اللہ کا حصہ

مصنف : یاسر محمد خاں

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جنوری 2006

اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ‘‘صدقہ’’ امریکا میں ادا کیا جارہا ہے ۔ بل گیٹس ایک لادین بزنس مین ہے ۔ لیکن وہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ڈونیشن (Donation ) دینے والا شخص ہے۔ وہ پاکستان کے کل بجٹ کے قریب رقم ہر سال لوگوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کرتا ہے۔ وال مارٹ امریکا کی ایک کمپنی ہے ، امریکا میں اس کمپنی کے سیکڑوں سٹور ہیں ۔ اس کے مالکان کا شمار دنیا کے پہلے 10 امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے یہ کمپنی ہر سال 67 ہزار طالب علموں کو اسکالر شپ دیتی ہے۔ میکڈونلڈ کمپنی اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ یتیم خانے چلا رہی ہے ۔

            جم رون ایک نامور امریکی ہے ۔ اس وقت امریکا کے بااثر لوگوں کی فہرست بنائی جائے تو جم رون کا نام اس فہرست کے ابتدائی ناموں میں شامل ہو گا ۔ جم رون غریب ماں باپ کا بیٹا تھا ۔ اس نے 16 سال کی عمر میں نوکری شروع کی ۔ نوکری کے شروع میں اس کی ملاقات ایک یہودی سے ہوئی ، یہودی ایک کاروباری شخص تھا جم رون 5 برس تک اس کے پاس کام کرتا رہا۔ ان پانچ برسوں میں اس نے اس یہودی سے بہت کچھ سیکھا ۔ اس ٹریننگ کی بنیاد پر اس نے اپنا کام شروع کیا ۔ اس نے لوگوں کے ساتھ اپنی کامیابی کے اصول Discuss کرنے شروع کر دیے۔ وہ امریکہ کے مختلف شہروں میں جاتا ، لوگوں کو جمع کرتا اور انہیں بتاتا کہ انسان کو زندگی کیسے گزارنی چاہیے ؟ کامیابی کیا چیز ہے ؟ خوشی اور مسرت کیا چیز ہوتی ہے اور وہ کہاں کہاں سے ملتی ہے ؟ شروع میں اس نے یہ کام مشغلے کے طور پر شروع کیا لیکن بہت جلد لوگوں نے جم رون کو سنجیدگی سے سننا شروع کر دیا یہاں تک کہ صرف دو برس کے عرصے میں وہ ‘‘عوامی مقرر’’ بن گیا اور لوگوں نے باقاعدہ ‘‘فیس’’ دے کر اس کا بیان سننا شروع کر دیا ۔ جم رون کو اپنی اس صلاحیت کا علم نہیں تھا ۔جب اس نے دیکھا کہ وہ لوگوں میں مقبول ہو رہا ہے تو اس نے ‘‘خطاب’’ کو اپنا پیشہ بنا لیا ۔ اس نے اپنی فیس مقرر کر دی اب حالت یہ ہے کہ لوگ اس کا خطاب سننے کے لیے سال سال پہلے بکنگ کرا دیتے ہیں ۔ وہ دنیا کے مختلف شہروں میں ہزار ہزار دو دو ہزار لوگوں کا گروپ بناتا ہے ، انہیں کسی ہال میں جمع کرتا ہے اور پھر انہیں زندگی ، کامیابی اور خوشی کے بارے لیکچر دیتا ہے ۔ مجھے اس کی 6 کیسٹوں کا ایک پروگرام سننے کا اتفاق ہوا ۔ اس پروگرام کا نام ‘‘غیر معمولی زندگی گزارنے کا فن’’ تھا ۔ میں یہ پروگرام سن کر حیران ہو گیا ۔ اس شخص کا بیان ، زبان اور سٹائل اس قدر شاندار تھا کہ آپ اس کا اثر لیے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ میں جم رون سے بہت متاثر ہوا ۔ میں اب بھی اس سے متاثر ہوں ، میں سمجھتا ہوں وہ ایک غیر معمولی انسان ہے ۔ اگر اس میں کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ایمان ہے ۔ اگر وہ مسلمان ہوتا تو پوری دنیا میں کمال کر دیتا۔ لوگ اس کے پاؤں چھوتے لیکن بہرحال یہ وہ سعادت ہے ، جو اللہ تعالی ہر کسی کو نصیب نہیں کرتا ۔

            جم رون نے اپنے اس لیکچر کے دوران میں کامیاب زندگی گزارنے کا ایک عجیب نسخہ بیان کیا ، اس نے بتایا : ‘‘اگر آپ لوگ ایک خوشحال ، مطمئن اور کامیاب زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آپ اپنی آمدنی کو دو حصوں میں تقسیم کریں ۔پہلے حصے میں 70 فیصد آمدنی ہو اور دوسرے حصے میں 30 فیصد ۔ پہلے حصے کی 70 فیصد آمدنی آپ اپنے کاروبار ، اپنی ضروریات زندگی، اپنے خاندان ، بیوی بچوں اور گھر پر صرف کریں ، دوسرے حصے کے 30 فیصد کو آپ مزید تین حصوں میں تقسیم کریں ۔ یہ دس دس فیصد رقم بنے گی ۔ آپ اس رقم کے پہلے حصے کو بچت کا نام دیں اور اسے اپنے معمول کے کاروبار سے ہٹ کر کسی کام میں صرف کر دیں۔ آپ اس کا زیور خرید لیں ، یہ رقم شراکت داری میں کسی دوست کے کاروبار میں لگا دیں ۔ جس میں آپ کو وقت نہ دینا پڑے ۔ یہ سرمایہ کاری یا بچت آہستہ آہستہ آپ کا اثاثہ بن جائے گی ، یہ برے دنوں میں آپ کا ساتھ دے گی ۔ دوسرا حصہ یا دوسرا دس فیصد حصہ آپ اپنی ذاتی زندگی پر خرچ کریں ، اس سے آپ کتابیں خریدیں ، دنیا بھر کی سیاحت کریں ، اپنے لیے اچھے کپڑے ، جوتے اور سواری خریدیں ، یہ رقم اپنی صحت اور آرام پر لگائیں ، اس رقم سے چھوٹے چھوٹے کورس کریں ، اس رقم سے ورزش کا کوئی کلب جوائن کریں ، اس سے ورزش اور کھیل کے آلات خریدیں ، اپنے آپ کو صحت مند اور خوبصورت بنائیں اور تیسرا حصہ یعنی آخری دس فیصد آپ فلاح عامہ پر خرچ کریں ۔’’

            جم رون جب اس جگہ پہنچا تو میں ہمہ تن گوش ہو گیا ، اس نے بتایا : ‘‘آپ کے مال کا آخری دس فیصد آپ کے گردونواح میں رہنے والے ان لوگوں کا حق ہے جو زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں ، جن کے پاس صحت ، تعلیم اور روزگار نہیں ، جو نادار اور مسکین ہیں ’’ میں جم رون کی بات بڑے غور سے سن رہا تھا ، اس نے بتایا : ‘‘یہ دس فیصد حصہ آپ کو روحانی اور ذہنی مسرت دے گا ، یہ آپ کو انسان ہونے کا احساس دلائے گا ، یہ آپ کے لوگوں کے دکھ درد محسوس کرنے ، انہیں اپنانے کا شعور دے گا ، یہ آپ کو معاشرے کا حصہ بنائے گا ، یہ آپ کو آپ کی ذمہ داریوں کا احساس دلائے گا ، یہ آپ کو بتائے گا زندگی جن لوگوں کے کندھوں پر ان کی اوقات سے زیادہ بوجھ ڈال دیتی ہے اس بوجھ کو اٹھانا ، اس بوجھ کو بانٹنا ، مضبوط کندھے کے لوگوں کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ یہ ان لوگوں کی ذمہ داری ہوتی ہے جنہیں اللہ تعالی نے زیادہ بوجھ اٹھانے کی صلاحیت دے رکھی ہے ۔’’ میں نے جم رون کی یہ بات سنی تو میری حیرت میں اضافہ ہو گیا ۔ میں ہمہ تن گوش ہو گیا ، جم رون نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے بتایا : ‘‘دنیا کے تمام مذاہب مالدار لوگوں کو اللہ تعالی اور مخلوق کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں ، اللہ کے نزدیک دولت کی اہمیت نہیں ، وہ دینے والے کی نیت اور جذبہ دیکھتا ہے۔’’ اس نے آگے چل کر سیدنا عیسی ؑ کی زندگی کا ایک واقعہ بیان کیا ، اس نے بتایا : ‘‘سیدنا عیسی ؑ اپنی ابتدائی زندگی میں یہودیوں کی کسی عبادت گاہ کے سامنے کھڑے تھے ، انہوں نے دیکھا بے شمار لوگ آرہے ہیں اور آکر عبادت گاہ کے چندے کے صندوق میں پیسے ڈال رہے ہیں ۔ ان لوگوں میں بے شمار مالدار لوگ تھے ۔ ہر شخص اپنی اوقات کے مطابق صندوق میں پیسے ڈال رہا ہے ۔ اس ہجوم میں اچانک ایک غریب لڑکی داخل ہوئی ، اس کے کپڑے اور جوتے پھٹے ہوئے تھے اور اس کے بال میل سے پر تھے ۔ لڑکی صندوق کے قریب پہنچی ، اس کی مٹھی میں ایک کھوٹا سکہ تھا ، وہ صندوق کے قریب پہنچی ، اس نے صندوق کے اوپر مٹھی رکھی اور یہ مٹھی کھول دی ۔ کھوٹا سکہ اس کے ہاتھ سے نکلا اور یہودی تاجروں کے سونے کے سکوں پر گر گیا ۔ لڑکی نے آسمان کی طرف دیکھا اور کچھ بڑبڑا کر واپس مڑ گئی ، حضرت عیسیؑ نے اس لڑکی کو روک لیا اور اس سے پوچھا : ‘‘تم نے اللہ تعالی کو کھوٹا سکہ کیوں دیا؟’’ لڑکی گھبرا کر بولی : ‘‘ اس لیے کہ میرے پاس صرف کھوٹا سکہ تھا ۔ اللہ کو کھرے سونے کے سکے ان لوگوں نے دیے ہیں جن کے پاس سینکڑوں ہزاروں سونے کے سکے ہیں ، میرے پاس صرف ایک سکہ تھا اور میں نے وہی سکہ اللہ تعالی کو پیش کر دیا ۔’’ حضرت عیسی ؑ لڑکی کے اس جذبے سے بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے لڑکی کے لیے دعا فرمائی۔ ’’

            جم رون نے یہ واقعہ سنانے کے بعد تبصرہ کیا : ‘‘اللہ تعالی کی نظر میں سونا اور تانبا محض دھاتیں ہیں وہ اس کی نظر میں سو ڈالر اور ایک ڈالر دونوں کا غذ کے ٹکڑے ہیں ، وہ صرف دینے والے کی نیت اور ا سکا خلوص دیکھتا ہے ۔ اس لڑکی کا یہ کھوٹا سکہ بنی اسرائیل کے سونے کے سارے سکوں پر بھاری تھا لہذا اگر آپ زندگی میں سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اپنی آمدنی کا ایک حصہ اللہ کی راہ میں ضرور خرچ کریں خواہ آپ کی آمدنی کھوٹے سکوں کی شکل ہی میں کیوں نہ ہو ۔’’

            جم رون کی بات نے مجھے نیا راستہ دکھایا ۔ میں نے صدقے اور خیرات کی نظر سے اقوام عالم کا مطالعہ شروع کر دیا ۔ مجھے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ تمام مذاہب نہ صرف صدقے اور خیرات کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ وہ لوگوں کو اس کی تلقین بھی کرتے ہیں ۔ مجھے معلوم ہوا دنیا کے تمام یہودی اپنی آمدنی کا 15 فیصد حصہ ایک ایسے خفیہ فنڈمیں جمع کراتے ہیں جو بعد ازاں غریب ، مسکین اور بیمار یہودیوں کے کام آتا ہے ۔ اس فنڈ سے یہ لوگ طالب علموں کوتعلیم دیتے ہیں بیماروں کا علاج معالجہ کرتے ہیں ، بوڑھوں کے ہاسٹل چلاتے ہیں اور بیمار جانوروں کے ہسپتال بناتے ہیں ۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس وقت تک 161 یہودیوں نے نوبل انعام حاصل کیے ۔ ان 161 نامور لوگوں میں سے 78 سائنسدان ایسے تھے جنہوں نے اسی فنڈ کی مدد سے تعلیم حاصل کی تھی ۔ مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی یہودی اس فنڈ سے اس وقت دنیا کے 23 بڑے ہسپتال اور 16 یونیورسٹیاں چلا رہے ہیں ۔ یہ یونیورسٹیاں ہر سال 23 ہزار یہودیوں کو اعلی تعلیم دیتی ہیں ۔ مجھے پتا چلا کہ اسماعیلی فرقے کے لوگوں نے بھی یہودیوں کی طرز پر ایک ایسا ہی فنڈ تشکیل دے رکھا ہے ، دنیا بھر میں آباد اسماعیلی ہر ماہ اپنے منافع کا 12 فیصد حصہ اس فنڈ میں جمع کرا دیتے ہیں ، اس فنڈ کو وہ ‘‘آغا خان فنڈ’’ کہتے ہیں ۔ یہ فنڈ بعد ازاں آغاخانیوں کی فلاح وبہبود پر خرچ ہوتا ہے ۔ اس وقت آغا خان فاؤنڈیشن اس فنڈ سے دنیا میں 54 بڑے پروگرام چلا رہی ہے۔ آغا خانی لوگ اس فنڈ سے ان آغاخانیوں کو قرضے بھی دیتے ہیں جو معاشی مسائل کا شکار ہیں یا پھر کاروباری مندے میں پھنس گئے ہیں ۔ یہ قرضے ان لوگوں کو دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا کر دیتے ہیں۔

            مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ‘‘صدقہ’’ امریکا میں ادا کیا جارہا ہے ۔ بل گیٹس ایک لادین بزنس مین ہے ۔ لیکن وہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ڈونیشن (Donation ) دینے والا شخص ہے۔ وہ پاکستان کے کل بجٹ کے قریب رقم ہر سال لوگوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کرتا ہے وال مارٹ امریکا کی ایک کمپنی ہے ، امریکا میں اس کمپنی کے سیکڑوں سٹور ہیں ۔ اس کے مالکان کا شمار دنیا کے پہلے 10 امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے یہ کمپنی ہر سال 67 ہزار طالب علموں کو اسکالر شپ دیتی ہے۔ میکڈونلڈ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ یتیم خانے چلا رہی ہے ۔

            اورینٹل کمپنی اس وقت جگر کے امراض کے خلاف ریسرچ کر ا رہی ہے ۔ یہ سب لوگ بے دین اور سرمایہ دار ہیں لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ صدقہ اور خیرات تو رہے ایک طرف ہم زکوۃ تک ادا نہیں کرتے ۔ مجھے کوئی صاحب بتا رہے تھے کہ اگر پاکستان کے تمام صاحبان نصاب پوری ایمانداری سے زکوۃ نکالیں اور پھر یہ زکوۃ ایسے اداروں کو سونپ دیں جو ملک میں فلاح وبہبود کا کام کر رہے ہیں تو پاکستان میں کوئی غریب نہ بچے ۔ وہ صاحب بتا رہے تھے کہ ہم لوگ اگر ایسے ادارے بنائیں جو لوگوں کو صحت ، تعلیم اور روزگار کی سہولتیں دیں اور پھر ہم اپنی زکوۃ ان اداروں کو دے دیں اور وہ ادارے ایک نظام کے تحت یہ رقم آگے ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیں تو ہمارے ملک کے زیادہ تر مسائل حل ہو جائیں لیکن عجیب بات ہے وہ عالم اسلام جو ہر سال 50 ارب ڈالر امریکا کے جوا خانوں میں ہار دیتا ہے ، اس عالم اسلام کے 62 اسلامی ممالک کی زکوۃ ایک ارب ڈالر کی حد تک نہیں پہنچتی ۔ زکوۃ اللہ تعالی کی طرف سے ایک تحفہ ہے ، یہ ایک ایسا نظام ہے جسے اگر ہم پوری طرح نافذ کردیں تو ہم دنیا میں بھی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں اور آخرت میں بھی ۔

            میں جب جم رون کی بات سن رہا تھا تو میں سوچ رہا تھا، عجیب بات ہے مغرب نے تجربوں سے اسلام کے اصول سیکھ لیے جبکہ ہم لوگ جن کے پاس اللہ تعالی کے احکام براہ راست پہنچے تھے ہم نے ان اصولوں کو طاق میں سجا دیا ، ہم نے انہیں ‘‘فراموش’’ کر دیا ، ہم ان احکام کو فراموش کرتے ہوئے یہ بھول گئے کہ جو لوگ اللہ تعالی کے احکام کو فراموش کرتے ہیں اللہ تعالی بھی ان لوگوں کو فراموش کر دیتا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے آج اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے بے دین لوگ ہم با ایمان لوگوں پر سوار ہیں ، آج امریکا آقا اور عالم اسلام غلاموں کی زندگی گزار رہا ہے ۔

            جم رون نے کہا تھا : ‘‘جب تک آپ اپنی آمدنی سے اللہ تعالی کا حصہ نہیں نکالتے ، آپ خوشی اور کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ۔’’ (بشکریہ : ماہنامہ نداء الاسلام ، پشاور)