کو تیرے اطاعت گزار بندوں نے تیرے حکم سے مانگا ہے ۔ میں تجھ سے تیری ذات کی کبریائی ’ تیری مخلوقات اور اہل حرم کے حق کا واسطہ دیکر دعا مانگتا ہوں کہ تو مجھے دنیا سے اس وقت تک نہ اٹھانا جب تک مشرق ومغرب پر میری حکومت قائم نہ ہو جائے اور جو شخص میرے خلاف کھڑا ہو اس کا سر نہ کچل دوں ۔’’ اس کے بعد عبداللہ بن عمرؓ اٹھے اور بڑ ے خشوع وخضوع کے ساتھ یہ دعا مانگی : ‘‘اے اللہ تو رحمان ورحیم ہے ’ میں تیری اس رحمت کا واسطہ دے کر دعا کرتا ہوں جو تیرے غضب پر غالب ہے کہ مجھے آخرت میں رسوا نہ کرنا او رمجھے اس عالم میں جنت عطا فرمانا۔’’ ۱۰ ہجری میں ابن عمرؓ نے حجتہ الوداع میں سرور عالمﷺ کی ہمرکابی کا شرف حاصل کیا ۔ ۱۱ہجری میں حضورﷺ کا وصال ہوا تو ابن عمرؓ اس قدر ملول اور شکستہ دل ہوئے کہ عمر بھر نہ کوئی مکان بنایا اور نہ کوئی باغ لگایا ۔ جب بھی رسول اللہﷺ کی یاد آتی، بے قابو ہو کر رونے لگتے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے دل میں جہاد فی سبیل اللہ کی بے پناہ تڑپ تھی۔ عہد صدیقی میں تو بعض وجوہ کی بنا پرمدینہ منورہ سے باہر نہ جاسکے ’ لیکن عہد فاروقیؓ میں ایران ’ شام اور مصر کی فتوحات میں سرفروشانہ حصہ لیا ۔ والد امیر المومنین تھے لیکن وہ ایک عام مجاہد کی حیثیت سے لشکر اسلام میں شریک ہوئے اور کبھی کسی عہدے کی خواہش نہیں کی ۔ ۲۳ ہجری کے اواخر میں حضرت عمرؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا او ران کی جانبری کی کوئی امید نہ رہی تو انہوں نے اپنی جانشینی کا مسئلہ مسلمانوں کی ایک جماعت کے سپرد کر دیا جس میں اکابر صحابہؓ داخل تھے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اگرچہ اپنے علم وفضل اور دوسری صلاحیتوں کی بنا پر ہر طرح سے خلافت کے اہل تھے لیکن عمر فاروقؓ تقوی کے اتنے بلند مقام پر فائز تھے کہ انہیں اپنے فرزند کو خلیفہ نامزد کرنا گوارا نہ ہوا ۔ انہوں نے وصیت کر دی کہ وہ خلیفہ کے انتخاب میں مشیر کی حیثیت سے تو شریک ہو سکتے ہیں لیکن خلافت کے لیے ان کے نام پر کسی صورت غور نہ کیا جائے ۔ حضرت عثمان ؓ نے اپنے عہد خلافت میں ابن عمرؓ کو قضا کا عہدہ پیش کیا۔ لیکن انہوں نے اس کو قبول کرنے سے معذرت کر دی ۔27 ہجری میں حضرت عثمانؓ نے افریقہ پر فوج کشی کی تو حضرت ابن عمرؓ لشکر اسلام میں شریک ہو گئے اور جہاد فی سبیل اللہ میں پرجوش حصہ لیا ۔ ابن اثیر کے بیان کے مطابق 30ہجری میں انہوں نے خراسان اور طبرستان کے معرکوں میں بھی حصہ لیا ۔ حضرت عثمان ذوالنورینؓ کے عہد میں فتنوں نے سر اٹھایا تو ابن عمرؓ نے گوشہ نشینی اختیار کر لی ۔ کیونکہ انہیں مسلمانوں کا ایک دوسرے سے برسر پیکار ہونا کسی صورت میں گوارا نہ تھا ۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ امیرالمومنین حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد لوگوں نے مسند خلافت پر بٹھانا چاہا لیکن انہوں نے یہ بار گراں اٹھانے سے صاف انکار کر دیا ۔حضرت علی ؓ سریرآرائے خلافت ہوئے تو ابن عمرؓ نے اس شرط پر ان کے ہاتھ پر بیعت کی کہ وہ خانہ جنگی میں شریک نہ ہونگے ۔ چنانچہ وہ جنگ جمل اور جنگ صفین سے بالکل کنارہ کش رہے ۔ حضرت علیؓ کی شہادت اور حضرت حسنؓ کی خلافت سے دستبرداری کے بعد انہوں نے حضرت امیر معاویہؓ کی بیعت کر لی اور قسطنطنیہ کی مہم میں بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ شریک ہوئے ۔ حضرت امیر معاویہؓ کے بعد یزید تحت حکومت پر بیٹھا تو انہوں نے اختلاف امت کے فتنہ سے بچنے لیے یہ کہہ کر اس کی بیعت کر لی کہ اگر یہ خیر ہے تو ہم اس پر راضی ہیں اور اگر بلا ہے تو ہم نے صبر کیا ۔ یزید کے بعد معاویہ ثانی او رمروان بن الحکم مسند حکومت پر بیٹھے ۔ 65 ہجری میں مروان نے وفات پائی تو اس کا بیٹا عبد الملک خلیفہ بنا ۔ حضرت ابن عمرؓ نے اس کو تحریری بیعت نامہ بھیج دیا ۔ جس میں لکھا کہ میں اور میرے لڑکے اللہ اور اللہ کے رسول کی سنت پر امیر المومنین عبدالملک کی سمع واطاعت کا بقدر استطاعت عہد کرتے ہیں ۔ ابن عمرؓ نے عبدالملک ہی کے عہد خلافت میں 74 ہجری میں بعمر 84 سال وفات پائی ۔ ابن عمرؓ کی دلی تمنا تھی کہ وہ مدینہ منورہ میں وفات پائیں ۔ لیکن قدرت نے ان کی وفات مکہ معظمہ میں لکھ رکھی تھی ۔ وفات سے پہلے اپنے فرزند سالم ؒ کو وصیت کی کہ اب میں یہاں وفات پا رہا ہوں تو مجھے حدود حرم کے باہر دفن کرنا ۔ انہوں نے والد گرامی کی وصیت پر عمل کرنا چاہا لیکن حجاج نے مداخلت کی اور ان کی نماز جنازہ پڑھا کر ‘‘فتح مہاجرین’’ کے قبرستان میں سپرد خاک کیا ۔ تمام صحابہ ؓ وتابعین جنہوں نے ابن عمرؓ کو دیکھا تھا ۔ بالااتفاق ان کے اوصاف حمیدہ ،تبحر علمی اور جلالت قدر کے معترف اور مداح تھے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ عہد رسالتﷺ کی حالت وکیفیت کا عبد اللہ بن عمرؓ سے زیادہ کوئی پابند نہیں رہا ۔ حضرت حذیفہؓ بن یمان فرماتے تھے کہ رسول اللہﷺ کے بعد ہر شخص کچھ نہ کچھ بد ل گیا مگر عمرؓ اور ان کے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ نہیں بدلے ۔ حضرت ابن مسیبؓ کہا کرتے تھے کہ میں کسی کے جنتی ہونے کی گواہی دے سکتا ہوں تو وہ ابن عمرؓ ہیں ۔ میمون بن مہران ؓ کہتے تھے کہ میں نے ابن عمرؓ سے بڑھ کر کوئی متقی اور پرہیز گار نہیں دیکھا ۔ حضرت سلمہ بن عبدالرحمانؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عمرؓ کی وفا ت کے بعد ان جیسا کوئی نہیں دیکھا وہ فضیلت میں اپنے والد کے قریب تھے ۔ حضرت علی بن حسین بن زین العابدینؓ فرماتے تھے کہ عبداللہ بن عمرؓ کو زہد وتقوی اور اصابت رائے میں ہم سب پر برتری حاصل تھی ۔ علم وفضل کے اعتبار سے ابن عمرؓ کا شمار ان صحابہ کرامؓ میں ہوتا ہے جو جملہ دینی علوم کا بحر بے پایاں تھے ۔ انہیں نہ صرف سالہا سال تک فیضان نبویﷺ سے براہ راست بہرہ یاب ہونے کا موقع ملا بلکہ سیّدنا فاروق اعظمؓ جیسے نابغہ عصر والد کی تعلیم وتربیت بھی میسر آئی ۔ اس طرح وہ فضل وکمال کے اتنے بلند مقام پر فائز ہو گئے کہ بڑے بڑے فضلا صحابہ ؓ بھی ان پر رشک کیا کرتے تھے ۔ قرآن حکیم اور اس کی تفسیر سے اتنا شغف تھا کہ اپنے وقت کا بیشتر حصہ قرآنی سورتوں اور آیات پر فکر وتدبر میں گزارتے تھے ۔ موطا امام مالکؒ میں ہے کہ انہوں نے صرف سورہ بقرہ پر فکر وتدبر میں 14 برس صرف کیے ۔ عہد رسالت میں انہیں اکابر صحابہؓ کے ساتھ اکثر سرور عالمﷺ کی علمی مجلسوں میں شریک ہونے کی سعادت حاصل ہوتی تھی ۔ اس طرح ان کو قرآن حکیم کی تفسیر اور تفہیم میں غیر معمولی بصیرت حاصل ہو گئی تھی ۔ ایک مرتبہ حضورﷺ صحابہ کرامؓ کے مجمع میں رونق افروز تھے ۔ حضرت ابن عمرؓ بھی موجود تھے ۔ حضور نے قرآن حکیم کی ایک آیت پڑھی جس کا ترجمہ ہے : ‘‘کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے پاک بات کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے جیسے پاکیزہ درخت جس طرح جڑ مضبوط ہو او رشاخیں آسمان میں ’ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا اور میوے دیتا ہو ’’ پھر آپﷺ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ اس آیت میں کس درخت کی مثال دی گئی ہے ۔ تمام صحابہ ؓ خاموش رہے تو آپﷺ نے خود بتایا کہ یہ کھجور کا درخت ہے ۔ بعد میں ابن عمرؓ نے اپنے والد گرمی حضرت عمرؓ کو بتایا کہ میں سمجھ چکا تھا کہ یہ کھجور کے درخت کی مثال ہے لیکن بزرگ صحابہؓ کی خاموشی کی وجہ سے چپ رہا ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ بیٹے اگر تم اس مجلس میں بتا دیتے تو مجھے فلاں فلاں چیز زیادہ محبوب ہوتا ۔ قرآن حکیم میں فہم وبصیرت کے علاوہ حضر ت ابن عمرؓ کو حدیث سے بھی گہرا لگاؤ تھا ۔ ان سے ایک ہزار چھ سو تیس احادیث مروی ہیں ان میں سے سے 170 متفق علیہ ہیں۔ 81 بخاری اور 31 میں مسلم منفرد ہیں ۔ وہ حضورﷺ کے نہ صرف ان ارشادات کو جو آپ سے براہ راست سنتے تھے ’ حرز جان بنا لیتے بلکہ ان کو بھی جودوسروں کی وساطت سے ان تک پہنچتے تھے یا د رکھتے تھے ۔ اس طرح حفاظ حدیث میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہو گیا تھا لیکن روایت حدیث میں بہت محتاط تھے اسی وقت کوئی حدیث بیان کرتے تھے جب انہیں پورا یقین ہوتا تھا کہ اس میں کسی قسم کی کمی وبیشی نہیں ہے ۔ اسی شدت احتیاط کی بنا پر ان کی مرویات کو بہت مستند تسلیم کیا جاتا ہے ۔ ان کے اساتذہ میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان ذوالنورینؓ، حضرت علیؓ،ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ، ام المومنین حضرت حفصہؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت بلال حبشیؓ، حضرت صہیب رومیؓ، حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت رافع ؓ بن خدیج جیسے عظیم المرتبت صحابہ وصحابیات شامل ہیں ۔ ان کے ارشد تلامذہ میں سالمؒ ، عبیداللہؒ، محمد نافعؒ، حفصؒ، عروہ بن زبیرؒ، موسی بن طلحہؒ، ابو سلمہ بن عبدالرحمانؒ، سعید بن مسیبؓ، قاسمؒ، ابو برودہ بن ابو موسی اشعریؓ، سعید بن یسارؒ، عکرمہؒ، مجاہدؒ، سعید بن جبیرؒ، طاؤسؒ، عطا ، ابو الزبیرؓاور ابی ملیکہؒ کے اسما گرامی قابل ذکر ہیں ۔ فقہ میں حضرت ابن عمرؓ کو درجہ تبحر حاصل تھا ۔ انہوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ تعلم وتدریس اور درس افتا میں گزارا ۔ حافظ ابن قیم کہتے ہیں کہ ‘‘اگر ابن عمرؓ کے فتاوی جمع کیے جائیں تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے ۔’’ فقہ مالکی کا تمام تر دارومدار حضرت ابن عمرؓ کے فتاوی پر ہے امام مالک کا قول ہے کہ حضرت ابن عمرؓ ائمہ دین میں سے تھے ۔ اپنے تفقہ فی الدین کی بنا پر حضرت ابن عمرؓ فقیہہ الامت کے لقب سے مشہور ہو گئے تھے ۔ بایں ہمہ وہ فتوی دینے میں بے حد محتاط تھے اگر کسی بات میں ذرا بھی شبہ ہوتا تو ہر گز فتوی نہ دیتے اور مستفتی کو یہ کہہ کر ٹال دیتے کہ یہ مسئلہ مجھے معلوم نہیں ۔ قیاس واجتہاد میں خداداد ملکہ حاصل تھا لیکن اس سے اسی وقت کام لیتے جب کتاب وسنت میں کسی مسئلہ کے بارے میں واضح احکام نہ ملتے ہوں ۔ ایسا کرتے وقت وہ مستفتی سے صاف صاف کہہ دیتے کہ یہ میرا قیاس ہے اس کے باوجود بڑ ے بڑے ائمہ کرام ان کی رائے کے بعد پھر کسی دوسری رائے کی ضرورت نہ سمجھتے تھے ۔ دینی علوم کے علاوہ ابن عمرؓ عرب کے دیگر مروجہ علوم شاعری، خطابت اور نسابی میں بھی درک رکھتے تھے ۔ لیکن ان میں اپنا وقت صرف کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ بحیثیت مجموعی وہ علم وفضل کے مجمع البحرین تھے اور بقول ابن سعد ایک زمانہ میں لوگ دعائیں مانگا کرتے تھے کہ الہی ہماری زندگی میں ابن عمرؓ کو زندہ رکھ تاکہ ہم ان کے چشمہ فیض سے سیراب ہوتے رہیں آج ان سے زیادہ عہد رسالت کا کوئی واقف کار نہیں ۔

            عبداللہ بن عمرؓ کے گلشن اخلاق میں حب رسول، اتباع سنت ، خشیت الہی ، شوق جہاد وعبادت ، زہد وتقوی ، فیاضی و ایثار نفسی ، تواضع وانکسار ، استغنا وقناعت ، سادگی ،حق گوئی اور بے باکی سب سے خوش رنگ پھول ہیں ۔

            حب رسول ﷺ کی یہ کیفیت تھی کہ حضور کے وصال کے بعد جب بھی زبان پر رسول اللہﷺ کا اسم گرامی آتا تو آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ۔ جب غزوات رسول کے مقامات سے گزر ہوتا تو آنکھوں کے سامنے عہد رسالت کا نقشہ کھنچ جاتا اور اشکبار ہو جاتے ۔ کوئی ان کے سامنے حضور ﷺ کا ذکر کرتا تو بے قابو ہو کر رونے لگتے ۔ یحیی بن یحیی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے شیوخ سے سنا ہے کہ بعض لوگ حضرت ابن عمرؓ کے عشق رسولﷺ کی کیفیت دیکھ کر انہیں مجنون تک کہنے لگے تھے ۔ دراصل ابن عمرؓ کو عشق رسول کی بنا پر پابندی سنت کا والہانہ جنون تھا اوران کی زندگی سرور عالمﷺ کی حسین ودلکش زندگی کا پرتو جمیل بن گئی تھی ۔ وہ چھوٹی سی چھوٹی باتوں میں بھی نہایت شدت کے ساتھ اتباع سنت کا التزام کرتے تھے ۔ حتی کہ اتفاقی اور بشری عادات میں بھی وہ حضور کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے تھے ۔ سفر وحضر میں حضورﷺ نے جہاں کہیں نماز ادا کی ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ وہاں نماز ادا کرتے تھے ۔ جہاں آپ ﷺ نے آرام فرمایا وہاں آرام کرتے تھے ۔ جہاں حضور نے تھوڑی دیر کے لیے قیام فرمایا وہاں ابن عمرؓ ضرور قیام کرتے ۔ جن درختوں کے سائے میں حضور نے کبھی آرام فرمایا تھا ، ابن عمرؓ ان کو پانی دیتے رہتے تاکہ خشک نہ ہونے پائیں اور وہ بھی ان کے سایہ میں آرام کر کے سنت کی پیروی کر سکیں ۔ جب سفر سے لوٹتے تو سب سے پہلے روضہ رسول پر حاضر ہوتے اور سلام کہتے ۔ مدینہ منورہ سے اس قدر محبت تھی کہ کسی حالت میں بھی وہاں سے نکلنا گوارا نہ تھا ۔ ایک مرتبہ ان کے ایک غلام نے تنگدستی کی بنا پر مدینہ چھوڑنے کی اجازت چاہی ، فرمایا میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ جو شخص مدینہ کے مصائب پر صبر کرے گا ، قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا حضور کی آل اولاد سے بھی غیر معمولی محبت تھی اور وہ لوگوں کو اکثر ان کے فضائل سے آگاہ کرتے رہتے تھے ۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ مناسک حج کے سب سے بڑے عالم تھے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مناسک حج میں حضور کے تمام سنن کا بدرجہ غایت لحاظ رکھتے تھے۔یہاں تک کہ جہاں جہاں حضور نے طہارت کی تھی وہاں وہ بھی ضرور طہارت کرتے تھے ۔ حج کے سفر میں وہی راستہ اختیار کرتے تھے جو حضور نے اختیار کیا تھا ۔ حضور ذوالحلیفہ میں اتر کر نماز پڑھتے ، حضرت ابن عمرؓ بھی ذوالحلیفہ میں ضرور نماز پڑھتے تھے ۔ حضور نے جن مقامات پر منزل کی تھی وہ بھی وہاں منزل کرتے تھے ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور ﷺ مسجد قبا میں کبھی کبھی باپیادہ اور کبھی سواری پر تشریف لے جاتے تھے ۔ ابن عمرؓ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ حضور مکہ مکہ میں داخل ہونے سے قبل بطحا میں تھوڑا سا سولیتے تھے ، ابن عمرؓ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ابن عمرؓ کسی کی دعوت رد نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ روزہ کی حالت میں بھی دعوت میں تشریف لے جاتے تھے گو کھانے میں شریک نہیں ہوتے تھے ۔ غرض وہ تمام کاموں میں اسوہ نبی کو پیش نظر رکھتے تھے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے نہایت گداز دل پایا تھا ۔ خوف خدا اور روز جزا سے ہر وقت لرزاں وترساں رہتے تھے ۔ کوئی آیت جس میں محاسبہ آخرت کا ذکر ہوتا ، سنتے تو لرزہ براندام ہو جاتے اور رونے لگتے ۔ ایک دن عبید بن عمر سے قرآن کی یہ آیت سنی : ‘‘اے رسول ! آخرت کے اس دن کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لا کھڑ ا کریں گے اور آپﷺ کو ان سب پر گواہ لائیں گے ۔’’ آیت سنتے ہی بے اختیار رونے لگے یہاں تک کہ داڑھی او رگریبان آنسوؤں سے بھیگ گئے ۔ خشیت الہی نے ا نکے دل میں جہاد اور عبادت کا ایسا شوق پیدا کر دیا تھا کہ ان کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے تھے۔ پندرہ برس کی عمر سے لے کر بڑھاپے تک جہاد میں برابر حصہ لیتے رہے ۔ عبادت کی کیفیت تھی کہ قائم اللیل اور دائم الصوم تھے ۔ بعض اوقات ایک رات میں پورا قرآن پڑھ لیتے تھے ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرتے تھے ۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ساٹھ حج کیے اور ایک ہزار عمرے ۔ زہد وتقوی میں اپنی مثال آپ تھے ۔ ‘‘تہذیب التہذیب’’ میں لکھا ہے کہ جوانان قریش میں عبد اللہ بن عمرؓ سے زیادہ کوئی شخص اپنے نفس پر قابو رکھنے والا نہیں تھا ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ابن عمرؓ آغاز شباب ہی میں مسجد میں جاکر سویا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ انہوں نے خواب میں دوزخ کے فرشتوں کو دیکھا ۔ دوسرے دن اس کا ذکر اپنی بہن ام المومنین حضرت حفصہؓ سے کیا ۔ انہوں نے رسول اللہﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپﷺ نے فرمایا:

‘‘عبداللہؓ جوان صالح ہے ۔’’ ایک دفعہ کوئی شخص ان کی خدمت میں چورن لیکر حاضر ہوا ۔ پوچھا ، یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا ، ہاضم طعام ، انہوں نے فرمایا، مجھے اس کی کیا ضرورت میں نے تو مہینوں سے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا ۔ ایک مرتبہ کسی سے پانی مانگا اس نے شیشے کے پیالے میں لا کر پیش کیا ۔ انہوں نے پینے سے انکار کر دیا پھر ان کے سامنے لکڑی کے پیالے میں پانی پیش کیا گیا۔ اب انہوں نے پانی پی لیا ۔ پانی پی کر وضو کے لیے برتن مانگا تو ان کے سامنے طشت وآفتابہ لایا گیا۔ انہوں نے صاف انکار کر دیا اور لوٹے سے وضو کیا ۔ میمون بن مہرانؒ کا بیان ہے کہ میں ایک دفعہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے تمام اثاث البیت کی قیمت لگائی تو سو درہم سے زیادہ کا سامان نہ تھا اس میں فرش اور بستر بھی شامل تھا ۔

            حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاس کئی بار دنیا پورے سازو سامان کے ساتھ آئی لیکن انہوں نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا ۔ ان کو بارہا ایسے مواقع ملے کہ اگر چاہتے تو بڑے سے بڑے عہدے کیا مسند خلافت تک پہنچ سکتے تھے ۔ زر و جواہر سمیٹنا چاہتے تو اپنے دور کے متمول ترین آدمی ہوتے لیکن انہوں نے آخرت کو دنیا پر ترجیح دی اور اپنے زہدو تقوی سے باہر قدم نہ نکالا ۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ تمام کام جو خود کر سکتے تھے اپنے ہاتھ سے انجام دیتے تھے حتی کہ اونٹنی وغیرہ بٹھانے میں بھی دوسروں سے مدد نہیں لیتے تھے۔ لباس عموماً معمولی پہنتے البتہ کبھی کبھار عمدہ لباس بھی زیب تن کر لیتے تھے وہ بھی اس لیے کہ ایک دو مرتبہ رسول اللہﷺ کو ایسا کرتے دیکھا تھا ۔ لباس قمیض، ازار اور سیاہ عمامہ پر مشتمل ہوتا تھا ۔ ازار نصف ساق تک ہوتا تھا حضورﷺ کو زرد رنگ پسند تھا اس لیے ان کو بھی زرد رنگ مرغوب تھا ۔ دستر خوان بھی تکلفات سے خالی ہوتا تھا ۔ بعض اوقات ایک بڑے برتن میں کھانا رکھ دیا جاتا ، وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ اس کے گرد بیٹھ کر کھا لیتے انہیں ہر وہ چیز ناپسند تھی جس میں کسی قسم کی نمائش یا تکلف کی آمیزش ہوتی ۔ یہاں تک کہ جمعہ کے دن کے سوا کبھی سر ، داڑھی اور کپڑوں میں خوشبو نہیں لگائی۔ دنیوی حیثیت سے حضرت ابن عمرؓ بہت مرفہ الحال تھے۔ دینی خدمات کی بنا پر ان کا اڑھائی ہزار ماہانہ وظیفہ مقرر تھا۔ صحیح بخاری کے مطابق وہ بہت سے لگانی زمینوں کے بھی مالک تھے لیکن وہ اپنے مال کو بے دریغ راہ خدا میں لٹاتے رہتے تھے ۔ فیاضی اور سیر چشمی ان کی گھٹی میں پڑی تھی ۔ کسی سائل کو اپنے دروازے سے خالی ہاتھ نہ جانے دیتے تھے۔ بیسیوں فقرا ومساکین ان کے دستر خوان پر پرورش پاتے تھے۔ عموماً کسی مسکین کو اپنے دستر خوان پر بٹھائے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے بلکہ بعض اوقات اپنے حصے کا کھانا بھی مسکینوں کو کھلا دیتے اور خود بھوکے رہتے ۔ ایک مرتبہ ان کو مچھلی کی خواہش ہوئی جب مچھلی بھون کر ان کے سامنے رکھی گئی تو ایک سائل کا گزر ہوا وہ اٹھا کر اس کو دے دی ۔

            طبقات میں ابن عمرؓ کے غلام اور شاگرد نافعؒ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ان کے پاس بیس ہزار درہم آئے ، انہوں نے دونوں ہاتھوں سے لوگوں کو دینے شروع کیے یہاں تک کہ سب ختم کر ڈالے ، تقسیم ہو جانے کے بعد جو لوگ آئے ان کو دوسرے لوگوں سے جنہیں پہلے دے چکے تھے قرض لے کر دیے ۔ کہیں قیام ہوتا تو اکثر روزہ رکھتے لیکن کوئی مہمان آجاتا تو روزہ توڑ دیتے تھے اور فرماتے کہ مہمان کی موجودگی میں روزہ رکھنا فیاضی سے بعید ہے ۔ ابن عمرؓ دو دو تین تین ہزار کی رقمیں تو آئے دن خیرات کیا کرتے تھے لیکن بعض اوقات بیس بیس اور تیس تیس ہزار کی رقمیں بھی یکمشت راہ خدا میں لٹا دیتے تھے ۔ اگر کبھی کوئی غلام لونڈی بہت پسند ہوتی یا اپنے کسی غلام کو بہت عبادت گزار دیکھتے تو اس کو آزاد کر دیتے اس طرح انہوں نے اپنی زندگی میں ایک ہزار سے زیادہ غلام آزاد کیے ۔ ایک دفعہ سفر حج کے لیے ایک اونٹنی خریدی ، سوار ہوئے تو اس کی چال بہت پسند آئی ، فوراً اترے اور حکم دیا کہ سامان اتار لو اور اس کو قربانی کے اونٹوں میں شامل کر دو ایک مرتبہ چند دوستوں کے ساتھ مدینہ کے ایک نواحی علاقے میں تشریف لے گئے ۔ ایک مقام پر دستر خوان بچھایا تو ایک چرواہا ادھر آنکلا ۔ اس نے سلام کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اس کو کھانے کی دعوت دی ۔ اس نے عذر کیا کہ میں روزے سے ہوں ۔ انہوں نے فرمایا : ‘‘اتنی گرمی میں روزے رکھتے ہو اور پھر بکریاں بھی چراتے ہو؟ پھر اس سے پوچھا ، کیا یہ بکریاں ہمارے ہاتھ فروخت کر سکتے ہو ، ہم تمہیں نقد قیمت بھی دیں گے اور افطار کے لیے گوشت بھی ۔ چرواہے نے عرض کیا ، یہ بکریاں میری نہیں ہیں ان کا مالک میرا آقا ہے ۔ ابن عمرؓ نے اس کے تقوی کا امتحان لینے کی خاطر فرمایا ، تمہارا آقا کیا کرے گا ؟ ’’ چرواہے نے آسمان کی طرف انگلیاں اٹھائیں اور اللہ کہاں ہے ، اللہ کہاں ہے کہتا ہوا چلا گیا ۔ ابن عمرؓ کو اس کا یہ قول پسند آیا اور اس کو باربار دہراتے رہے چونکہ اس کی دیانت اور خدا خوفی سے بے حد خوش تھے۔ اس لیے جب مدینہ آئے تو اس کے آقا سے بکریوں سمیت خرید کر آزاد کر دیا اور تمام بکریاں بھی اس کو بخش دیں ۔ ایک دفعہ کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک بدو ملا ، آپؓ نے اسے سلام کیا اور سواری کا گدھا اور سر کا عمامہ اتار کر اس کو دے دیا ۔ ابن دینارؒ ساتھ تھے انہوں نے عرض کیا ، اللہ آپ کو صلاحیت دے ، یہ بدو تو معمولی چیزوں سے خوش ہو جاتے ہیں گدھا اور عمامہ دینے کی کیا ضرورت تھی۔ فرمایا : ‘‘اس کے والد میرے والد کے دوست تھے ۔ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ سب سے بڑی نیکی اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک ہے ۔’’ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بعض غلام آزاد ہونے کے لیے بڑے عبادت گزار بن جاتے ، ان کے بعض احباب نے عرض کیا کہ یہ لوگ عبادت میں مخلص نہیں ہیں اور آپ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں ۔ ابن عمرؓ نے فرمایا کہ جو شخص ہم کو اللہ کے ذریعے دھوکا دیتا ہے ہم اس سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔ ان کے ہاتھ سے جو مال نکل جاتا تھا پھر اس کو واپس نہیں لیتے تھے ۔ عطا ؒ کا بیان ہے کہ ایک بار میں نے ان کو دو ہزار درہم قرض دیے انہوں نے جب اس قرض کو چکایا تو میں نے ان کے درہموں کا وزن کیا وہ وزن میں دو سو سے زیادہ نکلے ۔ میں نے یہ دو سو درہم واپس کرنا چاہے تو فرمایا، اب یہ تمہارے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ چونکہ اکثر مسکینوں کو کھلا دیتے تھے اس لیے بہت لاغر ہو گئے تھے ۔ لوگوں نے ان کی بیوی کو ملامت کی کہ آپ ان کی خدمت اچھی طرح نہیں کرتیں۔ انہوں نے کہا ، میں کیا کروں جب ان کے لیے کوئی کھانا پکتا ہے تو وہ مساکین کو کھلا دیتے ہیں ان کی اس عادت کی بنا پر جب وہ مسجد سے نکلتے تو فقرا ومساکین ان کے راستے میں آبیٹھتے ، وہ انہیں اپنے ساتھ لے آتے اور کھانا کھلا کر بھیجتے ۔ چنانچہ ایک دن ان کی بیوی نے ان فقرا کے گھروں پر کھانا بھجوا دیا اور ساتھ ہی کہلا بھیجا کہ ان کے راستے میں مت بیٹھنا اور وہ بلائیں تو بھی مت آنا حضرت ابن عمرؓ اس روز مسجد سے نکلے تو کسی فقیر کو راستے میں بیٹھا نہ پایا ، گھر آئے تو واقعہ معلوم ہوا ۔ غصہ سے فرمایا کہ تم کیا چاہتی ہو کہ مساکین میرے دستر خوان پر نہ ہوں اور میں رات فاقہ سے بسر کروں چنانچہ اس رات کو کھانا نہ کھایا اور بھوکے پڑے رہے ۔ اپنی جلالت قدر کے باوجود ابن عمرؓ تواضع وانکسار اور اخلاق کا مجسمہ تھے ۔ لوگوں کو سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کیا کرتے تھے ۔ اس میں امیر غریب کی بالکل تفریق نہ کرتے تھے فرماتے تھے کہ میں بازار میں اس لیے نکلتا ہوں کہ لوگوں کو سلام کروں اور(جواب میں) مجھ پر سلام کیا جائے ۔ اگر کسی کو سلام کرنا بھول جاتے تو پلٹ کر سلام کرتے ۔ مجاہدؒ کہتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ سفر میں ہوتا تھا جہاں تک ممکن ہوتا وہ اپنا کام خود کرتے یہاں تک کہ اونٹ کا پاؤں دباتے تو میں اس پر سوار ہوتا مسند احمد میں ہے کہ اپنی تعریف سننا ان کو سخت ناپسند تھا۔ ایک مرتبہ کوئی شخص ان کی تعریف کر رہا تھا انہوں نے اس کے منہ میں مٹی جھونک دی اور فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ منہ پر تعریف کرنے والے خوشامدیوں کے منہ میں مٹی ڈالا کرو ۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے ان پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ انہوں نے جواب میں صرف اتنا فرمایا ، بھائی ہم لوگ عالی نسب ہیں پھر خاموش ہو گئے ۔ ایک دفعہ ایک شخص نے ان سے پوچھا ، آپ کون ہیں؟ فرمایا جو تم کہو میں وہی ہوں اس نے کہا ، آپ سبط ہیں ، آپ وسط ہیں ۔ فرمایا ، سبحان اللہ سبط تو بنی اسرائیل تھے اور وسط تمام امت محمدیہ ہے البتہ ہم قبیلہ مضر کے اوسط ہیں ۔ اس سے زیادہ رتبہ کوئی ہمیں دیتا ہے تو وہ جھوٹا ہے ۔ ایک دفعہ کسی نے ان کو نہایت بیش قیمت ہروی کپڑے ہدیہ پیش کیے انہوں نے ان کو یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ ان کے پہننے میں کوئی حرج نہیں تھا لیکن ہم کبرو غرور کے خوف سے ان کو نہیں پہن سکتے ۔ ایک دفعہ حالت احرام میں سردی محسوس ہوئی تو اپنے ایک شاگرد قرعہ عقیلی سے فرمایا ، میرے اوپر چادر ڈال دو ۔ انہوں نے چادر اوڑھا دی ۔ بیدا ر ہوئے تو اس کے نقش ونگار اور بوٹوں کو جو ریشمی تھے ، دیکھنے لگے پھر فرمایا اگر یہ بوٹے نہ ہوتے تو اسکے اوڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا ۔ اگر کسی ایسی جگہ تشریف لے جاتے جہاں لوگ ان کودیکھ کر ازراہ تعظیم کھڑے ہو جاتے تو وہاں نہ بیٹھتے۔ غلاموں کے ساتھ ان کا سلوک نہایت مشفقانہ بلکہ مساویانہ ہوتا تھا ۔ انہیں اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھا کر کھانا کھلاتے اور اپنے اہل وعیال کی طرح ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتے ۔ ایک مرتبہ غلاموں کو کھانا کھانے میں دیر ہو گئی ۔ حضرت ابن عمرؓ کو معلوم ہوا تو بہت ناراض ہوئے اور حکم دیا کہ انہیں فوراً کھانا کھلایا جائے ، پھر فرمایا انسان کے لیے یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ اپنے غلاموں کے کھانے پینے کا خیال نہ رکھے ۔ دستر خوان پر بیٹھے ہوتے اور کسی دوسرے کا غلام آجاتا تو اسے بھی شریک طعام کر لیتے ۔ انہوں نے اپنے غلاموں کو ہدایت کر رکھی تھی کہ جب مجھے خط لکھو تو اس میں میرے نام سے پہلے اپنا نام لکھو۔ حالانکہ اس وقت کے رواج کے مطابق آقا کا نام پہلے لکھا ہوتا تھا۔ غلاموں کو نہ کبھی سخت سست کہتے تھے اور نہ کبھی ان پر ہاتھ اٹھاتے تھے ، اگر کبھی ایک آدھ مرتبہ غصہ کی حالت میں کسی غلام پر سختی کر بیٹھتے تو کفارہ کے طور پر اس کو آزاد کر دیتے۔ اپنے اخلاق حسنہ ، تواضع اور انکسار کی بدولت انہیں عوام الناس میں درجہ محبوبیت حاصل ہو گیا تھا ۔ لوگ ان سے بہت محبت کرتے تھے ۔ گھر سے باہر نکلتے تو قدم قدم پر لوگ ان کو سلام کرتے ایک دفعہ مجاہدؒ ساتھ تھے ، ان سے مخاطب ہو کر تحدیث نعمت کے طور پر فرمایا ، لوگ مجھ سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ اگرسونے چاندی کے بدلے میں بھی محبت خریدنا چاہوں تو اس سے زیادہ نہیں مل سکتی ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی طبیعت میں استغنا اور قناعت کا مادہ درجہ اتم پایا جاتا تھا ۔ اگرچہ وہ سنت نبوی ﷺ کے مطابق ہدیہ قبول کر لیتے تھے لیکن کسی کے سامنے کبھی دست سوال دراز نہیں کیا ۔ علامہ ابن سعدؒ نے ان کا قول نقل کیا ہے کہ میں کسی سے مانگتا نہیں ۔ لیکن جو اللہ تعالی دیتا ہے اس کو رد بھی نہیں کرتا ۔ ایک دفعہ ان کی پھوپھی رملہؓ نے دو سو دینار دیے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کر لیے اور انہیں دعا دی ۔ ایک مرتبہ عبدالعزیز بن ہارون نے ان کو لکھا کہ آپ کو جو حاجت ہو ، مجھ سے طلب فرمائیے ، انہوں نے جواب میں لکھ بھیجا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ اپنے اہل وعیال سے لینے دینے کی ابتدا کرو، اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے ۔ میرا خیا ل ہے کہ دینے والا اوپر کا ہے اور لینے والا نیچے کا ۔ میں آپ سے سوال کروں گا اور نہ اس مال کو رد کروں گا جس کو خدا نے میری طرف بھیجا ہے۔

            مال ودولت ان کے نزدیک بالکل بے حقیقت شے تھی۔ اگر ذرا بھی شبہ ہو جاتا کہ مالی ہدیہ خلوص سے نہیں بلکہ کسی ذاتی غرض سے پیش کیا گیا ہے تو اس کو قبول نہ کرتے ، اسی طرح کسی چیز میں صدقہ کے شائبہ کا بھی خیا ل ہوتا تو اس کو استعمال نہ کرتے ۔ ایک دفعہ انہوں نے اپنی والدہ پر ایک غلام صدقہ کیا ۔ اتفاق سے اس غلا م کے ساتھ بازار گئے ۔ وہاں ایک بکری فروخت ہو رہی تھی انہوں نے غلام سے کہا، اپنے ما ل سے اس کو خرید لو ۔ اس نے خرید لی اور افطار کے وقت اسی بکری کا دودھ ان کے سامنے پیش کیا ۔ انہوں نے فرمایا ، یہ دودھ بکری کا ہے ، بکر ی غلام کی ہے اور غلام صدقہ کا ہے ، اس کو ہٹاؤ میں نہیں پیوں گا ۔

            مشتبہ چیزوں سے سخت اجتناب کرتے تھے ، ایک مرتبہ کسی نے کھجور کا سرکہ بطور ہدیہ بھیجا ۔ پوچھا کیا چیز ہے، معلوم ہوا کھجور کا سرکہ ہے ۔ انہوں نے اس کو فوراً پھینکوایا کیونکہ اس کے استعمال سے سکر پیدا ہونے کا احتمال تھا ۔ مروان بن الحکم نے اپنے زمانہ میں راستوں میں سنگ میل کے سنگی نشان نصب کرائے تھے حضرت عبداللہ بن عمرؓ ان پتھروں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا مکروہ سمجھتے تھے اور ان سے ہٹ کر نماز پڑھتے تھے کیونکہ ان کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے میں پتھر کی پرستش کا خیالی شائبہ تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی زندگی ہمیشہ مصالحانہ اور مرنجان مرنج رہی ۔ انہوں نے مسلمانوں کے باہمی جھگڑوں میں حصہ لیا نہ حکومت وقت کے خلاف کسی سرگرمی میں ، تاہم جس بات کو حق سمجھتے تھے اس کا برملا اظہار کرتے تھے ۔