زندگی میں غم کیوں ہیں؟

مصنف : پیام دوست

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مئی 2006

            اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات پر آپ جس قدر غور کریں گے۔ آپ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس کا خالق نہایت قدرت والا ، نہایت مہربان اور نہایت حکیم ہے۔ اس کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی تخلیق میں جتنا غور کریں، اس کی حکمتیں اتنا ہی حیران کیے دیتی ہیں۔ تو پھر اس کی بنائی ہوئی کائنات میں انسان کے لیے اس قدر غم کیوں ہیں؟۔ وہ کوئی ظلم نہیں کر سکتا اس لیے عقل یہی کہتی ہے کہ ان غموں میں بھی کوئی نہ کوئی حکمت ضرورہوگی۔آئیے اس پر غور کرتے ہیں۔

وجوہات ِغم:

توبہ اور اصلاح کا موقع فراہم کرنا:

            اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں تو ہم اپنی دنیا اور آخرت دونوں برباد کر رہے ہوتے ہیں۔ جس طرح ایک مہربان استاد ماہانہ امتحان میں ناکام ہونے والے شاگرد کو ڈانٹتا اور سزا دیتا ہے تو اس کی وجہ دشمنی نہیں بلکہ محبت ہوتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ شاگرد اپنی اصلاح کر لے تا کہ سالانہ امتحان میں ناکام ہو کر اس کی زندگی کا ایک قیمتی سال برباد نہ ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہر انسان آخرت میں کامیاب ہو۔ جب وہ ہمیں جہنمی راستوں پر چلتا دیکھتا ہے تو وہ ہماری زندگی میں دکھ بھر کر ہمیں ہمارے اعمال کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:‘‘جو مصیبت بھی تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں ہی کی کمائی سے پہنچتی ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے بہت سے قصوروں سے تو ویسے ہی درگزر کر جاتے ہیں۔’’(الشوریٰ 30:42)اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی عنایت ہے کہ وہ یوں ہمیں گناہوں کی بخشش کے لیے توبہ کا موقع فراہم کرتا ہے۔

گناہوں کا کفارہ اور تزکیہ قلب:

            بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دلوں کی کمزوریوں کو دھونے کے لیے انہیں مشکلات میں ڈالتاہے اور مومن کی ثابت قدمی پر ان مشکلات و مصائب کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنادیتا ہے۔مشکلات اگرنہ آئیں تو فکر ہونی چاہیے کہ کہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھلا تو نہیں دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:‘‘مومن مرد و عورت کی جان ، اولاد اور مال پر برابر آزمائش آتی رہتی ہے( اور ان سے اس کے گناہ دھلتے رہتے ہیں)یہاں تک کہ وہ اللہ کو اس حالت میں ملتاہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔’’(ترمذی)

درجات کی بلندی:

            اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مشکل میں ڈالتا ہے اور وہ جس جذبہ ایمانی سے اپنے رب کی آزمائش سے کامیاب نکلتا ہے اس کے اتنے ہی درجات بلند کرتا اورایمان کی مضبوطی عطافرماتا ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا:‘‘آزمائش جتنی سخت ہوگی اتنا ہی بڑا انعام ملے گا( بشرطیکہ آدمی مصیبت سے گھبرا کر راہِ حق سے بھاگ نہ کھڑا ہو) اور اللہ تعالیٰ جب کسی گروہ سے محبت کرتا ہے تو ان کو (مزید نکھارنے اور صاف کرنے کے لیے) آزمائشوں میں ڈالتا ہے۔ پس جو لوگ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی رہیں اور صبر کریں تو اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہوتا ہے اور جو لوگ آزمائش میں اللہ تعالیٰ سے ناراض ہوں تو اللہ تعالیٰ بھی ان سے ناراض ہوجاتا ہے۔ (ترمذی)

            سیدنا ابراہیم ؑ کو نمرود نے آگ میں پھینک دیا۔ اگر ابراہیم ؑ اس آزمائش کے آنے پر اللہ تعالیٰ سے مایوس ہوجاتے اور آگ سے بچنے کے لیے نمرود کی بات تسلیم کرلیتے تو اللہ تعالیٰ پر اس اعتماد ، توکل اور یقین سے محروم رہ جاتے جو آگ سے بچ جانے پر انہیں حاصل ہوا اور نہ ہی ایسی اور آزمائشوں میں کامیابی پر انہیں امام الناس کا مقام ملتا ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:‘‘شاید تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ نے اس میں خیرِ کثیر رکھی ہو۔’’ (النسا19:4)

            حضرت یوسف ؑ کے لیے بھائیوں، قافلے والوں اورزلیخا کی پیدا کردہ مشکلات نے عزیز مصر بننے کا راستہ ہموار کیا۔ اللہ تعالیٰ خوشی اور غم کے ذریعے مومن کی تربیت کر کے اسے ایک صابر و شاکر حوصلہ مند اور روحانی طور پر مضبوط انسان بنادیتا ہے۔ یوں اسے دنیا میں نفس مطمئنہ کی بادشاہی حاصل ہوتی ہے۔ جس کاثمرہ آخرت کی ابدی بادشاہی ہے۔

آنے والی بڑی آفتوں سے نجات:

            قصہ موسیٰ ؑ و خضرؑ میں حضرت خضر ایک غریب ملاح کی صحیح کشتی کا تختہ توڑ دیتے اور ایک لڑکے کو قتل کر دیتے ہیں۔ سیدنا موسیٰ ؑ کو یہ کام خلاف ِ عدل وحکمت معلوم ہوتے ہیں۔ بعد میں حضرت خضرؑ نے بتایا کہ قریب ہی ایک بادشاہ کشتیوں کو زبردستی لوگوں سے چھین رہا تھا ۔ انہوں نے کشتی کو اس لیے عیب دار کر دیا تاکہ بادشاہ اپنے مقصد کے لیے ناکارہ سمجھ کر اسے چھوڑ دے اور اس غریب کا واحد ذریعہ روزگار قائم رہے۔ بچہ جسے انہوں نے قتل کیا اس نے بڑا ہوکر اپنے مومن والدین کا نافرمان بننا تھا۔ اللہ نے چاہا کہ اس کی جگہ ان کو نیک اولاد دے۔

آزمائشوں میں مدد :

            ‘‘اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے’’۔(البقرۃ: 286:2) اگر بندہ آزمائش میں کامیاب ہونا چاہتا ہو اور وہ پورے ارادے اور ہمت کے ساتھ اس کا سامنا کر رہا ہو۔ ایسے میں اگر وہ پھسلنے لگے تو اللہ تعالیٰ اپنی نصرت کے ساتھ اسے سنبھال لیتا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کی والدہ نے الٰہی اشارے پر اپنے بیٹے کو دریا کی موجوں کے حوالے کر دیا لیکن آخر ماں تھیں ان کا دل صبرو قرار سے بالکل خالی ہوگیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:۔‘‘اور موسیٰ کی والدہ کا دل بے قرار ہوگیا (اور) قریب تھا کہ وہ موسیٰ ؑ(کے راز) کو ظاہر کردیتی ۔ اگر ہم اس کے دل کو نہ سنبھالتے’’۔ (القصص10:28)جتنی آزمائش سخت ہو اور بندہ جس قدر اللہ تعالیٰ کی خاطر بڑے سے بڑا نقصان اٹھانے پر تیار ہو، اللہ تعالیٰ کی مدد بھی اسی درجہ میں نمودار ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی اس کا بہترین نمونہ ہے۔

علاج غم:

جاننے کی بات:

            بہت اچھی طرح جان لیجیے کہ یہ دنیا کھونے اور پانے، کامیابی اورناکامی، خوشی و غم کی جگہ نہیں، بلکہ صرف اور صرف امتحان کی جگہ ہے۔ یہاں غم اس لیے بھی ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی جنت کو چھوڑ کر دنیا کی اس سرائے کو اپنا مستقل گھر نہ سمجھ بیٹھے۔ وہ کریم رب یہ چاہتا ہے کہ دکھوں کی آگ انسان کے وجود کو جھلسائے تا کہ انسان پر بے حسی کی نیند نہ طاری ہو۔ انسان کو محرومی کے تجربے سے گزاراجائے تاکہ وہ جنت سے محرومی کی تکلیف کو یاد رکھے۔ کسی عورت پر ظلم ہونا، اسے طلاق ہوجانا، کسی کا بے اولاد رہنا، کسی پر تہمتیں لگنا، کسی کا کاروبار ٹھپ ہوجانا، کسی کا معذورہوجانا ، اگر ان سے گزر کر جنت ملنے والی ہو تو یہ خسارے کا سودا نہیں؟

            لوگ موت سے پہلے کی دنیا میں اپنی جنت بنانا چاہتے ہیں اسی لیے خواہشات کا پورا نہ ہونا غم کا باعث بنتا ہے۔ جبکہ یہاں خالق نے وہ حالات ہی نہیں رکھے کہ یہاں کوئی شخص اپنی جنت بنا سکے۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی اس قانون کو سمجھے اور اس کے مطابق وہ اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے۔ یعنی موجودہ دنیا میں اپنے آپ کو وہ مطلوب انسان بنانا جو موت کے بعد کی دنیا میں جنت میں داخلے کا مستحق قرار پائے۔

            کوشش کیجیے کہ غم اتنا حاوی نہ ہوجائے کہ پھر انسان کچھ کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔ کیونکہ اگر ہم نے اس مختصر سی زندگی کو صرف کر کے آخرت کے اجر نہ سمیٹے بلکہ رونے دھونے، شکوے شکایتیں کرنے اور اپنی مظلومی ثابت کرنے میں گزار دیا تو یہ سراسر نقصان کا سودا ہوگا۔ جب مصیبتیں آئیں تو متنبہ ہوکر ایک ہونہار شاگرد کی طرح ان سے کچھ سیکھنے پر توجہ دی جائے۔

شکر گزاری:

            ‘‘(دنیا کے معاملے میں )اس کو دیکھو جو تم سے نیچے ہیں، ان کو نہ دیکھو جو تمہارے اوپر ہیں۔ اس طرح تم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو حقیر نہ سمجھو گے۔’’(ترمذی)

            دنیا میں آزمائش کے قانون کے تحت کسی کو ایک چیز دی گئی ہے اور کسی کو دوسری چیز۔ شیخ سعدیؒ نے لکھا ہے کہ میرے پاؤں میں جوتے نہیں تھے۔ میں نے کچھ لوگوں کو جوتا پہنے ہوئے دیکھا تو مجھے خیال آیا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے ان کو جوتا دیا اور مجھے بغیر جوتے کے رکھا۔ وہ اسی خیال میں تھے کہ ان کی نظر ایک شخص پر پڑی جس کا ایک پاؤں کٹا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے انہیں اس سے بہتر بنایا اوران کو تندرست پاؤں عطاکیے۔

            ہم اللہ تعالیٰ کی اُن ان گنت نعمتوں کو تونہیں دیکھتے جن کی بارش صبح شام ہم پر ہوتی رہتی ہے مگر جب کوئی ایسی صورت پیدا ہوتی ہے جو دل کو پسند نہیں ہوتی تو شکوے شروع کر دیتے ہیں۔ مشکل میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے جنہوں نے اس پریشانی کے وقت بھی ہمیں ڈھانپ رکھا ہوگا۔ آدمی اپنے صحیح سالم وجود پر نظر کرے ، صحت و عافیت پر غور کرے، (صحت کی قدر کے لیے کبھی ہسپتال کا چکر لگالے)ان لذتوں کا خیال کرے جو کھانے پینے وغیرہ میں میسر ہیں۔ پھر وہ خدانخواستہ اپاہج نہیں، ہزاروں بیماریوں سے ، دشمنوں سے محفوظ ہے۔ ایمان کی نعمت میسر ہے۔ نعمتوں کی تفصیل سوچے کہ اس کو ان نعمتوں کا کیا حق ہے؟ اس سے دل میں شکر گزاری پیدا ہوگی اوراتنا کچھ حاصل ہونے کا اطمینان غم کو کم کر دے گا۔

            ہر روز کچھ دیر کے لیے ہمیں اپنی گزشتہ زندگی کے ان تجربات کو تازہ کرنا چاہیے جب اللہ تعالیٰ نے ہماری خاص طور پر مدد فرمائی اور ہمیں مشکلات سے نکالا۔ ہمیں ان انعامات پر جو ہماری پچھلی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر کیے ہیں ان کا شکر اداکرنا چاہیے۔ یہ یاد کرنے سے ہمارا ایمان مضبوط ہوتا اور ہمارا قلب یقین کے نور سے لبریز ہوجاتا ہے اور ہم یقینی طور پر جاننے لگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے ہر حال میں کافی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اس سے پہلے کیا ہے وہ اب بھی کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر آخرت کی کامیاب زندگی میں داخل ہونے کا سب سے زیادہ اور سب سے زیادہ آسان طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر یقین ، ا س کی گزشتہ و آئندہ نعمتوں پر شکر، مشکلات کے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کردے گا اورزندگی کے اونچے نیچے راستے کو ہموار کردے گا۔

صبر:

            اللہ تعالیٰ کبھی غم اور محرومیاں دے کر اور کبھی خوشی اور کامیابی عطا کر کے آزماتا ہے۔ صابر وہ ہے جو غم کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو اور مسرت و کامرانی کی صورت میں آپے سے باہر نہ ہوجائے۔ حصولِ صبر کے لیے مندرجہ ذیل حقائق پر غور و فکر کرتے رہنا چاہیے۔

عقیدہ آخرت:

            صبر پیدا کرنے کے لیے اپنے عقیدہ آخرت کو مضبوط سے مضبوط تر کیا جائے۔ مشکلات کی کثرت مایوس کر رہی ہو یا کامیابیاں مغرور بنا رہی ہوں یہ یقین ہمیشہ سیدھی راہ پر ثابت قدم رہنے میں مدد دیتا ہے کہ دکھوں کی شکار زندگی فانی ہے اور موت کے بعد ملنے والی زندگی ہمیشہ کی ہے۔ جب زندگی خود ہی مختصر ہے تو اس کے اندر آنے والے یہ پریشانی کے لمحات تو اس سے بھی زیادہ مختصر ہیں۔ یہ تو ابھی ابھی ختم ہوا چاہتے ہیں۔ چند برسوں کی تو بات ہے پھر نہ ہم رہیں گے نہ امتحان کے یہ صبر آزما لمحے۔وہاں تو بس اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوگی اور اس کی جنت اور اس میں نہ ختم ہونے والی نعمتیں ۔ وہاں نہ ماضی کے پچھتاوے ہوں گے اور نہ مستقبل کے اندیشے۔ بد نصیب وہ نہیں جسے یہ فانی دنیا نہیں ملی۔ بد نصیب وہ ہے جسے وہ ابدی دنیا نہیں ملی۔ آپ ﷺنے فرمایا:‘‘موسیٰ نے عرض کی‘اے میرے رب آپ اپنے مومن بندے کو قلیل دنیا (کیوں) عطا فرماتے ہیں’ انہیں جنت دکھائی گئی ۔ انہوں نے عرض کی‘اے میرے رب تیری عظمت و جلال کی قسم! اگر ایک آدمی کے دنوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کٹے ہوں اور اسے پیدائش کے دن سے لے کر ساری عمر چہرے کے بل گھسیٹا جائے لیکن اس کا انجام یہ جنت اور اس کی نعمتیں ہوں تو اس آدمی کا حال یہ ہے کہ گویا اس نے کبھی بھی کوئی تکلیف نہیں دیکھی۔ پھر انہوں نے عرض کی: ‘اے میرے رب! آپ اپنے ساتھ کفر کرنے والے بندے کو فراخی کے ساتھ دنیا (کیوں) عطافرماتے ہیں ’تب انہیں دوزخ دکھائی گئی۔ انہوں نے عرض کی‘اے میرے رب! اگر دنیا میں ایک کفر کرنے والاانسان اپنی پیدائش کے دن سے قیامت تک زندہ رہے(اور عیش کرتا رہے) لیکن اس کا انجام جہنم ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ گویا اس نے کبھی بھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔’’ (مسند احمد)

چند اہم تنبیہات:

            آپ ﷺ نے فرمایا: ‘‘صبر تو وہ ہی ہے جو صدمے کی ابتدا میں ہو۔’’(بخاری)کیونکہ انجام کار تو بڑے سے بڑے بے صبرے کو بھی صبر کرنا پڑتا ہے۔

            صبر کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان مصیبت سے نکلنے کی کوشش نہ کرے۔ بیمار کو علاج، مفلس کو حصولِ رزق کے جائز ذرائع ضرور استعمال کرنے چاہییں۔ صبر کا تقاضا یہ ہے کہ یہ ساری جدوجہد سکون، حوصلے اور وقار سے کی جائے نہ کہ شکوہ شکایت کرتے ہوئے۔ مخلوق سے شکوہ کرنے کے کیا معنی ؟ یہ ہی نا کہ ایک رحیم و کریم ذات کا ایک غیر رحیم ذات سے شکوہ کیا جارہا ہے؟

            آپ ﷺ نے فرمایا:‘‘تم میں سے کوئی شخص کسی تکلیف کے باعث موت کی تمنا نہ کرے اور اسے چاہیے کہ (یوں) کہے کہ اے اللہ مجھے زندہ رکھ جب تک زندگی میرے لیے ( موت سے) بہتر ہے اور مجھے موت دینا جب کہ موت میرے لیے (زندگی سے) بہتر ہو۔’’(ترمذی)صبر کی بے پناہ فضیلتوں کے باوجود انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتا رہے اور کبھی بھی اس بات کی تمنا نہ کرے کہ مصائب آئیں اوروہ ان کے مقابلے میں صبر کر کے اپنے درجے بڑھائے۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مصیبت آہی جائے تو اس کے مقابلے میں صبرسے کام لیا جائے اور اللہ سے صبر کی توفیق بھی طلب کی جائے کیونکہ اس کی توفیق کے بغیر صبر ممکن ہی نہیں۔

تقدیر پر ایمان:

            عقیدہ تقدیر یہ نہیں کہ تکلیف دور کرنے یا آرام و سکون حاصل کرنے کے لیے کوشش نہ کی جائے بلکہ یہ ہے کہ انسان کوشش تو بھر پور کرے مگر اس کے باوجود وہ مقصد حاصل نہ ہوسکے تو زیادہ پریشان نہ ہو۔ یہ یقین رکھے کہ میری تقدیر میں یوں ہی لکھا ہے اور میرا رب مجھے آزمانا چاہتا ہے تا کہ مجھے دنیا و آخرت میں انعامات سے نوازے اور میرے گناہ دھلیں اور اب مجھے پوری کوشش اپنے رب کی اس آزمائش میں کامیاب ہونے کی کرنا ہے۔ لہٰذااسے صبر کرنا چاہیے اور غلط طریقوں کے استعمال سے بچنا چاہیے۔

استغفار:

            آپﷺنے فرمایا: ‘‘جو شخص استغفار کو لازم کر لے۔ اللہ اس کا ہر غم دور کریں گے اور اسے ہر تکلیف سے نجات دیں گے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیں گے جس طرف اس کا گمان بھی نہ گیا ہوگا۔’’(ابن ماجہ)

غمزدہ کی غمگساری:

            آپ ﷺنے فرمایا:‘‘جب تک بندہ اپنے (غمزدہ ) بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے، اللہ بھی اس کی امداد فرماتا رہتا ہے۔’’(مسلم)

اہم فیصلوں سے پہلے استخارہ

            اپنی زندگی کے اہم فیصلوں مثلاً شادی، کاروبار وغیرہ سے قبل استخارہ یعنی دعائے استخارہ ضرور کیجیے۔ صحابہ ؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺنے ہمیں یہ دعا اس طرح سکھائی جس طرح قرآن سکھاتے تھے۔(واضح رہے کہ استخارہ کوئی عمل نہیں بلکہ ایک دعا ہے جو احادیث میں موجودہے اور باقی دعاؤں کیطرح اس کا بھی نہ کوئی خاص وقت مقر رہے اور نہ کوئی خاص طریقہ۔رسول اللہ ﷺسے یہی منقول ہے باقی جنتر منتر اور من گھڑت طریقے ہیں)

قرآن سے تعلق:

            ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:‘‘اور جو کوئی ہماری نصیحت (یعنی قرآن) سے منہ موڑے گا اسے تنگی کا جینا ہوگا۔’’(طہ،124:20)قرآن سے لاعلمی ایسے ہی ہے جیسے ٹریفک قوانین جانے بغیر سڑک پر گاڑی چلانا یا اندھیری رات میں انجان راستے پر بغیر روشنی کے سفر کرنا۔ قدم قدم پر حادثے آپ کے منتظر ہوں گے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ کون سے عمل اللہ کی رضااورکون سے عمل اللہ کی ناراضی کا باعث بنتے ہیں۔مزید یہ کہ ہمارے جسم کے تمام اعضا مسلسل اللہ کے حکم پر روبہ عمل ہیں۔ ہمیں جہاں اختیار سے نوازا گیا ہے اگر ہم اسے بھی وحی الٰہی کے تابع کر دیں تو ہمیں اطمینان قلب نصیب ہوگا ورنہ ہمارا حال اس گاڑی کی مانند ہوگا جس کا ہر پہیہ مختلف سمت چلنے کی کوشش کر رہا ہو۔پھر اسے اپنا مقصد زندگی بنایے اور اپنے دن رات اس دعا اور کوشش کے ساتھ بسر کریں کہ ہم نے قرآن سیکھنا اور سکھانا ہے۔ اس عظیم مقصد کے حصول کی دھن جب آپ پر طاری ہوگی تو آپ کو اپنے دوسرے غم یاد تک نہ رہیں گے۔ اور آپ اس بشارت کا مصداق ٹھہریں گے:‘‘اور (یاد رکھو) اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کے (دین کی)مددکرے گا۔ بے شک اللہ بڑا قوت والا اور زبردست ہے’’۔(الحج،40:22)

توکل:

            اصلاً ہر کام اللہ ہی کے حکم سے ہوتا ہے اگر ہمیں یہ یقین حاصل ہوجائے کہ اللہ مومنوں کے لیے رحیم بھی ہے تو ہم اپنے تمام امور اللہ کے سپرد کرنے پر بخوشی آمادہ ہوجائیں گے۔ اور اس سپردگی کے ساتھ ہی غم و فکر سے آزاد ہو جائیں گے۔ توکل ایک قلبی کیفیت کا نام ہے۔ اسباب کا پورا استعمال لیکن نظر اللہ کے فعل اور فضل پر ہو، اپنے زورِ بازو پر نہ ہو۔ جس طرح غلام پر آقا کی اطاعت واجب ہے اسی طرح آقا پر غلام کی ضروریات کا خیال رکھنا بھی واجب ہے۔ اگر ہم اللہ کے ہو کر زندگی گزارنے والے ہوجائیں تو کیا یہ ممکن ہے وہ اپنا حق ادا نہ کرے؟ ذرا اس شخص کا تصور کریں جس کے ساتھ سفر میں ایک ایسا دوست ہو جو راہ کے تمام مراحل سے بخوبی واقف بھی ہو اور ان سے عہدہ برآ ہونابھی جانتا ہو تو یقینا اس پر کامل اعتماد کیا جاسکتا ہے مگر اس پر بھی یہ مسافر پریشان ہو تو اسے پاگل ہی سمجھا جائے گا اسی طرح مومن کامل کو اللہ پر اس سے کہیں زیادہ اعتماد ہوتا ہے جتنا کہ کسی کو اپنے باخبر دوست پر۔

آپ تنہا نہیں:

            اللہ تعالیٰ ہی ہمارا معبود اور سچا مددگار ہے۔جوں ہی ہم اپنے خوف اور امیدوں کا مرکز اللہ تعالیٰ کو بناتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ ہمیں مخلوق سے غنی اور بے نیاز کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ اور اس سے پیدا ہونے والی مسرت تمام مصائب زندگی کا کامل علاج ہے۔ یاد رکھیے ہر چیز جو آپ سے جاتی رہے اس کا بدل ہے لیکن اللہ آپ سے جاتا رہے تو اس کا کوئی بدل نہیں۔

            جب ہم نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ مومن کا ولی ، مولیٰ و نصیر اور اس پر رحیم ہے۔ تو اب خوف کے وقت اپنی قوت ایمانی سے کام لے کر جرات سے کہیں کہ کائنات کی کوئی چیز آپ کو نہیں ڈرا سکتی۔ اپنے خوفزدہ نفس کو کہیں:‘‘کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں۔’’(الزمر، 36:39)

            دیکھیے بچہ اندھیری رات میں جاگ پڑتا ہے اور ڈر کر رونے لگتا ہے تو آپ اس سے کہتے ہیں ڈرو مت یہاں کوئی ایسی چیز نہیں بلکہ یہ چیزیں صرف تمہارے خیال میں ہیں۔ یوں خوف کی نفی کرنے کے بعد آپ اسے ان چیزوں سے تسلی دیتے ہیں جو حقیقتاً موجود ہیں۔ مثلاً آپ کہتے ہیں میں تمہارے ساتھ ہوں کیا مجال کہ کوئی چیز تم کو چھو سکے۔ آپ کے قرب اور قوت کا اطمینان بچے کو بے فکری کی نیند سلا دیتا ہے۔یہ ہی طریقہ خوف و غم کے وقت آپ کو اپنے ساتھ بھی استعمال کرنا چاہیے۔ پہلے خوف کے اسباب کی نفی کریں۔ جرات و ہمت کے ساتھ اپنے آپ کو یقین دلائیں کہ ساری دنیا میں اللہ کے سوا کوئی چیز آپ کو ڈرا نہیں سکتی۔ اس صداقت پر پورا یقین رکھ کر اپنے نفس کو کہیں کہ تجھے قطعاً کسی چیز سے نہ ڈرنا چاہیے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کو محافظ سمجھتا ہے وہ بے خوف ہوتا ہے اور کامل بے خوفی نتیجہ ہے ایمان راسخ کا۔نفس کو یہ یقین دلانے کے بعد کہ خوف کی کوئی وجہ نہیں۔ اب جس طرح کہ چھوٹے بچے کو ہم نے اپنی موجودگی کا یقین دلایا تھا اسی طرح نفس کو اللہ تعالیٰ کے قرب کا یقین دلانا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری قوت ِ بازو اور ہماری پناہ گاہ ہیں، سہارا ہیں۔ وہی اللہ تعالیٰ جس کے حضور تمام مخلوقات سجدہ ریز ہیں۔ جس کے اشارے سے رات دن میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ جب نفس یہ محسوس کرنے لگے کہ اسکے دائیں بائیں اوپر نیچے اللہ تعالیٰ کانور ہے۔ وہ نور کے قلعے میں محفوظ ہے تو پھر خوف کا سایہ قلب سے اٹھ جاتا ہے۔ (ظلمت نور کی موجودگی میں کیسے ٹھہر سکتی ہے) ۔ ہم اب اللہ تعالیٰ سے اسی طرح باتیں کرسکتے ہیں جس طرح بچہ اپنے باپ سے باتیں کرسکتا ہے۔

             سمندر کا طوفان اسی وقت فنا کا باعث ہوتا ہے جب ہم اس کی تباہ کن موجوں میں گھر جاتے ہیں۔ لیکن اگر ہم کسی بلند پہاڑ پر چڑھ جائیں تو پھر ان تند و تیز موجوں کی شورش سے ہمیں نجات مل جاتی ہے کیونکہ اب ہم ان کی پہنچ سے باہرہیں۔ بالکل اسی طرح جب ہم خوف کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ہمارا قلب خوف کی سطح سے بلند تر ہوجاتا ہے اور اس مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ جہاں سکون ہی سکون ہے۔ جب خوف و ہراس کی لہریں آپ کے قلب پر یلغار کر رہی ہوں اور وہ بیٹھا جارہا ہو تو آپ بیٹھ کر آہستگی اور ثابت قدمی سے اور اللہ کا قرب محسوس کرتے ہوئے یہ دعا کیجیے:‘‘اللہ تعالیٰ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ ہمیشہ سے میرے ساتھ ہیں اور میں آپ کی نظروں میں ہوں۔’’ پھر یہ تصور قائم کرنے کی کوشش کی جائے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی نظروں کے سامنے ہیں اور ان کی رحمت ِ کاملہ نور کی طرح ہر جانب سے ہم پر محیط ہے۔ ساتھ ہی ان الفاظ کی تکرار کرنا چاہیے:حَسْبیَ اللہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلْ نِعْمَ الْمَوْلیٰ وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ‘‘مجھے اللہ کافی ہے اور وہ کیا خوب کام بنانے والا ہے۔ کیا خوب مولیٰ اور کیا خوب مددگار ہے’’۔ان الفاظ کی تکرار سے ہمیں اللہ کے کافی ہونے کا یقین ہوجاتا ہے اور اسی وجہ سے ہمیں خوف سے نجات ملتی ہے۔ آپ ﷺ کو جب کوئی مشکل پیش آتی تو اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر فرماتے:‘‘یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ’’ (مشکوٰۃ) ‘‘اے زندہ! اے سب کو قائم رکھنے والے! میں آپ کی رحمت کی دہائی دیتا ہوں’’۔

آخری بات:

            زندگی کی جنگ بڑی سخت جنگ ہے، جو شخص اسے تنہا لڑنے کی کوشش کرتا ہے وہ انجام کار شکست کھا کر رہتا ہے، چاہے اس کی شکست اسے خود بھی نظر نہ آرہی ہو، مگر جس کے ساتھ القوی (زور والا) القادر(قدرت والا) المقتدر (ہرچیز کرسکنے والا)اور مالک الملک( سلطنت کا مالک) ہوتو وہ فتح یاب ہو کر رہے گا۔ چاہے محدود نگاہ رکھنے والے انسانوں کو اس کی فتح واضح نظر نہ آرہی ہو۔ عام حالات میں بھی ایک دانا اور احسان شناس انسان کی دانائی اور احسان شناسی کا تقاضا یہ ہی ہے کہ وہ اس الرحمان(بہت مہربان) الرزاق(روزی دینے والا) المومن (امن دینے والا)الملک (بادشاہ) المھیمن (نگہبان) الجبار( سب سے زیادہ زور آور) الولیّ (حمایت کرنے والا) الحفیظ (نقصان سے بچانے والا) الوھاب( سب کچھ دینے والا) الودود (محبت کرنے والا) المعز (عزت دینے والا) الوکیل( کام بنانے والا) البر( احسان کرنے والا) النافع ( نفع دینے والا) اور الحسیب (کفایت کرنے والے) کو ہمیشہ یاد کرتا رہے۔ جس پاک ذات نے ہمارے غموں کو دور کرنا ہے، اس کااپنا فرمان ہے:‘‘ یاد رکھو اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے’’۔ (الرعد، 28:13) نیز ارشاد فرمایا:‘‘ کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جب کہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی مصیبت دور کر دیتا ہے’’۔ (النمل، 62:28)

            مراد یہ ہے کہ وہی قادر و مطلق بے قرار کی دعا سنتا اور اس کی مصیبت دور کر دیتا ہے۔ اس انتہائی مہربان رب نے اپنے بندوں کے لیے یہ ہی پسند فرمایا ہے کہ وہ اپنے غم و الم لے کر اس کے حضور میں حاضر ہوا کریں اور اس کے دور ہونے کی التجا کیا کریں۔ حضرت یونس ؑ کو اللہ تعالیٰ نے نجات دی۔ تو فرمایا:‘‘تب ہم نے اس کی (فریاد) سن لی اور اسے غم سے نجات دی اور اسی طرح ہم مومنوں کو نجات دیا کرتے ہیں’’۔ (الانبیا، 88:21)

            اسی لیے‘‘ آپﷺ کو جب کبھی مشکل پیش آتی، نماز کی طرف لپکتے’’۔ (مسند احمد) نماز حاجت، تہجد، صبح شام کے اذکار اور چلتے پھرتے قرآنی و مسنون دعائیں مشکل گھڑی میں مومن کی اصل پناہ گاہ ہیں۔ دعا ہی سے اللہ مشکلات سے نکلنے کی راہیں سجھاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ‘‘ دعا مومن کا ہتھیار اور دین کا ستون اور آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ دعا آئی ہوئی مصیبت اور آئندہ آنے والی مصیبت میں نفع دیتی ہے پس اے اللہ کے بندو تم دعا کو لازم پکڑو۔’’( المستدرک: کتاب الدعا)