فکر آخرت

مصنف : پیام دوست

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جون 2006

             سڑک پر چلتے ہوئے کسی آدمی سے پوچھیں کہ آپ کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں جارہے ہیں۔ اگر وہ جواب میں کچھ نہ بتا سکے تو آپ یقینا اسے پاگل کہیں گے۔لیکن اپنی عملی زندگی میں ہم خود اسی پاگل پن کا شکار ہیں۔نہ اپنی ابتدا کی خبر اور نہ اپنی انتہا کی فکر۔ کیا ہم ہمیشہ اس رنگ ونور کی دنیا میں رہیں گے؟ یقینا نہیں، ہم جانتے ہیں کہ ایک دن موت آکر ہمیں اندھیری قبر میں تنہا چھوڑ جائے گی۔ یہ خوبصورت لبادے، لذیذ کھانے، عیش و آرام سب کچھ یہیں رہ جائے گا۔ ہمیں اتنا چاہنے والی ہستیاں خود اپنے ہاتھوں منوں مٹی کے نیچے تنہا چھوڑ جائیں گی۔ وہ لوگ جن کی خوشی کو ہم نے خدا اور اس کے رسول ﷺ کی خوشی پر ترجیح دی ہوگی چند دن بعد ہمیں بھول کر دوبارہ دنیا کی گہما گہمی میں مصروف ہوجائیں گے اور ہم اس اندھیری قبر میں تنہا ہوں گے۔ 

            قبردوسری زندگی کا دروازہ ہے۔ ہم میں سے ہر ایک نے کسی نہ کسی شخص کے لیے اس دروازے کو کھلتے ہوئے دیکھا ہے۔ مگر ہم میں سے بہت کم لوگ ہیں جو حقیقت میں یہ جانتے ہیں کہ خود ان کے لیے بھی یہ دروازہ جلد ہی کھلنے والا ہے ۔انسان روز دیکھتاہے کہ لوگ ایک ایک کرکے خدا کے حضورپیشی کے لیے بلائے جارہے ہیں مگروہ خود اپنے آپ کو اس طرح الگ کر لیتا ہے گویا عدالت الٰہی میں حاضری کا یہ دن اس کے لیے کبھی بھی نہیں آئے گا ۔

            وہ دن آنے والا ہے جب تمام لوگ خدا کے پاس اس حال میں جمع کیے جائیں گے کہ ایک رب العالمین کے سوا سب کی آوازیں پست ہوچکی ہوں گی۔ اس دن صرف سچائی میں وزن ہوگا اور اس کے سوا تمام چیزیں اپنا وزن کھودیں گی، یہ فیصلے کا دن ہوگا۔ ہمارے اور اس دن کے درمیان صرف موت کا فاصلہ ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ایک ایسے انجام کی طرف چلا جارہا ہے جہاں ا س کے لیے یا تو دائمی عیش ہے یا دائمی عذاب۔ ہر لمحہ جو گذرتا ہے وہ ہم کو اس آخری انجام سے قریب تر کردیتا ہے جو ہم میں سے ہر ایک کے لیے مقدر ہے۔ ہر بار جب سورج ڈوبتا ہے تو وہ ہماری عمر سے ایک دن اور کم کر جاتا ہے، اس عمر میں سے جس کے سوا آنے والے ہولناک دن کی تیاری کا اور کوئی موقع ہمارے پاس نہیں ۔

            ہماری زندگی کی مثال برف بیچنے والے کی سی ہے جس کا اثاثہ ہر لمحہ پگھل کر کم ہوتا جاتا ہے اور جس کی کامیابی کی صورت صرف یہ ہو تی ہے کہ وہ شام ہونے سے پہلے اپنا سامان بیچ ڈالے ورنہ شام کواس کے پاس کچھ نہ ہوگا اوراسے خالی ہاتھ گھر جانا پڑے گا۔ اسی طرح قبل اس کے کہ موت آکر ہم کو اس عالم سے جدا کر دے ،جہاں ہم کوصرف ایک ہی بار آناہے اور یہیں سے کما کر لے جانا ہے ، ہمارے لیے ضروری ہے کہ اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرلیں۔

            آج کی دنیا فریب کی دنیاہے۔ دنیا میں لوگ لبادوں میں چھپے بیٹھے ہیں۔ کوئی خوبصورت الفاظ کے پردوں میں چھپا ہے تو کوئی مادی رونقوں کے پیچھے۔ ہر آدمی ایسی تاویلیں سوچ کے بیٹھاہے جس کے بارے میں اس کا گمان ہے کہ وہ اس کے جرم کو بے گناہی کا سرٹیفکیٹ عطا کردیں گی۔

             لوگوں نے ایسا خدا دریافت کر رکھا ہے جس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، لوگوں کو ایسا رسول ہاتھ آگئے ہیں جو صرف اس لیے آئے تھے کہ ان کی ساری بداعمالیوں کے باوجود خدا کے یہاں ان کے یقینی سفارشی بن جائیں۔ لوگوں کو ایسی آخرت مل گئی ہے جہاں جنت صرف اپنے لیے ہے اور جہنم دوسروں کے لیے۔ایسی نمازیں مل گئی ہیں جن کے ساتھ بے حیائی ،تکبر سب کچھ جاری رہ سکتا ہے۔ ایسا دین ہاتھ آگیا ہے جو صرف بحث و مباحثہ کے لیے ہے نہ کہ عمل کے لیے۔ مگر جھوٹا سونا اسی وقت تک سونا ہے جب تک وہ کسوٹی پر پرکھا نہ گیا ہو۔ اسی طرح فریب کا یہ کاروبار بھی صرف اس وقت تک ہے جب تک کہ خدا ظاہر ہو کر اپنے انصاف کا ترازو کھڑا نہ کردے۔

            لوگ شعوری یا غیر شعوری طور پر اسی دنیا کو ہار جیت کی جگہ سمجھتے ہیں جب کہ قرآن یہ بتاتا ہے کہ یہ محض دھوکا ہے:‘‘جب حشر کے دن وہ تم (سب) کو جمع کرے گا وہ ہی ہار جیت کا دن ہوگا۔’’(التغابن)یہ آدمی کی زندگی کا انتہائی بھیانک لمحہ ہوگا۔ جب یہ لمحہ آئے گا تو آدمی اپنے اندازہ کے برخلاف صورت حال دیکھ کر دہشت زدہ ہوجائے گا۔ اچانک اس کو محسوس ہوگا کہ وہ سب کچھ محض دھوکا تھا جس کو وہ سب سے بڑی حقیقت سمجھ بیٹھا تھا۔آہ!!…… انسان اسی بات کو نہیں جانتا جس کو اسے سب سے زیادہ جاننا چاہیے۔

            آخرت کے لیے کوئی شخص اگر کچھ کر سکتا ہے تواسی موجودہ زندگی ہی میں کر سکتا ہے اور اس زندگی کی مدت ہے ہی کتنی؟ کتنے لوگ ہیں جن کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا مگر آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں اسی طرح جو لوگ آج ہم کو دیکھ رہے ہیں ایک وقت آئے گا کہ ہم اِن کے دیکھنے کے لیے اس دنیا میں موجود نہیں ہوں گے۔

            ہم ایک ایسے امتحان سے گزر رہے ہیں جس کا لازمی نتیجہ بہت جلد سامنے آنے والا ہے اور جس کے بعد پھر کسی تیاری کا کوئی موقع نہیں۔ زندگی کا ہر لمحہ جو ہم خرچ کر رہے ہیں آخری طورپر خرچ کر رہے ہیں کیونکہ وہ پھر واپس آنے والا نہیں ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:‘‘(یاد رکھو) ہر شخص کو (بالآخر) موت کا مزا چکھنا ہے اور تم کو (تمہارے اعمال کا)پورا پورا بدلہ تو قیامت ہی کے دن دیاجائے گا۔ (اس دن ) جو شخص (دوزخ کی آگ سے ) پرے ہٹادیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہی کامیاب ہوا اور دنیا کی زندگی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ صرف دھوکے کا سودا ہے۔’’(آل عمران)

            ابھی وقت ہے کہ ہم سوچیں کہ ہم آخرت میں کامیاب لوگوں کے گروہ میں شامل ہونا پسند کریں گے یا ؟۔       

            شیخ سعدی ؒ کے والد نے انہیں بچپن میں سونے کی انگوٹھی بنوا کر دی۔ وہ پہن کر بازار گئے۔ ایک ٹھگ نے انہیں تھوڑی سی مٹھائی کا لالچ دے کر ان سے انگوٹھی اتروالی۔ ان کے والد نے کہا کہ تم بچے ہو ، تمہیں انگوٹھی کی قیمت کا اندازہ نہ تھا۔ تم نے چند ٹکوں کی مٹھائی کے لالچ میں آکر انتہائی مہنگی انگوٹھی اتار دی۔ شیطان بھی ہمیں چھوٹے چھوٹے لالچ دے کر گناہوں پر اکساتا ہے اور ہم تھوڑی سی لذت کی خاطر جنت جیسی چیز چھوڑدیتے ہیں۔ اس دنیا کی لذتیں جب وہ جائز طریقے سے حاصل نہ کی گئی ہوں تووہ بھی حقیقت میں شیطان کی مٹھائیاں ہیں۔ جب ہم ان جھوٹی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو در اصل ہم ان سے کروڑوں گنا بڑی لذت ،جنت کو چھوڑ رہے ہوتے ہیں۔ خدارا ! اس پر غور کریں۔مگر ہم غو ر کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ،کیوں؟ کیونکہ ہمارے دل زنگ آلود ہیں جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے۔ صحابہؓ نے دور کرنے طریقہ پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا موت کو کثرت سے یاد کرنااور قرآن پڑھنا۔’’

             خدا آپ کے لفظوں کو نہیں خود آپ کو دیکھتا ہے۔ آپ اپنے اصل وجود کے ساتھ جس چیز کے لیے بے قرار ہوں اصل میں اپنے رب سے آپ اسی چیز کے طلب گارہوتے ہیں۔ ایک بچہ اپنی ماں سے روٹی مانگے تو یہ ممکن نہیں کہ ماں اس کے ہاتھ پر انگارہ رکھ دے۔ خدا اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ مہربان ہے بند ہ اگر‘پورے وجود ’ سے ہدایت مانگے تو وہ کبھی محروم نہیں رہ سکتا۔ یاد رکھیے یہ مالک کائنات کی غیرت کے خلاف ہے کہ کسی بندے کو اس حال میں رہنے دے کہ جب قیامت میں خدا سے اس کا سامنا ہو تو وہ اپنے رب کو حسرت کی نظر سے دیکھے۔ وہ کہے کہ خدایا میں نے تجھ سے ہدایت مانگی تھی مگر تو نے مجھے نہ دی۔ خدا کی قسم! یہ ناممکن ہے، یہ ناممکن ہے۔

            کائنات کا مالک تو ہر صبح و شام اپنے سارے خزانے کے ساتھ بندے کے قریب ترین آکر آواز دیتا ہے:‘‘کون ہے جو مجھ سے مانگے تا کہ میں اسے دوں’’ مگر جنہیں لینا ہے وہ سو رہے ہوں تو اس میں دینے والا کا کیا قصور؟ سوئے ہوئے کو جگایا جاسکتا ہے لیکن جاگتے ہوؤں کو جگانا؟